بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر36)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کیا کسی خاتون کے لیےعورتوں کی بھنوؤں اور جسم پر ٹیٹو (tattoo)بنانے کا کاروبار کرنا جائز ہے؟

٭… عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانےپر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارے میں حضور انور کی راہنمائی

٭…بارہ بجے سے ایک بجے تک نیز جب سورج نکل رہا ہو تو قرآن کیوں نہیں پڑھنا چاہیے؟

٭…Short Sellingکے حلال و حرام ہونے کے بارے میں حضور انور کی راہنمائی

٭…اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کے بچے اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں، اس بارہ میں جماعت کا کیا موقف ہے؟

سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کسی خاتون نے اس سے پوچھا ہے کہ کیا اس کےلیے عورتوں کی بھنوؤں اور جسم پر ٹیٹو بنانے کا کاروبار کرنا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 27؍اپریل 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں:

جواب: ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو جائز نہیں ہے۔ احادیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطرجسموں کو گودنے والیوں، گدھوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے والیوں، سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں اور بالوں میں پیوند لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس)

اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض اسلامی احکامات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے، اگر اس پس منظر سے ہٹ کر ان احکامات کو دیکھا جائے تو حکم کی شکل بدل جاتی ہے۔ آنحضورﷺ کی جب بعثت ہوئی تو دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں جہاں مختلف قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہاں مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے بھی انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عورتیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے۔

مذکورہ بالا امور کی ممانعت پر مبنی احادیث میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ ایک یہ کہ ان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی مقصود ہو اور دوسرا حسن کا حصول پیش نظر ہو۔

ان دو نوں باتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی بات یعنی خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی جہاں معاشرتی برائیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے وہاں مشرکانہ افعال کی بھی عکاسی کرتی ہےچنانچہ بالوں میں لمبی گوتیں لگا کر سر پر بالوں کی پگڑی بنا کر اسے بزرگی کی علامت سمجھنا، کسی پیر اور گرو کی نذر کے طور پر بالوں کی لٹیں بنا نا یا بودی رکھ لینا، چار حصوں میں بال کر کے درمیان سے استرے سے منڈوا دینا اور اسے باعث برکت سمجھنا۔ اسی طرح برکت کےلیے جسم، چہرہ اور بازووغیرہ پر کسی دیوی، بت یا جانور کی شکل گندھوانا۔ یہ سب مشرکانہ طریق تھے اور ان کے پیچھے مذہبی توہمات کا رفرما تھے۔

دوسری بات یعنی حسن کےحصول کی خاطر ایسا کرنا، بعض اعتبار سے معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے۔ جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کااپنی خوبصورتی کےلیے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے اچھا لگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کپڑے اچھے ہوں، میری جوتی اچھی ہو، تو کیا یہ تکبر میں شامل ہے؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایایہ تکبر نہیں ہے۔ تکبر تو حق کا انکار کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اور اس کے ساتھ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم کتا ب الایمان باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ) اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ بچیوں کی جب شادی ہوتی تھی تو انہیں بھی اس زمانے کے طریق کے مطابق بناؤ سنگھار کر کے تیار کیا جاتا اور خوبصورت بنایا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا بَاب الِاسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَاءِ)(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب النکاح بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا)

پس جس حسن کے حصول پر حضورﷺ نے لعنت کا انذار فرمایاہے، اس کا یقیناً کچھ اَور مطلب ہے۔ چنانچہ جب ہم اس حوالے سے ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ ان باتوں کی ممانعت کے ساتھ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ بنی اسرائیل اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کام شروع کیے۔ حضورﷺ کی بعثت کے وقت یہود میں فحاشی عام تھی اور مدینہ میں فحاشی کے کئی اڈے موجود تھے، جن میں ملوث خواتین، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں، اس لیے رسول خداﷺ نے ان کاموں کی شناعت بیان فرما کر مومن عورتوں کو اس وقت اس سے منع فرما دیا۔

پس ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجے میں اگر انسان کی جسمانی وضع قطع میں اس طرح کی مصنوعی تبدیلی واقع ہو جائے کہ مرد و عورت کی تمیز جو خدا تعالیٰ نے انسانوں میں پیدا کی ہے وہ ختم ہو جائے، یا اس قسم کے فعل سے شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لیے بجا لایا جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مواخذہ قرار پائیں گے۔

