متفرق مضامین

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مقام

(ھبۃ الکلیم۔ رشیا)

اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورجب دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو ایک خاص مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ ایک عظیم الشان جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں۔ اور اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک وہ مقصد بہ تمام وکمال پورا نہ ہو جائے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سیدِ ولدِ آدم رسول اکرمﷺ گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے تو آپ نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ دنیا کے سامنے ایسا لائحہ عمل رکھوں کہ جو دینی اور دنیاوی لحاظ سے ترقی کی معراج تک پہنچانے کا ضامن ہواور مقصد حیات میں کامیابی سے ہم کنار کرنے والا ہو۔ اسی لیے آنحضورﷺ کو وہ شریعت دی گئی ہے جو ہر لحاظ سے کامل تھی اور جس میں کسی ترمیم یا تنسیخ کی گنجائش نہ تھی اور جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔

دَور آخرین میں آپؐ کے غلام صادق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو شریعت محمدی کی تکمیلِ اشاعت کی غرض سے بھیجا گیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے بنیادی دعووں میں سے مہدویت اور مسیحیت کے دعوےتھے۔ آپؑ نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اعلان کیا کہ اسلام میں جس مہدی کےظہور کا آخری زمانہ میں وعدہ دیا گیا تھا وہ خدا کے فضل سے مَیں ہی ہوں اور خدا تعالیٰ میرے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا کرے گا۔ اور دنیا میں اسلام کا سورج پھر اسی آب وتاب کے ساتھ چمکے گاجیسا کہ اپنے ابتدائی دَور میں چمک چکا ہے۔

آپ نے اس دعویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے لیے دو بعثتیں مقدر کر رکھی تھیں۔ ایک بعثت اسلام کے دورِ اول کے ساتھ مخصوص تھی جو جلالی رنگ میں ظاہر ہوئی اور محمدیت کی شان کی مظہر تھی۔ اور دوسری بعثت جو آنحضرتﷺ کے جمالی نام احمد کے ساتھ وابستہ تھی۔ آخری زمانہ میں حضورسرور کائناتﷺ کے ایک خادم اور نائب کے ذریعہ مقدر تھی۔ یہی وہ بعثت ہے جس کی طرف قرآن مجید کی سورۂ جمعہ کی آیت

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ

کے الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے۔ یعنی آخری زمانہ میں ایک جماعت ظاہر ہوگی جس کی رسول پاکﷺ اپنے ایک بروز اور نائب کے ذریعہ تربیت فرمائیں گے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ پر وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ والی آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دریافت کرنے پر کہ یا رسول اللہﷺ !یہ آخرین کی جماعت کون ہے؟ آپؐ نے اپنے صحابی حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ

’’اگر ایمان دنیا سے اٹھ کر ثریّا کے دور دراز ستارے پر بھی چلا گیا تو بھی ان اہل فارس میں سے ایک شخص اسے دوبارہ دنیا میں اتار لائے گا۔ ‘‘

(بخاری کتاب التفسیر، تفسیر سورہ ٔجمعہ)

غور کیاجائےتو مہدویت اور مسیحیت کے دعوے حقیقتاً ایک ہی ہیں کیونکہ وہ ایک ہی دعوے کی دو شاخیں ہیں صرف دو جہتوں کی وجہ سے انہیں دو نام دیے گئے ہیں۔ اسی لیے ان دو پیشگوئیوں میں حالات بھی ایک جیسے بیان کیے گئے ہیں۔ مہدی ہونے کے لحاظ سے آنے والے کے ہاتھ پر اسلام کی تجدید مقدر تھی اور ازل سے یہ فیصلہ ہو چکا تھاکہ جب آخری زمانے میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے عقائد میں فتور آجائے گاتو اس وقت اس امت کا مہدی ظاہر ہو کر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح کرے گا اور مسلمانوں کو اپنے آسمانی علمِ کلام اور باطنی نور ہدایت اور خدادادروحانیت کے زور سے بلندی کی طرف اٹھاتا چلا جائے گا۔ دوسری طرف مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے مصلح کا یہ کام تھاکہ وہ مسیحیت کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو کر صلیب کے زور کو توڑ دے اور اسلام کو پھر اس کے دورِاول کی طرح دنیا میں غالب کر دے۔ سو دراصل یہ دونوں نام ایک ہی مصلح کو دیے گئے ہیں اسی لیے ہمارے آقا آنحضرتﷺ ایک حدیث میں صاف طور پر فرماتے ہیں کہ

لَا الْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسیٰ

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء)

