خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍اگست ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق ؑکی جماعت پر ہر دن ہوتی ہے اس کا ذکر جلسے کی رپورٹ میں ہوتا ہے۔ وہاں مَیں نے بتایا تھا کہ مختصر وقت میں سب کچھ بیان کرنا ممکن نہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے، کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو جماعت کے بارے میں کھولتا ہے، کس طرح ایمانوں کو اللہ تعالیٰ مضبوط فرماتا ہے، کس طرح دشمنوں کو ناکام کرتا ہے۔ بیشمار واقعات لوگ لکھتے رہتے ہیں ان میں سے چند میں آج بھی بیان کروں گا کیونکہ یہ واقعات بہت سے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کی مضبوطی کا بھی باعث بنتے ہیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کونگوکنشاساکےایک گاؤں میں جماعت کےقیام کی بابت کیا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:کونگو کنشاسا میں جہاں ہمارا ایف ایم ریڈیو ہے وہاں کے لوکل مشنری حمید صاحب لکھتے ہیں کہ اویرہ (Uvira) شہر میں ہمارے ریڈیو پروگرام کو سُن کر لوکل امام مسجد عیسیٰ صاحب نے رابطہ کیا اورپھر وہ مشن ہاؤس آئے۔ جماعت کا پیغام سمجھا اور بیعت کر لی۔ نہ صرف بیعت کی بلکہ اپنے گاؤں کلیبا اندیزی (Kiliba Ondezi) جا کر تبلیغ بھی شروع کر دی۔ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں چوبیس افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔ جب ہمارے مرکزی مبلغ سلسلہ نے وہاں دورہ کیا تو مزید آٹھ افراد نے بیعت کی۔ اس طرح وہاں جماعت قائم ہو گئی۔ اب ایک طرف تو جو نیک فطرت امام ہیں ان کو یہ پیغام سن کر اس کو سمجھنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے اور دوسری طرف پاکستانی علماء ہیں جو سوائے مخالفت کے اَور کچھ نہیں جانتے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لائبیریاکےایک گاؤں میں مسجدکےقیام کی بابت کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:امیر صاحب لائبیریانے لکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفت کے باوجود ہماری مدد فرماتا ہے۔ دو سال پہلے نمبا (Nimba) کاؤنٹی کے ایک ٹاؤن گینا گلے (Ganaglay) کےکچھ لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ پہلے ان کا تعلق عیسائیت سے تھا یا لامذہب تھے۔ بیعت کے بعد ان احباب کی تربیت اور نمازوں کا انتظام کسی گھر کے برآمدے میں کیا گیا۔ لوکل مبلغ مرتضیٰ صاحب نے ایک دن نماز کے بعد احباب کو دعا کی تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد بنانے کے لیے کوئی مناسب زمین عطا فرمائے۔ یہ علاقہ عیسائیت اور لامذہب لوگوں کا گڑھ ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کو اچھا نہیں سمجھتے اس لیے مسجد کے لیے زمین کا حصول بہت مشکل تھا۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ ایک شخص مسٹر ڈاہن (Dahn) جو لامذہب تھے اور خدا کی ہستی پر بھی یقین نہیں رکھتے وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کھڑے ہو کےکہا کہ جب سے مشنری نے ہمارے گاؤں میں آنا شروع کیا ہے مَیں نے ان کا بہت اچھا اخلاق دیکھا ہے۔ سب لوگوں سے ملتے ہیں، ایک ہی برتن میں کھانا کھا لیتے ہیں حتی کہ میں جو خدا کو نہیں مانتا اور پکا شرابی ہوں میرے پاس بھی آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں۔ مجھے اس طرح کے اخلاق پہلے دیکھنے کو نہیں ملے۔میرے پاس ایک پلاٹ ہے جس پر میں نے اپنا گھر بنانے کا ارادہ کیا تھا۔لیکن آج میں اس پلاٹ کو مسجد کے لیے دیتا ہوں۔چنانچہ کچھ دن کے بعد باقاعدہ انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ شراب کو بھی کلیة ًچھوڑ دیا۔ یہ انقلاب پیدا ہوا اور اخلاص میں ترقی کرتے گئے۔ اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ لوگوں نے دیکھا کہ یہ بالکل ہی تبدیل شدہ انسان بن گئے ہیں۔ یہاں مسجد کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوگیا۔ لوگوں نے چیف کے پاس اعتراض کیا کہ وہاں مسجد نہیں بننے دینی لیکن مسٹر ڈاہن (Dahn) نے بڑی جرأت سے کہا کہ مَیں نے مسجد کو جگہ دی ہے اور یہاں مسجد بنے گی۔ چنانچہ یہ مسجد مکمل بھی ہو گئی اور اس علاقے میں یہ پہلی مسجدہے۔ اس کا نام مسجد نور ہے۔ اس طرح غیر مسلم اور اللہ تعالیٰ کو نہ ماننے والے دہریت کے جو لوگ ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رکھ رہے ہیں بلکہ اسلام کو سچا مذہب سمجھ کر تسلیم کر رہے ہیں۔