پس جہاں تک ٹیٹو بنوانے کا تعلق ہے تو مرد ہو یا عورت اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ اس کی نمائش ہو اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پید اکیا جائے۔ اسی لیے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کر سکیں۔ لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تا بُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جا سکے۔ یہ دونوں طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

علاوہ ازیں ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں۔ چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح بعض قسم کے ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لیے جسم کے بڑھنے یا سکڑنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، جس سے ٹیٹوبظاہر اچھا لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ لہٰذا ان وجوہ کی بنا پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے۔

باقی جہاں تک عورتوں کے اپنی جائز اور اسلامی حدود میں رہتے ہوئے خوبصورتی کےلیے بھنویں بنوانے کا تعلق ہے تو حضورﷺ نےان برائیوں کے پس منظر میں جہاں اُس وقت مومن عورتوں کو ان کاموں سے منع فرمایا وہاں تکلیف یا بیماری کی بنا پر اس کا استثنا بھی فرمایا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ النَّامِصَةِ وَالْوَاشِرَةِ وَالْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ إِلَّا مِنْ دَاءٍ۔ (مسند احمد بن حنبل)یعنی میں نے حضورﷺ کو عورتوں کو موچنے سے بال نوچنے، دانتوں کو باریک کرنے، مصنوعی بال لگوانے اور جسم کو گودنے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ ہاں کوئی بیماری ہو تو اس کی اجازت ہے۔

اسلام نے اعمال کا دارو مدارنیتوں پر رکھا ہے۔ لہٰذا اس زمانے میں پردہ کے اسلامی حکم کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائز طریق پر اور جائز مقصد کی خاطر ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر ان افعال کے نتیجے میں کسی برائی کی طرف میلان پیدا ہویا کسی مشرکانہ رسم کا اظہار ہو یا اسلام کے کسی واضح حکم کی نافرمانی ہو، مثلاً اس زمانے میں بھی خواتین اپنی صفائی یا ویکسنگ وغیرہ کرواتے وقت اگر پردہ کا التزام نہ کریں اوردوسری خواتین کے سامنے ان کے ستر کی بے پردگی ہوتی ہو تو پھر یہ کام حضورﷺ کے اسی انذار کے تحت ہی شمار ہو گا۔ اور اس کی اجازت نہیں ہے۔

پھر اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کو قتل سے بھی بڑا گناہ قرار دےکر فساد کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ اوربعض ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ رشتے اس لیے ختم کر دیے گئے یا شادی کے بعد طلاقیں ہوئیں کہ مرد کو بعد میں پتا چلا کہ عورت کے چہرے پر بال ہیں۔ اگرچند بالوں کوصاف نہ کیا جائے یا کھنچوایا نہ جائے تو اس سے مزید گھروں کی بربادی ہو گی۔ ناپسندیدگیوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اور آنحضورﷺ کا اس حکم سے یہ مقصود بہرحال نہیں ہو سکتا کہ معاشرے میں ایسی صورت حال پیدا ہو کہ جس کے نتیجے میں گھروں میں فساد پھیلے۔ ایسے سخت الفاظ کہنے میں جو حکمت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ باتیں چونکہ دیوی، دیوتاؤں وغیرہ کی خاطر اختیار کی جاتی تھیں یا ان کے نتیجے میں فحاشی کو عام کیا جاتا تھا، اس لیے آپ نے سخت ترین الفاظ میں اس سے کراہت کا اظہار فرمایا ہے اور اس طرح مشرکانہ رسوم و عادات اور فحاشی کی بیخ کنی فرمائی ہے۔

(نوٹ از مرتب: مذکورہ بالا جواب کے کچھ حصے قبل ازیں بھی مختلف اقساط میں بعض سوالات کے جواب میں شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن یہاں پر مکمل اور یکجا صورت میں اس جواب کو جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں عطا فرمایا قارئین کے استفادہ کےلیے درج کیا جا رہا ہے۔ )

