1984ء کے بعد جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی ترقیات پر ایک نظر
اعداد وشمار کے اس مختصر سے جائزہ سے یہ بات ظاہروباہر ہے کہ خلافت احمدیہ کے برطانیہ میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہرپہلو سے جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے
خلافت ایک عظیم الشان انعام الٰہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین سے فرمایا ہے۔ اس کا ذکر سورۃ النور کی آیت 56 میں ہے۔ ایمان اورعمل صالح کی دو بنیادی شرطوں سے مشروط اس نعمت عظمیٰ کی برکات کا بھی اس آیت میں ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے مطابق خلافت کی یہ عظیم نعمت جماعت احمدیہ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد 1908ء میں ملی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق یہ ایک دائمی نعمت ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ میں خلافت کا یہ بابرکت سلسلہ جاری ہے اور 112 سال کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دورِ خلافت میں جماعت احمدیہ خلافت کے زیر سایہ اکنافِ عالم میں ترقی کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ شدید ترین مخالفتوں اور نامساعد حالات کے باوجود جماعت احمدیہ دنیا کے 213؍ممالک میں پھیل چکی ہے اور وہ آواز جو قادیان کی گمنام بستی سے اٹھی تھی آج ایک پُرشوکت آواز کے طور پر ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔
جماعت احمدیہ میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی مختصر تاریخ اس طرح پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اگلے روز 27؍مئی 1908ء کو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد 1914ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ کا وصال 1965ء میں ہوا۔ آپ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ کو خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا۔ آپ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ 10؍جون 1982ء کو خلیفۃ المسیح الرابع کے طور پر منتخب ہوئے۔ ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ آپ کو ملک پاکستان کے انتہائی مخدوش اور خطرناک حالات کے پیش نظر ہجرت کرنی پڑی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے سایہ میں آپ 30؍اپریل 1984ء کو لندن تشریف لے آئے۔ اور اس کے ساتھ ہی خلافت احمدیہ ایک نئے دَور میں داخل ہوگئی۔ قادیان اور ربوہ کے بعد اب مرکزِ خلافت لندن قرار پایا۔ اور 19سال کے بعد 2003ء میں آپ کے وصال پر تاریخ احمدیت میں پہلی بار انتخابِ خلافت کا اجلاس حسب قواعد مسجد فضل لندن میں منعقد ہوا اور حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو بالاتفاق خلیفۃ المسیح الخامس منتخب کیا گیا۔ 16سال کے بعد خلافتِ احمدیہ کا مرکز اسلام آباد(Surrey)میں منتقل ہوا جہاں سے ساری دنیا میں تبلیغ اور اشاعت اسلام کی مہمات بفضلہ تعالیٰ جاری ہیں ۔ اللہ تعالیٰ خلافتِ خامسہ کے اس بابرکت دور کو قائم و دائم رکھے اور خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ غلبۂ اسلام کے خدائی وعدے قادرانہ شان سے پورے ہوتے چلے جائیں ۔ آمین
خلافت احمدیہ کی برطانیہ ہجرت پر 36؍سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصہ میں جماعت احمدیہ کو برطانیہ میں جو ترقیات اور برکات نصیب ہوئی ہیں اور جس طرح افضال الٰہی کی موسلادھار بارش برس رہی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نظام خلافت کی سب برکات کو پورا فرما رہا ہے یہ ایک ایسی ایمان افروز داستان ہے جس کو بیان کرنا محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف ہے کہ ان افضالِ الٰہیہ اور برکات کا احاطہ کیا جاسکے۔ چند ایک امور بطور نمونہ بہت اختصار سے(بغیر کسی خاص ترتیب سے) پیش کرتا ہوں ۔
خلافت کے دورِ ہجرت میں جب دو خلفائے عظام نے اس سرزمین کو برکت دی اسے اپنا مسکن بنایا تو ان کی دعاؤں اور قدموں کی برکت سے اس ملک کی قسمت ہی بدل گئی۔ ایک عجیب قسم کا روحانی ماحول اس ملک کا نصیب بن گیا۔ اس وقت اگرچہ برطانیہ مشن قائم ہوئے ستر برس گزر چکے تھے لیکن ابھی بہت ابتدائی حالت تھی۔ تعداد، وسائل، مصروفیات، سہولیات اور انتظامات کی وسعت کے اعتبار سے بہت محدود صورت تھی خلافت کے آتے ہی ضروریات اور وقت کے تقاضے یک دفعہ بڑھ گئے۔ خلافت کے آتے ہی روحانیت کا موسم بہار آگیا۔ دلوں میں قربانی اور اطاعت کی روح اجاگر ہوگئی۔ انتظامات وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے۔ ہر طرف کام ہی کام اور کارکن ہی کارکن دکھائی دینے لگے۔ برطانیہ کی جماعت میں ایک انقلاب کا آغاز ہوگیا اور قدم آگے سے آگے بڑھنے لگے۔
