مضامین

یاران تیز گام

(احمد علی۔منشی فاضل،ادیب فاضل)

بیرون ملک بچوں کے پاس رہتے ہوئے، موسم اچھا، پانی اچھا، مٹی بھی زرخیز۔ اپنا شغل مطالعہ کرنا اور کچھ سیکھتے رہنا ہے۔ یہاں بچے اپنے اپنے سکولوں میں اور ان کے ماں باپ اپنے روزگار اور معاملات خانگی کی بجاآوری میں گھر سے باہر مصروف البیع ہیں۔ ہم ماضی اور حال کے تصورات میں محو ہو کر اپنا حال خوشحال رکھتے ہوئے یاران تیز گام کے تصور میں بیٹھے تھے کہ اُن ساتھیوں کی صورتیں، شکلیں ذہن میں اُبھرتی آئیں جو علائق دنیا سے آزاد ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے حضور حاضر ہو چکے ہیں۔ تب ’’ اُذْکُرُوْا مَوْتٰـکُمْ بِالْخَیْر‘‘ فرمان نبوی سامنے آگیا۔

اوّلیت اپنے ہمجولیوں میں سے اُن دوست کو دینا موزوں سمجھا جن سے ربوہ منتقل ہو کر سب سے پہلے نہ صرف تعارف بلکہ رفاقت نصیب ہوئی۔

1۔ یہ ہیں مکرم ومحترم ماسٹر بشارت احمد صاحب ایم اے بی ایڈ مرحوم ومغفور

30،31؍اگست 1961ء کی بات ہے۔ خاکسار ملازمت سے مستعفی ہو کر پہلی بار تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں ملازمت اختیار کرنے کے لئے ربوہ آیا تھا۔ چنانچہ برادرم اللہ بخش صادق صاحب کے بتائے ہوئے ایڈریس کے مطابق مغرب سے کچھ دیر پہلے محلہ دارالنصرغربی پہنچا تو ایک کمرہ کے مکان اور چھوٹے سے صحن میں برادرم محترم بشارت احمد صاحب اور اللہ بخش صاحب کھانا تیار کرکے کھانے ہی والے تھے۔ دونوں بشاشت اور کھلے بازئوں سے مجھے ملے اور اپنے ساتھ کھانے میں شامل کرلیا اور میرے لئے ایک چارپائی کا انتظام کرلیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ کسی بڑے بستر کی ضرورت نہ تھی۔ ایک کھیس نیچے اور ایک پائنتی میں رکھنے کے لئے مہیا کردیا۔ ان دنوں برادرم اللہ بخش صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سٹاف میں شامل تھے۔ غالباً 1962-63ء میں زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرکے جامعہ احمدیہ میں جاداخل ہوئے۔ بشارت احمد صاحب حصہ مڈل میں انگلش پڑھانے پر مامور تھے۔ میرا سارا ٹائم ٹیبل بھی مڈل کلاسز میں تھا۔ گویا سکول کے اوقات میں بھی ماسٹر بشارت احمد صاحب سے قربت میسر رہی اور سکول سے چھٹی کے بعد آپ ہی کا ہم پیالہ و ہم نوالہ رہا۔ ان کی رفاقت میں ایک فائدہ یہ ہوا کہ باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں میری سُستی دور ہوگئی اور ان کے تتبع میں نمازتہجد کی ہمت نصیب ہوگئی۔ وہ بچپن ہی سے نماز تہجد کے بھی عادی تھے۔

