مضامین

اسماءُ النَّبیﷺ فی القرآن

(حافظ محمد نصراللہ جان۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ، خاتم النبیین، رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں کامل شریعت نازل فرمائی جو تاقیامت بنی نوع انسان کے لئے راہنما ہے۔ اس تعلیم کی عملی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکباز و اطہر زندگی کی صورت میں ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے محبوب کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف صفاتی اسماء سے یاد فرمایا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ اور اطہر زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس مضمون میں قرآن کریم میں مذکور اسماء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔

۱۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
2۔ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آپ ﷺ کا نام نامی محمدﷺ قرآن کریم میں چار مرتبہ مذکور ہے :

1۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَائِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشّٰكِرِينَ

(آل عمران 145)

2۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا

(الاحزاب 41:)

3۔ وَالَّذِينَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ

(محمد 3:)

4۔ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ۔ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ۔ وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيمًا۔

(الفتح 30:)

اسم احمد ایک مرتبہ یعنی سورۃ الصف آیت 7میں مذکور ہے۔
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ اِسْرَآئِ يْلَ اِنِّيْ رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ

(الصف 7)

محمد (ﷺ ) کا معنی ہے بہت تعریف کیا گیا اور احمد (ﷺ ) کا معنی ہے خوب تعریف کرنے والا۔

قرآن کریم میں آپﷺ کا نام محمد4مقامات پر مذکور ہے اور چاروں مقامات پر آپ ﷺ کی صفت محمدیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔سب سے پہلے یہ ذکر سورۃ آل عمران میں ہے جس میں یہ زور دینا مقصود ہے کہ عیسائیوں نے تو ایک رسول کو خدائی کا درجہ دیا لیکن تم یہ غلطی نہ کرنا ۔ محمد مصطفیٰ ﷺ تمام صفات حسنہ کا مالک اور تمام خوبیوں سے مرصّع ہیں لیکن آپؐ ایک بشر اور رسول ہی ہیں۔

دوسر ا ذکر محمدؐ نام کا سورة الاحزاب کے اس مضمون کے ضمن میں ہے کہ حضو ر ﷺ کے ذریعہ دنیا کی مذہبی، نظریاتی، تمدنی اور معاشرتی تاریخ میں ایک انقلاب، ایک غیر معمولی تبدیلی برپا ہو رہی ہے۔ فرماتا ہےمَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ(الاحزاب41:) ماضی میں لوگ نسبی تعلقات پر زور دیتے تھے اور کسی کا باپ ہونا کسی کا بیٹا ہونا کسی کی نسل سے ہونا کسی قوم سے جسمانی تعلق رکھنا باعث فخر تھا جیسا کہ اسرائیل کے بیٹے اپنے آپ کو نسباً دنیا کی تمام اقوام سے برتر اور چنیدہ قوم سمجھا کرتے تھے مگر برتری کا یہ تصور ختم کیا جاتا ہے۔ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بے شک وہ خدا کے رسول ہیں لیکن ان کی رسالت انقلاب انگیز ہے کیونکہ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ کہ آپؐ کی نبوت تمام نبوتوں اور رسالتوں کی تصدیق کے لئے مہر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ سے پہلے کوئی نبی اور رسول نہیں گزرا جس کو آپ کی تصدیق کے بغیر مانا جائے اور آپؐ کے بعد بھی کوئی نہیں جو آپؐ کی اطاعت اور فیض اور اتباع اور آپؐ کی محبت آپؐ کی مہر کے بغیر مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کی کثرت کا فیض حاصل کر سکے۔

تیسرا ذکر قرآن شریف میں آپ ﷺ کے نامِ نامی محمدﷺ کاسورة محمد میں ہے

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّ ھُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ کَفَّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَھُمْ (محمد3:)

کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور اس کلام پر ایمان لائے جو محمدؐ پر اتارا گیا ہے اور وہ ان کے رب کی طرف سے کامل حق ہے ان کے رب نے ان کی برائیاں ڈھانک دیں اور ان کے احوال ٹھیک کر دئے۔ اس آیت میں یہ اشارہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو جو برکات مل رہی ہیں اور ملیں گی اور جو ان کی کمزوریاں دور ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی وہ نتیجہ ہے اس کلام کا جو اس ہستی پر نازل ہوا جو سراسر محمدؐ ہے۔ سراپا قابل تعریف ہے۔

اس مضمون کو ہمارے نبی ﷺ نے اس طور پر بھی بیان فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایمان نہیں لاتا جب تک کہ مَیں اس کو اپنے ماں باپ سے اپنی اولاد سے اور دنیا کے ہر انسان سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

چوتھا ذکر قرآن شریف میں آپ ﷺ کے نام نامی محمدؐ کا سورة الفتح میں ہے

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَ الَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح30:)