خلافت اور خلیفہ وقت سے محبت ایک احمدی کی روح کی غذا ہے۔ دورِ ہجرت میں برطانیہ کو یہ سعادت ملی کہ خلیفۂ وقت خود اس سرزمین میں آبسے اور احباب جماعت کو خلیفۂ وقت کا قرب نصیب ہوا۔ نمازوں کے لیے آتے جاتے صبح و شام حضور کی زیارت کر لیتے ہیں ۔ ہجرت نے درمیانی فاصلے ختم کر دیے۔ فیملی ملاقاتوں میں چھوٹے بڑے ان بیش قیمت لمحات سے بھرپور استفادہ کرتے۔ ملاقات کا دروازہ تو ساری عالمگیر جماعت کے لیے ہمیشہ وا رہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ملک کے احمدیوں کو یہ سہولت عطا کر دی کہ وہ بسہولت دربار خلافت میں آتے، دعائیں لیتے، خلفائے عظام سے اتنی محبت اور شفقت پاتے ہیں کہ ملاقات کے بعد آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہوتےہیں ۔ ملاقات کے یہ مواقع اس ملک کے باسیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک غیر معمولی انعام ہے جس پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔
خلافت احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد سے برطانیہ کے احمدی احباب کو یہ سعادت بھی نصیب ہے کہ وہ نہ صرف خلفاء کی اقتدا میں نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں بلکہ ہر جمعہ مسجد فضل، مسجد بیت الفتوح اور اب مسجد مبارک میں حضور کے سامنے بیٹھ کر خطبہ سنتے اور نماز جمعہ میں شامل ہوتے ہیں ۔ خلیفۂ وقت کا خطبہ جمعہ نہ صرف حاضر الوقت احباب سنتے ہیں بلکہ MTAکے ذریعہ ساری دنیا میں دیکھا اور سنا جاتا ہے اور مختلف زبانوں میں رواں ترجمہ کی سہولت بھی ہے۔ یہ خطبہ ساری جماعت میں علمی اور نظریاتی وحدت کا ذریعہ ہے اور ساری دنیا کے احمدیوں کی تربیت کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
جماعت احمدیہ کی دوسری صدی میں تبلیغ و تربیت کے میدان میں بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خلیفہ رابع رحمہ اللہ نے 3؍اپریل 1987ء کو لندن میں اپنے خطبہ جمعہ میں وقف نو کی تحریک کا اعلان فرمایا۔ یہ تاریخ عالم میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک تھی کہ والدین بچوں کی پیدائش سے قبل ان کو خدمتِ دین کے لیے وقف کرنے کا عزم کریں اور ان کی پیدائش کے بعد ان کی اس انداز میں نیک تربیت کریں کہ وہ بچے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خود اپنے والدین کی دعاؤں اور عزائم کے مطابق اپنی زندگیاں وقف کرکے اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کی خدمت میں پیش کردیں ۔ اس تحریک کو حضور نے نئی صدی کا بہترین تحفہ قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت برطانیہ نے اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 6205؍بچے اور بچیاں اس مبارک تحریک میں شامل ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔ واقفین نو میں سے 90؍ایسے ہیں جو اس وقت مختلف جماعتی اداروں میں خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔ اس مبارک تحریک میں شامل ہونے والے برطانیہ کے بچوں اور بچیوں کی غیرمعمولی خوش قسمتی ہے کہ خلفائے عظام کے ساتھ ان کی تربیتی اور تعلیمی کلاسوں کا ایک بابرکت سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ اس خوش بختی پر وہ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ ایک غیر معمولی سعادت ہے جو انہیں نصیب ہو رہی ہے۔ واقفین نو بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اور تربیتی پروگرام باقاعدگی سے جاری ہیں ۔
خلافت احمدیہ کی برطانیہ ہجرت کو 36؍سال گزر گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ عاجز اس سارے بابرکت زمانہ کا عینی شاہد ہے۔ خلافتِ احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد افضال الٰہی کے حوالے سے یہ مضمون لکھتے ہوئے واقعات ایک ایک کر کے ذہن میں ابھرتے چلے آرہے ہیں اور میں انہیں لکھتا چلا جارہا ہوں ۔