آج کے دَور میں نئی نسل کو یہ امر مشکل نظرآئے گا کہ اُن دنوں کھانا پکانے کے لئے زمین پر چولہوں میں لکڑی جلائی جاتی تھی۔ ہم بھی ٹال سے لکڑی لاکر جلاتے تھے۔ ٹال سے لائی ہوئی لکڑی کے (چھوڈے) ٹکڑے بناکر کام میں لاتے تھے۔ جب چھوڈے ختم ہوجاتے تو مکرم ماسٹربشارت احمد صاحب کلہاڑے سے موٹی لکڑی رات کو توڑ توڑ کر ٹکڑے بنا لیتے۔ بہت باہمت اور مضبوط اعصاب کے آدمی تھے۔ اس دَور میں ماہ رمضان میں نماز عصر کے بعد مسجد مبارک میں معروف علمائے سلسلہ مثلاً مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، مولانا جلال الدین شمس صاحب، مولانا ظہور حسین صاحب (بخارا) اور مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب باری باری قرآن مجید کے ایک ایک پارے کا درس لفظی ترجمہ اور کسی قدر تفسیر کے ساتھ دیاکرتے تھے۔ ہم (مکرم بشارت احمد صاحب، مکرم اللہ بخش صاحب اور میں) ایک بجے سکول سے چھٹی کے بعد مسجد مبارک چلے جاتے تھے۔ نمازِ ظہر باجماعت ادا کرکے وہیں مسجد ہی میں بیٹھے رہتے تھے۔ عصر کے بعد درس کا سلسلہ شروع ہو تا جو نمازِمغرب سے چند منٹ پہلے تک جاری رہتا۔ ہم درس قرآن مجید کے بعد اپنی رہائشگاہ دارالنصر غربی کو روانہ ہوتے۔ ٹائون کمیٹی آفس والی جگہ ابھی اُن دنوں خالی پڑی تھی اور آگے پہاڑی میں ایک تنگ سی گزرگاہ بنی ہوئی تھی۔ اُس سے گزر کر دوسری جانب جہاں آجکل جمعداروں کی بستی ہے، وہاں جااُترتے اور ریلوے لائن کے ساتھ کچی سڑک پر چل کر دارالنصر غربی پہنچا کرتے تھے۔ مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب بہت تیز رفتار تھے اور چلنے کا انداز ایساتھا۔ بظاہر عام سی رفتار سے چلتے نظر آتے اور ہم دونوں دوڑتے ہوئے ان کا ساتھ دے سکتے تھے۔ گھر پہنچ کر ہم اپنا کھانا بنانے میں لگ جاتے۔ وہ کیا زمانہ تھا، سالن روٹیاں جیسی جلی سڑی کچی پکی ہوتیں، مذاق مذاق میں ہنسی خوشی کھاجاتے اور چارپائیوں پر دراز ہوجاتے مگر ہمارے مستعد اور نماز باجماعت کے عادی ساتھی ہمیں بھی نمازِعشاء اور نمازِتراویح ادا کرنے کے لئے لے جاتے تھے۔ واپس آتے تو تنگ چارپائیاں پھولوں کی سیج لگتی تھیں۔ بشارت احمد صاحب تہجد کے لئے اُٹھتے اور ہمیں بھی آواز دے لیتے۔

سحری کا کھانا تیار کرکے کھاتے اور نمازِ فجر کے لئے یہ اللہ والا ہمیں بھی ہمراہ لے کر مسجد اقبال دارالنصر غربی میں باجماعت نماز کے لئے پہنچ جاتا۔ چنانچہ آنمکرم میرے ہمدم، ہمدرد اور ہم پیالہ وہم نوالہ بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین

2۔ اب ایک نہایت صابروشاکر، جسمانی اور روحانی لحاظ سے توانا ماسٹر محمد صدیق صاحب کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔ آپ نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے ایف ایس سی کیا اور اپنے گھریلوامور کی انجام دہی کی بنا پر یہاں سے واپس گھر جانا پڑا۔ غالباً نَوآبادکاری سکیم کے تحت والد صاحب کو اپنی زرعی زمین کی آبادکاری میں مدد کرنے واپس اپنے چک گئے تھے۔ میرا خیال ہے بہاولنگر 168 مراد میں ان کا زرعی رقبہ تھا اور وہیں بی اے اور بی ایڈ کیا۔ بحیثیت ٹیچر ملازمت کرنے کے لئے ربوہ آئے تو اتفاق سے مجھ سے ملاقات ہوگئی اور دارالعلوم میں کوئی پلاٹ خریدنے کا اظہار کیا۔ یہ بھی کہا کہ پلاٹ فروخت کرنے والے بہت اونچا بولتے ہیں جو قیمت میری استطاعت سے باہر ہے۔ چنانچہ میری تجویز اور راہنمائی میں دارالعلوم جنوبی کے آخر میں ایک پلاٹ دفتر آبادی کمیٹی سے ابتدائی قیمت میں خرید کر جلد ہی گھر بھی تعمیر کرلیا۔ بہت احسان شناس طبیعت پائی تھی۔ میرے اس معمولی سے تعاون کو قدر کی نظر سے دیکھا کرتے۔ ریاضی پڑھانے میں عبور حاصل تھا۔ آج تک صدیق صاحب سے ریاضی پڑھنے والے طلباء ان کا ذکر بہت اخلاص اور ممنونیت سے کرتے ہیں۔

