خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ مارچ 2021ء

’’میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

ہمیں یہ دن (23؍ مارچ)ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض حوالے پیش کروں گاجن میں آپؑ کے آنے کی ضرورت،مقصد اور گذشتہ پیشگوئیوں کا ذکر ہے، جن سے آپؑ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے

الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ مارچ 2021ء بمطابق 26؍امان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 26؍ مارچ 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ، سورةالفاتحہ اور سورۂ جمعہ کی آیات تین اور چار کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ان آیاتِ مبارکہ کا درج ذیل ترجمہ پیش فرمایا:

وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

دو تین دن پہلے23؍مارچ کا دن گزراہےجس روز جماعت کی بنیاد پڑی تھی۔ پس ہمیں یہ دن ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد قرآنی پیش گوئیوں اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ ہم جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے بھی اس اہم کام کی انجام دہی کےلیے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں حصّہ دار بننا ہے۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کا تعلق خداتعالیٰ سے جوڑنے اور بندوں کو دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کےلیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔

اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض حوالے پیش کروں گاجن میں آپؑ کے آنے کی ضرورت،مقصد اور گذشتہ پیشگوئیوں کا ذکر ہے، جن سے آپؑ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے۔ جماعت میں، صحابہ جیسی پاک تبدیلیاں پیدا ہونے اور ان تکلیفوں سے گزرنے کا ذکر ہے جن سے صحابہ گزرے ۔ ہمیں ہر وقت ان باتوں کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ مِن حیث الجماعت ہم ترقی کرنے والے ہوں۔

جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان کی وضاحت میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہےجس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بےبہرہ ہوچکے تھے۔ اس رسول نے ان کےنفسوں کو پاک اور علم الکتاب اور حکمت سے مملو کیا۔ پھر فرمایا: ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہوجائے گا۔

حضورِانورنے فرمایا کہ صحابہ کا سا یقین ہے جو ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر خداتعالیٰ،آنحضرتﷺ، اسلام اور آپؑ کی صداقت پر ہونا چاہیے۔ آج کل مَیں صحابہ کے حالات خطبات میں بیان کررہا ہوں، مثالیں ہمارے سامنےہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگرایمان ثریا پر بھی اٹھ گیا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا۔آخری زمانہ جس کی نسبت لکھا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گایہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ صلیبی حملہ جسے دوسرے لفظوں میں دجالی حملہ کہتے ہیں جس کی نسبت آثار میں ہے کہ بہت سے نادان خدائے واحد کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہوجائے گی تب مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدیدِ ایمان ہوگا اور اسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے

وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔

اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے دو ہی گروہ ہیں، اول صحابہ آنحضرتﷺ اور دوسرا گروہ مسیح موعودکا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرتﷺ کےمعجزات کو دیکھنے والا ہے۔فرمایا: آج کل تیرہ سَو برس بعد آنحضرتﷺ کے معجزات کا دروازہ کُھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کسوف وخسوف رمضان میں مشاہدہ کیا۔ پھر ذوالسنین ستارہ بھی ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔ ایسا ہی جاوا کی آگ، طاعون کا پھیلنا، حج سے روکے جانا،ملک میں ریل کا تیار ہونا،اونٹوں کا بےکار ہونا یہ تمام آنحضرتﷺ کے معجزات تھے جو اس زمانے میں اسی طرح دیکھے گئے۔ ہماری جماعت کو صحابہ سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔

بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے ترکرتے سچی خوابوں اور الہامِ الٰہی سے مشرف ہوتے اور اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو خداتعالیٰ کی مرضات کےلیے صحابہ کی طرح خرچ کرتے ہیں۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخرین منھم کے لفظ سے مفہوم ہورہی ہیں۔

اس زمانےمیں خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کو ایک قوم بنادے اورمذہبی جھگڑوں کو ختم کرکے ایک ہی مذہب میں سب کو جمع کردے۔ اس آخری زمانے کے بارے میں قرآن شریف میں کئی نشان لکھے ہیں مثلاً نہروں کا نکلنا، زمینی عُلوم اور معدنیات کا ظاہر ہونا، اونٹوں کا بےکار ہونا، کتابوں کی بکثرت اشاعت، ملاقاتوں کے سہل طریق کی دریافت، چاند اور سورج گرہن، طاعون کا پھیلاؤ وغیرہ۔ عقل مند کےلیے یہ صاف اور روشن راہ ہے کہ ایسے وقت میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا جب کہ قرآن شریف کی لکھی ہوئی تمام علامتیں میرے ظہور کےلیے ظاہر ہوچکی ہیں۔

آپؑ اپنے دعوے کےمتعلق فرماتے ہیں کہ مَیں وہ شخص ہوں جو عین وقت پر ظاہر ہوا۔ کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کرکے مجھ پر غالب آسکے۔ مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دولاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہوچکے ہیں اور دس ہزار کے قریب لوگوں نے پیغمبر ﷺ کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے میری تصدیق کی۔

سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلے کو بند کرے اورقلم،دعا،توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔ افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اور جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں۔دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہوکر یہ امید کیونکر کرسکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں۔ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔آنحضرتﷺ پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن آنحضرتﷺ کی برکات اور فیوض اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے تنزل اور کم زوری کے دَور میں خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا مَیں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں۔

مخالفین کی دریدہ دہنی کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا کہ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجال اور کذاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا۔ مَیں نے تو ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصّہ نہیں پایا جو ہمارے سیّدومولیٰ ﷺ کی راہ میں آئیں۔

مَیں نے پورے طور پر اس طریق کو پیش کیا ہے جو اسلام کو کامیاب اور دوسرے مذاہب پر غالب کرنے والا ہے۔ اگر تم مجھے خداتعالیٰ کی قسم پر اور ان نشانات کوجو اس نے میری تائید میں ظاہر کیے دیکھ کربھی مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر مَیں تمہیں خداتعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ جس کی خداتعالیٰ تائید و نصرت کرتا جاوے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں صادق ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں مجھے نصرت دیتا ہے اور اس نے لاکھوں انسانوں کے دل میں میری محبت ڈال دی ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ جو انوار وبرکات اس وقت آسمان سے اتر رہے ہیں وہ ان کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی۔ مَیں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹادے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔

اگر مَیں آنحضرتﷺ کی امت نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی شرفِ مکالمہ ومخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ بجز محمدی نبوت کےسب نبوتیں بند ہیں۔ وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ خدا کرے کہ دنیا میں بسنے والے لوگ خاص طور پر مسلمان اس حقیقت اور آپؑ کے دعوے کو سمجھنے والے ہوں اور جلد وہ مسیح و مہدی کی بیعت میں آجائیں۔

خطبے کے آخر میں حضورِانور نے پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کےلیے دعا کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا کہ پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتا ہے اسی طرح الجزائر میں بھی حکومت کے بعض اہلکار وں کی نیت نیک نہیں لگ رہی۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہرملک میں ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ احمدیوں کو بھی توجہ کرنی چاہیے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر خداتعالیٰ کی طرف جھکیں اور حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button