حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ (ازMidlands ریجن بعمر16 تا 19 سال) کی (آن لائن) ملاقات

جب آپ اللہ کی محبت حاصل کرلیں گے تو آپ خلیفۃالمسیح کے اور احمدیہ مسلم جماعت کے ہر فرد کے بھی محبوب بن جائیں گے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5؍ستمبر 2021ء کو مجلس خدام الاحمدیہMidlands یوکے کے ایسےطلباء سے جن کی عمر16سے 19 سال ہےآن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ60 طلباء نے مسجد دارالبرکات Birmingham سے شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد اراکین مجلس خدام الاحمدیہ کو حضورِ انور سے سوالات پوچھنے اور راہنمائی طلب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ پیارے حضور کیا جب آپ خدام الاحمدیہ کے ممبر تھے تو اس وقت کی چند خوشگوار یادیں ہمارے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں؟

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ میری خدام الاحمدیہ سے جڑی ہر یاد خوشگوار ہے۔ جب آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو جوانی کی ہر بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب خدام الاحمدیہ میں ہم اپنا اجتماع منعقد کرتے تھے اور وہ کھلی فضا میں منعقد ہوتا تھا، ہم خود شامیانے لگاتے تھے اور باقاعدہ مارکی نہیں ہوتی تھی جیسی آج کل یورپ میں یا دوسری جگہوں پر ہو تی ہے۔ ہم اپنی بیڈشیٹس سے ٹینٹ بناتے تھے۔ اور جب بارش ہوجاتی تھی تو قطرے اندر بھی آجاتے تھے کیونکہ وہ waterproof نہیں تھے۔ تو ہم ان دنوں میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے اور کیمپنگ کا بھی مزہ لیتے تھے۔ تین دنوں تک ہم اس کیمپ میں رہتے تھے۔ ساری جگہ کی ایک باڑ لگا کر حد بندی کردی جاتی تھی اور ایک کھلے میدان میں یہ سارا عارضی انتظام ہوتا تھا۔ پھر جلسہ یا اجتماع کی مارکی بھی وہیں لگتی تھی وہ بھی waterproof نہیں ہوتی تھی جیسی یہاں ہوتی ہے اور اگر بارش ہو جاتی تھی تو ہم پوری طرح بھیگ جاتے تھے۔ تو اس طرح ہم اپنے دنوں میں مزہ کرتے تھے۔ پھر وہیں کھانا پکتا تھا اور ہم بالٹی میں اپنا کھانا لاتے تھے۔ ایک ٹینٹ میں 10 افراد ٹھہر سکتے تھے۔ تو یہ وہ دن ہیں جو مجھے یاد ہیں اور جن کو یاد کرکے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور میں آپ کے خطبہ جمعہ سے بہت متاثر ہوا ہوں جو آپ نے سید طالع احمد شہید کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ حضور میں کس طرح سید طالع احمد کی طرح بن سکتا ہوں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اگر آپ اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جن سے حضرت خلیفۃ المسیح محبت کرتے ہیں۔ اس کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرتﷺ کو مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کو بتا دیں کہ اگر وہ اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپﷺ کی پیروی کریں پھر اللہ ان سے محبت کرنے لگے گا۔ اس لیے آپ کو یہ سیکھنا ہوگا کہ حضورﷺ نے کیا فرمایا ہے اور حضورﷺ کا عمل کیا تھا۔ اور آپ نے حقیقی مسلمان بننے کےلیے کیا احکامات ارشاد فرمائے ہیں اور قرآن کریم کے اس حوالہ سے کیا ارشادات ہیں۔ پھر جب آپ اللہ کی محبت حاصل کرلیں گے تو آپ خلیفۃالمسیح کے اور احمدیہ مسلم جماعت کے ہر فرد کے بھی محبوب بن جائیں گے۔ اس لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کریں۔