سوال: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانےپر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کی ایک رپورٹ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 16؍ مئی 2021ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل اصولی ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانےپر نماز عید کی ادائیگی کے بعد اس روز نماز جمعہ اور نماز ظہر دونوں نہ پڑھنے کے بارے میں تو صرف حضرت عبداللہ بن زبیرؓکا ہی موقف اور عمل ملتا ہے اور وہ بھی ایک مقطوع روایت پر مبنی ہے، نیز اس روایت کے دو راویوں کے بیان میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ جبکہ مستند اور قابل اعتماد روایات میں تو حضورﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کا یہی مسلک ملتا ہے کہ ان سب نے یا تو اس روز نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ بھی اپنے وقت پر ادا کیا ہےاور دور کے علاقوں سے آنے والوں کو جمعہ سے رخصت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقوں میں ظہر کی نماز ادا کر لیں۔ اور بعض مواقع پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ ادا نہیں کیا لیکن ظہر کی نماز ضرور اپنے وقت پر ادا کی گئی۔

یہی موقف اور عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا بھی ملتا ہے۔ سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ایک مرتبہ کے عمل کے کہ جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی اسی مذکورہ بالا روایت پر عمل کرتے ہوئے عید پڑھانے کے بعد نہ جمعہ ادا کیا اور نہ ظہر کی نماز پڑھی۔

لیکن حضرت عبداللہ بن زبیرؓکی یہ روایت آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے کسی قول یا فعل پر مبنی نہیں ہے اس لیے صرف اس مقطوع روایت کی وجہ سےجس کے راویوں کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے فرض نماز کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس روایت پر مبنی حصہ کو فقہ احمدیہ سے حذف کر دیں۔ اور فقہ احمدیہ میں لکھیں کہ اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوتے ہیں تو نماز عید کی ادائیگی کے بعد اگر جمعہ نہ پڑھا جائے تو ظہر کی نماز اپنے وقت پر ضرور ادا کی جائے گی۔

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ بارہ بجے سے ایک بجے تک نیز جب سورج نکل رہا ہو تو قرآن کیوں نہیں پڑھنا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 16؍ مئی 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: آپ کے خط میں بیان اوقات میں قرآن کریم پڑھنے سے تو کہیں منع نہیں کیا گیا۔ البتہ دن کے تین اوقات میں (جب سورج طلوع ہو رہاہو، جب سورج غروب ہو رہا ہو اور دوپہر کے وقت جب سورج عین سر پر ہو) آنحضورﷺ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حضورﷺ نے اس ممانعت کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ السُلمیؓ روایت کرتے ہیں: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللّٰهُ وَأَجْهَلُهُ أَخْبِرْنِي عَنِ الصَّلَاةِ قَالَ صَلِّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِيْنَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِيْنَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ۔ (صحیح مسلم کتاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا باب اسلام عمرو بن عبسہ) یعنی میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ !مجھے اس بارہ میں بتائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے بے خبر ہوں۔ مجھے نماز کے بارے میں بتائیے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے رُکے رہو یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور بلند ہوجائے کیونکہ جب یہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔ پھر نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی دی جاتی ہے اوراس میں حاضر ہوا جاتا ہے یہاں تک کہ سایہ کم ہو کر نیزہ کے برابر ہوجائے۔ پھر نماز سے رُکے رہو یقیناً اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے۔ پھر جب سایہ ڈھل جائے تو نماز پڑھو کیونکہ اس وقت کی نماز کی گواہی دی جاتی ہے اور اس میں حاضر ہوا جاتا ہے یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو۔ پھر سورج کے غروب ہونے تک نماز سے رُکے رہو کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔

پس ان تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا۔ لیکن قرآن کریم پڑھنے کی کوئی ممانعت نہیں۔ اس لیے قرآن کریم آپ بے شک جس وقت چاہیں پڑھیں، اس میں کوئی روک نہیں ہے۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےShort Sellingکے حلال و حرام ہونے کے بارے میں راہنمائی چاہی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 16؍مئی 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اصل میں Short Sellingجلد پیسہ کمانے کا ایک آسان راستہ سمجھا جاتا ہے، جس میں بعض لوگ شیئرز رکھنے والے بروکرز سے کچھ شیئرز ادھار لےکر انہیں بازار میں مہنگے داموں بیچتے اور پھر ان شیئرز کے سستے ہونے پر انہیں بازار سے خرید کر بروکرز کو واپس کر دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں منافع کا ایک حصہ یہ لوگ کماتے ہیں اور ایک حصہ بطور کمیشن بروکر کو دیتے ہیں۔