ایک بہت عظیم نعمت اور برکت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کو عطا ہوئی وہ قدم قدم پر خلیفۂ وقت کی طرف سے ہدایات اور رہنمائی کی صورت میں ہے۔ جماعت احمدیہ کی خوش بخشی اور سعادت ہے کہ اسے ہر ہدایت پر عمل کرنے کی سعادت ملتی ہے۔ اس کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے دوسرے سال جلسہ سالانہ 2004ء کے موقع پر جماعت احمدیہ عالمگیر کو ہدایت فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاری کردہ نظام وصیت میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار بطور مبلغ 1970ء میں برطانیہ آیا تو جماعت مختصر تھی۔ دیگر فرائض کے علاوہ سیکرٹری مال کی ذمہ داری بھی میرے سپرد تھی اس وقت مختصر سی جماعت میں صرف چودہ پندرہ موصی تھے جن کے چندہ کی فہرست ایک صفحہ پر آجاتی تھی۔ 2004ء میں یہ تعداد بڑھ کر 644؍ہوگئی۔ حضور انور کی پُرزور تحریک کے بعد سال بہ سال اس مقدس نظام میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ کچھ موصی اس عرصہ میں وفات پاگئے اور کچھ یورپ کے ممالک سے یہاں آکر آباد ہوگئے۔ اس کمی بیشی کے ساتھ ترقی کی رفتار جاری رہی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے فروری 2020ء میں برطانیہ میں اس مقدس نظام میں شامل ہونے والے خوش نصیب موصیوں اور موصیات کی مجموعی تعداد 7479؍ہوچکی ہے۔ الحمد للہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے احیائے اسلام اور تکمیل اشاعتِ اسلام کے مشن کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کا دائرہ عالمگیر ہے۔ آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دائرہ بھی عالمگیر ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو جب پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی تو آپ نے دعوت الیٰ اللہ اور تبلیغ اسلام کو سرفہرست رکھا اور ساری عالمگیر جماعت احمدیہ کو اس کی تاکید فرمائی۔ یہ مبارک سلسلہ خلافتِ خامسہ میں بھی جاری و ساری ہے۔ خود خلفائے عظام اس میدان میں ساری جماعت کے لیے ایک نمونہ تھے اور اس بات نے ساری جماعت میں تبلیغ کا جذبہ بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
36سالہ دورِ ہجرت پر نظر ڈالی جائے تو ایک طرف مجالس عرفان کا ایک روحانی اور ایمان افروز علمی سلسلہ نظر آتا ہے۔ داعیان الیٰ اللہ اپنے زیر تبلیغ افراد کو دور و نزدیک سے ان مجالس میں لانے لگے اور سوالوں کے بھرپور اور معلوماتی جوابات سن کر ان کے مہمان بھی مطمئن ہوتے اور خود ان کے دلوں میں بھی تبلیغ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا اور وہ خود بھی اعتماد سے تبلیغی میدانوں میں اترنے لگے۔ یہ مجالس انگریزی زبان میں بھی ہوتیں اور اردو میں بھی۔ بالعموم لندن میں اور کئی بار باہر کی جماعتوں میں بھی۔ مہمان بالعموم پوری طرح مطمئن ہوکر لوٹتے اور بہت سے احباب بڑے شوق سے دوبارہ بھی آتے۔ ایسی مجالس کے بعد کئی بار بیعت کی تقریب بھی ہوتی۔ ان مجالس کی ریکارڈنگ ہمیشہ کے لیے تبلیغ کا مؤثر ذریعہ بن گئی۔
اور دوسری طرف تبلیغ کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ امن کانفرنسز کی صورت میں نظر آتا ہے جن کا آغاز 2004ء میں ہوا اور ہر سال بیت الفتوح میں منعقد ہوتی ہیں ۔ اس پُروقار مجلس میں امن کی ضرورت اور اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا نہایت بھرپور اور مؤثر خطاب ہوتا ہے۔ ملک کے عمائدین اور زیر تبلیغ افراد سینکڑوں کی تعداد میں اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں گذشتہ ایک سال میں امن عالم کو فروغ دینے اور خدمت انسانیت کے لیے نمایاں کام کرنے والے فرد یا ادارہ کو ‘‘امن ایوارڈ’’ بھی دیا جاتا ہے۔ الغرض یہ پُرشکوہ تقریب ایک نہایت مؤثر ذریعہ تبلیغ ہے۔ اس تقریب میں مہمان لانے اور انتظامات کے سلسلہ میں جماعت کے افراد بھرپور خدمت کرتے ہیں ۔
تبلیغ کے سلسلہ میں جماعت کے افراد بھرپور خدمت کرتے ہیں ۔
تبلیغ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی میں اشاعتِ اسلام کے جدید ذرائع کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس کے چند عنوانات درج ذیل ہیں ۔
٭…دیدہ زیب مؤثر لٹریچر کی تیاری اور وسیع پیمانے پر تقسیم
٭…اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت
٭…ملک کے مختلف علاقوں میں چلنے والی بسوں پر نمایاں پیغامات کی تشہیر
٭…ملک کی بعض بڑی شاہراہوں کے کنارے پر مسیح موعودؑ کی تصاویر کے Bill Board
٭…بڑے بڑے شہروں کے پرہجوم علاقوں میں مسیح موعودؑ کی شبیہہ مبارک کے بورڈز کی تنصیب
٭…بعض بڑے شہروں میں تبلیغی اجلاسات کا انعقاد وغیرہ
