خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 6؍ ستمبر 2024ء

نبی اکرمﷺ نے جنگِ احزاب سے قبل ابوسفیان کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا:
سنو! انجام کار خدا ہمیں کامیاب کرے گا اور اے بنو غالب کے احمق! یاد رکھو کہ ایک دن آئے گا کہ تمہارے لات، عُزّیٰ، اِساف، نائلہ اور ہُبل ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے اور اس دن مَیں تمہیں یہ سب یاد دلاؤں گا

خندق کھودنے کا فیصلہ صرف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طریق بتایا تھا

غزوۂ احزاب کے اسباب اور اس کے ابتدائی حالات و واقعات کا بیان

پاکستان کے احمدیوں اور عمومی طور پر دنیا کی بہتری کے لیے دعاؤں کی تحریک نیزپاکستان کے احمدیوں کو دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ کرنے کی تلقین

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 6؍ستمبر 2024ء بمطابق 6؍تبوک 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج میں

غزوۂ خندق یا غزوۂ احزاب کا ذکر

کروں گا جو پانچ ہجری بمطابق فروری اور مارچ 627ء میں ہوئی تھی۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ573)

قرآن کریم میں جنگ احزاب کا ذکر اس طرح آیا ہے:اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ﴿۱۰﴾ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۱﴾ ہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۲﴾ وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۳﴾ وَ اِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا وَ یَسۡتَاۡذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوۡرَۃٌ وَ مَا ہِیَ بِعَوۡرَۃٍ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۴﴾ وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا ﴿۱۵﴾ وَ لَقَدۡ کَانُوۡا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنۡ قَبۡلُ لَا یُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ وَ کَانَ عَہۡدُ اللّٰہِ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۱۶﴾ قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۷﴾ قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعۡصِمُکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ رَحۡمَۃً وَ لَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿۱۸﴾ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الۡمُعَوِّقِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الۡقَآئِلِیۡنَ لِاِخۡوَانِہِمۡ ہَلُمَّ اِلَیۡنَا وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۹﴾ اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۲۰﴾ یَحۡسَبُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ لَمۡ یَذۡہَبُوۡا وَ اِنۡ یَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ یَوَدُّوۡا لَوۡ اَنَّہُمۡ بَادُوۡنَ فِی الۡاَعۡرَابِ یَسۡاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآئِکُمۡ وَ لَوۡ کَانُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۲۱﴾ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿۲۲﴾ وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿۲۳﴾ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿۲۴﴾ لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۲۵﴾ وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿۲۶﴾

(الاحزاب : 10تا 26)

