تعارف کتاب

آئینۂ کمالاتِ اسلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف آئینۂ کمالاتِ اسلام کے تعارف پر جامعہ احمدیہ گھانا میں علمی نشست

مؤرخہ 3نومبر 2019ء کو جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک کتاب‘‘آئینہ کمالات اسلام ’’کے تعارف پر مبنی علمی نشست کا انعقادکیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا جو عزیزم مصطفی کریکری نے کی۔بعد ازاں مکرم عبدالسمیع خاں صاب نے کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور آخر پرطلباء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔اس کتاب کا مختصر تعارف اور خلاصہ مضامین ذیل میں پیش خدمت ہے۔

تعارف

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان تصنیف لطیف ‘آئینہ کمالات اسلام’کا دوسرا نام ‘دافع الوساوس’ ہے۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ اردو میں ہے جبکہ دوسرا حصہ ‘التبلیغ’ کے نام سے عربی میں ہے۔یہ کتاب روحانی خزائن جلد نمبر 5میں ہے اور اس کے کل 658صفحات ہیں ۔اس کتاب کی اشاعت فروری 1893ء میں ہوئی۔

اس معرکہ آراء تصنیف میںملائکۃ اللہ کی حقیقت،روح القدس کی دائمی رفاقت،مقام فنا،بقا اور لقا کی تفصیل، حقیقت اسلام، خاندانی سوانح،گورنمنٹ برطانیہ کا ذکر خیر،ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام،آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں معجزہ نما قصیدہ اورجلسہ سالانہ کے اغراض ومقاصد وغیرہ جیسے اہم مضامین شامل ہیں ۔اس کتاب کی عند اللہ مقبولیت کے حوالے سے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘اس کتاب کی تحریر کے وقت دو د فعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے

ھٰذَا کِتَابُٗ مُبَارَکُٗ فَقُوۡمُوۡا لِلۡاِجۡلَالِ وَالۡاِکۡرَامِ

یعنے یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائو۔’’(صفحہ652)

عربی حصہ بعنوان ‘التبلیغ’

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کا عربی حصہ جو‘التبلیغ’ کے عنوان سے تحریر فرمایا،وہ حضور ؑ کی عربی زبان میں پہلی تصنیف ہے۔اس سے قبل آپ ؑ نے عربی زبان میں نہ کوئی تصنیف فرمائی تھی اور نہ ہی کوئی مضمون لکھا تھا۔اس عربی حصہ کے متعلق حضور ؑ فرماتے ہیں :
‘‘پنجاب اور ہندوستان اور ممالک عرب اور فارس اور روم اور مصر اور ایران اور ترکستان اور دیگر بلاد کے پیرزادوں اور سجادہ نشینوں اور بدعتی فقیروں اور زاہدوں اور صوفیوں اور خانقاہوں کے گوشہ گزینوں کی طرف۔ایک مجلس میں میرے مخلص دوست حبی فی اللہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے بتاریخ ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۳ء بیان کیا کہ اس کتاب دافع الوساوس میں اُن فقراء اور پیرزادوں کی طرف بھی بطور دعوت و اتمام حجت ایک خط شامل ہونا چاہیئے تھا جو بدعات میں دن رات غرق اور منشاء کتاب اللہ سے بکلّی مخالف چلتے ہیں اور نیز اس سلسلہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے بے خبر ہیں۔ چنانچہ مجھے یہ صلاح مولوی صاحب موصوف کی بہت پسند آئی… اور میرا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھوں لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہیے اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا ہاں اتمام حجت ہوگا۔’’(صفحہ360-359)

آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں نعتیہ قصیدہ

‘التبلیغ ’کے آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی تحریر فرمایا ہے۔یہ قصیدہ چودہ سو سال کے اسلامی لٹریچر میں اپنی نظیر آپ ہے۔جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپ ؑ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ ؑ نے فرمایا یہ قصیدہ جناب الٰہی میں مقبول ہوگیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول(آنحضرتﷺ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردونگا۔اور اپنا قرب عطا کروں گا۔(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ474)

