متفرق مضامین

فرقان بٹالین(قسط نمبر1)

(از قلم محترم چودھری عبد السلام صاحب، واقفِ زندگی)

اس میٹنگ میں کافی غور وخوض کے بعد یہ طے پایا کہ حضرت امیر المومنین کی اجازت سے جموں کشمیر محاذ پر جماعت احمدیہ کا ایک برگیڈ قائم کیا جائے۔اور احمدی نوجوانوں کو باقاعدہ فوجی ٹریننگ دے کر وطنِ عزیز کا دفاع کیا جائے۔ جب یہ سکیم حضورِ انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور نے برگیڈ کی اجازت نہ دی بلکہ ایک بٹالین کی اجازت مرحمت فرمائی۔ بعد میں حکومتِ پاکستان کی منظوری سے باضابطہ اور باقاعدہ فرقان بٹالین معرضِ وجود میں آئی

مصنف مضمون ہٰذا محترم چودھری عبدالسلام صاحب مرحوم (واقفِ زندگی) المعروف ’بھائی عبدالسلام‘ کو فرقان بٹالین کے علاوہ ایک لمبا عرصہ بطور نائب افسر حفاظتِ خاص خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ زیرِ نظر مضمون ان کی یادداشتوں پر مشتمل ہے جنہیںانہوں نے اپنے بیٹے محترم عبدالحفیظ شاہد صاحب(ایڈیشنل وکیل الاشاعت برائے ترسیل) کی تحریک پر قلم بند کیا۔

بعض تاریخی دریچوں سے پردہ اٹھانے والی یہ تحریر پہلی مرتبہ منظرِ عام پر لائی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے اور انہیں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ادارہ)

جلسہ سالانہ 1947ء کےبعد یکم جنوری 1948ء کو مکرم شیر احمد خاں صاحب پٹھان کی قیادت میں وہ بارہ خدام جو قادیان میں حفاظت ِمرکز کی ڈیوٹی کرنے کے بعد رتن باغ لاہور میں تھے ملک کی حفاظت کے لیے معراجکے ضلع سیالکوٹ میں بھجوائے گئے۔وہاں پچاس خدام پہلے سے موجود تھے۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے انہیں عارضی طور پر ایک سکول کی عمارت رہائش کے لیے مہیا کردی۔ مَیں ان بارہ خدام میں شامل تھا۔ حکومت کی طرف سے جو ڈیوٹی خدام کو سپرد کی گئی وہ یہ تھی کہ سیالکوٹ اور جموں کی سرحدکی حفاظت کی جائے۔ ہتھیار حکومت نے مہیا کیے اور راشن بھی حکومت کی طرف سے ملنے لگا۔ ان خدام کے کمانڈر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور ان کے نائب محترم جمعدار (نائب صوبیدار) شیر احمد خاں صاحب تھے۔ ان خدام نے معراجکےپہنچ کر اپنی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ان خدام کو 12؍جنوری 1948ء کو معلوم ہوا کہ حضورِ انور حضرت امیر المومنین مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سیالکوٹ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ہم خدام کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ حضورِ انور سے ملاقات ہوجائے۔ ابھی یہ خدام بارڈر سے پٹرولنگ کی ڈیوٹی سرانجام دے کر واپس ہی لوٹے تھے کہ ہمارا ایک ساتھی مکرم غلام محمد صاحب جو کہ کچھ کمزور ہونے کی وجہ سے اکثر خدام سے چند قدم پیچھے ہی رہتا تھا وہ کمرہ میں پہنچتے ہی کہنےلگا دوستو تم سب کو مبارک ہو۔ حضور سے ملاقات کا موقع بن گیا ہےاور حضورِ انور ہمارے کیمپ میں تشریف لاچکے ہیں۔ تمام خدام بڑی تیزی سے باہر کی طرف لپکے تو سامنے دیکھا کہ حضورِ انور ایک مستعد مجاہد کی طرح جیپ کی فرنٹ سیٹ سے اتر رہے ہیں اور حضور کی رائفل ایک کور میں ہے اور اسے حضور نے کندھے پر لٹکایا ہوا ہے۔جو بھی حضور سے ملاقات کے لیے آگے بڑھتا اور سلام کے بعد عرض کرتا حضور یہ رائفل مجھے پکڑادیں۔ مگر حضور نے سب سے مصافحہ کیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا یہ میں اپنے پاس رکھوں گا۔ خدام نے جلدی سے پلاٹ میں ہی چند کمبل بچھادیے۔ اس وقت حضور کے ساتھ میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی ( جو بعد میں پاکستان آرمی سے کرنل ریٹائرڈ ہوئے اور ایک لمبا عرصہ وفات تک جلسہ سالانہ ربوہ میں ناظم خدمتِ خلق رہے) اور چند دیگر پاکستان آرمی کے فوجی افسران بھی تھے۔ وہ سب ان کمبلوں پر بیٹھ گئے۔ حضورِ انور نے ان کے سامنے نقشہ پھیلایا اور ان افسروں کو دفاع کے حوالے سے بریفنگ دینی شروع کی کہ کس طرح پاکستان اپنی افواج جموں کشمیر میں داخل کرکے بآسانی فتح حاصل کرسکتا ہے۔اس وقت تک ابھی بھارت نے اپنی افواج جموں کشمیر میں داخل نہیں کی تھیں۔ صرف اور صرف کٹھوعہ روڈ واحد رابطہ کا ذریعہ تھا۔ اگر یہ راستہ بند کردیا جائے تو بھارت کی سپلائی لائن مکمل طور پر کشمیر سے کٹ سکتی ہے اور بھارتی افواج کا جموں کشمیر میں داخلہ ناممکن ہوسکتا ہے( مگر بعد میں پاکستان آرمی نامعلوم وجوہات کی بناپر اس اسکیم کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ اگر اس وقت وہ راستہ بند کردیا جاتا تو صرف مجاہدین ہی آرمی کے بغیر کشمیر کو فتح کرسکتےتھے بعد میں تو بھارت نے کشمیر سے رابطہ کے لیے کئی سڑکیں اور پل تعمیر کرکے اور بڑی بھاری تعداد میں انڈین آرمی ان علاقوں میں شفٹ کردی۔اوریوں کشمیر بھارتی قبضہ میں چلا گیا۔ اور پاکستان حکومت آج تک اس اسکیم پر عمل نہ کرنے کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔) جس پر اگر اس وقت عمل ہوتا تو کشمیر کا حال اس وقت کے حال سے مختلف ہوتا۔