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تمہارے پاس لشکر آئے تھے تو ہم نے ان کے خلاف ایک ہوا بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے۔ اور یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس پر گہری نظر رکھنے والا ہے۔جب وہ تمہارے پاس تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (اچھلتے ہوئے) ہنسلیوں تک جاپہنچے اور تم لوگ اللہ پر طرح طرح کے گمان کررہے تھے۔ وہاں مومن ابتلاء میں ڈالے گئے اور سخت (آزمائش کے) جھٹکے دیئے گئے۔اور جب منافقوں نے اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں مرض تھا، کہا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے دھوکے کے سوا کوئی وعدہ نہیں کیا۔اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے اہل یثرب! تمہارے ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں رہا پس واپس چلے جاؤ۔ اور ان میں سے ایک فریق نے نبی سے یہ کہتے ہوئے اجازت مانگنی شروع کی کہ یقیناً ہمارے گھر غیرمحفوظ ہیں حالانکہ وہ غیرمحفوظ نہیں تھے۔ وہ محض بھاگنے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔اور اگر ان پر اس (بستی) کے ہر طرف سے چڑھائی کردی جاتی پھر ان سے فساد کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ ضرور اس کے مرتکب ہوجاتے اور اس پر توقف نہ کرتے مگر معمولی۔حالانکہ اس سے پہلے وہ یقیناً اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ وہ پیٹھیں نہیں دکھائیں گے اور اللہ سے کیا ہوا عہد ضرور پوچھا جائے گا۔تو کہہ دے کہ تمہیں بھاگنا ہرگز فائدہ نہیں دے گا اگر تم موت یا قتل سے بھاگو گے اور اس صورت میں تم کچھ فائدہ نہیں دیئے جاؤ گے مگر تھوڑا سا۔تُو پوچھ کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے یا تمہارے حق میں رحمت کا فیصلہ کرے؟ اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار۔اللہ تم میں سے ان کو خوب جانتا ہے جو (جہاد سے) روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آجاؤ۔ اور وہ لڑائی کے لیے نہیں آتے مگر بہت کم۔تمہارے خلاف بہت خساست سے کام لیتے ہیں۔ پس جب کوئی خوف (کا موقعہ) آتا ہے تُو انہیں دیکھے گا کہ وہ تیری طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں (دہشت سے) گھوم رہی ہوتی ہیں اس شخص کی طرح جس پر موت کی غشی طاری کردی جائے۔ پس جب خوف جاتا رہتا ہے تو وہ (اپنی) تیز زبانوں سے تمہیں ایذاء پہنچاتے ہیں بھلائی کے معاملہ میں بخل کرتے ہوئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (فی الحقیقت) ایمان نہیں لائے۔ پس اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے اور یہ بات اللہ پر بہت آسان ہے۔وہ گمان کرتے ہیں کہ لشکر ابھی تک نہیں گئے۔ اور اگر لشکر (واپس) آجائیں تو وہ (حسرت سے) چاہیں گے کہ کاش وہ ویرانوں میں بدوؤں کے درمیان رہتے ہوتے (اور) تمہارے حالات معلوم کر رہے ہوتے اور اگر وہ تم میں ہوتے بھی تو قتال نہ کرتے مگر بہت کم۔یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہی تو ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس نے ان کو نہیں بڑھایا مگر ایمان اور فرمانبرداری میں۔مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز (اپنے طرز عمل میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔(یہ اس لیے ہے) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو اگر چاہے تو عذاب دے یا توبہ قبول کرتے ہوئے ان پر جھکے۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیظ سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کرسکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہو گیا۔ اور اللہ بہت قوی (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘

(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

یہ قرآن شریف کی آیات کا ترجمہ ہے۔

اس جنگ کی وجہ تسمیہ

کہ جنگ کا یہ نام کس طرح رکھا گیا۔ اس جنگ کو جنگِ خندق بھی کہا جاتا ہے کیونکہ عرب کے دستورکے، رواج کے خلاف پہلی مرتبہ مسلمانوں نے خندق کھود کر دفاعی جنگ لڑی تھی اور اس کو جنگِ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو یہ نام دیا ہے۔ احزاب حِزب کی جمع ہے جس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں۔ چونکہ اس جنگ میں عرب کی مختلف جماعتیں اور گروہ اکٹھے مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے اس لیے اس جنگ کو جنگِ احزاب کہا گیا ہے۔

