متفرق مضامین

خلافت احمدیہ کا شاندار مستقبل

(’در مکنون‘)

یہ مقدر تھا کہ خلافت کی برکات ایک ہزار سال تک ممتد ہوں

امام مہدی کی پیشگوئی

آنحضورﷺ کے ذریعہ آخری مذہب اور آخری کامل شریعت نازل ہوئی۔ جس کا نام ہی اسلام یعنی امن و سلامتی والا رکھا گیا۔ آپﷺ کے ذریعہ اگرچہ شریعت اپنے کمال کو پہنچ گئی اوردلائل و براہین سے اسلام کا غلبہ ہو گیا۔ لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ عملاًساری دنیا ایک ہاتھ پر جمع ہو جائے۔ یہ آخری زمانے میں ہونا مقدرتھا۔ جس میں نبی کریمﷺ کی ہی بعثت ثانیہ آپ کے کامل غلام اور عاشق صادق امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ ہونی تھی۔ چنانچہ هُوَ الَّذِيْٓ أَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ کی پیشگوئی کی تفسیر میں تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ پیشگوئی امام مہدی کے ذریعہ پوری ہو گی۔ ان کے ہاتھ پر عملاً تمام بنی آدم کو اکٹھا کیا جائے گا۔

آنے والے امام مہدی کو مسیح موعود کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ جن کے ذریعہ دنیا میں خوشحالی اور امن و سلامتی کے دَور کا آغاز ہونا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ، وَرُدِّي بَرَكَتَكِ(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) کہ اس مبارک زمانے میں زمین سے کہا جائے گاکہ اپنے تمام پھلوں کو اُگائے اور اپنی تمام برکات کو لوٹا دے۔ ہر طرف خوشحالی کا دَور ہو گا اور ہر کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متمتع ہو گا۔ اس لیے فرمایا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم) لوگوں میں آپس کے کینے اور بغض اور حسد مٹ جائیں گے۔ اس قدر امن کا دَور ہو گا کہ فرمایا حَتَّى تَرْتَعَ الْإِبِلِ مَعَ الْأُسُودُجمیعًا، وَالنُّمُوْرُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَيَلْعَبَ الصِّبْيَانُ وَ الْغِلْمَانُ بِا الْحَيَّاتِ، لَا يَضُرُّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا(مسند احمد مسند ابی ہریرہ حدیث نمبر: 9630) یہاں تک کہ اونٹ شیروں کے ساتھ، چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

دنیا کے تمام مذاہب میں آخری زمانے میں پیدا ہو جانے والی خرابیوں اور پھر ا ن کی اصلاح کے لیے ایک موعودِاقوام عالم کے آنے کا ذکر ملتا ہے جس کے ذریعہ دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے گی اوردکھ مٹ جائے گا اور دنیا میں لمبے عرصہ تک امن و سلامتی کا دَور ہو گا۔

امام مہدی و مسیح موعود کا ظہور

ان پیشگوئیوں کے عین مطابق جب آخری زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے۔ هُوَ الَّذِيْٓ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ۔ اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھےکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 231تا232) آپؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ۔سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ306تا307) اللہ تعالیٰ نےآپ علیہ السلام کو بہت سی عظیم الشان پیشگوئیوں کی خوشخبری عطا کی تھی۔ مثلاً

٭…’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘(تذکرہ صفحہ 260)

٭…’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اورمیری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھلائے گااور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ ا س قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی۔ اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔‘‘(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409)

٭…’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ و ہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا… دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا…دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیاہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے!‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ66تا67)

٭…’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘(تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 409)

٭…’’ اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے۔ اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب‘‘(نورالحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد8 صفحہ 197)

٭…’’میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں ‘‘(تذکرہ صفحہ691)

٭…’’اِنِّی مَلَکْتُ الشَّرْقَ وَالغَرْبَ‘‘(تذکرہ صفحہ412) یقیناً میں مشرق اور مغرب کا مالک ہوا۔