اس بریفنگ کے بعد حضور نے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا لڑکوں نے کھانا کھالیا ہے۔ تو اس پر محترم صاحبزادہ صاحب نے بتایا کہ ابھی نہیں کھایا۔ اس پر حضور نے فرمایا: اب درختوں کے نیچے کمبل بچھالیں وہاں ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے۔ اب تو تمام خدام بے حد خوش تھے۔اور یہ اعزاز اور خوش قسمتی تو نصیبوں سے ہی ملا کرتی ہے۔ فوراً حضور کے ارشاد کی تعمیل میں مقررہ جگہ پر کمبل بچھادیےگئے اور وہیں کھانا بھی چن دیا گیا۔حضور نے ان خدام کے ساتھ کھانا کھایا ۔ اس کے بعد فرمایا: اب میں نماز ظہرو عصر قصر کرکے پڑھاؤں گا کیونکہ میں مسافر ہوں اور مقامی لوگ پوری نماز اداکریں گے۔ اور اس مسئلہ کو حضور نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔ اس کے بعد حضورنے دونوں نمازیں قصر اور جمع کرکے پڑھائیں۔

نماز کے بعد حضور وہیں تشریف فرمارہے پھر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حضورِ انور سے اجازت مانگی کہ یہ نوجوان حضور کے سامنے ڈرل اور رائفل ایکسرسائز کا مظاہرہ کریں۔ حضور نے اجازت عطافرمادی۔ تھوڑی ہی دیر میں خدام تیار ہوکر میدان میں آگئے۔ اور ایک باقاعدہ دستہ کی شکل میں جملہ فوجی کرتب انتہائی منظم طریق پر پیش کیے۔ اس کے بعد حضورِ انور کو سلامی پیش کی گئی۔ بعد میں حضور نے فرمایا یہ مشقیں دیکھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ میری وجہ سے آپ کی گردنیں اونچی نہیں تھیں۔ میرے نزدیک جب سپاہی پریڈ گراؤنڈ میں ہوتو اس کی گردن ہمیشہ اونچی ہوتی ہے۔ اور ہونی بھی چاہیے۔ امید ہے کہ آپ سب میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ اسی شام حضور واپس سیالکوٹ تشریف لے گئے اور محاذ پر موجود احمدی خدام کے حوصلے حضور کی ملاقات کے بعد بڑے بلند ہوگئے۔ اور وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے نیا جذبہ پیداہوا۔

