چور کے ہاتھ کاٹنے اورزانی کو رجم کرنےکی وضاحت
سوال:ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کہ’’ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے اورزانی کو رجم کرنے کا واضح حکم آیا ہے‘‘کے حوالے سے تحریر کیا کہ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا تو ذکر موجود ہے لیکن زانی کو رجم کرنے کا کسی آیت میں ذکر نہیں ؟اس بارے میں رہ نمائی کی درخواست ہے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 15؍ اکتوبر 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطافرمایا:
جواب: اسلامی سزاؤں کے عموماً دو پہلو ہیں ایک انتہائی سزا اور ایک نسبتاً کم سزا۔ اور ان سزاؤں کا بنیادی مقصد برائی کی روک تھام اور دوسروں کےلیے عبرت کا سامان کرنا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں ہر قسم کے چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی گئی مثلاً کھانے پینے کی اشیاء کی چوری پر کبھی ہاتھ نہیں کاٹا گیا۔ لیکن اگر کوئی چور کسی عورت کا زیور چھینتے ہوئے اس کے ہاتھ کان زخمی کر دیتا ہے یا اس کے کسی Organکو ایسا نقصان پہنچا دیتا ہے کہ وہ کسی معذوری کا شکار ہو جاتی ہے تو ایسے چور کو پھر اس کے جرم کے مطابق سزا دی جاتی ہے جس میں ہاتھ کاٹنے کی بھی سزا شامل ہے۔
اسی طرح جو زنا باہمی رضامندی سے ہوا ہو اگر وہ اسلامی طریقۂ شہادت کے ساتھ ثابت ہو جائے تو فریقین کو سو کوڑوں کی سزا کا حکم ہے۔ لیکن جس زنا میں زبردستی کی جائے اور اس میں نہایت وحشیانہ مظالم کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ یا کوئی زانی چھوٹے بچوں کو اپنے ظلموں کا نشانہ بناتے ہوئےاس گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوا ہو تو ایسے زانی کی سزا صرف سوکوڑے تو نہیں ہو سکتی۔ ایسے زانی کو پھر قرآن کریم کی سورۃ المائدۃ آیت 34 اور سورۃ الاحزاب کی آیت 61تا 63 میں بیان تعلیم کی رو سے قتل اور سنگساری جیسی انتہائی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن اس سزا کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت وقت کودیا گیا ہے اور اس تعلیم کے ذریعہ عمومی طور پر حکومت وقت کےلیے ایک راستہ کھول دیا گیا۔
چنانچہ انہیں آیات قرآنیہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی قسم کے زانی کےلیے سنگساری کی سزا کے قرآن کریم میں بیان ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