پھر ایک خادم نے سوا ل کیا کہ جیساکہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ کی شہادت کے بعد سے سرزمینِ افغانستان میں امن نہیں رہا اسی طرح کیا ہم پاکستان میں کبھی حقیقی امن دیکھ سکیں گے جبکہ گزشتہ سالوں میں وہاں اس قدر شہادتیں ہوئی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ اگر پاکستانی ملاؤں نے اور نام نہاد مولویوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پاکستان میں بھی کبھی امن نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنا رویہ ٹھیک نہ کریں اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنے رویے میں فرق پیدا کریں اور انسانیت پیدا کریں۔ اگر وہ غیر انسانی حرکات میں ملوث رہیں گے تو پاکستان میں بھی کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا اور ہم یہ 1953ء سے دیکھ رہے ہیں جب احمدیوں کے خلاف نعرے بازی ہوئی اور ہڑتالیں ہوئیں اور پھر چند شہادتیں بھی ہوئیں لیکن ساتھ ہی اسی وقت احمدی بطور پاکستانی شہری کے اپنا تشخص رکھتے تھے۔ لیکن اب آئینی ترمیم کے بعد اور ضیاء الحق کے 1984ء کے آرڈیننس کے بعد احمدیوں کو اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھنے سے بھی روکا گیاہے اور منع کیا جاتا ہے۔ وہ ’بسم اللہ‘ نہیں کہہ سکتے، وہ ’السلام علیکم‘ نہیں کہہ سکتے اور اب انہوں نے اس قانون کو احمدیوں کے خلاف مزید سخت کر دیا ہے۔ اگر تم پاکستان کی تاریخ دیکھو تو اس کے بعد سے اب تک امن قائم نہیں ہوسکا۔ یہاں تک ملاں نے باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہےکہ کہ جب بھی سیاسی یا عسکری حکومت آتی ہے تو وہ لرزے کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ کنٹرول نہیں کر سکتیں، ان کا اپنے شہریوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ جب تک وہ توبہ نہ کریں میرے خیال میں وہاں کسی تبدیلی کی توقع ممکن نہیں ہے خاص طور پر جہاں تک امن کا سوال ہے۔

بعد ازاں ایک خادم نے سوال کیاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے کئی لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر پڑا ہے اور وہ ڈپریشن اور anxiety سےدوچار ہیں۔ اس نے کئی خدام پر بھی اثر کیا ہے۔ حضور انور سے ایک خادم کی ان معاملات سے نپٹنے کے حوالہ سے راہنمائی فرمانے کی درخواست ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ

کہ میرے ذکر اور یاد سے تمہارے دل اطمینان پاتے ہیں۔ اس لیے ان دنوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کی کوشش کرنی کرنی چاہیے۔ مستقل مزاجی سے پنجوقتہ نمازیں ادا کریں۔ اگر ممکن ہو تو با جماعت اد اکریں۔ اور ذکر کیا کریں، درود شریف پڑھا کریں اور استغفار پڑھا کریں۔ اور اللہ کی راہنمائی اور مدد طلب کریں۔ یوں اللہ تعالیٰ آپ کو طاقت اور مضبوطی عطا کرے گا اور آپ کے دل کو تقویت بخشے گا۔ اس وائرس کے دوران مجھ پر اور میرے قریب رہنے والوں پر مجھے نہیں لگتا کہ کوئی منفی اثرات ہوئے ہیں۔ (حضورِ انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہم ٹھیک ہیں۔ اور تم بھی ٹھیک ہو۔ پھر خادم سے استفسار فرمایا کہ کیا تم ٹھیک نہیں ہو؟ خادم نے عرض کیا جی حضور میں ٹھیک ہوں۔ )حضورِ انور نے فرمایا جن کو کوئی مسئلہ ہے انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنی چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ انہیں چاہیے کہ نمازیں ادا کریں، نمازوں میں مستقل مزاجی اور باقاعدگی اختیار کریں۔ درود شریف اور استغفار پڑھیں اور

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ

اور دیگر اَذکار پڑھیں جو دعائیہ کتب میں موجود ہیں۔ یہ چیز پھر آپ کے لیے اطمینان کا باعث ہو گی۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور بسا اوقات نماز پڑھتے ہوئے ہماری توجہ کسی اور طرف ہو جاتی ہے۔ اس خادم نے نمازمیں یکسوئی پیدا کرنے کے حوالے سے حضور انور کی راہنمائی طلب کی۔

حضور انور نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی ترجیحات الگ ہیں۔ نماز کے دوران آپ کی ترجیح نماز نہیں ہوتی۔ (پھر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں۔ خادم نے جواب دیا کہ حضور میں اے لیولز کر رہا ہوں۔ پھر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ مضامین کیا ہیں تو خادم نے جواب دیا کہ حضور آرٹس، کمپیوٹر سائنسز اور ریاضی)۔ فرمایا کہ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو کمپیوٹر سائنس آپ کی توجہ میں خلل ڈال دیتی ہے اور آپ کمپیوٹر سائنس کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے۔ یا یہ کہ ریاضی کے کسی فارمولا کو کیسے سمجھا جائے کہ فلاں سوال حل ہو جائے۔ بسا اوقات آپ ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہ آپ کے سامنے آجاتا ہے کہ کسی ڈرامہ کا کوئی کیریکٹر یہ کر ر ہا تھا یا ایسے کر رہا تھا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو آپ کی توجہ میں خلل ڈالتی ہیں اور آپ پوری طرح نماز پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتے۔ ایسے وقت میں جب آپ سورۃ الفاتحہ پڑھ رہے ہوں تو