3۔ مکرم ماسٹر نذیراحمد شاد صاحب۔ ایف اے سی ٹی۔ چنیوٹ اور ربوہ کے درمیان دریائے چناب کے مشرقی کنارے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹ احمد یار کے رہنے والے تھے۔ نہایت سادہ طبیعت اور دیہاتی طرزتمدّن کا نمونہ تھے۔ اپنے مضمون پر کامل عبور رکھتے تھے۔ پہلی بیوی سے علیحدگی ہوچکی تھی۔ خاکسار سے دوسری شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے ان کی مدد کی اور چوہدری محمد رمضان صاحب کی کنواری بیٹی صدیقہ سے شادی ہوگئی جس سے اُن کو اولاد بھی نصیب ہوئی۔ پہلے تو سائیکل پر روزانہ اپنے گائوں سے سکول آتے تھے۔ شادی کے بعد دارالعلوم غربی میں اپنا مکان تعمیر کرکے اُس میں آن آباد ہوئے۔دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ نذیر احمد شاد صاحب وفاشعاراور بے ضرر انسان تھے۔

4۔ ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب۔ ایف اے سی ٹی کی حیثیت سے ربوہ سے باہر سکولوں میں پڑھاتے رہے۔ جب ربوہ کے نواح میں زرعی رقبہ خریدا تو اُس میں اپنا گھر بھی بنایا۔ اپنے بھائیوں اور چچائوں سے مل کر رقبہ میں ڈیرہ بنایا۔ وہاں سے صبح روزانہ سکول حاضری دیتے۔ نہایت فراخ دل اور دوستوں کے دوست تھے۔ مخلص طبیعت کے مالک تھے۔ مجھ سے دوستانہ اور برادرانہ تعلق تادم زندگی قائم رکھا۔ شوگر کے مریض ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے، عجب آزاد مرد تھے۔

5۔ ماسٹرمحمدعبداللہ ملک صاحب۔ موصوف خاکسار کے شاہ پور فارمل سکول میں ٹریننگ کے دوران کلاس فیلوتھے۔ ایک ہی تحصیل بھلوال کے رہائشی ہونے کے ناطے دوستانہ اور قریبی تعلق رہا۔ ٹریننگ کے بعد اپنے گھر احمد یوالہ کے قریب مڈل سکول دودا (ضلع سرگودھا) میں ملازمت کرتے رہے۔ قومیائے جانے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں تبادلہ کرواکے آگئے۔ یوں ایک لمبے عرصہ کے بعد پھر آن ملے۔ ٹریننگ کے دوران سکول انتظامیہ نے تحصیل بھلوال سے تعلق رکھنے والے سب پیوپل (pupil) ٹیچرز کو مین ہاسٹل میں کمرے الاٹ کررکھے تھے اور ہم ہوسٹل فیلو بھی ہوگئے تھے۔ ٹریننگ کے دوران ایک سال کا عرصہ رفاقت رہی۔ مرحوم ومغفور اچھے باذوق آدمی تھے۔ جب ہماری پہلے ملاقات فارمل سکول میں ہوئی، تعارف ہوا تو بہت خوش ہوئے اور ایک شعر پڑھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔

خالی مشکیں بھی ہوں، زلف سیاہ فام بھی ہو
مرا دل کیوں نہ پھنسے دانہ بھی ہو دام بھی ہو

ہم دونوں فارمل سکول میں چھٹی کے بعد فارغ وقت میں مل بیٹھتے اور اپنے دیہاتی معاشرہ کی روایات کے مطابق دلچسپ بات چیت ہواکرتی تھی۔

محکمانہ قواعد وضوابط کے تحت ہائی کلاسز میں پڑھانے کی اہلیت کا جب ڈپلومہ حاصل کرلیا تو اپنی ملازمت تعلیم الاسلام ہائی سکول میں منتقل کرا لائے۔

مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل الاعلیٰ تحریک جدید کی بہن سے ان کی شادی ہوچکی تھی اور موصوفہ کا ایک پلاٹ دارالعلوم وسطی میں تھا۔ اس میں اپنا گھر تعمیر کرواکے اس میں اقامت اختیار کی تو میرے محلہ دار بھی بن گئے۔ نمازوں میں مسجد لطیف دارالعلوم وسطی میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔ جلد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔

انَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

6۔ماسٹر مسعود احمد صاحب۔ ربوہ سارے شہر میں معروف ومقبول شخص تھے۔ تعلیم الاسلام پرائمری سکول میں بحیثیت جے وی ٹیچر لمبا عرصہ پڑھایا۔ محکمانہ قواعد وضوابط کے تحت پرائیویٹ ایس وی کا امتحا ن پاس کرچکے تو انہیں حصہ ہائی میں بلالیا گیا۔

اپنے فرائض منصبی میں بہت مستعد اور طلباء میں مقبول تھے۔ فطری طور پر عجیب ذہن پایا تھا۔ اکثر ہنستے ہنستاتے تھے۔ سائیکل پر اپنے کسی شاگر کے پیچھے سوار تھے بازار میں ٹانگہ سے ٹکر ہوگئی اور مسعود احمدصاحب سائیکل سے گرپڑے اور جاں بحق ہوگئے۔اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے۔

7۔ محمد ابراہیم حنیف صاحب۔ اس بھائی کے ابتدائی حالات کا اچھی طرح یاد نہیں۔ ان کے اپنے قول کے مطابق چھوٹے ہی تھے اور ابھی ابتدائی تعلیم (پرائمری) بھی مکمل نہ کی تھی کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور تعلیم حاصل کرنے میں مسلسل محنت جاری رکھی۔ یہاں تک اپنی والدہ کے دامن سے وابستہ رہے۔ کارکن کی بیوہ ہونے کی حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کی جانب سے خاوند کو الاٹ شدہ کوارٹر میں ان کی رہائش تھی۔ محمد ابراہیم حنیف صاحب اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ سارے کنبہ کی کفالت کرتے رہے۔ ان نامساعد حالات میں بی اے تک تعلیم بھی حاصل کرلی تھی۔ باعزت روزگار کے پیش نظر بی ایڈ کرنا بلکہ ایم ایڈ کرنا ان کی جہد مسلسل کی دلیل ہے۔ جب جماعت کی طرف سے انہیں بھی پلاٹ الاٹ ہوا تو اُس میں اپنا چھوٹا سا گھر تعمیر کرلیا۔ والدہ کی وفات اور اپنی شادی کے بعد اِس نئے گھر میں آن آباد ہوئے۔ ان کے مکان سے ملحق ایک کنال میں مسجد خلیل تعمیر ہوگئی تو بہت مسرت و شادمانی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا ۔ ایک بیٹا محمد شعیب طاہر واقف زندگی خدمت دین کی اہم ذمہ داری اداکررہا ہے اور بڑا بیٹا محمد اسحاق ناصر لندن میں حسب استطاعت بعض جماعتی اور دینی امور بجالارہا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے جس گائوں کے ان کے آباء واجداد رہنے والے تھے، اس کا نام سارچور تھا۔ اس مناسبت سے محمدابراہیم سارچوری کے نام سے جانے اور بلائے جاتے تھے۔ محمد ابراہیم صاحب نے اپنی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور نشونما کی خدمات کو اللہ تعالیٰ نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور اُن کا انجام بھی بہت بہتر فرمایا۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا، روزہ افطار کرکے باہر چل پھر رہے تھے کہ دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔

اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

8۔ مکرم ملک محمد اعظم صاحب کی وفات کے بعد ان کا ذکر خیر میری طرف سے اخبار الفضل ربوہ میں شائع ہوچکا ہے۔ محلہ دارالعلوم کے ابتدائی آباد کاروں میں ملک محمد اعظم مرحوم میرے ساتھ دامے، درمے، سخنے، قدمے شامل رہے ہیں۔ سیلف میڈ آدمی تھے۔

9۔ مکرم میاںمحمد ابراہیم صاحب ہیڈماسٹر مرحوم ومغفور۔ اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے یاران تیزگام سے بلند تھے۔ مگر ان کا ہم پر حق ہے کہ ہم انہیں یاد رکھیں۔ چنانچہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اُن کا ذکر خیربھی ہوجائے۔

