دنیا میں امن و سلامتی کے لیے خلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششیں
تقریر جلسہ سالانہ برطانیہ
تم امن پسند جماعت بنو دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ)
آج دنیا میں ایک بے یقینی اور خوف کی فضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالمِ انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور سکون کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں امنِ عامہ کی کوششوں کی بجائے، دنیا میں اسلحہ و جنگ کےپھیلائو پر کام ہورہا ہے۔ اس تناظر میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اس کی بے لوث خدمت اور دعائیں کرنےوالا ایک مقدس آسمانی نظام خلافتِ احمدیہ ہے۔ آج دنیا میں امنِ عامہ کی جس قدر کوششیں خلافتِ احمدیہ نے کی ہیں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے۔امن،صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی راہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو اُسے نہیں مانتے، وہ اُن کے لیے بھی ایسے ہی درد رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن اور اس کا قیام جماعت احمدیہ کے جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔حضرت بانئ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امن عالم کے وہ شان دار اصول دنیا کے سامنے رکھے کہ جن پہ حقیقی امن اور سچی خوشحالی کی بِنا ہے۔ حضرت بانئ جماعت احمدیہ نے اس حوالے سے دنیا کے سامنے ایک زرّیں اصول بیان فرمایا:’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔…یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا …کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)
اس شان دار اصول پر اگر آج بھی دنیا قائم ہوجائے تو دنیا کے ایک بڑے حصہ میں امن اور صلح کی فصلیں پھولیں گی اور دنیاسے فساد اور شر کا خاتمہ ہوگا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو امن عالم سے متعلق اتنی فکر تھی کہ آپ نے اپنی وفات سے صرف دو دن پہلے پیغام صلح لکھی جس میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں، مسلمان اور ہندوؤں کو امن و صلح کا یہ پیغام دیاکہ باوجود مذہبی اختلاف کے ہم سب انسان ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:’’اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔‘‘ (پیغامِ صلح، روحانی خزائن، جلد 23، صفحہ:439)
حضرت مسیح موعودؑ نے امن عامہ کے لیے جو کوششیں کیں۔ آپ کی وفات کے بعد سے، آپؑ کے خلفا نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری و ساری ہے۔
خلافت احمدیہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجا تا ہے کہ کس طرح خلفائے مسیح موعودؑ مخلوقِ خدا کی دادرسی کرتے ہیں اور حقوق کی بابت کہیں وہ کسی بادشاہ یا حاکم ِوقت کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں توکہیں ملکوں کے قانون ساز اداروں پارلیمان میں خطاب کے ذریعہ اقوامِ عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔ کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔خلفائے احمدیت کا مطمح نظر بس یہی رہا ہے کہ خدا کی مخلوق کو سکون نصیب ہو اور ان کے دکھوں کا مداوا ہو۔ان پہ مسلط کردہ جنگوں کا اختتام ہو اور انہیں سکون کی گھڑیاں نصیب ہوں۔ان کے آفات و مصائب امن و سکون سے بدل جائیں،ان کی زندگیاں مشکلات کی پگڈنڈیوں سے نکل کر خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں اور زمانہ گواہ ہے اور ہم سب گواہ ہیں دنیا میں امن کا شہزادہ اگر کوئی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کا راہنما،عالم اسلام کا درد رکھنے والا خدا کا یہ خلیفہ ہی ہے۔اللّٰھم ایدہ بروح القدس!حضرت مسیح موعودؑ کی رحلت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مسند خلافت پہ جلوہ افروز ہوئے اور حضرت اقدسؑ کے مشن کو جاری رکھا۔