سیالکوٹ کے محاذ پر بعض خدمات

اب سیالکوٹ کے محاذ پر پیش آنے والے چند واقعات آپ کی خدمت میں پیش ہیں تاکہ احباب کو علم ہو کہ احمدی خدام نے کن حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطنِ عزیز کا دفاع کرنے کے لیے اپنی قربانیاں پیش کیں۔

1) ایک دن اس احمدی دستہ نے اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے ایک پٹرولنگ ٹیم تیار کی جو جموں بارڈر کی طرف پٹرولنگ کرتے ہوئے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے دشمن کے علاقہ کا جائزہ لے رہے تھے۔ بھارتی فوج نے ارتیا کے مقام پراپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا اور ایک فوجی پوسٹ چنگیاگاؤں کے پاس بنائی ہوئی تھی۔ رات ساڑھے سات اور آٹھ بجے کے درمیان ہماری پٹرولنگ ٹیم نے دیکھا کہ دشمن کے چند آدمی دبے پاؤں اندھیرے میں ہماری طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ ہمارے جوان فوری مستعد ہوگئے اور جب دیکھا کہ دشمن ہماری فائرنگ رینج میں آگیا ہے تو انہوں نے فائر کھول دیا۔ جس سے بھارتی سپاہی الٹے پاؤں واپس مڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اور بھارتی تھری انچ مارٹر گولہ پھینکنے والے گروپ نے گولوں کی بوچھاڑ کردی۔ ہمارے جوان بہت مشکل سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنے کیمپ میں واپس آئے۔ اس پٹرولنگ کا اصل مقصد دشمن کی اس علاقہ میں نفری اور طاقت کا اندازہ کرکے نئے حالات کے مطابق پلاننگ سکیم تیار کرنا تھا۔

2) ا سی طرح ایک دن ہماری پٹرولنگ ٹیم کے افراد نختالی کی طرف گشت پر گئے تو تمام علاقہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ایک جگہ دشمن کے کچھ سپاہی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ان کے دو کیریر نظر آئے۔ہمارے دستے نے جب ان کا پیچھا کیا تو دشمن نے فائر کھول دیا۔جوابی فائرنگ کے نتیجے میں دشمن کے سپاہی اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور دونوں اطراف سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ تاہم بیداری سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔

3) بارڈر کی صورت حال اور حالات کے پیش نظر جگہ باربار تبدیل ہوتی رہی۔ایک دن محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی طرف سے احمدی جوانوں کو حکم ملا کہ ارتیا جاکر معلوم کریں کہ اس علاقے میں دشمن کی نفری کتنی ہے اور کہاں کہاں ان کی پوسٹیں ہیں۔ چنانچہ اس کام کے لیے رات کا پٹرولنگ پروگرام ترتیب دیا گیا۔اندھیرا چھا جانے پر ایک مستعد دستہ اس کام کے لیے روانہ ہوا۔بڑی احتیاط کے ساتھ ہمارے جوان ان کی پوسٹ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئےتو دشمن نے سمجھا کہ اب ہم کہیں ان کے گھیرے میں نہ آجائیں تو انہوں نے فرنٹ لائن خالی کرکے ارتیا گاؤں کی طرف بھاگنے میں عافیت سمجھی۔اندھیرے میں یہ تو اندازہ نہ لگایا جاسکا کہ کتنے آدمی ہیں۔تاہم ان کی جملہ پوسٹوں کا اندازہ ہوگیا۔ اور یہ بھی علم ہوگیا کہ وہ چوکس ہیں۔ ہمارے نوجوان نہایت کامیابی کے ساتھ پٹرولنگ کرتے ہوئے بخیریت اپنے کیمپ میں واپس آگئے۔اگلی رات ہمارے جوانوں نے ارتیا سے ایک میل دور ایک باغ میں اپنی پوسٹ بنالی اور دشمن کا انتظار کرتے رہے۔ ان کا گھڑ سوار دستہ معمو ل کی پٹرولنگ کررہاتھا۔ جب وہ ہماری پوسٹ کی طرف آرہا تھا تو ہمارے چوکس جوانوں نے ان پر فائر کھول دیا وہ سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے واپس لوٹ گئے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے انہوں نے ادھر ادھر فائرنگ شروع کردی۔ اس کے بعد بھرپور فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو دشمن نے واپسی کو ترجیح دی۔ اس طرح ہمارے جوانوں کی بیدار مغزی سے ڈیوٹی دینے کے نتیجے میں دشمن کو ہم پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔

4) ایک دن میں نے اور میرے ساتھیوں نے رات نختالی میں بسر کی تو گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ دشمن کی سکیم یہ ہوتی ہے کہ آگے آگے ان کے مویشی چرتے ہیں اور ان کے پیچھے فائٹنگ یونٹ ہوتے ہیں۔جو موقع پاکرہمارے علاقہ میں آکر حملہ بھی کردیتے ہیں۔ جس سے ہمارا نقصان ہوجاتا ہے ۔اس پر ہمارے دستے نے پلاننگ کرکے اپنے گروپ کو تین سیکشن میں تقسیم کرلیا۔ایک حصہ باغ میں ٹھہرے گا اور دو حصے ایک کنویں کے ارد گرد لگادیےگئے۔اس دن ہمارے دستے کی مدد کے لیے پاکستان بارڈر پولیس کے کچھ جوان بھی آگئے۔ ان کے پاس برین گن تھی۔ معمول کے مطابق دس بجے کے قریب ان کے مویشی چرنے کےلیے وہاں آگئے۔اور بھارتی ملٹری نے ننگا ماجرہ نامی گاؤں کے گرد کونوں پر اپنی پوسٹیں لگالیں۔ ہمارا دستہ چاہتا تھا کہ ان کو پیچھے سے جاکر گھیرے میں لے لیں۔ مگر اتنے میں ہماری بارڈر پولیس نے برین گن کا فائر کھول دیا۔ چونکہ وہ بھی چوکس تھے اس لیے انہوں نے برین گن اور تھری انچ مارٹر گولوں کا فائر کھول دیا۔ ہمارا دستہ ان کی رینج میں تھا۔ چونکہ کنویں کے دونوں اطراف میں ہمارے دو دَستوں کی پوزیشن تھی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک کی کہ یہ جگہ فوراً چھوڑ کر پیچھے آجائیں۔ ابھی بمشکل اس جگہ سے پیچھے ہی ہٹے تھے کہ ایک گولہ آکر عین اس جگہ پر گرا جہاں کچھ دیر پہلے ہمارا دستہ تھا۔ ہمارے دستہ کو بروقت جگہ تبدیل کرلینے سے کوئی نقصان نہ ہوا۔ تاہم اتنی دیر میں باغ والی سیکشن نے دشمن پر بھرپور فائر کھول دیا۔ اس پر دشمن نے سمجھا کہ اب تو ہم ان کے گھیرے میں آگئے ہیں تو وہ اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑ کر اپنے ہی علاقہ میں مزید پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوکر واپس چلے گئے۔ اور پھر اس مقام پر ہماری مضبوط پوسٹیں بن گئیں۔

5) ایک دن چارواہ گاؤں کے لوگ ہمارے پاس آئے اور درخواست کی کہ ہماری فصل پک چکی ہے لیکن بھارتی فوجی ہمیں اپنی زمین سے ہی فصل کاٹنے نہیں دے رہے۔ اس پر ہمارے دستہ نے ان کو تسلی دلائی کہ ہم آپ کو بتائیں گے تو آپ اُس وقت فصل کاٹ لینا۔چنانچہ ہمارے دستہ نے مکمل منصوبہ بندی کرکے ان کو بتادیا کہ نماز فجر کے فوراً بعد آپ فصل کی کٹائی شروع کرلیں۔ہم بھرپور مدد کریں گے۔تمام جوان نماز فجر کے بعد وہاں پہنچ گئے اور تمام علاقہ میں پھیل گئے اور بارڈر پر اپنی دفاعی پوزیشنیں سنبھال لیں اور گاؤں کے تمام لوگ سارا دن اپنی فصل کاٹتے رہے۔ اور ساتھ ساتھ اسے سنبھالتے بھی رہے۔ نماز عصر تک تمام فصل سنبھال لی گئی۔تو بھارتی ملٹری کے دستے بارڈر پر پہنچ گئے۔ کراس فائرنگ شروع ہوگئی۔ آخر کار نوجوانوں کی پیش بندی کے نتیجے میں گاؤں کے لوگوں کا کوئی نقصان نہ ہوا۔ اور بروقت مدد سے فصل بھی کاٹ کر سنبھال لی گئی۔