حضرت مسیح موعودؑ کا یہ دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرتﷺ کی پیروی میں ساری دنیا کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا ہے۔ اس لیے مجھے وہ روحانی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ مقام بخشا ہے۔ جو اس کام کے لیےضروری ہے۔ آپؑ فرماتےہیں :

’’مجھے قسم ہےاس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا اورخدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا۔ ‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 60)

آپؑ فرماتے ہیں :

’’خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں مگر مسیح ایک اَور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے۔ خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے۔ اس نے مجھے بھیجا تا مَیں اندھوں کو آنکھیں دوں۔ جو نہ چند سال سے بلکہ انیس سو برس سے برابر اندھے چلے آتے ہیں۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 183)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :

’’…مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیاہے۔ اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کوذلیل اور شرمندہ کرتا۔ سو فہم قرآن جومجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جلّ شانہ ٗ کا ایک نشان ہے۔ میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں۔ ‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 41)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سننِ انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو۔ پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم طے ہوسکتی ہیں جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حَکَم بن کر آیا ہے۔ جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا، وہی صحیح ہوں گے اورجس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا، وہی صحیح ہوگی۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 399۔ایڈیشن 1988ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :

’’…آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔ سو مَیں حلفا ًکہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویت ہے جو نبوتِ محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِدین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 394)

آپؑ فرماتے ہیں :

’’…مَیں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰقؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبیﷺ سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرتﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرتﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرےاعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجزمحمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِسی بنا پر مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدیہؐ ہے جو مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ ‘‘

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411تا412)

پھرآپؑ فرماتے ہیں :

’’یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخرکاراس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجاجس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھاکیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا ۔اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ:6-7)

موسیٰ نے وہ متاع پائے جس کو قرونِ اُولیٰ کھو چکے تھے اور حضرت محمدﷺ نے وہ متاع پائے جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہےمگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑ ھ کر۔مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر۔اور مثیلِ ابنِ مریم ابن مریم سے بڑھ کر۔ اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرتﷺ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا جب کہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیساکہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیو ں کا حال تھا۔ سو وہ مَیں ہی ہوں ۔خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔نادان ہے وہ جو اُس سے لڑے ۔اور جاہل ہے وہ جو اس کے مقابل پر یہ اعتراض کرے کہ یوں نہیں بلکہ یوں چاہئے تھا۔ اور اُس نے مجھے چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں …۔ ‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14)

آپؑ فرماتے ہیں :

’’…جو شخص مجھے قبول کرتا ہے وہ تمام انبیاء اور ان کے معجزات کو بھی نئے سرے قبول کرتا ہے اور جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا اس کا پہلا ایمان بھی کبھی قائم نہیں رہے گا کیونکہ اس کے پاس نرے قصے ہیں نہ مشاہدات۔ خدا نمائی کا آئینہ مَیں ہوں جو شخص میرے پاس آئے گا اور مجھے قبول کرے گاوہ نئے سرے اُس خدا کو دیکھ لے گا جس کی نسبت دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصّے باقی ہیں۔ مَیں اُس خدا پر ایمان لایا ہوں جس کو میرے منکرنہیں پہچانتے اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جس پر وہ ایمان لاتے ہیں ان کے وہ خیالی بت ہیں نہ خدا۔ اسی وجہ سے وہ بت اُن کی کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ اُن کو کچھ قوت نہیں دے سکتے۔ اُن میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے کوئی تائیدی نشان نہیں دکھلا سکتے۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ462تا463)

آپؑ فرماتے ہیں :

’’اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا مَیں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کردوں۔ اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطافرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدا ئے تعالیٰ کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کے لئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں۔ اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں اس لئے ان روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چا ہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں مگر مَیں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہمدردی کروں۔ ‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 13)

آپؑ روحانی مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔مَیں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔ اور مَیں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ ‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 61)

الغرض حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا مقام بہت ہی بلند اور اعلیٰ ارفع شان والا مقام ہے جو آپؑ کو آنحضرتﷺ کی برکت اور آپ کا امتی ہونے کے نتیجہ میں ملا۔ افسوس کہ امت مسلمہ کے ایک بڑے حصے نے ابھی تک آپ کو شناخت نہیں کیا۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کو ضرور شناخت کریں گے اور آپؑ کی بیعت میں آ کر آپؑ کے اس فارسی شعر میں مضمر پیشگوئی کو پورا کرنےوالے ہوں گے کہ

امروز قوم مَن نہ شناسد مقام من

روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم

یعنی آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی۔

قدرت سےاپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button