آپؓ نے دنیا کی ترقی اورخوشحالی کا سربستہ راز بیان کرتے ہوئےفرمایاکہ تم امن پسند جماعت بنو ’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا۔ اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔…اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے مَیں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو۔ …تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو۔ اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔ ‘‘(حقائق الفرقان، جلد 4، صفحہ:454،453)1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جماعت احمدیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔آپ کے دورِ خلافت میں آپ کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں خدا نے بہت سی روحوں کو امن وسکون سے سرفراز فرمایا۔ آپ کی شفقت اکناف ِعالم پہ محیط تھی۔جنگ زدہ علاقوں میں خدمت خلق سے لے کر ظالموں کی قید میں مظلوم جانوں کی گردنیں آزاد کروانے تک،مذاہب عالم کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام سے لے کر سیاسی کشیدگی میں فریقین کو سمجھانے تک،ہر محاذ پہ حضرت مصلح موعودؓ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور امن ِ عالم میں وہ کردار ادا کیا جس کی نظیر ملنا محال ہے۔دنیا میں بپا بے چینی اور فساد کی ایک بہت بڑی وجہ مذہبی عد م برداشت ہے۔اگر ایک دوسرے کے بزرگان کا تذکرہ احترام سے کیا جائے تو امن کی ایسی فضا قائم ہو جس سے معاشرہ سکون میں آجائے۔اسی بنیاد کو حضرت مصلح موعودؓ نے قائم کیا اور جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کاآغاز کیا۔انہی جلسوں کی ایک برکت، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق، جلسہ پیشوایانِ مذاہب کی شکل میں ظاہر ہوئی اور جماعت نے یہ اہتمام کیا کہ ایک ہی سٹیج پر تمام مذاہب کے لیڈر اور مقررین اپنے اپنے پیشواؤں کے کارنامے اور خو بیاں بیان کریں۔ ان جلسوں میں مختلف مذاہب کے لوگ خوشدلی سے شرکت کرتے ہیں جس سے نہ صرف باہمی اعتماد اور احترام کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ دنیا کو امن اور سکون نصیب ہوتا ہے اور اس کے پس پردہ کارفرما سوچ خلافت احمدیہ کی راہنمائی اور مخلوق خدا سے ہمدردی پہ مشتمل ہے۔
امنِ عالم کےقیام کےلیے جماعت احمدیہ کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ احمدی اپنے ملک کا وفادار ر ہے اور اُس کی بہتری اور بہبود کےلیےکوشاں رہے اوراپنے ملک کی حکومت کے خلاف کسی بغاوت،فساد یا مظاہرے میں حصہ نہ لے۔دنیا کےکئی ممالک میں جماعت احمدیہ کو عوامی مخالفت کے علاوہ حکومتی جبر کا بھی سامنا ہے۔ جماعت کو ہر قسم کے انسانی اورشہری حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جبرواستبداد،قیدوبند،قتل وغارت اورتشدد معمول ہے مگر جماعت کی تاریخ کسی بھی قسم کے فساد سے مبرا ہے۔اگر احمدی حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت کے سکھائے راستوں پہ نہ چلتے تو یہ امن کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔
نصف صدی سے زائد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ مسندِ خلافت پہ جلوہ افروز رہے اور اک عالَم نے آپ سے فیض پایا۔قوموں نے نہ صرف آپ سے برکت پائی بلکہ انہیں امن اور صلح نصیب ہونے کی تمام کوششیں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے مستقل فرمائیں۔سیاست،سماج،مذہب اور دفاع غرض ہر شعبہ میں آپ نے امن اور انصاف کے اصول بیان فرمائے۔ترقیات اور انقلابات کے سنگ ایک شدید بے سکونی اور بدا منی کی لہر نے بھی دنیا کو گھیرا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف سیاسی حوالوں سے جاری بدامنی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ مذہبی حوالے سے بھی شان دار خدمات انجام دیں۔کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں بدلنے سے لے کر فلسطین کے باشندوں کی راہنمائی تک اور تقسیمِ ہندوستان سے لے کر اقوام ِمتحدہ کے بنیادی چارٹر کے متعلق راہنمائی تک، ہر جگہ آپ امن کے قافلے کے سالار نظر آتے ہیں۔