٭…’’مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری جماعت ریت کے ذروں کی طرح دکھائی ہے ‘‘(تذکرہ صفحہ690)

٭…’’اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(آل عمران: 56)باربارالہام ہوئی اور اس قدر تواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے، اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئی۔ اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گااور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنےوالا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہو گی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا۔‘‘(تذکرہ صفحہ48)

٭…’’ جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا… یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہوںگی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آ جائے گا اور غیرمعمولی آفتیں دور ہو جائیں گی تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہّار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیحؑ کو منحوس قرار نہ دیں ‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 399)

٭…’’تیری ذریت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا‘‘(تذکرہ صفحہ112)

خلافت احمدیہ کا عظیم الشان وعدہ

چونکہ انبیاء بھی بشر ہیں اور اپنی طبعی عمرپا کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اس لیے ان کے مشن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے۔ آنحضورﷺ فرماتے ہیں کہ مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَةٌ(کنز العمال حدیث نمبر 32246)کہ کوئی بھی نبوت ایسی نہیں گزری جس کے بعد خلافت قائم نہ ہوئی ہو۔ اس جاری سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپ علیہ السلام جماعت کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کاسلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گاسو ضرو رہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ305تا306)

خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی

قدرت ثانیہ سے مراد وہی خلافت ہے جس کی نبی کریمﷺ نے خبر دی تھی۔ آپ نے قیامت تک اپنی امت کے حالات اور زمانوں کا نقشہ کھینچے ہوئے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اورخلافت علی منہاج النبوۃقائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر جابر بادشاہت کا دور ہو گا اور جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا۔ ثم تكون خلافة على منهاج النبوة۔ پھر ایک بار پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد حدیث نعمان بن بشیر حدیث نمبر18430) گویا ا س کے بعد دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ قدرت دائمی ہو گی جس کا سلسلہ تا قیامت منقطع نہ ہو گا۔ نبی کریمﷺ نے بھی اس کی تصدیق فرما دی کہ آخری زمانے میں قائم ہونے والی خلافت کے بعد کوئی اور دَور نہیں ہو گا اس کے بعد دنیا کا خاتمہ ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیشگوئیوں کے عین مطابق خلافت احمدیہ کےعظیم الشان دَور کا آغاز ہوا جس کے مظہر خامس سیدنا و امامنا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج عالمگیر جماعت احمدیہ کی قیادت فرما رہے ہیں۔

ترقیات کی تمام پیشگوئیاں زمانہ خلافت سے وابستہ ہیں

خلافت احمدیہ کے اس عظیم دَور میں ان تمام پیشگوئیوں کا پورا ہونا مقدر تھا جو اسلام کی ترقی اور غلبہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو دنیا سے شرک کے فنا ہونے اور توحید کے غلبہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو دنیا کی امن و سلامتی اور بنی نوع انسان کی خوشحالی سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیونکہ تمام پیشگوئیاں اسی خلافت پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ دنیا کا وہ آخری دَور ہے جس کے بعد اور کوئی دَور نہیں۔ یہ وہ آخری زمانہ ہے جس کے بعد کوئی اور زمانہ نہیں۔ پس

٭…اسی خلافت کے ذریعہ آغاز دنیا کی طرح ایک بار پھر آدم کی اولاد ایک ہاتھ پر جمع ہو کر ایک خاندان کی شکل اختیار کرے گی۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ اسلام غالب آئے گا اور تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گےیا بطور نمونہ باقی ہوں گے۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ تمام ممالک اور تمام علاقوں میں خدائے واحد کی عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے اور شرک دنیا سے مٹ جائے گا۔

٭…اسی خلافت میں مکہ و مدینہ کے رہنے والے بھی فوج در فوج اسی آسمانی سلسلہ میں داخل ہوں گے۔