تبلیغ کے سلسلہ میں ایک انتہائی مؤثر ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ عالمگیر کو اپنے فضل سے عطا فرمایا وہ MTAہے۔ اس کے ذریعہ سے دنیا کی مختلف زبانوں میں اسلام اور احمدیت کا پیغام دن رات ساری دنیا میں دیکھا اور سنا جاتا ہے۔
امام وقت کے خطبات جمعہ اور خطابات 1994ء سے باقاعدہ دیکھے اور سنے جارہے ہیں ۔ MTAکی برکت سے خلفائے عظام کی آواز وقت کی آواز بن گئی ہے۔ اس حوالے سے جماعت احمدیہ برطانیہ کی خوش بختی اور سعادت ہے کہ MTAکے آغاز سے لے کر آج تک اس کے قیام، پروگراموں کی تیاری، پروگراموں میں شمولیت اور جملہ انتظامات کی سرانجام دہی میں جماعتِ برطانیہ کے افراد اور خواتین کو بھرپور خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے MTAکی نشریات معیار کے لحاظ سے اپنا ایک امتیازی مقام رکھتی ہیں ۔
ہجرت کے اس دور میں لمبے عرصہ سے یہ ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ جماعت کا ایک اپنا ریڈیو سٹیشن بھی ہونا چاہیے جو 24گھنٹے اسلام کے پیغام کو بڑی حکمت اور فراست کے ساتھ برطانیہ اور باقی دنیا تک پہنچا سکے اور لوگ آسانی سے گھروں میں بھی اور کاروں میں سفر کرتے ہوئے بھی اس کو سن سکیں ۔ الحمدللہ کہ یہ خواہش 7؍فروری 2016ء کو بَرآئی جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے DABسسٹم پر جماعت احمدیہ برطانیہ کے پہلے ریڈیو سٹیشن Voice Of Islamکا افتتاح فرمایا۔ یہ ریڈیو سٹیشن دن رات خبروں کے علاوہ بہت مفید پروگرام انگریزی زبان میں پیش کرتا ہے۔ بعض اوقات غیرمہمانوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ VOIکے پروگرام دن بدن مقبول ہورہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خلیفہ ٔ وقت کی زیرہدایت جاری ہونے والے اس ریڈیو کے جملہ پروگرام اور انتظامات جماعت کے مربیان اور دیگر رضاکاردن رات سرانجام دے رہے ہیں ۔ وائس آف اسلام کے پروگرام DABسسٹم پر سارے ملک میں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں سنے جاسکتے ہیں ۔
خلافت احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعتی ترقی کے ہرمیدان میں نمایاں اضافہ ہونے لگا۔ اعداد وشمار سے یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔ برطانیہ میں کام کرنے والے مبلغین کی تعداد 1984ء میں (جس سال خلافت احمدیہ برطانیہ میں آئی) 10؍تھی۔ جس میں کام کی وسعت اور ضرورت کے لحاظ سے اضافہ ہوتا گیا۔ اب اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں کام کرنے والے فیلڈ مبلغین کی تعداد 30؍ہے اور مختلف شعبہ جات میں خدمت کرنے والے مربیان کی تعداد 8؍ہے۔
1984ء میں برطانیہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعداد 18؍تھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد بڑھ کر 42؍ہوچکی ہے۔ علاوہ ازیں 4-5مساجد مختلف مقامات پر زیرتعمیر ہیں ۔ برطانیہ میں جماعتوں کی کل تعداد 2002ء میں 78؍تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر اب 139؍ ہوچکی ہے اور ان کو14؍ ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تجنید 33؍ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔
اعداد وشمار کے اس مختصر سے جائزہ سے یہ بات ظاہروباہر ہے کہ خلافت احمدیہ کے برطانیہ میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہرپہلو سے جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ سب خلفائے عظام کی نگرانی اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے کی برکت ہے۔
جماعتی نظام کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ یوکے میں تین ذیلی تنظیمیں ہیں ۔ مجلس انصاراللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ۔ خدام کے ساتھ اطفال الاحمدیہ اور لجنہ کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ قائم ہیں ۔ یہ تینوں تنظیمیں خلفائے عظام کی براہِ راست نگرانی میں نظامِ خلافت کی زیرہدایت اپنے اپنے پروگرام بناتیں اور ان پر سرگرمی سے عمل کرتی ہیں ۔ ان تینوں ذیلی تنظیموں کے چند کوائف حسب ذیل ہیں ۔