قیامِ امن کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوششیں اور کاوشیں اِس قدر ہیں کہ اِس مختصر وقت میں اُن کا احاطہ مشکل ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیشروؤں کی سنت کو جاری رکھا اور دنیا کو امن و سلامتی نصیب ہونے کے لیے دعاؤں کی تحریک کے ساتھ مسلسل عملی اقدامات بھی فرمائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے1967ء میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان امن اور اتفاق پیدا کرنے کی خاطر یہ تجویز دی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے اپنے اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محض اسلام کی تبلیغ اور تشہیر کےلیے مل کر کوشش کریں۔ (تاریخ احمدیت، جلد 24صفحہ157)آج جماعت احمدیہ بطور امن پسند جماعت کے دنیا بھر میں معروف ومقبول ہے۔قیام ِامن کے لیے دنیا بھر میں جاری جماعتی کاوشوں کو بھی تشکر اورقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جماعت کے سلوگن Love for all Hatred for none کی بہت تعریف کی جاتی ہے یعنی محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ یہ نعرۂ امن و سلامتی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبانِ مبارک سے ہی ادا ہوا تھا۔ جو حضور نے 1980ء میں سپین کی سرزمین پہ فرمایا۔نفرتوں سے بھری دنیا میں محبت کا یہ اعلان ِعام تھا جس کے سبب مغرب نے حضورؒ کو سفیرِ محبت کے نام سے یاد کیا۔لیکن جہاں تک دنیا کو متنبہ کرنے کی بات ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آج سے 55 سال قبل، 28؍جولائی 1967ء کو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں’’امن کا پیغام اور ایک حرفِ انتباہ ‘‘کے عنوان سےایک تاریخی خطاب فرمایا۔ جس میں حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک تیسری عالمی جنگ سے متنبہ کیا۔آپ نے اس کی ہولناک تباہی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اقتباس پیش فرمایا:’’یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(تاریخ احمدیت، جلد 24صفحہ: 139 تا 140)خلافتِ رابعہ میں جماعت احمدیہ کو شدید تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ریاستی جبر ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔ ایسے عالم میں بھی جماعت اپنی امن پسند پالیسی اور تعلیم پہ نہ صرف قائم رہی بلکہ خلافت احمدیہ کے وجود سے عالمگیر امن و سلامتی کی کوششوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1990ءمیں ’’اسلام اور عصرحاضر کے مسائل کا حل‘‘کے عنوان سے ایک معرکہ آراء خطاب فرمایا۔اس میں آپؒ نے انسانوں کو نسل پرستی کی وبا سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ آنے والے وقت میں یہ وبا امن ِعالم کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔ آپ نے نہ صرف اس کے بارہ میں توجہ دلائی بلکہ اسلام کی حسین تعلیم سے اس کا حل بھی بتایا۔آپؒ نے فرمایا:’’میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی لحاظ سے اور کسی بھی سطح پر بنی نوع انسان کی تقسیم اور امتیازی سلوک سے کچھ لوگ وقتی فائدہ تو حاصل کرسکتے ہیں لیکن بالآخر اس کے دور رس نتائج سب کے لیے لازماً برے ہی ہوا کرتے ہیں۔عصرحاضر کے اس تناظر میں اسلام ایک ایسا واضح اور امید افزا پیغام دیتا ہے جو موجودہ حالات میں بڑا مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔اسلام نسل پرستی اور طبقاتی منافرت کی پُرزور مذمت کرتا ہے اور فساد کی کوئی بھی شکل کیوں نہ ہو اسے قابل ِمذمت قرار دیتا ہے۔‘‘ (ہفت روزہ بدر قادیان، 19/26 دسمبر 2013ءصفحہ26) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا یہ خطاب امن کے حوالے سے ایسا مکمل لائحہ عمل لیے ہوئے ہے کہ اس میں امنِ عالم کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام مسائل اور اُن کے مؤثر ترین حل کا ذکر فرمایا۔ اس میں جہاں مذاہبِ عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی کا طریق بتایا گیا، وہیں معاشرتی امن، اقتصادی امن، قومی و بین الاقوامی امن اور انفرادی امن کے ہر پہلو پہ بات کی گئی۔خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کرعالمگیر شہرت اور کامیابی نصیب ہوئی اور قیام امن کے لیے جماعتی کوششوں اور کاوشوں کو ایک دنیا نے سراہا اور ان سے فیضیاب ہوئے۔قدرتی آفات و مصائب میں دنیا کو پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے Humanity First کا قیام ہو یا افریقہ کےدور دراز علاقوں میں شفاخانوں کی تعمیر، خلافت احمدیہ نے امن وسلامتی اور اس کی ترویج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔خلافت خامسہ کے آغاز سے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی و راہنمائی میں امن عالم کے لیےہمہ جہت کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں۔ آج جب دنیا امن کو ترس رہی ہےاور تیسری عالمی جنگ کے بادل فضاؤں میں منڈلا رہے ہیں، امن کا یہ شہزادہ دنیا کو بار بار امن کی طرف بلا رہا ہے۔حضور انور نے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی مختلف مواقع پر اپنے خطبات کے ذریعہ دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد ِجماعت کو بالخصوص اور تمام عالم کو بالعموم مخاطب کرتے ہوئے تمام دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کوششوں کی تلقین فرمائی۔اور احباب جماعت کو اسلام کی امن و آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ دنیا کے سامنے رکھنے کی تلقین فرمائی۔ اور مسائل کے حل کے لیے متعدد بار دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ قیامِ امنِ عالم کی خاطردنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور سربراہوں کو بذریعہ خطوط مخاطب کرنا خلافت خامسہ کے کارہائے نمایاں کا ایک درخشاں اور تاریخی پہلو ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو درپیش عالمی خطرات کے تناظر میں2012ء میں قیامِ امن کی خاطر سنجیدہ تعاون اور جدو جہدکے لیے خطوط لکھنے کا اہتمام فرمایا۔ حضورِ انور کے یہ تمام مکتوبات بعد ازاں شائع کر دیےگئے تھےجِن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن عالمی راہنماؤں کے نام خطوط میں حضورِ انور نے کمال حکمت سے سنت نبویؐ کی پیروی میںان سربراہان کو سمجھایا۔افریقہ میں امن و امان اور افریقن ممالک کی ترقی کے لیے حضور کی بے نظیر کوششیں اور دعائوں کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حضور جب 2008ء میں گھاناتشریف لے گئے تو گھانا کے صدر عزت مآب John Kufuor نے حضور کی آمد پر نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گھانا آپ کا وطن ہے۔ اور ہمارے ملک کے لیے آپ کی جو دعائیں ہیں وہ قبول ہو رہی ہیں۔ اور ہم ان دعائوں کے پھل بھی دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ دورہ کے دوران آپ نے جو فرمایا تھا کہ گھانا کی زمین میں سے تیل نکلے گا آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اور گھانا کی زمین سے تیل نکل آیاہے۔ حضور کی قبولیت دعا کا یہ ایک عظیم الشان نشان ہے۔
مورخہ 8؍مارچ 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے امریکہ کے صدر باراک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ آپ کی طرف یہ خط روانہ کروں کیونکہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سُپر پاور ہے…میری آپ سے بلکہ تمام عالمی لیڈروں سے یہ درخواست ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکریں…اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے اور اس پر عمل کرنےکی توفیق بخشے۔‘‘ (ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن، 8 جون 2012ء صفحہ 12،11)ان خطوط کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضور انور کس درد کے ساتھ عالمی امن کے لیے کوشاں ہیں۔