6) ایک دن شام کو ہماری پٹرولنگ ٹیم نکلی اور رات ہونے پر بھوتال کے مندر کے قریب جاپہنچی تو معلوم ہوا کہ یہاں بھارتی ملٹری کی پوسٹ ہے۔ہماری پٹرولنگ ٹیم نے تمام علاقے کا اچھی طرح سروے کیا۔گاؤں مکمل طور پر خالی ہوچکا تھا۔ چند دن کے بعد ہماری دو سیکشن وہاں گئیں۔ اور مزید علاقے کا سروے کیا۔واپسی پر ہمارے ایک سپاہی محترم اللہ رکھا صاحب کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر آگیاجس کے نتیجے میں ہمارے دو نوجوان محترم اللہ رکھا صاحب اور محترم برکت علی صاحب وطنِ عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے علاوہ پانچ دیگر ساتھی بھی زخمی ہوئے۔

انہی دنوں محترم میجر شریف احمد صاحب باجوہ وہاں تشریف لائےجو حال ہی میں بھارتی جیل سے رہا ہوکر پاکستان پہنچے تھے۔ وہ حفاظت ِمرکز قادیان کے کمانڈر رہ چکے تھے۔ ہندوستان کی حکومت نے انہیں قادیان سے گرفتار کرکے جالندھر جیل بھجوایا تھا۔ اب قیدیوں کے باہمی تبادلہ کے نتیجے میں رہا ہوئے تھے۔ یہ تقریباً آٹھ ماہ بھارتی جیل میں رہے۔ یہ لاہور سے معراجکے تشریف لائے۔ تو ایک ضروری میٹنگ ہوئی۔ جس میں سات افراد شریک ہوئے۔

1) محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب

2) محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب

3) محترم صوبیدار عطاء اللہ صاحب

4) مکرم جمعدار شیر احمد خاں صاحب پٹھان

5) مکرم میر محمد عبداللہ صاحب

6) مکرم اقبال احمد بھٹی صاحب

7) خاکسار عبدالسلام

اس میٹنگ میں کافی غور وخوض کے بعد یہ طے پایا کہ حضرت امیر المومنین کی اجازت سے جموں کشمیر محاذ پر جماعت احمدیہ کا ایک برگیڈ قائم کیا جائے۔اور احمدی نوجوانوں کو باقاعدہ فوجی ٹریننگ دے کر وطنِ عزیز کا دفاع کیا جائے۔ جب یہ سکیم حضورِ انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور نے برگیڈ کی اجازت نہ دی بلکہ ایک بٹالین کی اجازت مرحمت فرمائی۔ بعد میں حکومتِ پاکستان کی منظوری سے باضابطہ اور باقاعدہ فرقان بٹالین معرضِ وجود میں آئی۔