اس کی وجہ

بیان کی جاتی ہے کہ ربیع الاوّل چار ہجری میں یہود کا قبیلہ بنو نضیر اپنی عہد شکنی، بغاوت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جیسی سازشوں کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا۔ اس عہد شکن باغی قبیلہ کی سزا تو اس سے کہیں سخت تھی لیکن ان کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر اور رحم فرماتے ہوئے ان کو جلاوطن کر دیا جس پر یہ قبیلہ اپنا سارا سازو سامان لے کر مدینہ سے کچھ دور خیبر جا کر آباد ہو گیا لیکن ابھی چار مہینے ہی گزرے تھے کہ احسان فراموش اور سازشی کردار کے حامل یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف ایک ایسا خوفناک منصوبہ بنایا کہ جس کے مطابق مسلمان مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔ منصوبے کے مطابق بنو نضیر کا سردار حُیَّی بِنِ اَخْطَبْ جو اپنے غرور اور تکبر اور اسلام کے خلاف کینہ اور جوش کی وجہ سے یہود کا ابوجہل کہلائے جانے کا مستحق ہے اپنے سرکردہ ساتھیوں کے ساتھ مکہ گیا اور ابوسفیان اور دیگر قریشی عمائدین سے ملاقات کی اور قریش کو کہا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم تمہارے پاس آئے ہیں تا کہ ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایک معاہدہ کریں۔ مشرکینِ قریش کو اَور کیا چاہیے تھا وہ تو پہلے ہی یہ خونی عزائم رکھتے تھے اور بدر اور احد جیسی جنگی کارروائیاں کر چکے تھے لیکن اپنی دلی مراد پوری نہیں کر سکے تھے۔ بدر کے انتقام اور احد کی ندامت کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ ابوسفیان نے بنو نضیر کے ان سرداروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ تم اپنے گھر آئے ہو اور تمام لوگوں میں سے ہمیں وہ زیادہ محبوب ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دشمنی پر ہماری مدد کرے۔ باہم گفت و شنید کے بعد قریش کے پچاس لوگوں اور ان یہود نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑتے ہوئے پختہ عہد کرتے ہوئے قسمیں کھائیں کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف ان سب کی بات ایک ہو گی اور ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کو ملیا میٹ کر دیں گے۔ بہرحال ابوسفیان کے ساتھ مدینہ پر ایک زبردست حملہ کرنے کی سکیم اور تاریخ طے کرنے کے بعد بنو نضیر کا یہ وفد عرب کے ان دوسرے قبائل کی طرف گیا جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور کئی ایک ناکام حملے بھی کر چکے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ بنو غطفان کے پاس گیا۔ یہ ملک عرب میں ایک بہادر قبیلہ شمار ہوتا تھا اور مسلمانوں کے خلاف بغض اور کینے میں نمایاں تھا۔ یہود نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کی دعوت دی اور ساتھ خیبر کی ایک سال کی کھجوریں دینے کا لالچ بھی دیا اور یہ بھی بتایا کہ قریش مکہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اس پر بنو غطفان نے بھی حمایت کا وعدہ کر لیا اور اپنی طرف سے چھ ہزار فوج کی ضمانت دی۔ اس کے بعد یہود کا یہ گروہ بنو سلیم کے پاس گیا۔ یہ ایک دوسرا قبیلہ تھا جو مسلمانوں پر پہلے سے حملہ کرنے کے عزائم رکھتا تھا لیکن ناکام ہو چکا تھا۔ جب اتنے بڑے اتحادی فوجی حملہ کا اس قبیلے کو علم ہوا تو بخوشی اس نے بھی حامی بھر لی۔

(ماخوذ ازسبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ363-364 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ احزاب از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ 62 مطبوعہ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)

اسی طرح بنو فَزَارَہ اپنے سردار عُیَینہ کی سربراہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے اور عیینہ نے اپنے دوست قبیلے بنو اسد کو دعوت دی، چنانچہ بنو اسد کے سردار طُلَیْحَہ اَسَدِی نے بھی یہ دعوت قبول کر لی اور بنو مُرَّة اور بنو اشجع قبائل نے بھی اس جنگ کی افرادی قوت میں خاصہ اضافہ کیا۔ یہ سارے وہ قبائل تھے جو اپنی بہادری میں پورے عرب میں ایک نام رکھتے تھے۔

(ماخوذ از سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 07صفحہ 270-271 دار السلام ریاض)

اس کی تفصیل لکھتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’مکہ کے قریش اورنجد کے قبائل غَطَفَان وسُلَیم گوپہلے سے ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور آئے دن مدینہ کے خلاف حملہ آوری کی فکر میں رہتے تھے مگر ابھی تک انہوں نے اپنی طاقتوں کو اسلام کے خلاف ایک میدان میں مجتمع نہیں کیا تھا۔ لیکن جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے لوگ اپنی غداری اورفتنہ انگیزی کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کیے گئے توان کے رؤساء نے اس شریفانہ بلکہ محسنانہ سلوک کوفراموش کرتے ہوئے۔‘‘یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پہ بہت بڑا احسان کیا تھا۔ اس کو فراموش کرتے ہوئے ’’جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا آپس میں یہ تجویز کی کہ عرب کی تمام منتشر طاقتوں کو ایک جا جمع کر کے اسلام کوملیا میٹ کرنے کی کوشش کی جاوے اورچونکہ یہودی لوگ بڑے ہوشیار وچالاک تھے اور اس قسم کے سازشی کاموں میں خوب مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کی مفسدانہ کوششیں بارآور ہوئیں اور قبائل عرب ایک جان ہوکرمسلمانوں کے خلاف میدان میں نکل آئے۔