گو کہ جماعت احمدیہ نے ہر دور میں دنیا بھر میں امن کانفرنسز کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن دنیا کے موجودہ خطرناک حالات کے پیش ِنظر خلافت خامسہ کے دور میں ان کانفرنسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حضورِ انور نے اپنی خلافت کے آغاز سے ہی جماعت احمدیہ برطانیہ کو ایک سالانہ پروگرام امن سمپوزیم کے انعقاد کی طرف توجہ دلائی۔ سوائے کورونا وبا کے گزشتہ دو سالوں کے، یہ پروگرام بلاتعطل جماعت احمدیہ برطانیہ کے سالانہ پروگرام کا ایک لازمی اور اہم ترین حصہ رہا ہے۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس ِنفیس شرکت کرتے اور حاضرین سے خطاب فرماتے ہیں۔اسی کی پیروی میں دنیا بھر میں جماعتیں امن کانفرنسز اور سمپوزیم منعقد کرتی ہیں۔ ان پروگراموں میں اعلیٰ حکومتی وزراء،اعلیٰ عہدیداران، ملکوں کے سفراء،پارلیمینٹیرینز، شہروں کے میئر، مذہبی راہنما، تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے افراد اور معززین شرکت کرتے ہیں۔وہ اپنے خطابات میں دنیا میں امن کے قیام کے موضوع پر اسلامی تعلیم کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور خلافت احمدیہ کی امن پسندی اور قیام امن کی کامیابیوں کو سراہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی عالمی امن کے لیے کی گئی کوششوں میں سے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی لیول پر امن کے لیے کی گئی انفرادی یا اجتماعی کوششوں کو سراہا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔خلافتِ خامسہ میں جماعت احمدیہ برطانیہ نے حضور انور کی اجازت و راہنمائی سے احمدیہ مسلم پیس پرائز کا آغاز کیا۔ جو کسی ایسی اہم شخصیت یا ادارے کو دیا جاتا ہے جنہوں نے امن کے قیام کے لیےغیر معمولی کام کیا ہو۔ دنیا میں امن کے قیام کے لیےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کی گئی کوششوں میں ایک بہت بڑا حصہ آپ کے مختلف ممالک کے دورہ جات ہیں۔ ان دوروں میں حضور انور نے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں، حکومتی وزراء،ممبران پارلیمنٹ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معز زین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا۔ حضور انور نے اپنے خطابات میں اسلام کی پُرامن تعلیمات کا خوبصورت تذکرہ فرمایا۔دوسرے ان دورہ جات میں دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمنٹس سے حضور انور کے خطابات بھی شامل ہیں۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعزاز میں برطانیہ کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔جس میں دونوں ایوانوں سے آئے ہوئے متعدد ممبران پارلیمنٹ، حکومتی وزراء،مختلف ملکوں کے سفراء اور دیگر معززین شامل ہوئے اور حضورِ انور نے حالات حاضرہ کے تناظر میں نہایت پُر حکمت اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔20؍ستمبر2011ء کو یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں تقریب کا انعقاد ہوا جس میں 80 سے زائد یورپین پارلیمنٹ کے ممبران، سفارتی شخصیات،اعلیٰ علمی شخصیات اور صحافی حضرات کے علاوہ 16ممالک کے غیر از جماعت مہمان شریک ہوئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب میں فرمایا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے انسان کو لازماً خدا کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور یہی تمام مسائل کا حل ہے۔27؍جون 2012ء کو کیپیٹل ہل (CAPITOL HILL) واشنگٹن ڈی سی میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہم اراکین کانگریس و سینٹ اور میڈیا کے افراد سے خطاب فرمایا۔حضور انور نے اس موقع پہ امریکہ کی حکومت کے ان نمائندگان سے خطاب میں امن کا راستہ بتاتے ہوئے انصاف پر مبنی بین الاقوامی تعلقات پر زور دیا۔ یقینا ًیہ خطاب پڑھ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے مقرر کردہ خلفاء دنیا داروں کو کیسے مخاطب کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حضورِ انور نے کس طرح اتمامِ حجت کرتے ہوئے اِن اعلیٰ ترین ایوانوں میں امن کا پیغام پہنچایا۔ اور آئندہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔سیدنا حضور انور کے خطاب کیپیٹل ہل امریکہ کے موقعے پر Democratic Leaderعزت مآب Nancy Pelosi نے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کےمتعلق فرمایا:
اپنی قیادت کی وجہ سے آپ دنیا میں ایک عالمی اہمیت کی حامل شخصیت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں… آپ سرحدوں کے پار ایک عظیم طاقت اور ترقی پذیر دنیا کے لئے ایک سرمایہ ہیں… آپ حکمت اور خدا ترسی سے پُرراہنما ہیں جنہوں نے عدم تشدد نیز مختلف مذاہب کے درمیان باہمی احترام کو ایک فاتح کے طور پر قائم کیا ہے۔
مورخہ 29؍جنوری 2015ء کو برطانیہ میں ایک تقریب کے دوران عزت مآبDavid Cameron (سابق وزیر اعظم برطانیہ) نے اپنی تقریر میں سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن کے پیغامبر ہیں… میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ کے فلاحی کام اور باہمی پیار و محبت کی آپ کی فلاسفی (محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں)برطانیہ میں بھی اور ساری دنیا میں یونہی پھلتی پھولتی رہے گی۔‘‘
مورخہ 11؍مئی 2013ء کو سائوتھ کیلیفورنیا میںسیدنا حضور انور نےایک تاریخی خطاب فرمایا۔اس موقع پر عزت مآب Congresswoman Karen Bassنے کہا:’’آپ اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک انقلابی شخصیت ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں امن اور رواداری کو ترقی دی ہے۔‘‘سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے2015ء میں ٹوکیو میں استقبال کے دوران Mike Sata Yasuhiko, Chairman Tokibo group of Industries نےکہا کہ’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد نے اپنی ساری زندگی قیام امن کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔آپ کی زندگی کا مقصد بین المذاہب امن کا قیام ہے۔یہ میری خواہش ہے کہ سیدنا حضور انور مستقل طور پر جاپان تشریف لے آئیں تا ہمارا ملک بھی حقیقی اسلام کے نور سے منور ہو جائے۔‘‘دنیا کے امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جماعت احمدیہ برطانیہ کے قیام کی سو سالہ تقریبات کے سلسلہ میں فروری 2014ء میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد لندن کے مشہورگِلڈ ہال میں کیا گیا۔ جس میں مختلف مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنی اپنی مقدس کتب پر بنیاد رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اور مذہب کے تصور کی تعلیم کو پیش کریں۔ اس کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کی۔ اس موقع پہ حضورِ انور کا خطاب ایسے وجد آفرین مناظر لیےہوئے تھا کہ جو دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس نے سامعین پر غیر معمولی اثرات چھوڑے۔میگِل گارسیا (Miguel Garcia)، جو پیدرو آباد،سپین کے میئر رہےہیں،انہوں نے اس کانفرنس کے متعلق کہا:’’مَیں جماعت احمدیہ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اور میری خواہش ہے کہ یہ جماعت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے… مَیں حضرت مرزامسرور احمدصاحب کے الفاظ سے بہت محظوظ ہواہوں۔ انہوں نے جنگ و جدل سے آزاد ایک پُرامن معاشرے کے قیام کے حوالہ سے بات کی اورایک ایسے معاشرہ کے قیام کے لئےجس کی بنیاد انصاف اور باہمی عزت و احترام پر ہو، مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھاکیاتا ایک ایسی دنیاقائم ہو جو جنگ کو ترک کردے اور امن کی خواہاں ہو، جو سب کو ساتھ لے کر مشترکہ طور پر ترقی کرے، جو ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجائے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دے۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس مؤرخہ 7 مارچ 2014ء)عزت مآب سابق وزیر اعظم کینیڈا جناب سٹیفن ہارپر نے سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ’’آپ مذہبی آزادی اور امن کے ایک بہادر فاتح ہیںاور آپ اسلام کا ایک سچا خیر خواہ چہرہ ہیں۔‘‘
کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم عزت مآب Justin Trudeau نے سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ’’آپ کی رفاقت اور آپ کی راہنمائی کینیڈا کےلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔‘‘خلفائے احمدیت نےدنیا میں امن کے قیام کے لیےوسائل کی مُنصفانہ تقسیم کی طرف تو سب کو توجہ دلائی۔ لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کو خصوصاً محروم طبقوں تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی توجہ دلائی۔ تا اُن کی تکالیف بھی دور ہوں اور اِن طبقات سے احساسِ محرومی بھی ختم ہو۔اس ایک پہلو پہ ہی نظر ڈالی جائے تو ہر سال جماعت کو بہت سارے ملکوں میں لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ جن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ہسپتالوں کا قیام، فری میڈیکل کیمپس، یتیم بچوں کے لیے رہائش گاہیں، سکولوں اور مختلف ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کا قیام،غریب بچوں کے لیے تعلیمی وظائف، غرباء کو مکان مہیا کرنا، بھوکوں کو کھانے کی فراہمی، اور قدرتی آفات کے موقع پرہر ممکن مدد، اور دکھی انسانیت کی ہر ممکن طریق سے مدد شامل ہے۔ یقینا ً ان کوششوں سےایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے، جس سے محروم طبقے دنیا میں مفید وجود بن رہے ہیں۔ اور یہ سب کام دنیا بھر میںامن و سلامتی کے لیےخلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششوں سے ہو رہے ہیں۔ دنیا کے موجودہ حالات میں عالمی جنگ سے خبردار کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والی عالمی جنگ کے نتائج اور اس کی وسیع تباہ کاریاںصرف اس جنگ تک یا موجودہ نسل تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کے خوفناک نتائج آنے والی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔ پھر ایسی جنگ کے خوفناک نتائج اور اس کےاثرات نوزائیدہ بچوں پر اور مستقبل میں پید ا ہونے والے بچوں پر بھی پڑیں گے۔موجودہ جدید ہتھیار اس قدر تباہی مچانے والے ہیں کہ مستقبل میں پیدا ہونے والی کئی نسلوں کے جسموں پر ان کے خوفناک نتائج ظاہر ہوںگے۔پس دنیا کے ممالک کو ان موجود ہ حالات پر بہت فکر مند ہونا چاہئے اور ہوش میں آنا چاہئے۔ورنہ ان کی بداعمالیاں ان کی بد انجامی اور ہلاکت کی وجہ بن جائیں گی۔
سیدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے کلیدی خطاب، بر موقع یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا، میںفرمایا:’’اگر ہم حقیقی طور پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ہمیں عد ل اور مساوات کو اہمیت دینی ہوگی۔آنحضرت ﷺ نے کیا ہی خوبصور ت فرمایا ہےکہ دوسروں کے لئے وہی پسند کر وجو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ہمیں صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے دنیا کے فائدے کے لئے کام کرنا ہوگا۔فی زمانہ حقیقی امن کے قیام کے یہی ذرائع ہیں۔‘‘( مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء – یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا)تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں خلافت راشدہ احمدیہ بھرپور کاوشوں اور دعاؤں کےذریعہ امت ِمسلمہ اور انسانیت کے اتحاد اور قیام امن کی خاطرکوشاں رہی۔ اللہ کرے کہ دنیا خدا کے بھیجے ہوئے فرستادےکو پہچاننے میں اب مزید تاخیر نہ کرے تا عافیت کا یہ حصار اُن کو شَشْ جِہَتْ سے ڈھانپ لے اور ان کی دائمی نجات کا موجب ہوسکے۔اور خلافت احمدیہ کے سایہ میں دنیاکو حقیقی اور ابدی امن و سلامتی نصیب ہو۔آمین۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہی:
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، مَیں عافیت کا ہوں حصار
و آخردعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
٭…٭…٭