٭…اسی خلافت میں رشیا میں جماعت ریت کے ذروں کی طرح ہو جائے گی۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ دنیا کے بادشاہ بیعت کی سعادت حاصل کر کے مسیح و مہدی کی غلامی کا جُؤا اپنی گردنوں پر رکھیں گے۔

٭…اسی خلافت کے زمانے میں اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام علوم و فنون میں کمال حاصل کریں گے۔ اور علم و معرفت میں سب کا منہ بند کر دیں گے۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ جماعت احمدیہ ہی ایک جماعت ہو گی جو ساری دنیا میں عزت و احترام سے یاد کی جائے گی باقی سب نابود ہو جائیں گے۔ بطور عبرت ان کے نشانات باقی رہ جائیں گے۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ دنیا سے ہر قسم کا ظلم و ستم مٹ جائے گا اور دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی۔

٭…اسی خلافت کے ذریعہ تمام دینی و دنیاوی برکات کا آسمان سے نزول ہو گا۔ دنیا سے دکھ اور درد مٹ جائے گا۔ نہ کوئی بھوکا سوئے گا نہ کوئی کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے گا بلکہ ہر طرف خوشحالی اور آسائش کا دَور دورہ ہو گا۔ جو ایک لمبے زمانے پر محیط ہو گا۔

خلافت علی منہاج النبوۃ کا زمانہ

پیشگوئیوں کے مطابق اس بابرکت خلافت کا زمانہ کم از کم ایک ہزار سال پر محیط ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اور پھر ساتواں ہزار خدا اوراس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے… اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہو گی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارہ میں کی ہے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 186)

یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے آپ کوکشفاً اور الہاماً سمجھایا کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور آپ کا زمانہ ساتویں ہزار سال پر محیط ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ھٰذَا مَا کَشَفَ عَلَیَّ رَبِّیْ ‘‘(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ330) نیز فرمایا: ’’سورۃ العصر میں دنیا کی تاریخ موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی ہے ‘‘(الحکم جلد 6 صفحہ 25۔ مورخہ 17؍جولائی 1902ء)

پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بابرکت خلافت کا زمانہ یقینی طور پر کم ازکم ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ یہ ازل سے مقدر تھا کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوں گی، توحید کا غلبہ ہو گا، شرک مٹ جائے گا، ظلم و ستم اور ہر قسم کا فساد ناپید ہو گا اور امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا دَور دورہ ہو گا۔ اللہ کے فضل سے دلائل و براہین کے اعتبار سے تو جماعت احمدیہ غلبہ پا چکی ہے لیکن عددی ظاہری غلبہ بھی انشاء اللہ پہلی تین صدیوں کے اندر مقدر ہے۔ اس کے بعد کم ازکم سات سو سال کا دَور امن و سکون اور پیار محبت کا ہو گا۔ جب یہ ایک ہزار سال مکمل ہوں گے تو اس کے بعد جب اللہ چاہے گا وہ آخری گھڑیاں بھی آن پہنچیں گی جب اشرار الناس پیدا ہوں گے جن پر قیامت برپا ہو گی۔ لیکن وہ اتنا معمولی عرصہ ہو گا جس کو زمانہ یا عہد نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لیے نہ آنحضورﷺ نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو زمانوں میں شمار کیا ہے۔ پس خلافت احمدیہ کےمستقبل کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے دی ہے، تمام گذشتہ انبیاء اور تمام نبیوں کےسردارﷺ نے وضاحت سے خبر دی کہ دنیا کا آخری دَور خلافت علی منہاج النبوۃ کا دَور ہو گا جس کا زمانہ کم از کم ایک ہزار سال پر محیط ہو گا۔ آپ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون سمجھا دیاکہ آپ کا زمانہ ایک ہزار سال پر مشتمل ہے یعنی آپؑ کی برکت سے جاری ہونے والی خلافت کا بابرکت سایہ دنیا پر کم از کم ایک ہزار سال تک ممتد رہے گا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button