کہ محمدرسول اللہ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں کفار کے حملہ کی صورت میں پوری طرح مقابلہ کرتے ہیں مگرآپس میں ایک دوسرے سے ان کا سلوک رحمت و شفقت کا ہے۔ یہ ذکر سورة الفتح میں ہے جس میں یہ مضمون ہے اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح2:) کہ دنیا کی تاریخ میں کسی سپہ سالار کو، کسی بادشاہ کو، کسی لیڈر کو ایسی عظیم الشان فتح نہیں ہوئی نہ ہو گی جو آپ ﷺ کے نام نامی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور اس فتح کا ایک بنیادی راز دشمن کے حملہ کا پورے زور سے مقابلہ مگر اندرونی طور پر باہمی شفقت رحمت و تعاون اور اتحاد ہے۔ اور اس سورة کے آخر میں حضورﷺ کی پہلی فتح کا بھی ذکر ہے جو توراة کی پیشگوئی سے خاص تعلق رکھتی ہے اور حضور ﷺ کی دوسری فتح کا ذکر ہے جو انجیل کی پیشگوئی سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ (ملخص از کان خلقہ القرآن)

آپ ﷺ کے اپنے اللہ کے حضور شکر ادا کرنے اور اس کی حمد بیان کرنے کی کیفیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اس طرح بیان فرماتی ہیں:اللہ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا:أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ:أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا۔

آنحضرت ﷺ رات کو نوافل ادا کرتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ کے دونوں پاؤں متورم ہوجاتے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ یہ کس لئے کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرماچکا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟

(صحیح بخاری نمبر4837)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آپ ﷺ کے اسم احمد کے متعلق فرماتے ہیں:

(عربی عبارت سے ترجمہ) ’’نیز سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے الفاظ اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ میں اپنی حمد بیان فرمائی۔ پھر اپنے کلام اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں لوگوں کو عبادت کی ترغیب دی۔ پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت عباد ت گزار وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حمد اس طور پر کرے جو حمد کرنے کا حق ہے۔ پس اس دعا اور درخواست کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنادیتا ہے جو اس کی عبادت میں لگا رہے۔‘‘

(اعجازالمسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ165)

اسم محمد اور اسم احمد کی عالی شان اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات میں سے پہلی دو یعنی الرحمن اور الرحیم میں بھی صفت محمد و صفت احمد کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فرماتے ہیں:

(عربی عبارت سے ترجمہ) ’’اور جب ہمارے آقا سیدالمرسلین و خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ کی پاک ذات نے ارادہ فرمایا کہ دونوں صفات کو ایک ہی شخصیت میں جمع کردے چنانچہ اس نے آنحضرت ﷺ کی ذات میں (آپ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام ہو) یہ دونوں صفات جمع کردیں۔یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کے شروع میں صفت محبوبیت اور صفت محبیت کا خاص طورپر ذکر کیا ہے۔تا اس سے خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کی طرف اشارہ ہو اور اس نے ہمارے نبی ﷺ کا نام محمد اور احمد رکھا۔جیسا کہ اس نے اس آیت میں اپنا نام الرحمٰن اور الرحیم رکھا۔ پس یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں صفات کا ہمارے آقا فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی جامع وجود نہیں ہے… پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نام (محمد اور احمد) ہمارے رب محسن کی دونوں صفتوں (الرحمان اور الرحیم) کے مقابلہ میں منعکسہ صورتوں کی طرح ہیں جن کو دو مقابل کے آئینے ظاہر کرتے ہیں۔

اس کی تفصیل یوں ہے کہ اہل عرفان کے نزدیک اس صفت رحمانیت کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ذی روح کو انسان ہو یا غیر انسان بغیر کسی سابقہ عمل کے محض احسان کے طور پر فیض پہنچایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں اور نہ کسی اختلاف کی گنجائش ہے کہ اس قسم کا خالص احسان جو مخلوق میں سے کسی کام کرنے والے کے کسی کام کا صلہ نہ ہو مومنوں کے دلوں کو ثنا ، مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے۔لہٰذا وہ خلوص قلب اور صحت نیت سے اپنے محسن کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ اس طرح بغیر کسی وہم کے جو شک و شبہ میں ڈالے خدائے رحمان یقیناً قابل تعریف بن جاتا ہے…پھر جب اتمام نعمت کے باعث حمد اپنے کمال کو پہنچ جائے تو وہ کامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے اور ایسا محسن اپنے محبوں کی نظر میں بہت قابل تعریف اور محبوب بن جاتا ہے اور یہ صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے۔ پس آپ عقلمندوں کی طرح ان باتوں پر غور کیجئے۔ اب اس بیان سے ہر صاحب عرفان پر واضح ہوگیا ہے کہ الرحمان بہت حمد کیا گیا ہے اور (کامل) حمد کیا گیا الرحمان ہے۔بلا شبہ ان دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور اس سچائی سے ناواقف ہی اس کا انکار کرنے والا ہے۔