اسلام نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی راہنمائی فرمائی ہے، تجارت میں بھی صاف اور سیدھی راہ اختیار کرنے اور کھری اور دو ٹوک بات کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے تجارت کے معاملے میں اس حد تک ہدایت فرمائی کہ اگر تمہارے مال میں کوئی نقص ہو تو اسے مت چھپاؤ بلکہ واضح طور پر گاہک کو اس نقص سے آگاہ کرو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب من غشنا فلیس منا)ماپ تول کو پورا رکھو، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرو۔ اور جب تک خریدا ہوا مال اپنے قبضہ میں نہ لے لو اسے آگے فروخت مت کرو۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب الکیل علی البائع والمعطی)

پس ہر کاروبار پوری طرح تحقیق کر کے کرنا چاہیے تا کہ نہ انسان خود دھوکا کھائے اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو دھوکا دے۔ Short Sellingکے کاروبار میں کمپنیوں کی سطح پر بھی اور انفرادی طور پر بھی خریدار کو دھوکا دیا جا رہا ہوتا ہے اور جن شیئرز کی قیمت گرنے والی ہوتی ہے انہیں اس نیت سے فروخت کیا جاتا ہے کہ چند دن بعد جب ان شیئرز کی قیمت گرے گی تو انہیں سستے داموں خرید کر اصل مالک کو شیئرز واپس کر دیے جائیں گے۔ گویا اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ ان شیئرز کی چند دنوں میں قیمت گر جائے گی خریدار کو اندھیرے میں رکھ کر اسے یہ شیئرز فروخت کیے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں سٹاک مارکیٹ کے حوالے سے ہونے والے مختلف کاروباروں میں سے Short Sellingکا کاروبار ایک لحاظ سے جوا کی ہی صورت رکھتا ہے اس لیے بعض اوقات Short Sellers کو فائدہ ہونے کی بجائے بہت بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل Game Stop کے شیئرز کے معاملہ میں ہوا تھا۔

پس اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مومن تاجر کی ذمہ داری ہے کہ نہ خود دھوکا کھائے اور نہ دوسروں کو دھوکا دے بلکہ صاف صاف تجارت کر کے مالی فائدہ اٹھائے اور اپنے رب کو راضی رکھے۔

سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کے بچے اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں، اس بارہ میں جماعت کا کیا موقف ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 24؍مئی 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: نماز اور روزہ بدنی عبادات ہیں، اس لیے ان کا ثواب اسی شخص کو پہنچتا ہے جو ان عبادات کو بجالاتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک میت کی طرف سے نماز اور روزے رکھنا مرنے والے کی اولاد کی ذمہ داری نہیں ہے۔

فقہاء کی اکثریت جن میں حضرت امام ابو حنیفہؒ، امام مالک اور امام شافعیؒ شامل ہیں، ان روزوں کے رکھنے کو درست نہیں سمجھتے اور ان کی بھی یہی دلیل ہے کہ روزہ ایک بدنی عبادت ہے جو اصول شرع سے واجب ہوتی ہے اور زندگی اور موت کے بعد اس میں نیابت نہیں چلتی۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ کتاب الصوم، از ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی)

باقی جہاں تک کتب احادیث میں اس قسم کی روایات کے بیان ہونے کا تعلق ہے تو علمائے حدیث اور شارحین نے ان روایات کی تشریح میں اس سے مختلف روایات کا بھی ذکر کیا ہے مثلاً میت کی طرف سے اس کے اولاد کے روزہ رکھنے والی روایات حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہیں، لیکن کتب احادیث میں حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی طرف سے یہ روایت بھی موجود ہے کہ وفات یافتہ کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الصوم بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ) اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے مروی اس قسم کی روایات میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ سوال پوچھنے والا مرد ہے اور دوسری جگہ عورت۔ اسی طرح روزوں کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے تھے یا نذر کے روزے تھے۔ نیز ایک جگہ روزوں کی بابت پوچھا جار ہا ہے اور دوسری جگہ حج کی بابت پوچھا ہے۔ (شرح بخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد سوم صفحہ 630۔ کتاب الصوم)

پس اس قسم کے اختلافات کی وجہ سے محدثین میں بھی میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن کسی نے بھی اسے واجب قرار نہیں دیا۔

البتہ میت کی طرف سے کوئی ایسا کام کرنا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا ہو تو وہ ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button