حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہر سچی بات (حکمت اور موقع محل کے بغیر)قولِ سدیدنہیں

قولِ سدید کا یہ بھی معیار ہے کہ جو الفاظ منہ پر آئیں وہ معقولیت بھی رکھتے ہوں۔ یہ نہیں کہ جو اُول شلول ہم نے سچ بولنا ہے، ہم نے بول دینا ہے۔ بعض دفعہ بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کہی بھی جائیں۔ وہ معقولیت کا درجہ نہیں رکھتیں۔ فتنہ اور فساد کا موجب بن جاتی ہیں۔ کسی کا راز دوسروں کو بتانے سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بات ایک موقع پر ایک جگہ پر معقول نہیں، لیکن دوسرے موقع اور جگہ پر یہ کرنی ضروری ہوجاتی ہے۔ مثلاً خلیفۂ وقت کے پاس بعض باتیں لائی جاتی ہیں جو اصلاح کے لئے ہوں۔ پس اگر ایسی بات ہو تو گو ہر جگہ کرنے والی یہ نہیں ہوتی لیکن یہاں آ کر وہ معقولیت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ پس ایک ہی بات ایک جگہ فساد کا موجب ہے اور دوسری جگہ اصلاح کا موجب ہے۔

پھر معقولیت کی مزید وضاحت بھی فرما دی کہ کسی قسم کی لغو اور فضول بات قولِ سدید کے نام پر نہ ہو۔ بعض لوگ بات تو صحیح کر دیتے ہیں، اپنے زُعم میں اصلاح کے نام پر بات پہنچاتے ہیں لیکن اُس میں اپنی طرف سے وضاحت کے نام پر حاشیہ آرائی بھی کر دیتے ہیں۔ یہ پھر قولِ سدیدنہیں رہتا بلکہ بعض حالات میں قولِ سدید کا خون ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک صحیح بات ایک آدھ لفظ کی حاشیہ آرائی سے اصلاح کرنے والوں کے سامنے، یا بعض دفعہ اگر میرے سامنے بھی آ رہی ہو تو حقیقت سے دُور لے جاتی ہے اور نتیجۃً اصلاح کا صحیح طریق اپنانے کے بجائے غلط طریق اپنایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اصلاح کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ اصلاح نرمی سے سمجھانے یا صَرفِ نظر کرنے یا پھر معمولی سرزنش کرنے سے بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک غلط لفظ فیصلہ کرنے والے کو سخت فیصلہ کرنے کی طرف لے جاتا ہے جس سے بجائے اصلاح کے نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ، سچائی کے ساتھ حکمت بھی مدّنظر رہنی چاہئے۔ اگر حکمت ہو گی تو تبھی قولِ سدید بھی ہو گا۔ اور حکمت یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور امن کا قیام ہر سطح پر ہو، یہ مقصود ہو نہ کہ فساد۔

پس اس حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے۔ یعنی ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قولِ سدیدنہیں ہے۔ یہ پھر لغویات اور فضولیات میں شمار ہو جائے گا۔ اور یہ صورتِ حال بجائے ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہے۔ پس ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قولِ سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر باریکی سے اس بات پر نظر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے انسان پر پڑتی ہے۔

(خطبہ جمعہ ۲۱؍جون ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍جولائی ۲۰۱۳ء)

مزید پڑھیں: دلوں کی سختی سے کیا مراد ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button