مجلس انصاراللہ یوکے کی 18؍ریجنز میں 136؍مجالس قائم ہیں ۔ ایک دفتر مسجد فضل کے قریب سرائے انصار کے نام سے ہے۔ حال ہی میں فارنہم کے قریب دفتر اور گیسٹ ہاؤس لیا گیا ہے جس کا نام ‘‘سرائے ناصر ’’حضور نے عطا فرمایا ہے۔ حضور کی ہدایت پر برکینا فاسو میں مسرور آئی انسٹیٹیوٹ بنانے اور چلانے کی ذمہ داری انصاراللہ کو دی گئی ہے۔ اس پر کام جاری ہے۔ چیرٹی واک کا سلسلہ 1985ء سے شروع ہے۔ اب قریباً 400؍ Charitiesکو ساتھ ملا کر ہرسال یہ واک ہوتی ہے۔ پچھلے سال 2500؍لوگوں نے شرکت کی۔ وصول شدہ رقم رفاہی اداروں کو دی جاتی ہے۔ تبلیغ کی غرض سے لیف لیٹ کی گھر گھر تقسیم کے علاوہ 6؍وفود سپین بھی گئے۔ سالانہ اجتماع میں مہمانوں سمیت حاضری 4500؍رہی۔ ماہانہ رسالہ انصارالدین اردو اور انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔
مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کی 24؍ریجنز میں 157؍ مجالس قائم ہیں ۔ مجلس کا مرکزی دفتر ‘‘ایوان محمود’’ فارنہم میں قائم ہے۔ خدام اوراطفال کی کلاسز ملک گیر پیمانہ پر ہوتی ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں اسلام واحمدیت کے تعارف کے لیے تقریبات کا انعقاد ہوتاہے۔ خدمت خلق کے سلسلے میں فعال طور پر شرکت کی جاتی ہے۔ جماعتی تقریبات کے موقع پر سارا سال مفوضہ خدمات سرانجام دی جاتی ہیں ۔ علاوہ ازیں ملک میں غیرمعمولی حالات کے وقت خدمت انسانیت کے جذبہ سے ہرممکن مدد دی جاتی ہے۔ خدمت کے ہرموقع پر جماعت کے نوجوان بلاامتیاز مذہب وملت خدمت کرتے ہیں ۔ سیلاب کی تباہ کاری کے وقت متاثرین کی امداد، غریبوں کوگھر گھر جاکر کھانا فراہم کرنا، وبائی حالات میں 2 لاکھ ماسک تیارکرنے کا کام اور ایک سکیم کے تحت بارہ ہزار گھروں میں کھانا اور ادویات کی تقسیم، نئے سال پر سڑکوں کی صفائی وغیرہ۔ خدام الاحمدیہ کا رسالہ طارق اردو اور انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم خلفائے عظام کی ہدایت اور قدم قدم پر رہنمائی میں خدمت کی متعدد راہوں پر گامزن ہے۔ برطانیہ میں لجنہ اماء اللہ کی 138؍مجالس 15؍ریجنز میں قائم ہیں ۔ لجنہ کا اپنا ایک دفتر مسجد فضل کے قریب عرصہ سے قائم ہے۔ فارنہم کے علاقہ میں لجنہ نے ایک وسیع عمارت حاصل کی ہے۔ جس کا نام ‘‘ایوان نصرت جہاں ’’حضورِانور نے عطافرمایا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد مبارک کے قریب لجنہ نے ایک گیسٹ ہاؤس بھی خرید لیا ہے۔
انتظامی لحاظ سے بھی لجنہ کے شعبہ جات میں بہت وسعت آچکی ہے۔ مریم شادی فنڈ میں ممبرات لجنہ نے بچیوں کی شادیوں کے موقع پر نئے خوبصورت کپڑوں کے علاوہ 2؍ لاکھ پاؤنڈ بھی دیے۔ مساجد کی تعمیر کے موقع پر احمدیہ خواتین نے اپنی قدیم روایات کے مطابق زیورات پیش کیے۔ خدمت کے جذبہ سے سیرالیون میں ایک میٹرنٹی ہسپتال کی تعمیر کاکام جاری ہے۔ خواتین اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے سارا سال تربیتی اجلاس منعقد ہوتے ہیں ۔ خواتین کے لیے النصرت اور ناصرات کے لیے عائشہ نام سے رسالے جاری ہیں ۔ پریس اور میڈیا میں اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات احمدی خواتین اور بچیاں زور دار طریقہ سے پیش کرتی ہیں ۔ سالانہ اجتماع کی حاضری 5822؍ اور جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے والی کارکنات 4900؍تھیں ۔
جماعتی ادارہ جات اور ذیلی تنظیموں کی کارکردگی کا یہ خاکہ ان برکتوں اورفضلوں کے سلسلہ کو ظاہر کرتا ہے جو خلافت احمدیہ کے برطانیہ ہجرت کے بعد پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز ترقی پذیر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جلسہ سالانہ کا آغاز 1891ء میں ہوا۔ پہلے جلسہ میں 75؍ افراد شامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کو اس قدر برکتوں سے نوازا کہ یہ دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگا۔ یہ ایک شجرۂ طیبہ ہے جس کی شاخیں اکناف عالم میں پھیلنے لگیں ۔ برطانیہ میں پہلا جلسہ 1964ء میں ہوا۔ حاضری قریباً تین ہزار تھی۔ 1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ برطانیہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جلسہ سالانہ Tolworth Recreation Centre میں منعقد ہوا۔ حضورؒ نے زبردست افتتاحی خطاب فرمایا۔ جس کا موضوع تبلیغ تھا۔ بہت ولولہ انگیز خطاب تھا۔ اسی سال حضور رحمہ اللہ کی تحریک پر اسلام آباد خریدا گیا اور 1985ء کا جلسہ سالانہ وہیں پر منعقد ہوا۔ یہ پہلا جلسہ تھا جسے حضور رحمہ اللہ کے برطانیہ تشریف لے آنے کی وجہ سے عالمی جلسہ سالانہ قرار دیا گیا۔ 1993ء سے عالمی بیعت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور 1994ء سے جلسہ کی ساری کارروائی MTAکے ذریعہ Live نشر ہونے لگی۔ چند سالوں میں یہ جلسہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی روزافزوں ترقی کا آئینہ دار بن گیا۔ حدیقۃ المہدی میں سال بہ سال ترقی کرتا چلا جارہا ہے۔