آنمحترم سے میری پہلی ملاقات بہت دلچسپ ہے۔ وہیں سے اُن کا ذکر شروع کرتا ہوں۔ ستمبر 1961ء میں گرمیوں کی چھٹیوں کے فوراً بعد جب خاکسار اپنے گائوں کے قریب بھابڑا مڈل سکول سے مستعفی ہوکر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں حاضری دینے کے لئے پہنچا اور ہیڈ ماسٹر محترم میاں محمد ابراہیم صاحب نے انٹرویو کے لئے بلایا۔ دوران انٹرویو فرمایا کہ سردست ہم آپ کو حصہ پرائمری میں رکھیں گے۔ صدرانجمن سے آپ کی تقرری کی منظوری آنے کے بعد حصہ ہائی میں لے آئیں گے۔ میں نے برجستہ کہا یہ یقین دلائیں کہ مجھے بطور ٹیچر ملازم رکھ لیا گیا ہے تو بیشک وہاں گیٹ پر چوکیدار بٹھا دیں۔ میرا یہ جواب انہیں پسند آیا اور خوش ہوکرکہا آپ چل سکیں گے، ٹھیک ہے۔ چنانچہ صرف ایک دن حصہ پرائمری میں اُن کے آرڈر سے حاضری دی۔ دوسرا یا تیسرا دن ہوگا، تو مددگار کارکن بابافیروزدین کو چٹ دے کر بھجوایا اور مجھے حصہ ہائی میں بلوالیا۔ ساتویں اور آٹھویں کا ٹائم ٹیبل مجھے الاٹ کیا۔ مرحوم بڑے تجربہ کار اور مردم شناس تھے۔ سکول ٹائم میں رائونڈ کے لئے نکلتے اور اندازہ لگاتے کون کون سا ٹیچر کس طرح اپنا مضمون پڑھارہا ہے اور کلاس کو کیسے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ غالباً اسی تأثر کی بنا پر مجھے آٹھویں (اے) اور آٹھویں (سی) میں اردو پڑھانا سپرد کیا۔ ان سیکشنوں کے کمرے اُن کے دفتر سے بائیں جانب سامنے ہی تھے۔ میرا اردو پڑھانا پسند آیا ہوگا۔ تو ایک دن مجھے دفتر بلا کرفرمایا۔ میری بیٹی امۃ القیوم نے آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دینا ہے، کسی خالی وقت میں میر ے گھر آکر اُسے امتحانی پرچوں کی تیاری کرادیاکریں۔ گویا مجھے قابل اعتماد گردان کر گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ہاں تو مرحوم کی ایک نوازش کا تذکرہ تو سب سے پہلے ضروری تھا۔ وہ یہ کہ مجھے ابتداء ہی میں بورڈنگ ہائوس میں بطور ٹیوٹر لگا دیا اور سکول کے کوارٹر میں سے ایک کوارٹر رہائش کے لئے الاٹ کردیا جو ابتدائی ایام میں بے فکری اور سکون کا باعث بنا گویا اپنی ہمسائیگی میں رکھنا بھی پسند کیا۔

میاں محمد ابراہیم صاحب کو انگلش پڑھانے میں عبور حاصل تھا جو ساری جماعت میں تسلیم کیا جاتاتھا۔ اسی بنا پر خاندان حضرت اقدسؑ میں مردوں، عورتوں، چھوٹے بڑوں کے استاد تھے۔ خصوصاً حضرت مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کو بھی انگلش پڑھائی تھی۔ آپ کی بہت قدرومنزلت فرمایا کرتی تھیں۔ سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو مبلغ کی حیثیت سے امریکہ بھجوادیا۔ ایک عرصہ فریضہ ٔ تبلیغ وتربیت بجالانے کے بعد واپس بلوالئے گئے۔ جماعت کی طرف سے الاٹ شدہ محلہ دارالعلوم میں ایک کنال کے پلاٹ میں اپنا گھر تعمیر کروا کے اُس میں آبسے تھے اور اولاد کی جانب سے اللہ نے سکون اور بے فکری عطافرمائی تھی۔ اپنے ہی مکان میں ایک باعزت اور لمبی عمرگزار کر راہی ملک عدم ہوئے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔آمین

10۔ ماسٹر محمد ہارون خان صاحب۔ ایم اے ایم ایڈ۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں سینئر ٹیچر تھے۔ اپنی گوناگوں صلاحیتوں کی بنا پر اساتذہ اور طلبا میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ انگلش پر خاصی کمانڈ تھی۔ آپ نے انگلش کے ابتدائی ٹینس (Tenses)سکھانے کا خاص طریقہ تیار کرلیاتھا۔ جن کو سیکھ کر انگلش گرائمر میں کمزور طلباء بھی یہ مشکل مضمون جلد سمجھ لیتے تھے۔ خوش مزاج اور محفل آراء آدمی تھے۔ ایف اے لیول میں بھی انگلش اتنی عمدہ پڑھاتےتھے کہ طلبا اور طالبات کا ان کی طرف تانتا بندھا رہتا تھا۔ ہمارے محلہ دارالعلوم میں اپنا گھر بناکر دوسری منزل میں ٹیوشن سنٹر بنایا ہواتھا۔ جہاں تختہ سیاہ پر ٹینسز (Tenses)سکھاتے تھے۔ عمر کے آخری ایام میں یہ گھر اپنے بیٹے موسیٰ کو دے کر خود دارالنصر میں مسجد اقبال کے قریب نیا مکان بنا کر اُس میں رہائش پذیر تھے۔ وہیں اللہ کوپیارے ہوگئے۔

اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

11۔ برادرم محمد بخش صاحب۔ ایم اے، ایم ایڈ۔ ہم دونوں لنگاہ قبیلہ کے فرد ہیں۔ گائوں میں نہ صرف ہمسایہ تھے بلکہ چھٹی ساتویں جماعت تک ہم جماعت (کلاس فیلو) بھی تھے۔ یہ ابتدائی اور بچپن کا تعلق بڑے ہو کر بھی قائم تھا۔ میرے والد صاحب وفات پاچکے تھے اور اقتصادی طور پر میں محمد بخش سے کمزور ہونے کی بنا پر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور وہ مڈل بھابڑا سکول میں پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے بھلوال ہائی سکول میں داخل کروادئیے گئے۔ میٹرک پاس کرچکے تو گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخل ہوکر ایف اے پاس کیا۔ اس دوران انہیں خاندانی طور پر بعض مقدمات پیش آئے اور برادرم محمد بخش نے آرمی جوائین کرلی (فوج میں بھرتی ہوگئے) اسی دوران ان کے والد صاحب، چچا اور ایک چچازاد کے قتل کا واقعہ ہوگیا تو آرمی سے فراغت لے لی۔ ان حالات میںبھی مزید تعلیم کا شوق دل میں اُبھرا تو بی اے میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں جاداخل ہوئے۔ پہلا سال تو ہوسٹل میں رہائش رکھی۔ بی اے کے آخری سال میں محلہ دارالنصر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر اُس میں رہ کر پڑھتے تھے اور تنور سے روٹی سالن لے کر کھالیا کرتے تھے۔ تنور والوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ محمد بخش صاحب کو دے دیا اور برادرم محمد بخش صاحب شادی کرکے دلہن کو اپنے گھر ادرحماں لے آئے۔ بی اے پاس کرلینے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں ملازمت شروع کردی اور ہائی سکول کے سامنے ہی ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے کر اس میں رہائش رکھ لی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں گائوں آتے تو ہم دونوں اکٹھا ہی رہا کرتے۔ کھانا پینااکٹھا ہوتا۔ اسی دوران دسمبر 1958ء میں میری شادی میں شامل ہوئے اور ایک خاصی رقم مجھے قرضہ حسنہ بھی دی۔ جب میرا پہلا بیٹا نصیراحمد قریباً سال ڈیڑھ سال کا تھا اور ہم عزیز نصیراحمد کو حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اُسے خدمت دین کے لئے وقف کرچکے تھے اور اس کی تعلیم وتربیت کی فکر میں تھے تو برادرم محمد بخش مرحوم گرمیوں کی چھٹیوں میں گائوں آئے اور ہمارے ہی گھردونوں مل کر ناشتہ کررہے تھے تو میں نے اُن سے اپنے بیٹے کے وقف اور تعلیم وتربیت کے لئے فکرمندی ظاہر کرکے مشورہ کیاکہ اگر مجھے بھی تعلیم السلام ہائی سکول ربوہ میں بحیثیت ٹیچر ملازمت مل جائے تو ہم ربوہ منتقل ہوجائیں گے۔ میری اہلیہ صاحبہ سے مخاطب ہوکرکہا کہ اگر باجی بھی متفق ہوں تو! انہوں نے جواباً کہا بھائی جی اور کیا چاہئے اگر یہ ہو جائے تو۔محمد بخش مجھ سے کہنے لگے۔ پکی بات کرو۔ یہ نہ ہو کہ میں ہیڈماسٹر صاحب سے سکول میں تیری تعیناتی کی بات کرلوں اور تم مکر جائو۔ میں نے کہا پکی بات کررہاہوں۔ یقیناً ًحاضر ہوجائوں گا۔ کہا میرے پیغام کا انتظار کرنا۔ چنانچہ واپس ربوہ جاکر مجھے فوراً پہنچنے کا خط لکھا اور میں حسب وعدہ حاضر ہوگیا۔ اپنے گھر ٹھہرایا اور یکم ستمبر 1961 ء کو مجھے ہیڈماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ملاکر عرض کیا کہ یہ ہے برادرم احمد علی (ایس وی) علم اردو۔ گویا ان کی وساطت سے اور برادرم اللہ بخش صاحب کی تائید اور سفارش سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ٹیچر کی حیثیت سے ربوہ میں رہنے کے لائق ہوگیا۔ یوں برادرم مرحوم ومغفور کا احسان مند ہوں۔ 1969ء دسمبر کے جلسہ سالانہ کے دوران اُن کی وفات ہوئی تو میں نیوکیمپس تعلیم الاسلام کالج میں جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت سے کچھ وقت اپنے ساتھیوں (محترم پروازی صاحب،وغیرہم)سے اجازت لے کر محمد بخش کے گھر پہنچا اور برادرم مرحوم کے غسل اور کفن دفن کے انتظامات کئے۔ا ن کے عزیزواقارب کو اطلاعات پہنچانے کا انتظام بھی کیا۔

