خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ستمبر 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت کے بےمثال اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ

٭…صلح حدیبیہ کی شرائط کو دیکھ کر حضرت عمر ؓکے خدشات پرحضرت ابوبکرؓنے انہیں فرمایا کہ رسول خدا کی رکاب پر اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دو

٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر مجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتا

٭…مکرم سمیع اللہ سیال صاحب وکیل زراعت تحریک جدید انجمن احمدیہ اور مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 23؍ستمبر 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقب بیان ہورہے تھے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عائشہ ؓنےآیت اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبَّیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، ان میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔ کے حوالے سےاپنی بہن کے بیٹے عروہ سے فرمایا کہ حضرت زبیر ؓ اور حضرت ابوبکر ؓان لوگوں میں سے تھےکہ جب احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور مشرکین چلے گئے تو آپؐ نے مشرکین کے واپس آنے کے خدشے پر فرمایا کہ ان کے پیچھے کون جائے گا توسترہ آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیاجن میں حضرت زبیرؓاور حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے۔

ابو سفیان جنگِ احد کے بعد اگلے سال بدر کے مقام پر جنگ کا وعدہ کرکے اپنا لشکر لےکر مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کی خاطر ستّر صحابہ کی ایک جماعت بشمول حضرت زبیر ؓاور حضرت ابوبکر ؓلشکرِ قریش کے پیچھے روانہ کردی۔بخاری کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن وقاصؓ کو لشکر قریش کے پیچھے خبر لانے کے لیے روانہ کیا اور فرمایا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑے خالی ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ واپس جارہے ہیں اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا کہ نیت بخیرنہیں۔ اگر اُن کا رُخ مدینہ کی طرف ہو تو فوراً مجھے اطلاع دی جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب اگر قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو خدا کی قسم ہم اُن کو مزا چکھا دیں گے لیکن آپؐ کو خبر ملی کہ لشکرِقریش مکہ کی طرف واپس جارہا ہے۔

صلح حدیبیہ کی شرائط کےمطابق جب ابو جندل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیا تو صحابہؓ بہت جوش میں تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مذہبی غیرت کی وجہ سے صحابہ کی آنکھوں میں خون اُتر رہا تھامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔آخر حضرت عمر ؓنے آپؐ سے کہا کہ کیا آپؐ خدا کے رسول نہیں؟ کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟آپؐ نے فرمایا:ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے۔حضرت عمر ؓنے کہا کہ پھر اپنے سچے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے فرمایا کہ میں خدا کا رسول ہوں،خدا کی منشاء جانتا ہوں اور اُس کے خلاف نہیں چل سکتا۔وہی میرا مددگار ہے۔حضرت عمر ؓنے کہا کہ کیا ا ٓپؐ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے۔آپؐ نے فرمایا کہ کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال طواف کریں گے ؟حضرت عمر ؓنے کہا کہ نہیں۔آپؐ نے فرمایاکہ پھرانتظار کرو، تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہوگے اور کعبہ کا طواف کروگے۔حضرت عمر ؓنے تسلی نہ ہونے پر حضرت ابوبکرؓ سے بھی یہی سوال کیے جس پر انہوں نے اُسی قسم کے جواب دیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے تھےاور مزید فرمایا کہ رسول ِخداﷺکی رکاب پر اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دو۔حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ جوش میں کہہ توگیا لیکن بعد میں سخت ندامت ہوئی اور اپنی غلطی اور کمزوری کے اثر کودھونے کے لیے بہت سے نفلی اعمال بجالایایعنی صدقے دیے، روزے رکھے، نفلی نمازیں پڑھیں اورغلام آزاد کیے۔

حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیر مذاہب والوں کا بھی بےحد خیال رکھا کرتے تھے۔ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓکے سامنے کسی یہودی نے کہہ دیا کہ مجھے خد اکی قسم جس نے موسیٰ کو سب نبیوں پر فضیلت دی ہے۔اس پرحضرت ابوبکر ؓنے اُسے تھپڑ ماردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکو ڈانٹا اور فرمایاکہ ایسا کیوں کیا؟یہودی کو حق ہے کہ جو چاہے عقیدہ رکھے یعنی اپنے عقیدے کے مطابق جو چاہے وہ بول سکتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوبکر ؓکی عشق و محبت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کے موقع پر بھی اور آپؐ کی وفات کے موقع پر بھی حضرت ابوبکرؓ کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشقانہ تھا۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جس میں آپؐ کی وفات کی مخفی خبر تھی تو آپؐ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک بندے کواپنی رفاقت اور دنیاوی ترقی میں سے ایک کی اجازت دی ہے اور میں نے خدا تعالیٰ کی رفاقت کو ترجیح دی۔تمام صحابہ اس پر خوش ہوئے لیکن حضرت ابوبکر ؓکی چیخیں نکل گئیں اور آپؓ بےتاب ہوکر روپڑے اورکہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپؐ پر ہمارے ماں باپ بیوی بچے سب قربان ہوں۔ آپؐ کے لیے ہم ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔گویا جس طرح کسی عزیز کے بیما رہونے پربکرا ذبح کیا جاتا ہے اُسی طرح حضرت ابوبکر ؓنے اپنی اور اپنے سب عزیزوں کی قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کی۔حضرت عمرؓ سمیت تمام صحابہ حضرت ابوبکر ؓکے رونے اور اس طرح بات کرنے پر حیران تھے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر ؓمجھے اتنے محبوب ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کے سِوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ان کو خلیل بناتامگر اب بھی یہ میرے دوست ہیں۔پھر فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آج سے مسجد میں کھلنے والی سب لوگوں کی کھڑکیاں بند کردی جائیں سوائے ابوبکر ؓکی کھڑکی کے۔اس طرح آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکےاپنے ساتھ عشق کی داد دی کیونکہ یہ عشق کامل تھا جس نے اُنہیں بتادیا کہ اس فتح و نصرت کی خبر کے پیچھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ہےاور آپؓ نے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کا فدیہ پیش کردیا۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓکی کسی بات پر تکرار ہوگئی اور حضرت ابو بکرؓ مزید جھگڑا بڑھنے کے پیش نظر وہاں سے جانے لگے تو حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکر ؓکا کرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دواس وجہ سے حضرت ابو بکرؓ کا کرتہ پھٹ گیا۔حضرت عمر ؓنے آنحضرت صلی اللہ کی خدمت میں جاکر اپنی غلطی تسلیم کی جس پر آپؐ نے فرمایا کہ جس وقت ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اُس وقت ابوبکر مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں میری مدد کی۔اسی اثنا میں حضرت ابوبکرؓ بھی پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی دیکھ کر اپنی غلطی تسلیم کرنے لگے۔یہی حضرت ابوبکر ؓکا عشق تھا کہ وہ آپؐ کی تکلیف کو برداشت نہ کرسکے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر ؓنے اُن سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے نرمی کرنے کا مشورہ دیا مگر حضرت ابوبکر ؓنے جواب دیا کہ ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا جرأت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو منسوخ کردے۔اگر یہ لوگ آپؐ کے زمانے میں ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو میں وہ رسّی بھی ان سے لےکر رہوں گااور اُس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک یہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیں گے۔یہ ہے عشق ومحبت کی مثال کہ نازک حالات میں بھی جب صحابہ لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پوراکرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اسی طرح لشکر اسامہ کو روکنے کے لیے صحابہؓ کے مشورے کو ردّ کرتے ہوئےبھی حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ اگردشمن طاقتور ہوکر مدینہ پر فتح پالے اور مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیار کردہ لشکر کو روک نہیں سکتا۔

فتوحات عراق میں حاصل ہونے والی ایک چادر حضرت خالد ؓنے اہل لشکر سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو تحفۃًبھجوائی اور لکھا کہ اسے آپ لے لیجیئےیہ آپؓ کے لیےتحفہ ہے لیکن آپؓ نے اُسے لینا گوارا نہیں فرمایا اورنہ اپنے رشتے داروں کو دی بلکہ اُسے حضرت امام حسین ؓکو مرحمت فرمادیا۔ باقی انشاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔

خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے دو مرحومین کا ذکر خیر فرمایا۔ان میں سے پہلے مکرم سمیع اللہ سیال صاحب وکیل زراعت تحریک جدید ربوہ تھے جو 89سال کی عمر میں وفات پا گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپ کا کُل عرصہ خدمت 69 سال پر محیط ہے۔

دوسرا ذکر مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ علی احمد صاحب مرحوم معلم وقف جدید کا تھا جن کی 85سال کی عمر میں وفات ہوئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے ایک بیٹے عبد الہادی طارق صاحب استاذ جامعہ احمدیہ گھانا ہیںجو میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے میں شامل نہ ہو سکے۔حضور انور نے دونوں مرحومین کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button