2019ء کے جلسہ سالانہ میں حاضری قریباً 40؍ ہزار تھی۔ قریباً سو ممالک سے آنے والے احمدی احباب کے علاوہ غیرمسلم صدرانِ مملکت، وزراء، سفراء اور دیگر معزز مہمانان بڑی کثیرتعداد میں شامل ہوتے ہیں ۔ تین دنوں میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے 5خطابات ہوتے ہیں ۔ جن کے رواں تراجم کم وبیش بارہ زبانوں میں کیے جاتے ہیں ۔ پریس اور لوکل میڈیا کے علاوہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی خوب تشہیر ہوتی ہے۔ MTAکے ذریعہ جلسہ کی ساری کارروائی پوری دنیا میں دیکھی اور سنی جاتی ہے۔ خواتین کا جلسہ مردانہ جلسہ گاہ سے الگ مارکی میں ہوتا ہے۔ جلسہ کے سارے انتظامات رضاکار (جن کی تعداد 6500؍ ہوتی ہے) سرانجام دیتے ہیں ۔
جماعت احمدیہ برطانیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ خلافت کی برکت سےا تنا بڑا اجتماع کسی قسم کی خرابی کے بغیر سرانجام پاتا ہے۔ غیرازجماعت زائرین کی رائے میں یہ ایک معجزہ سے کم نہیں ۔ لاریب یہ سب نظام خلافت کی برکت ہے اور خلفائے وقت کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
خلافت احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد جو برکات اور کامیابیاں جماعت برطانیہ کو نصیب ہوئیں ، ان میں ایک بہت بڑی برکت جامعہ احمدیہ ہے جو براعظم یورپ میں اپنی نوعیت کا پہلا جامعہ ہے جو 2005ء میں لندن میں قائم ہوا۔ اس کے قیام میں یہ بات پیش نظر تھی کہ خلافت کے زیرسایہ اس ادارہ میں تیار ہونے والے مبلغین ایسے منادی بنیں جو خدمت اسلام کے جذبہ سے سرشار ہوں ۔
اس کی ابتداء Colliers Woodمیں ایک عمارت کی خرید سے ہوئی۔ حضور انور نے یکم اکتوبر کو اس کا افتتاح فرمایا۔ سات سالہ کورس کے بعد پہلی کانووکیشن جون 2012ء میں ہوئی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے Haslemereکے علاقہ میں 30؍ ایکڑ زمین پر ایک وسیع وعریض عمارت عطافرمادی۔ جہاں اب یہ ادارہ قائم ہوچکا ہے۔ جامعہ احمدیہ میں برطانیہ کے واقفین نو کے علاوہ یورپ اور بعض دیگر ممالک سے بھی طلباء آتے ہیں جو سات سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد میدان عمل میں جاتے ہیں ۔ اس وقت تک 79؍شاہدین دنیا کے 25؍ممالک میں اعلائے کلمۂ اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ۔ جامعہ میں 19؍ اساتذہ ہیں اور لائبریری میں 30؍ ہزار سے زائد کتب ہیں ۔ جامعہ احمدیہ برطانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک عظیم انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو خلافت کی برکت سے عطافرمایا ہے۔
جماعت احمدیہ میں دینی ضروریات کے لیے مالی قربانی کا طریق ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ جہاں جماعت قائم ہوجاتی ہے وہاں انفاق فی سبیل اللہ کا نظام بھی جاری کردیا جاتا ہے۔ خلافت احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد برطانیہ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو برکات اور ترقیات نصیب ہوئیں ان میں ایک بہت نمایاں پہلو مالی قربانیوں کے میدان میں ترقی کرنا اور نئے سنگ میل نصب کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
٭…ضروری ادائیگیوں مثلاً زکوٰۃ، چندہ وصیت، چندہ جلسہ سالانہ اور چندہ عام کے علاوہ دیگر تحریکات میں برطانیہ کے احباب نے ہمیشہ نمایاں طور پر حصہ لیا۔ مثلاً تحریک جدید اور وقف جدید کی اہم تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ جب ان تحریکات کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت برطانیہ کی نمایاں پوزیشن ہوتی ہے۔ گذشتہ سال جماعت برطانیہ تحریک جدید میں تیسرے نمبر پر اور وقف جدید کے چندوں میں اول نمبر پر رہی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہے۔