یہودی رؤساء میں سے سَلَّام بن اَبِی الحُقَیق،حُیَیّ بن اخطب اور کِنَانَہ بن اَلرَّبِیع نے اس اشتعال انگیزی میں خاص طورپر حصہ لیا۔ چنانچہ ان فتنہ پردازوں نے اپنے نئے وطن خیبر سے نکل کر حجاز اورنجد کے قبائل کادورہ کیا اور سب سے پہلے مکہ میں پہنچ کر قریش کواپنے ساتھ گانٹھا اور رؤسائے قریش کوخوش کرنے کے لیے اس بات تک کے کہنے سے دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے دین سے تمہارا دین (شرک وبت پرستی) اچھا ہے۔‘‘یہ ان کو ان لوگوں نے کہا۔ ’’اس کے بعد انہوں نے نجدمیں جاکر قبیلہ غَطَفَان کواپنے ساتھ ملایا اوراس قبیلہ کی شاخہائے فَزَارَہ اورمُرَّہ اور اشجع وغیرہ کو اپنے ساتھ نکلنے کے لیے تیار کر لیا۔ پھرقریش اورغطفان کی انگیخت سے قبائل بنوسُلَیم اوربنو اسد بھی اس مخالفِ اسلام اتحاد کی کڑی میں منسلک ہو گئے اوردوسری طرف یہود نے اپنے حلیف قبیلہ بنو سعد کوپیغام بھیج کر اپنی اعانت کے لیے کھڑا کر لیا۔ اس زبردست اتحاد کے علاوہ قریش نے اپنے گردونواح کے قبائل میں سے بھی بہت سے لوگوں کو جو ان کے توابع میں سے تھے اپنے ساتھ ملا لیا اورپھر پوری تیاری کے بعد صحرائے عرب کے یہ خونخوار قبائل مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے کے ارادے سے ایک سَیلِ عظیم کی طرح مدینہ پر امڈ آئے اور یہ عزم کیا کہ جب تک اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا نہیں لیں گے واپس نہیں لوٹیں گے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ573-574)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ’’یہود کے دو‘‘قبیلے ’’…جولڑائی، فساد،قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے۔ ان میں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اورایک قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔ مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے۔ اسی طرح غَطَفَان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اِسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا۔ اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سُلَیم اور بنواسد دو اَور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اس کو بھی کفارِ مکہ کاساتھ دینے کے لیے تیا رکیا۔ ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کے اِردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے۔ اِن سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ267)

قریش اور دیگر قبائل کا اس جنگ کے لیے روانہ ہونا اور ان کی تعداد

کے بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہے۔ لکھا ہے کہ قریش مکہ چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ ان کی قیادت ابوسفیان کر رہا تھا۔ سواروں کی کمان خالد بن ولید کر رہا تھا۔ انہوں نے دارالندوہ میں جھنڈا باندھا جو قریش کی مجلس شوریٰ کی جگہ تھی اور اس کو عثمان بن طلحہ نے اٹھایا۔ انہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور اپنے ساتھ تین سو گھوڑے لیے اور ان کے ساتھ پندرہ سو اونٹ تھے۔ بنوسلیم کے سات سو افراد قریش کے ساتھ آ ملے۔ ان کی قیادت اب سفیان بن عبد شمس کر رہا تھا۔ بنو اسد طلیحہ بن خویلد کی قیادت میں روانہ ہوئے اور بنو فزارہ کے ایک ہزار افراد نکلے جن کی قیادت عیینہ بن حِصن کر رہا تھا۔ بنو اشجع کے چار سو افراد نکلے اور ان کا قائد مسعود بن رُخَیلہ تھا۔ بنو مُرَّہ کے چار سو آدمی روانہ ہوئے اور ان کی قیادت حارث بن عوف مُرِّی کر رہا تھا۔ بنو غطفان کی طرف سے چھ ہزار فوجیوں کا وعدہ تھا اور یہود کی طرف سے دو ہزار سے زائد کی ریزرو فوج تھی جو اس بڑے لشکر کے پیچھے ایک آخری ضرب لگانے کے لیے تیار کھڑی ہو گی اور یوں مختلف قبائل کے لوگ جو اس جنگ میں شریک ہوئے ان کی تعداد کم سے کم دس ہزار اور بعض روایات کے مطابق چوبیس ہزار کے قریب تھی۔ ان سب کی قیادت ابوسفیان بن حرب کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت تک کی تاریخِ عرب کی سب سے بڑی فوجی مہم تھی۔

