اِسراف سے بچو (قسط اوّل)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۷؍جنوری۱۹۱۶ء)
۱۹۱۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ نےاسراف سے بچنے کے موضوع پر ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمٰن وہ نہیں ہوتا جو خرچ نہیںکرتا بلکہ قتر کا لفظ رکھا جس کے معنے ہیں مال جمع کرنے کے۔ اور قاتر اُس کو کہتے ہیں جو مال جمع کرے اور رشتہ داروں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ نہ کرے
تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِیۡرًا۔وَہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَالنَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا۔وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا۔وَالَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ وَالَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّمُقَامًا۔وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔(الفرقان: ۶۲-۶۸)
اِس کے بعد فرمایا:یہ چندآیات جو میں نے اِس وقت پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی تعریف بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ یوں کیا کرتے ہیں۔ یوں تو بہت سے لوگ ہیں جو بڑے شوق سے اپنے لڑکے کا نام عبدالرحمٰن رکھتے ہیں اور بہت ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ کون ہو؟ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ کے بندے ہیں‘‘اور لوگوں کے دعویٰ کرنے کو چھوڑد وواقعہ میں بھی سب لوگ خدا ہی کے بندے ہیں اور جتنی بھی چیزیں دنیا کی ہیں خواہ وہ انسان ہیں یاحیوان، چرند یا پرند،سب خدا ہی کے بندے ہیں کیونکہ وہ کون سی چیز ہے جو خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سب کوپیدا کیا ہے۔پس اس لحاظ سے سب خدا ہی کے بندے ہیں۔پھر اِس لحاظ سے کہ خدا ہی سب کو قائم رکھنے والا ہے اور اسی کے اختیار میں ہر ایک جاندار اور بے جان کا قائم رکھنا ہے، اسی کے بندے ہیں۔ پھر اس لحاظ سے بھی کہ ہرایک چیز خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی فرمانبرداری کرتی ہے۔ گو خدا کو بھی بعض لوگ نہیں مانتے مگر جو اس کے قوانین ہیں ان سے ذرّہ بھر نکلنا بھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی طاقت میں نہیں ہے۔ مثلاً آنکھوں سے دیکھنا اور کانوں سے سننا خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اب یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ آنکھوں سے سننے کا کام لے اور کانوں سے دیکھنے کا۔ تو
خدا کے قانون سے کوئی نہیں نکل سکتا اس لئے بھی سب عبادُالرحمٰن ہیں۔
لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ عبادُالرحمٰن بن جائو۔ چنانچہ پاک روحوں کے لئے فرماتا ہے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔(فجر: ۳۱،۳۰) میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ خدا تعالیٰ کے بندے تھے کیونکہ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا تھا خدا ہی ان کا رازق تھا، خدا ہی ان کا مالک تھا، خدا ہی ان کو قائم رکھتا تھا۔ پھر جو فرمایا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا بندہ ہونا دو رنگ میں ہوتا ہے۔غرض ایک لحاظ سے توتمام انسان خدا کے بندے ہیں لیکن ایک لحاظ سے بعض بندے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ اس لحاظ سے تو خدا کے بندے وہ کہلاتے ہیں جو اس کے تمام احکام کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں۔ اور جو نہیں کرتے وہ اس لحاظ سے خدا کے بندے نہیں ہوتے بلکہ شیطان کے بندے ہوتے ہیں، اپنے نفس کے بندے ہوتے ہیں اور انسانوں کے بندے ہوتے ہیں۔
اِن آیات میں خدا تعالیٰ نے عبادا لرحمٰن کی تعریف فرمائی ہے
اور یہاں وہی لوگ مراد ہیں جن کا ذکر فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ میں ہے اور یہاں عبد سے مراد عابد ہے۔ غرض
ان آیات میں عبادُالرحمٰن کی کچھ باتیں خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں کہ جن میں وہ پائی جائیں وہ عبادُالرحمٰن ہوتے ہیں۔
ا ِس وقت میری غرض ان میں سے ایک بات کو بیان کرنا ہے جو سب سے آخری آیت میں بیان فرمائی ہے۔ خدا تعالیٰ نے عبا دالرحمٰن کی ایک تعریف یہ فرمائی ہے کہ وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔
جب وہ انفاق یعنی خرچ کرتے ہیں تو یہ دو باتیں ان کے مدنظر ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ لَمۡ یُسۡرِفُوۡا خرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے۔ دوئم لَمۡ یَقۡتُرُوۡابخل نہیں کرتے۔
مال کو جمع نہیں کرتے۔ قتر کے معنی مال کے جوڑنے اور جمع کرنے کے ہیں۔ قاتر وہ جومال کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ جمع کرنے سے ہی بخل کے معنی لئے گئے۔ کیونکہ انسان مال جمع تبھی کر سکتا ہے جب خرچ نہ کرے اور اسی کو بخیل کہتے ہیں پس
قاتر کے اصل معنی یہ ہیں کہ جو مال جمع کرے اوران لوگوں پر خرچ نہ کرے جن پر خرچ کرنا اس کے ذمہ ہے۔
اس آیت میں خرچ نہ کرنے والے کی نسبت خدا تعالیٰ نے کیا عجیب لفظ رکھا ہے یہ نہیں فرمایا کہ وہ جو اپنے رشتہ داروں اور محتاجوں وغیرہ پر خرچ نہیں کرتا وہ بُرا ہے کیونکہ جس کے پاس مال نہ ہووہ بھی تو خرچ نہیں کرتا ،پھرکیا وہ خدا کے بندوں سے نکل جائے گا؟مثلاً ایک شخص خود بھوکا ہے اس سے کوئی محتاج آکر مانگتا ہے کہ مجھے کھانے کو دو لیکن وہ کچھ نہیں دیتا تو کیا ایسا آدمی بھی خدا کے حضور بخیل ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ ہاں
ایک ایسا شخص جس کے پاس دینے کے لئے ہے مگر نہیں دیتا وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ملزم ہے۔
تو یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمٰن وہ نہیں ہوتا جو خرچ نہیںکرتا بلکہ قتر کا لفظ رکھا جس کے معنے ہیں مال جمع کرنے کے۔ اور
قاتر اُس کو کہتے ہیں جو مال جمع کرے اور رشتہ داروں، مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ نہ کرے۔
پس اِس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا کہ جس کے پاس مال نہ ہو اُس پر کوئی اعتراض نہیںاعتراض صرف اُس پر ہے جس کے پاس مال ہے اور وہ بجائے حاجت مندوں پر خرچ کرنے کے اُسے جوڑتا ہے۔ اِسی طرح اِس لفظ کے ذریعہ سے یہ بھی بتا دیا کہ خالی مال جوڑنا منع نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس اس قدر مال ہو کہ وہ ان لوگوں پر خرچ کرنے کے بعد جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے اور غرباء کی مدد کرنے کے بعد بھی مالدار ہے تو اُس کامال جمع کرنا گناہ نہیں۔ خیر اِس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اگر کوئی عبدالرحمٰن بننا چاہے تو اس کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے۔
اوّل یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے۔ اس کا کھانا صرف تکلف اور مزے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قوت، طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے اس کا پہننا آرائش کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جواُسے حیثیت دی ہوتی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لئے ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہؓ کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ شام کو تشریف لے گئے تو وہاں بعض صحابہؓ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ (ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میںکسی قدرریشم تھا ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے پہننے مردوں کو منع ہیں) آپؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اِن لوگوں پر خاک پھینکو۔اور ان سے کہو کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو۔ اس پر ان میں سے ایک نے اپنا کرتا اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہواکہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتا پہنا ہوا تھا۔ اس نے حضرت عمر ؓکو بتایا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم اِن کو پسند کرتے ہیںبلکہ
اِس لئے کہ اِس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے اور یہ بچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان وشوکت سے رہتے تھے۔
پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوںکو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں۔(طبری بحوالہ الفاروق حصہ اول صفحہ ۷۴)
پس صحابہؓ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش و زیبائش ہو۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