اس میٹنگ میں جب مکرم حفیظ احمد صاحب چائے بنا کر لائے تو اچانک رک گئے اور شرم محسوس کرنے لگے کیونکہ ان کے پاس اس وقت کوئی خاص برتن نہ تھے۔ اس پر محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب فوراً بات سمجھ گئے اور کہنے لگے ہم سب تو فوجی آدمی ہیں ہر قسم کے برتن میں کھا لیتے ہیں۔ شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چائے لے آؤ۔ جب چائے پیش کی گئی تو محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو پرچ پیالی۔ مکرم شیر احمد خاں صاحب کو شیشے کے گلاس میں اور باقی سب کو لوہ چینی کے کپ دیے گئے۔ اس پر محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتاہوں۔ جب میں جالندھر جیل میں تھا تو وہاں ایک سکھ میرا دوست بن گیا۔ اور ایک دن مجھے کہنےلگا آؤ باجوہ صاحب آپ کو چائے پلاتے ہیں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ جیل میں چائے ! تو وہ سکھ بڑی بے تکلفی سے کہنے لگا باجوہ صاحب آپاں تے ایتھے وی چاء بنالیندے آں(باجوہ صاحب ہم تو یہاں بھی چائے بنا لیتے ہیں)۔ وہ مجھے ایک اندھیری کوٹھڑی میں لے گیا۔ وہاں معمولی معمولی آگ جل رہی تھی۔ اندر جاکر کہنے لگا باجوہ صاحب آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ جیل میں دودھ تو بالکل نہیں ملتا اور اتفاقاً آج ہماری چائے کی پتی بھی ختم ہوگئی ہے اور خالی گڑاُبال کر مجھے چائے پلائی۔ اور میں نے اس چائے میں بھی بڑا مزا دیکھا۔ اور تم ہو کہ ان مختلف برتنوں کی وجہ سے شرماتے ہو۔ ہم تو فوجی آدمی ہیں۔ جیسابرتن ملا وہی استعمال کرلیتے ہیں۔

فرقان بٹالین کا قیام

یکم جون 1948ء کو رتن باغ لاہور سے ایک خادم شام کے وقت معراجکے ضلع سیالکوٹ پہنچا ۔جہاں احمدی خدام وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے قائم کیمپ میں موجود تھے۔ اس نے ایک چٹھی دی جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’عبدالسلام اور اس کے سیکشن فوراً رتن باغ لاہور پہنچ جائیں‘‘چنانچہ میں نے فوراً قریبی سرکاری حکام سے رابطہ کرکے حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہتھیار اور ضروری سامان ان کے سپرد کیا اور قریبی ملٹری یونٹ کو بھی اس ایریا کی ذمہ داری سپرد کرتے ہوئے خدام کو واپسی کے لیے کہہ دیا۔جب ضروری امور کی تکمیل ہوگئی تو اگلی صبح ہم تمام ساتھی معراجکے سے روانہ ہوکر چونڈہ پہنچے۔ وہاں سے ریل گاڑی میں سوار ہوکر لاہور کے لیے روانہ ہوئے ۔ ہمارے پاس بڑی مشکل سے چونڈہ تا لاہور کا کرایہ تھا۔ جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترے تو ہمارے پاس تانگے والوں کو کرایہ دینے کے لیے رقم نہ تھی۔ بہر حال اپنا سامان تانگوں پر رکھ کر جب رتن باغ پہنچے تو وہاں مکرم ملک رفیق احمد صاحب سے روپے لےکر ان کو کرایہ اداکیا۔

ان دنوں محترم میجر شریف احمد صاحب باجوہ کی آنکھیں خراب تھیں وہ علاج کے لیے میو ہسپتال میں داخل تھے۔انہیں ہماری آمد کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے مجھے ہسپتال میں ہی بلوالیا۔ اور کہا عبدالسلام حضورِ انور نے کشمیر کے لیے ایک بٹالین کی منظوری عطا فرمائی ہے اور اس کانام ’’فرقان بٹالین‘‘رکھا ہے۔ اور گورنمنٹ کی طرف سے بھی منظوری ہوچکی ہے۔ اس بٹالین کے قیام کے سلسلہ میں انتظامات کے لیے مجھے آپ کے ساتھ جانا تھا۔ مگر میں اپنی بیماری کی وجہ سے فی الحال نہیں جاسکتا ۔ اس لیے میں آپ کو تین ضروری چٹھیاں دے رہا ہوں۔ ایک چٹھی جنرل ہیڈ کوارٹر (G.H.Q) راولپنڈی کے نام ہے، دوسری چٹھی محترم بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب کے نام ہے اور تیسری اور آخری چٹھی ایک سٹاف کیپٹن کے نام ہےجوکہ جہلم کینٹ میں تعینات ہے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ محترم چودھری محمد عظیم باجوہ صاحب بھی موجود تھے۔ لاہور سے یہ چٹھیاں لے کر میں ریل گاڑی پر سوار ہوکر جہلم روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے محترم نذیر احمد صاحب باجوہ سول سپلائی افسر کی کوٹھی گیا اور ان سے ملا۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھایا۔ انہوں نے مجھے ایک فوجی ٹرک لے کر دیا تاکہ میں قاضی باقر برگیڈ ہیڈ کوارٹر چلا جاؤں۔جب میں اس ٹرک کے ذریعہ برگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچا تو مذکورہ سٹاف کیپٹن اس وقت ہاکی کی گراؤنڈ سے کھیل کر کیمپ آفس آرہےتھے۔ وہ مجھے ملے تو میں نے محترم میجر شریف احمد صاحب باجوہ کا پیغام انہیں دیا۔ اور وہ تینوں چٹھیاں ان کے حوالے کردیں۔ انہوں نے اپنی چٹھی وہیں میرے سامنے کھول کر پڑھی اور اپنے سٹاف کو بلا کر ہدایت کی کہ فوراً ان کی رہائش کا انتظام کردیا جائے اور لنگر والوں کو بھی اطلاع کردیں ۔ نیز دیگر ضروریات کا بھی بتادیا اور بتادیا کہ نہانے دھونے کے لیے سامنے نہر ہے ہم سب بھی اسی نہر کو استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ اگر آپ کو اَور کوئی دقت ہوتو مجھ سے رابطہ کرلیا جائے۔ امید ہے کہ آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔