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

اور

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بار بار اور کثرت سے پڑھیں۔ اور اگر باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں تو اَعُوْذُ بِاللّٰہِ پڑھ کر جو امام تلاوت کر رہا ہے اس پر توجہ مرکوز کریں۔ اور اپنی انفرادی نماز ادا کر رہے ہوں، سنتیں یا نوافل تو پھراَعُوْذُ بِاللّٰہِ اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ اور اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ پڑھیں۔ اور جس جگہ آپ کو لگے کہ آپ کی توجہ قائم نہیں رہی تو پھر واپس وہیں آنے کی کوشش کریں جہاں سے توجہ میں خلل آیا تھا۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے

مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ

پڑھنے کے بعد آپ کی توجہ کمپیوٹر سائنس کی طرف چلی گئی تھی یا کسی ڈرامے کے کسی کیریکٹر کی طرف تو پھراَعُوْذُ بِاللّٰہ اور اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ پڑھ کر دوبارہ سورۃ الفاتحہ سے آغاز کریں۔ اس کو بار بار دہرائیں اور اس حوالے سے اللہ کی مدد طلب کریں تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کر ے گا۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور کچھ دیر کے بعد آپ کی اچھی مشق ہو جائے گی اور پھر توجہ میں خلل نہیں پڑے گا۔

پھر ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا عید الاضحی کے موقع پر ہم قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے کسی غریب کی امداد کے لیے پیسے دے سکتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں یہ قربانی متصور ہوگی؟

حضورِانور نے فرمایا کہ دیکھو، ہمیں اپنی خود کی شریعت بنانی چاہیے یا اُس پر عمل کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور آنحضرتﷺ نے اپنی سنت قائم فرمائی ہے۔ خادم نے جواب دیا کہ سنت رسولﷺ۔ فرمایا تو پھر آپﷺ قربانی کیا کرتے تھے۔ پھر دیکھو ایک بڑی تعداد دنیا میں ایسے لوگوں کی ہے جنہیں گوشت نہیں ملتا۔ یہاں یورپ میں رہتے ہوئے آپ کو اس کا احساس نہیں ہوگا۔ لیکن یورپ یا مغربی ممالک میں رہنے والے لوگوں کو غریب ممالک میں قربانی کرنی چاہیے جیسے افریقہ، پاکستان اور انڈیا یا اور دیگر ممالک میں جیسے جنوبی امریکہ وغیرہ کے ممالک میں۔ اگر آپ افریقہ میں قربانی کریں گے تو مجھے چند ممالک سے ایسے تاثرات ملے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے انہیں کہا کہ افریقہ میں اتنے بکروں کی قربانی کریں تو بعض جگہ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے تین یا چار سال کے بعد گوشت کھایا ہے۔ تو یہ ایسی چیز ہے جو لوگوں کو بھی پسند آتی ہے اور اگر آپ کے پاس قربانی کے علاوہ بھی کچھ پیسے ہوں تو پھر ضرورت مندوں کی مدد بھی کر دینی چاہیے۔ لیکن عید کے موقع پر قربانی کے لیے آپ کو سنت رسولﷺکی پیروی کرنی ہوگی۔ اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں۔

ایک خادم نے سوال پوچھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ احمدیت کے غلبہ کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک دن اکثریت امام الزمان کو مان لے گی۔ آپ کے خیال میں یہ کب وقوع پذیر ہوگا؟

حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیروی میں آنے والے مسیح علیہ السلام کی قبولیت میں 300 سال یا زیادہ لگے تھے جب رومن بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی تھی لیکن تم دیکھو گے کہ ابھی 300سال نہیں گزریں گے کہ دنیا کی اکثریت احمدیت کو قبول کرلے گی۔ لیکن یہ سب چیزیں ہماری حرکات و سکنات پر بھی منحصر ہیں اگر ہم اچھے اعمال کرنے والے ہیں اورا للہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے دعاکرنے والے ہیں، اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں تو پھر یہ (غلبہ) اس سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے آپ اس کے لیے کیا کر رہے ہیں آپ کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابل قبول ہیں اور ہم حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں تو پھر ہم اس ٹارگٹ کو اس سے بھی پہلے حاصل کر سکتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button