(حیات محمؐداز محمد حسین ہیکل صفحہ 434 مطبوعہ بک کارنر جہلم)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ364 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ احزاب از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ153مطبوعہ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
(فرہنگ سیرت صفحہ299 زوار اکیڈیمی کراچی)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ  اس بارے میں لکھتے ہیں کہ

’’کفار کے اس عظیم الشان لشکر کا اندازہ دس ہزار نفوس سے لے کر پندرہ ہزار بلکہ بعض روایات کی رُو سے چوبیس ہزار تک لگایا گیا ہے۔

اگر دس ہزار کے اندازے کوہی صحیح تسلیم کیا جاوے توپھر بھی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ تعداد اتنی بڑی تھی کہ غالباً اس سے پہلے عرب کی قبائلی جنگوں میں اتنی بڑی تعداد کبھی کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئی ہو گی …سارے لشکر کا قائداعظم یعنی سپہ سالار ابوسفیان بن حَرْب تھا…سامان خورونوش اورسامانِ جنگ بھی ہرطرح کافی وشافی تھا۔ اس طرح یہ لشکر شوال پانچ ہجری مطابق فروری ومارچ 627ءمیں مدینہ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 574)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ’’مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہو سکتا۔ یقیناً چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اَور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا۔ مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا۔ اِس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی چڑھائی نہیں تھی۔ مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے۔ اس کے برخلاف دشمن کی فوج بیس اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے۔ جوان اور لڑنے کے قابل تھے کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ مگر جب دور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو اس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ کفار کے لشکر میں بیس ہزار یا پچیس ہزار، جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط، جوان اور تجربہ کار سپاہی تھے۔ لیکن مدینہ کے کُل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہجوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار سمجھنی چاہیے‘‘کیونکہ مقابلہ کوئی نہیں ’’اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد بیس ہزار سمجھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہیے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ267-268)کیونکہ ان میں کمزور لوگ شامل تھے۔

بہرحال کفار اپنی جنگ کی نیت سے آگے بڑھتے رہے اور اس کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو اس وقت

آپؐ نے فیصلہ کیا کہ خندق کھودی جائے۔

اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شعبہ جاسوسی یعنی انٹیلی جنس بھی اس ساری صورتحال سے بے خبر نہ تھا اور چاروں طرف سے خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ رہی تھیں۔ قریش اور یہود کے اس خوفناک منصوبے کی اطلاعات مدینہ میں پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور ان کو دشمن کے بدارادوں کی خبر دی اور مشورہ کیا کہ مدینہ سے نکل کر مقابلہ کریں یا اس میں رہ کر ان سے جنگ کریں۔ ایک بہت بڑے فوجی لشکر اور اس کے مقابلے میں بہت بڑی تعداد کے پیش نظر زیادہ تر رائے یہ سامنے آئی کہ مدینہ کے اندر رہتے ہوئے دفاع کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ روایات کے مطابق حضرت سلمانؓ کے مشورہ کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے خندق کا مشورہ دیا اور کہا یا رسول اللہ! ہم فارس کی زمین میں جب گھوڑوں کی جماعت سے ڈرتے تو ان کے آگے خندق کھود دیتے تھے یعنی اگر گھوڑوں والی فوج آتی تھی تو خندق کھود دیتے تھے جس کی وجہ سے وہ اس کو عبور کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ تو یہ رائے سب کو اچھی لگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اندر رہتے ہوئے دفاع کرنے کا فیصلہ فرمایا اور خندق کھودنے کا ارشاد فرمایا۔

بعض کتب سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ

خندق کھودنے کا فیصلہ صرف حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طریق بتایا تھا