جلسہ سالانہ 1969ء کے آخری دن نمازِفجر کے بعد مسجد مبارک میں ان کی میت لے جاکر جنازہ پڑھا اور اپنے ہاتھوں ان کو لحد میں اُتار کر یارتیزگام سے یارانے کا فرض اداکیا۔ا للہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے قرب میں بلند ترمقام عطافرمائے۔آمین۔ مرحوم ومغفور کے ساتھ بہت سی حسین اور دلچسپ یادیں وابستہ ہیں۔

12۔ ماسٹر محمد اسلم بٹ صاحب۔ آپ مولوی فاضل ہونے کے طفیل گورنمنٹ سکولوں میں عربی ٹیچر کی حیثیت سے سروس کرتے رہے جب تعلیم الاسلام ہائی سکول قومیا لیا گیا تو تبادلہ کرواکے ربوہ ہائی سکول میں آگئے۔ بہت شریف النفس اور اپنے مضمون پر حاوی تھے۔ روزانہ احمدنگر سے آکر سکول حاضری دیا کرتے تھے۔ احمدنگر جماعت کے صدر بھی تھے۔

13۔ ماسٹربشیراحمد صاحب رجوعہ والے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک پاس کرچکنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج سے بی ایس سی فزکس میں کی۔ باسکٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے اور کالج کی الیون ٹیم میں شامل تھے۔ اپنے اساتذہ کی نظر میں اپنی فرمانبرداری اور شرافت کی بنا پر مقبول تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آٹھویں سے دسویں تک مجھ سے پڑھا تھا۔ریاضی فزکس میں مہارت حاصل تھی۔ محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی تو محکمانہ ترقی کرتے کرتے ہیڈماسٹر کے عہدہ پر پہنچ گئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول کانڈیوال میں کچھ عرصہ تبادلہ ہوگیا اور رجوعہ ہی سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے موٹرسائیکل کے حادثہ میں ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچ گیا تھا اس لئے مزید سروس کرنے میں مشکل محسوس کرتے تھے۔ اسی بنا پر ماسٹر بشیراحمد رجوعہ والے کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ریاضی اور فزکس کی ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ میرے بچے بھی ان کے پاس ٹیوشن پڑھنے لگے تو ان سے ٹیوشن نہ لیتے۔ یہ کہہ کرکہ آپ میرے ایک پیارے استاد صاحب کے صاحبزادے ہو۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات اپنے قرب میں بلند سے بلندترفرمائے۔آمین

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button