٭… خلیفہ ٔ وقت کی طرف سے جب بھی کسی نئی مالی تحریک کا اعلان ہوتا ہے تو برطانیہ کی جماعت فوری لبیک کہنے میں پیش پیش ہوتی ہے۔ ہجرت کے فوراً بعد جب اسلام آباد کی خرید کا مرحلہ آیا تو مخلصین جماعت نے فوراً لبیک کہا۔ قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت کا موقع ہوتو جماعت کے مخیر احباب صف اول میں ہوتے ہیں ۔ MTAکے قیام پر اخراجات کی ضرورت پڑی تو مخلصین جماعت نے سبقت کا نمونہ دکھایا۔ بیت الفتوح کی خرید کا ذکر ہوا تو فوری طورپر مخلصین نے لبیک کہا۔ 2015ء میں جب بیت الفتوح کے ایک حصہ میں آگ لگ گئی اور اس کی تعمیرنو کا مرحلہ آیا۔ ایک بڑی خطیر رقم (قریباً 15؍ ملین پاؤنڈ) کی ضرورت سامنے آئی تو یہی جماعت سامنے آئی اور اس قدر ادائیگی کے لیے کوشا ں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں یا کسی بھی نیک تحریک میں شامل ہونے کا جذبہ بہت نمایاں ہوتا ہے اور یہ سب خلافت احمدیہ کے سایہ کے نیچے رہنے کا نتیجہ ہے۔
٭… برطانیہ میں کثیرتعداد میں مساجد تعمیر ہورہی ہیں ۔ ان میں سے ہر مسجد کی تعمیر کے وقت اول مقامی جماعت میدان میں اُترتی ہے اور مالی قربانی سے مطلوبہ رقم مہیا کرتی ہے۔ ایک دو واقعات کا ذکر کرتا ہوں ۔
ایک جماعت میں حاضر ہوکر مسجد کے لیے قربانی کی تحریک کی تو ایک نوجوان آگے آیا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر پیش کیا۔ کہنے لگا کہ آج تنخواہ ملی ہے۔ یہ لفافہ بند کا بند پیش کرتا ہوں ۔ ایک دوسرا نوجوان آیا۔ اس نے 500؍ پاؤنڈ ادا کیے اور کہا کہ یہ رقم میں نے اپنے ولیمہ کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ یہ پیش کرتا ہوں ۔ مخلصین جماعت بڑھ چڑھ کر قربانی کا نمونہ دکھا رہے تھے۔ ایک خاتون نے چٹ بھجوائی کہ آج جوکوئی بھی زیادہ سے زیادہ وعدہ کرے یا ادائیگی کرے گا نوٹ کرلیں کہ میں اس سے ایک ہزار پاؤنڈ زائد ادا کروں گی۔ قربانی کے یہ نمونے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ہی نظر آتے ہیں ۔
خلافت احمدیہ کے برطانیہ آنے کے بعد مرکزی دفاتر اور ادارہ جات کا قیام اور پھر ان کا پھیلاؤ اور وسعت بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ جماعت برطانیہ کی خوش قسمتی اور سعادت یہ ہے کہ جب اور جہاں بھی ان مرکزی دفاتر میں کام کرنے کے لیے رضاکاروں کی ضرورت پڑتی رہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حسب ضرورت رضاکارکارکنان مہیا ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور افرادِجماعت کے لئے باعث سعادت کہ وہ طوعی طور پر یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ خدمات کا یہ سلسلہ ہروز جاری و ساری ہے۔
ان گذشتہ 36سالوں میں خلفائے احمدیت کی بابرکت موجودگی میں جوتاریخی تقریبات منعقد ہوتی رہیں ، ان کے انتظامات میں تعاون اور ان تقاریب میں شمولیت ایک بہت بڑی سعادت ہے جو برطانیہ کی جماعت کے احباب و خواتین کو حاصل ہوئی۔ چند تقاریب کا مختصر ذکر کرتا ہوں ۔
30؍اپریل 1984ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی پاکستان سے لندن تشریف آوری ہوئی۔ یہ دن ہمیشہ تاریخ احمدیت میں یادگار رہے گا۔ اس موقع پر برطانیہ کے احباب کاجوش وخروش، قلبی کیفیت اور اس کا اظہار، ایسی باتیں ہیں جن کا لفظوں میں بیان مشکل ہے۔ حضور نے مسجد فضل پہنچ کر خود چکرلگا کر ایک ایک فرد سے مصافہ فرمایا اور بات چیت کی۔ اسی روز بعد عصر محمود ہال میں ایک تاریخی خطاب فرمایا اور اپنی ہجرت کے پس منظر پر اور آئندہ کے پروگراموں پر روشنی ڈالی۔
23؍مارچ 1989ء کو جماعت کے قیام پر سوسال پورے ہونے پر صدسالہ جشن تشکر (جوبلی) پروقار طور پر منائی گئی۔ نمازِتہجد کے بعد نئی صدی کی پہلی نمازِفجر مسجد فضل میں حضوررحمہ اللہ نے پڑھائی۔ مسجد فضل، نصرت ہال، محمود ہال اور سب کھلی جگہیں بھری ہوئیں تھیں ۔ ایک عجیب کیفیت میں نماز ہوئی۔ حضورؒ نے سب کو رقت بھری آواز میں ہاتھ ہلاکر مبارکباد دی۔ دس بجے کے قریب مسجد فضل کے احاطہ میں ایک تاریخی اجلاس ہوا جس میں اس دن کی مناسبت سے تقاریر کی گئیں ۔
اسی روز شام کو لندن کے مشہور ومعروف Grosvenor ہوٹل میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین اور پریس کو مدعو کیا گیا۔ اس پُروقار تقریب میں حضورِانور کے ساتھ سٹیج پر لارڈایوبری ممبرآف ہاؤس آف لارڈ اور ڈیوڈ میلر MP پٹنی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان ہر دو معززین کی مختصر تقریروں کے بعد حضورِانور رحمہ اللہ نے ایک پرشوکت اور ایمان افروز تقریر کی جس کی گونج آج بھی کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ بہت ہی پُروقار اور شاندار تاریخی تقریب تھی۔