سوال نمبر۴:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے برونڈی میں احمدیہ مسجدکےبندکروانےکےلیےمخالفین کی کوشش کی بابت کیا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:برونڈی میں ایک قصبہ ہے نیانزیلک (Nyanza Lac)۔ یہاں جماعت کی کافی زیادہ مخالفت ہےکیونکہ اس علاقے میں مسلمان بھی ہیں۔ سنی مسجد کے امام نے ہر طرح سے کوشش کی کہ جماعت کی مسجد کو بند کروایا جائے۔ اس کے لیے وہ سرکاری عہدیداروں سے بھی ملا لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ ہمارے معلم حمزہ اِندُووِیمَانَا صاحب کو اس مسجد کے امام نے سوال و جواب کے لیے بلایا۔ سوال و جواب میں وفات مسیح پر بحث شروع ہوئی۔ جب معلم صاحب نے قرآن پاک کے دلائل سے وفات مسیح ثابت کی تو ان نام نہاد علماء سے جواب تو نہ بن سکا البتہ معلم سے لڑائی شروع کر دی اور جماعت پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ اس پر ایک عیسائی نے کھڑے ہو کر جماعت کے موقف کی تائید کی اور اس مولوی کوواضح کیا کہ جماعت احمدیہ مسلمان ہے۔ آپ کا اسلام سمجھ سے باہر ہے۔ ان کا تو سمجھ آتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں۔ دوسری طرف اس مسجد کے مولویوں کی مسجد میں ہی آپس میں لڑائی ہو گئی اور اس وجہ سے حکومت کو دخل اندازی کرنی پڑی اور ان کی مسجد کو تین ماہ کے لیے حکومت نے بند کر دیا۔جو ہماری مسجد کو بند کرنا چاہتے تھے ان کا اپنا یہ حال ہوا کہ مسجد بند ہو گئی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مالی میں قرآن کریم کی نمائش کےانعقادکی بابت کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:مالی میں مبلغ بلال صاحب ہیں۔ کہتے ہیں جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کی نمائش منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ ایک طالب علم سٹال پر آئے انہیں قرآن کریم کے فرنچ ترجمے کا تعارف کروایا گیا کہ موجودہ ترجمے میں جماعتی فرنچ ترجمہ سب سے بہترین ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ان کے گھر میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ موجود ہے جو کہ جماعتی ترجمےسے بہتر ہے۔ اس نوجوان نے یہ کہا۔ بہرحال وہ اپنے گھر گیا اور وہاں سے قرآن کریم لے آیا اور ایک گھنٹے سے زائد وقت یہ بتانے کے لیے لگایا کہ ہمارا، غیراحمدیوں کا ترجمہ بہتر ہے۔ دونوں ترجموں کا موازنہ کرتا رہا۔ بہرحال انصاف پسند طبیعت تھی۔ آخر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ جماعتی ترجمہ بہت اعلیٰ ہے اور حقیقت میں اس سے قرآن کو سمجھنا بہت آسان ہے اور پھر وہ ایک نسخہ قرآن کریم کا خرید کر اپنے ساتھ لے گیا۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گنی بساؤمیں تبلیغ کےلیےریڈیواسٹیشن کےانتظام کی بابت کیا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:گنی بساؤ کے مبلغ لکھتے ہیں۔ گذشتہ دسمبر میں کیپ ورڈ آئی لینڈ کا دورہ کیا تو اس دورہ کے دوران اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ہماری جماعت کا ریڈیو پروگرام ہونا چاہیے جس کی مدد سے زیادہ تیزی کے ساتھ جماعت کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے مگر کافی کوششوں کے باوجود جماعت وہاں رجسٹرڈ نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ریڈیو پروگرام نہیں مل رہا تھا۔ کہتے ہیں دورہ مکمل ہونے کے بعد گنی بساؤ سے بہت سارے لیف لیٹس پرنٹ کر کے کیپ ورڈ بھجوائے گئے۔ وہاں ان کو کثرت سے تقسیم کیا گیا اور کہتے ہیں کہ ایک دوست نے لیف لیٹ پڑھنے کے بعد جماعتی مشن فون کیا اور کہا کہ جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو جماعت کے بارے میں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی تعلیمات ریڈیو پر کیوں نہیں بتاتے؟ اس پر ان کوبتایا گیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں مگر ریڈیو پروگرام ہمیں نہیں مل رہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ میرا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہے۔ میں ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر ہوں۔ آپ میرے ریڈیو پر پروگرام کر سکتے ہیں اور جماعت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک نیا راستہ کھول دیا۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رشیاکےایک نوجوان کےقبول احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:رشیا سے عطاءالواحد صاحب مبلغ لکھتے ہیں ایک نوجوان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام احمدیت کی طرف متوجہ کیا۔ ڈیڑھ سال قبل اس سے رابطہ ہوا تھا۔ ایک چھوٹے قصبے کا رہنے والا نوجوان ہے اور ان کے والد تو مذہب سے دُور ہو گئے تھے لیکن مارسیل کی اہلیہ عیسائی آرتھوڈوکس سے تعلق رکھتی تھیں۔چنانچہ یہ مارسیل نوجوان ہیں ان کے بڑے بھائی عیسائی ہیں لیکن ان کی توجہ ان کے والد کی قومیت کی وجہ سے اسلام کی طرف ہوئی اور ان کے والد پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو والد کی اس توجہ کی وجہ سے اسلام قبول کیا لیکن مسلمانوں کا سنی اسلام قبول کر لیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ تعلیمات کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے تھے جن کے مقامی مولوی تسلی بخش جواب نہیں دے سک رہے تھے۔ اس بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا اور اسی دوران اللہ تعالیٰ نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے ان کا رابطہ جماعت احمدیہ رشیا کے ساتھ کروا دیا۔ یہاں سے مارسیل صاحب کو اپنے سوالات کےتسلی بخش جواب مل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے بہت سی جگہوں پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن حقیقی اسلام احمدیت ہی میں پایا ہے۔چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔
سوال نمبر۸: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برکینافاسو، مہدی آبادمیں نومبائعین کی مضبوطی ایمان اور ثابت قدمی کی بابت کیاواقعات بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا:برکینا فاسو، مہدی آباد کے ایک ناصر سعیدو جیکا صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارے گاؤں کی اکثریت نے احمدیت قبول کر لی تو سعودی عرب میں مقیم میرے ایک کزن نے تمام اخراجات برداشت کر کے ہمیں سعودی عرب بلایا۔ وہاں پہنچے تو اس نے ہمیں خانہ کعبہ کی زیارت کرواتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے مقدس مقامات ہیں۔ اسلام یہاں سے شروع ہوا تھا پاکستان سے نہیں۔ اس لیے یہاں پر قائم وہابی عقیدہ اختیار کرو اور احمدیت چھوڑ دو۔میں نے کہا تم نے اس لیے ہمیں یہاں بلایا تھا۔ اس نے اس بات پہ سر ہلایا۔ پھر میں نے کہا کہ اس مقدس مقام کے سائے میں کھڑا ہو کر دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ مجھے احمدیت چھوڑنی پڑے۔ کہتے ہیں میں نے خانہ کعبہ میں یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے پہلے حالت ایمان میں موت دے دے، کبھی ایسا موقع نہ آئے کہ میں ایمان سے پھروں۔ بہرحال کہتے ہیں اس کے بعد میں جلد برکینافاسو آگیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی ان کا عزیزجو کزن تھا ان کو اور عزیزوں رشتہ داروں سے ملنے کے لیے برکینا فاسو آیا تو الحاج ابراہیم صاحب نے اسے تبلیغ کی اور وہ بھی احمدی ہوگیا۔ بہرحال کہتے ہیں جو ہمیں شکار کرنا چاہتا تھا وہ خود احمدیت کا شکار ہو گیا۔پھر مخالفت میں ثابت قدمی کے بارہ میں برکینا فاسوکے ہی امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈوری ریجن کے معلم عمر ڈیکو (Dicko) صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہابی مُلّاں کا ایک ٹولہ ان کے گھر آیا اور احمدیت ترک کرنے کا کہا اور دھمکی دی کہ ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ عمر ڈیکو صاحب نے کہا کہ بیشک مجھے قتل کر دو لیکن احمدیت چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی میں تبلیغ سے باز آؤں گا۔ تبلیغ بھی کروں گا۔ اس پر وہ شدید غصےمیں چلے گئے۔ اگلے روز کچھ مسلح لوگ ان کے گھر آئے۔ اس پر احمدی احباب نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ ڈوری چلے جائیں۔ اس رات معلم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ دعا میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی چاہی۔ معلم صاحب نے خواب میں اسماعیل نامی ایک شخص کو دیکھا۔ اس نے کہا کہ اے عمر! تو کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا ڈوری۔ اس پر اس نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس خواب کے بعد اگلی صبح انہوں نے ہجرت کرلی اور ان کو پھر ایک رکشے والے نے محفوظ طریقے سے وہاں پہنچا دیا اور ڈوری پہنچتے ہی کہتے ہیں ان کی اہلیہ کا فون آیا کہ مسلح دہشت گرد آئے ہیں اور آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بھی بچا دی۔