حاصل مطالعہ

رعب

لشکر وہ اثر نہیں کرتے جو رعب کرتا ہے۔ او رقوت و طاقت وہ نتائج نہیں پیدا کرتی جو رعب پیدا کرتا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

دنیا میں کسی قوم کے غالب آنے کے لیے پہلی چیز یہ ہے کہ اس کا رعب دلوں میں بیٹھ جائے۔ جب رعب دلوں میں بیٹھ جائے تو اس کے بعد دنیا کو فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ رعب وہ چیز ہے جو اصل طاقت و قوت سے بھی بہت زیادہ مفید ہے ۔ دیکھو رسول کریم ﷺ نے جن چند باتوں پر فخر کیا ہے ان میں سے ایک رعب ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ میری نصرت رعب سے ہوئی ہے دور دراز کے فاصلہ پر بھی دشمن کے دل میرے خوف اور رعب سے کانپ رہے ہیں ۔ آپؐ نےیہ نہیں فرمایا نُصِرْتُ بِالْجندِ کہ لشکروں کے ساتھ مجھے نصرت دی گئی ہے۔ یہ اس لیے کہ دنیا میں جو اثر رعب کرتا ہے وہ دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں کرتی ۔ لشکر وہ ا ثر نہیں کرتے جو رعب کرتا ہے۔ او رقوت و طاقت وہ نتائج نہیں پیدا کرتی جو رعب پیدا کرتا ہے ۔ کیونکہ رعب خیالات کو منتشر کردیتا ہے اور تمام طاقتوں کو کمزور اور پراگندہ کر دیتا ہے ۔پس رعب کا دنیا کی کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ پنجاب میں ایک لطیفہ مشہور ہے جو بظاہر تو لطیفہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے مگر اس میں بڑی سچائی مخفی ہے ۔ مشہو رہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ یہ بلی جو ہر روز ہمیں تنگ کرتی ہے اس کا کوئی علاج کرنا چاہیے۔ آخر یہ ہے تو ایک ہی اور ا س کے مقابل ہم کافی تعداد میں ہیں۔ ہم اگر سارے مل کر اس کا مقابلہ کریں اور اسے پکڑ کر ایک دفعہ اس کا فیصلہ کر دیں تو وہ ایک ہمارے مقابلے میں کیا کر سکتی ہے اورکہاں تک ہمیں مارے گی۔ کسی نے کہا کہ میں اس کی ٹانگ پکڑ لوں گا۔ کسی نے کہا میں اس کی دوسری ٹانگ پکڑ لوں گا۔ ایک نے کہا میں اس کا منہ پکڑ لوں گا۔ غرض اس طرح انہوں نے اپنے حصہ بلی کے پکڑنے کے لیے ایک کام لے لیا اور خیال کیا کہ بس اب بلی ماری گئی ۔ ہم جب سارے مل کر کام کریں گے تو اس کے مارے جانے میں کیا شک ہو سکتا ہے ۔ اور بظاہر یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعہ میں بلی کو مارنا چاہیں تو اس طرح وہ ضرور اسے مار سکتے ہیں ۔ لیکن جو چیز انہوں نے نہیں سوچی تھی وہ بلی کا رعب تھا۔ اس اکیلی کا رعب اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہزاروں چوہوں کی طاقت کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اسی وجہ سے جو ان میں سے دانا تھا اس نے بھی یہی کہا کہ بے شک تم سب مل کر اسے پکڑ لو گے لیکن یہ بتائوکہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا ۔ کیونکہ جب وہ ابھی میاؤں ہی کرےگی تو نہ تمہارے ہاتھوں میں طاقت رہے گی نہ تمہارے پاؤں میں طاقت رہے گی ۔ تو یہ لطیفہ درحقیقت اس بات کے بیان کرنے کے لیے بطور مثال بنایا گیا ہے کہ جو کام رعب دنیا میں کرتا ہے وہ طاقت اور قوت نہیں کر سکتی ۔ ا س لیے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا رعب دلوں پر بٹھا دیا گیا ہے اب جہاں میں جاتا ہوں دشمن کا دل کانپ اٹھتا ہے اور وہ اپنی طاقت کو بھول جاتاہے ۔ اس کے خیالات منتشر ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ میرے سامنے ایک بچہ کی حیثیت میں ہوجاتاہے۔

(خطباتِ محمود جلد 10فرمودہ 26نومبر 1926ء)

(مرسلہ : طارق محمود طاہر ۔ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button