کیونکہ عرب کے لیے یہ طریق بالکل نیا تھا۔ وہ دفاعی خندقیں کھودنے کے طریق سے ناواقف تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب ابوسفیان طاقت کے نشے سے چُور ایک لشکر جرار لے کر مدینہ کی طرف حملہ آور ہوا اور جب اسے اہلِ مدینہ کی طرف سے کہیں بھی کوئی روک نظر نہ آئی اور اس کو کوئی اسلامی فوج دکھائی نہ دی تو اول تو اس کو اپنے ایک بہت بڑے لشکر کی وجہ سے ہی یہ گھمنڈ تھا کہ آج اہلِ مدینہ کو ان کے ہاتھوں سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اس نے کہا اب تو میں مدینہ کوختم کر کے ہی جاؤں گا اور جب مدینہ تک کے راستے میں کہیں بھی کوئی مزاحمتی روک نظر نہ آئی تو غرور اور تکبر میں اَور بھی بڑھ گیا لیکن جب اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے وہ عین مدینہ کے قریب پہنچا تو اچانک اپنے سامنے پانچ کلو میٹر لمبی آٹھ نو فٹ گہری اور چوڑی خندق دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ یہ خندق اتنی گہری اور چوڑی تھی کہ گھوڑوں سے بھی اس کو عبور کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ جب یہ لوگ اس خندق کو عبور کرنے سے عاجز آگئے تو اپنے شدید غصے اور بے بسی اور غرور اور تکبر کے ملے جلے جذبات میں اس نے یہاں سے ایک خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا جس میں اس نے لکھا کہ لات، عُزیٰ، اِساف، نائلہ اور ہبل کی قَسم ہے کہ میں اپنے لشکر کے ساتھ آیا تھا کہ تب تک واپس نہ جاؤں گا جب تک تم لوگوں کا نام و نشان مٹا کر نہ رکھ دوں لیکن مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ہمارے مقابلے سے کترا رہے ہو اور اپنے گردا گرد خندقیں کھود لی ہیں۔ اے کاش مجھے معلوم ہو کہ تمہیں یہ طریق کس نے بتایا ہے اور اگر ہم واپس چلے بھی گئے تو یاد رکھنا کہ جنگِ احد کا دن پھر ایک بار تمہیں یاد دلا دیں گے کہ جس میں اب تمہاری عورتیں بھی ذبح کی جائیں گی۔ یہ خط اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔

اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو خط لکھا اور فرمایا تمہارا خط ملا۔ میں جانتا ہوں کہ تم سدا سے اللہ تعالیٰ کے خلاف غرور میں مبتلا ہو اور یہ جو تم نے مدینہ پر اپنے لشکر جرار کے ساتھ ایسا حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے کہ جس سے تم ہمارا نام و نشان مٹا دینے کا عزم کیے ہوئے ہو تو یہ تو اللہ کا حکم ہے کہ جوتیرے ناپاک عزائم کے درمیان حائل ہو گیا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو ناپاک عزائم تھے ان کے درمیان حائل ہو گیا، تمہیں یہ موقع نہیں مل سکا۔ اور پھر لکھا کہ اور وہ اپنا ایسا فیصلہ کر دے گا یعنی اللہ تعالیٰ اپنا ایسا فیصلہ کر دے گا کہ تم لات اور عزیٰ کا نام تک بھول جاؤ گے اور جو تم نے یہ کہا ہے کہ خندق کھودنے کا مجھے کس نے بتایا ہے تو فَاِنَّ اللّٰہَ اَلْہَمَنِیْ ذَالِکَ۔ یہ طریق مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے۔ جب تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کا غیظ و غضب بڑھ گیا تھا تو اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا۔ اور سنو !آگے آپؐ نے یہ لکھا کہ

سنو! انجام کار خدا ہمیں کامیاب کرے گا اور اے بنو غالب کے احمق! یاد رکھو کہ ایک دن آئے گا کہ تمہارے لات، عُزّٰی، اِساف، نائلہ اور ہُبَل ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے اور اس دن میں تمہیں یہ سب یاد دلاؤں گا۔

(سبل الہدیٰ جلد 5 صفحہ 364 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
( خاتم النبیین ازابوزہرۃ جلد 2 صفحہ 942 المؤتمر العالمی)
(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وسلم جلد 10 صفحہ 197 المرکز الاسلامی للدراسات بیروت2006ء)

تو بڑا واضح طور پر اس کولکھا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ فتح ہماری ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ ہرچند کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا ہو گا لیکن اس پر عمل کرنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الہاماً ہی فرمایا ہو گا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال ان کا مشورہ بھی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی آپؐ کو اس بارہ میں آگاہ کیا۔ باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

آجکل پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں۔

پاکستانی احمدی خود بھی دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ صدقات کی طرف توجہ دیں۔

اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے اور مخالفین کے شر سے ان کو بچائے اور شریروں کے شر ان لوگوں پر الٹائے۔ عمومی طور پر دنیا کی بہتری کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی فتنہ و فساد سے بچائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button