دوروز کے بعد لاہور سے (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نگران فرقان بٹالین اور محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی اور محترم فضل الرحمٰن صاحب وہاں پہنچے۔ ہمیں آرمی کی طرف سے کیمپ لگانے کے لیے جگہ بتائی گئی۔ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور محترم میجر محمد حیات صاحب قیصرانی کا مشورہ تھا کہ جی ٹی روڈ پر سرائے عالمگیر والی نہرپر کیمپ لگایا جائے۔ مَیں نے اس جگہ کو دیکھ کر مشورہ دیا کہ میرے نزدیک دفاعی اور انتظامی ضروریات کے پیش نظر یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ اور زمین روڈ کے قریب ہونے کی وجہ سے بعض دقتیں بھی پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ یہاں سے پون میل دور تھون گاؤں کے برابر نہر کے قریب کیمپ لگایا جائے اور وہاں رہنے کے فوائد بھی بتائے۔ تو سب نے میرے اس مشورہ سے اتفاق کیا اور یہی جگہ کیمپ کے لیے پسندکی۔ فرقان بٹالین کے لیے آرمی نے GHQسے 26ٹینٹ منگوادیےاور ہندوؤں کے کچھ پرانےبرتن ایک کنویں سے نکلوا کردے دیے۔ چنانچہ اگلے روز ہی وہ برتن قلعی کروالیے گئے۔ اور آٹھ بجے صبح تک سب ٹینٹ بھی لگالیے گئے۔ اس وقت جب ہم کام کررہے تھے لاہور سے مکرم عنایت اللہ صاحب ایک چٹھی لے کر آئے جس میں ذکر تھا کہ آج ساڑھے گیارہ بجے کی ٹرین سے 64خدام کا پہلا گروپ جہلم پہنچ رہاہے۔ انہیں وہاں سے ریسیو کریں۔ چنانچہ فوری طور پر نزدیک آرمی کیمپ میں ان کی آمد اور کھانے کی اطلاع کردی۔ اور ان کے استقبال کےلیے فوجی ٹرک حاصل کرکے جہلم ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے اور آنے والے خدام کو ان ٹرکوں میں بٹھا کر کیمپ میں لے آئے۔ چند ہی دنوں میں فرقان بٹالین کی نفری پوری ہوگئی۔ ابتدائی ٹریننگ کے لیے پاکستان آرمی سے مندرجہ ذیل افسران آگئے۔

مکرم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی، مکرم کیپٹن حمید احمد کلیم صاحب ،مکرم کیپٹن عبداللہ مہار صاحب۔ مکرم لیفٹیننٹ راجہ عبدالحمید صاحب اور مکرم کیپٹن وقیع الزمان خاں صاحب۔ یہ سب تین تین ماہ کے لیے پاکستان آرمی سے آگئے۔ پہلے خیال تھا کہ محترم صاحبزادہ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب آئیں گے مگر بوجوہ وہ نہ آسکے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ارشادفرمایا کہ محترم میجر محمدحیات صاحب فورا ً فرقان بٹالین کو ترتیب دیں اور اس کی عملی ٹریننگ شروع کروادیںتاکہ جلد از جلد فرقان بٹالین عملی جہاد میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button