24؍مارچ 1989ء کو اسلام آبادکے وسیع میدان میں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ حضوررحمہ اللہ ایک سٹیج پر، گلے میں پھولوں کاایک خوشنما ہارپہنے ہوئے، سامنے سے گزرنے والے، اطفال اور ناصرات کے گروپس کو ہاتھ ہلاکر مبارکباد دے رہے تھے۔ کھلامیدان احمدی احباب اور خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف خوشی، شادمانی اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہورہا تھا۔ حضورِانور کا لکھا ہوا ترانہ پرشوکت آواز میں پیش کیا جارہا تھا۔
اس تقریب کے بعد حضوررحمہ اللہ کی خدمت میں خاکسار نے عرض کیا کہ اس دن کی یادگار کے طور پر اخروٹ کا ایک پودا لگا دیا جائے۔ حضورنے اپنے دست مبارک سے یہ پودا لگایا۔ اس کے بعد میں نے تجویز دی کہ آج اس موقع پر موجود برطانوی احمدیوں کےساتھ یادگاری تصویر ہوجائے۔ حضورنے اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ اس وقت اسلام آباد کی مسجد کے ساتھ ایک تاریخی گروپ فوٹو لیا گیا۔
13؍جولائی 1993ء کو جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز تاریخ احمدیت میں پہلی بارعالمگیربیعت کی تقریب منعقد ہوئی۔ حضور رحمہ اللہ کے سامنے سب براعظموں کی نمائندگی میں چند منتخب احباب نے حضور کے دست مبارک کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور باقی سب نے اگلے احمدی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیعت میں شرکت کی۔
19؍اپریل 2003ء کو حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا لندن میں وصال ہوا۔ اس حادثہ نے ساری عالمگیر جماعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کردیا اور 22؍اپریل 2003ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خلافت کے منصب جلیلہ پر متمکن فرمایا۔ اس روز شام کے وقت حسب قواعد مسجد فضل لندن میں نمائندگان شوریٰ برائے انتخابِ خلافت کا اجلاس ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ قادیان اور ربوہ کے بعد مسجد فضل لندن میں یہ انتخاب عمل میں آیا۔ اس طرح جماعت احمدیہ برطانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہ تاریخی بابرکت انتخاب اس سرزمین پر ہوا۔
3؍اکتوبر 2003ء کو حضورِانور نے خطبہ جمعہ کے ذریعہ مشرقی یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی دس بڑی مساجد میں شمار ہونے والی مسجد بیت الفتوح لندن کا افتتاح فرمایا۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ میں جاری وساری خلافت کا نظام ایک روحانی نظام ہے اور چونکہ ہر خلافت ایک ہی منبعٔ فیض سے پھوٹتی ہے، اس لیے خلافتوں کے سلسلے آپس میں عجیب انداز میں ملے ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سپین میں مسجد بشارت کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے رکھا اور اس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا۔ یہ تاریخ اس طرح دہرائی گئی کہ مسجد بیت الفتوح کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے رکھاتھا اور اس کا افتتاح سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
27؍مئی 2008ء کو خلافت احمدیہ کی صدسالہ جوبلی کی تقریب ساری دنیائے احمدیت میں بہت اہتمام اور دعاؤں سے منائی گئی۔ برطانیہ میں اس تقریب کے لیے لندن کا وسیع ہال Excel لیا گیا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم اجتماع سے جس کی کارروائی Live ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر کی جارہی تھی۔ ایک عظیم الشان خطاب فرمایا اور سب حاضرین سے جبکہ وہ سب کھڑے تھے، اس جوبلی کی مناسبت سے نئی صدی کاعظیم عہددہرایا جس میں ساری دنیا کے احمدیوں نے ایک خاص جذبہ سے شرکت کی اور اس موقع کو ایک یادگار دن بنادیا۔ خلافت سے وابستگی کے اس روح پرور عہد نے دلوں کو ایک تازگی اور نیا جذبہ فدائیت عطافرمایا۔
2014ء میں برطانیہ میں احمدیت کے قیام کی جوبلی تھی۔ اس موقع پر حضورِانور نے بنفس نفیس برطانوی پارلیمنٹ میں بلائے گئے ایک خصوصی اجلاس میں شرکت فرمائی اور بھرے ہوئے ایوان میں موجود وزراء اور ممبرانِ پارلیمنٹ سے جماعت احمدیہ کے تعارف پر ایک جامع اور تاریخی خطاب فرمایا جس کو بہت پسند کیا گیا۔
مسجد فضل سے متصل رہائشگاہ میں 14؍سال قیام فرمانے کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 15؍اپریل 2019ء کو اسلام آباد میں مستقل رہائش کے لیے نقل مکانی فرمائی۔ یہاں پر تعمیرشدہ خوبصورت مسجد مبارک کی جگہ رہائش اختیار فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھرتا چلا جائے اورجماعت کی تاریخ کا یہ نیا دور ترقیات اور غیرمعمولی برکتوں کا دَور بن جائے۔ آمین ثم آمین۔