‘‘عزیزو! یہ کتاب قدرت حق کا ایک نمونہ ہے اور انسان کی معمولی کوششیں خود بخود اس قدر ذخیرہ معارف کا پیدا نہیں کرسکتیں’’۔( صفحہ652)

کتاب کے اہم مضامین کا خلاصہ خدمت دین کی اہمیت اور برکات

‘‘درحقیقت خوش اور مبارک زندگی وہی زندگی ہے جو الٰہی دین کی خدمت اور اشاعت میں بسر ہو۔ ورنہ اگر انسان ساری دنیا کا بھی مالک ہوجائے اور اس قدر وسعت معاش حاصل ہو کہ تمام سامان عیش کے جو دنیا میں ایک شہنشاہ کیلئے ممکن ہیں وہ سب عیش اسے حاصل ہوں پھر بھی وہ عیش نہیں بلکہ ایک قسم عذاب کی ہے جس کی تلخیاں کبھی ساتھ ساتھ اور کبھی بعد میں کھلتی ہیں۔’’(صفحہ36،35)

‘‘اے مردمان دین کوشش کرو کہ یہ کوشش کا وقت ہے اپنے دلوں کو دین کی ہمدردی کیلئے جوش میں لائو کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں۔ اب تم خدا تعالیٰ کو کسی اور عمل سے ایسا راضی نہیں کر سکتے جیسا کہ دین کی ہمدردی سے۔ سو جاگو اور اٹھو اور ہوشیار ہو جائو اور دین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اٹھائو کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ کہیں اس سے مت غمگین ہو کہ لوگ تمہیں کافر کہتے ہیں تم اپنا اسلام خدا تعالیٰ کو دکھلائو اور اتنے جھکو کہ بس فدا ہی ہو جائو۔’’(صفحہ636)

عشق رسول ﷺ

‘‘اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔’’(صفحہ52)

ملائکۃ اللہ کی حقیقت

اس کتاب میں ملائکۃ اللہ کی حقیقت پر سیر حاصل بحث ہے۔حضورؑ خود فرماتے ہیں:

‘‘فرشتوں کی ضرورت میں جس قدر مبسوط بحث آئینہ کمالات اسلام میں ہے اس کی نظیر کسی دوسری کتاب میں نہیں پاؤ گے’’۔(برکات الدعا۔روحانی خزائن جلد6 صفحہ27)

‘‘خدا تعالیٰ نے جو اس آیت کو کلی طور پر یعنی کُل کے لفظ سے مقید کر کے بیان فرمایا ہے اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی کہ ہریک چیز جس پر نفس کا نام اطلاق پاسکتا ہے اس کی فرشتے حفاظت کرتے ہیں پس بموجب اس آیت کے نفوس کواکب کی نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ کُل ستارے کیا سورج کیا چاند کیا زحل کیا مشتری ملائک کی زیر حفاظت ہیں یعنی ہریک کے لئے سورج اور چاند وغیرہ میں سے ایک ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے کاموں کو احسن طور پر چلاتا ہے۔’’(صفحہ77۔ حاشیہ)
‘‘خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ابتلا کے طور پر دو (۲) روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں۔ ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر ّجس کا نام ابلیس اور شیطان ہے۔ یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیںمگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے ۔’’(صفحہ81-80۔حاشیہ)

‘‘پس تمام ذرّات اور سیّارات وغیرہ درحقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں کوئی انسان کے جسم کی خدمت میں مشغول ہے اور کوئی روح کی خدمت میں اور جس حکیم مطلق نے انسان کی جسمانی تربیت کے لئے بہت سے اسباب کا توسط پسند کیا اور اپنی طرف سے بہت سے جسمانی مؤثرات پیدا کئے تا انسان کے جسم پر انواع واقسام کے طریقوں سے تاثیر ڈالیں۔’’(صفحہ86۔حاشیہ)

‘‘رُوح القدس کا نام اِسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے۔’’(صفحہ101)

‘‘قرآن کریم کی تعلیم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے بطور جان کے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی جان اس شے سے جدا نہیں ہوتی۔’’(صفحہ141۔حاشیہ)

………………………………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button