حق مہر کی اہمیت
حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے
وعدوں کی پاسداری اور حق مہر کی ادائیگی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’عام روزمرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں۔ جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کرکے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئی، کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا۔ پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے۔
یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کےتنگی دے رہے ہوتے ہیں، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے۔
اب پتہ نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جا رہا ہے لکھوا لو کو نسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں۔
اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکرکرنی چاہئے۔ کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی۔ اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)
ایک اور جگہ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حق مہر کی ادائیگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادا نہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں۔(مجمع الزوائدجلد4صفحہ131)
اب دیکھیں حق مہر ادا کرنا مرد کے لئے کتناضروری ہے۔ اگر نیت میں فتور ہے تو یہ خیانت ہے، چوری ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111۔ ایڈیشن 2005ء)
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزحق مہر کی ادائیگی کے ضمن میں مزید فرماتے ہیں :’’بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کریا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہیئے۔اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے(اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ اول تو قضاکو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھی ادا کرو۔ دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍نومبر۲۰۰۶ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر ۲۰۰۶ء)
عورت کے حقوق بحوالہ حق مہر
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۱ء میں احمدی خواتین سےارشاد فرمایا:’’بعض لڑکوں سے بڑی بڑی رقمیں حق مہر رکھوا لیا جاتا ہے کہ کونسا ہم نے لینا ہے۔ یا یہ کہہ دیتی ہیں ہم نے حق مہر معاف کر دیا۔ اگرلینا نہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ حق مہر مقرر ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ عورت لے اور یہ عورت کا حق ہے، اُس کو لینا چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی نے کہا کہ حق مہر میری بیوی نے واپس کر دیا ہے۔ معاف کر دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بیوی کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتی ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے۔ نہیں تو نہیں۔بے چارے کی دو بیویاں تھیں۔ خیر انہوں نے قرض لے کر جا کرجب دونوں کے ہاتھ میں برابر کا حق مہر رکھ دیا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکی ہو۔ انہوں نے کہا ہم تو اس لئے معاف کر چکی تھیں کہ ہمارا خیال تھا کہ تمہیں دینے کی طاقت نہیں ہے اور تم نہیں دو گے۔ تو کیونکہ اب تو تم نے دے دیا ہے تو دوڑ جاؤ۔ وہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴جولائی ۱۹۲۵ء۔ خطبات محمود جلد ۹صفحہ ۲۱۷)تو حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں۔
بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیارہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اُس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور یہ ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عدالت میں اپنے مفادات لے لیتے ہیں اور لے لیتی ہیں، لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں ہمارا شرعی حق یہ بنتا تھا۔ پھر جماعت میں بھی آ جاتے ہیں۔ اگر شرعی حق بنتا تھا تو پھر شرعی حق لو یا قانونی حق لو۔ بعض دفعہ قانونی حق شرعی حق سے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہرحال حق ایک طرف کا ہی لینا چاہئے۔ ظلم جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ایک فریق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ نہ لڑکے پر، نہ لڑکی پر۔پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے۔ پس یہ ایسے کراہت والے کام ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایک شریف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء)(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۱۵تا۱۱۹)
٭…٭…٭