لیکن صفت رحیمیت کی حقیقت اور اس کی مخفی روحانی کیفیت یہ ہے کہ اہل مسجد کے اعمال پر انعام و برکت کا افاضہ ہو نہ کہ گرجا والوں پر۔اور مخلص کام کرنے والوں کے اعمال کی تکمیل کی جائے اور تلافی کرنے والوں اور معاونوں اور مددگاروں کی طرح ان کی کوتاہیوں کا تدارک کیا جائے ۔ بلا شبہ یہ افاضہ (بندوں پر) خدائے رحیم کی طرف سے ان کی تعریف کے حکم میں ہے، کیونکہ وہ اس طرح کی رحمت کسی عمل کرنے والے پر اسی وقت نازل کرتا ہے جبکہ بندہ صحیح طریق پر اس کی تعریف کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے عمل پر راضی ہوتا ہے اور اسے اپنے وسیع فضل کا مستحق پاتا ہے۔

…اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ کسی کی طرف اپنی صفت رحیمیت کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتا اور نہ کسی کے عمل کو اپنی نصرت اور اعانت سے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے بجز اس کے کہ بندہ عملاً خدا سے راضی ہو اور اس کی ایسی حمد کرے جو نزول رحمت کو مستلزم ہو۔پھر جب مخلصین کے اعمال کامل ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حمد کمال کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ احمد بن جاتا ہے اور بند ہ محمد بن جاتا ہے۔ پس پاک ہے اللہ جو سب سے پہلا محمد اور سب سے پہلا احمد ہے۔ اور اس وقت وہ بندہ جو اپنے عمل میں مخلص ہو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب بن جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے اس کی تعریف کرتا ہے اور وہ کسی کی تعریف اسی وقت فرماتا ہے جب اسے اس سے محبت ہوجائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا کمال اللہ تعالیٰ کو محمد اور محبوب بنادیتا ہے اور بندہ کو احمد بنادیتا ہے۔ اورایسا محب جو ہر دم اپنے محبوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔صفت رحیمیت کا کمال اللہ تعالیٰ کو احمد(بندے کی تعریف کرنے والا) اور محب بناتا ہے اور بندہ کو محمد (قابل تعریف) اور محبوب بناتا ہے۔‘‘

(اعجازالمسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ101تا107)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں:

’’اے مخاطب اس بیان سے تو ہمارے امام ہمام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو معلوم کرسکتا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کانام محمد اوراحمد رکھا اور یہ دونوں نام حضرت عیسیٰ اور حضرت موسی کلیم اللہ کو نہیں دیئے گئے اور خدا نے رسولﷺکو اپنی دو صفات رحمان اور رحیم میں (ظلی طور پر) شریک کیا ہےکیونکہ آپؐ پر اس کا بڑا فضل تھا اور اس نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ میں صرف اس لئے بیان کیا ہے تا لوگ سمجھ لیں کہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کے لئےاسم اعظم کے طور پر ہیں اور رسول کریم ﷺ کے لئے بارگاہ ایزدی سے خلعت کے طور پر ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام محمد رکھا تاکہ اس سے آپ کی صفت محبوبیت کی طرف اشارہ کرے اور آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ آپ کی صفت محبیت کی طرف اشارہ ہو۔‘‘

(ترجمة: از عربی عبارت، اعجاز المسیح روحانی خزائن جلدنمبر18 صفحہ 107)

3۔عبد اللہ:

ہمارے پیارے نبی ﷺ کو قرآن کریم میں مختلف القابات اوراسماء سے مخاطب کیا گیا ہے جو تمام ہی خوبصورت اور عظیم الشان ہیں۔مگر آپ ﷺ کا سب سے پہلا ذکر قرآن شریف میں عبدنا (البقرۃ24:) کے لقب سے کیا ہے گویا یہ آپ کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا خطاب ہے جو دربار الوہیت سے آپ ﷺ کو عطا ہوا۔

آپ ﷺ کو سات مرتبہ اس لقب سے مخاطب کیا گیا:

1۔وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (البقرة 24:)

2۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ وَاللهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (الأنفال 42)

3۔الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا (الكهف 2:)

4۔ فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى (النجم 11:)

5۔هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّورِ وَاِنَّ اللهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَحِيْمٌ (الحديد 10)

6۔وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا (الجن 20)

7۔ اَرَاَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى (العلق 11-10)

عبد اللہ کا مطلب ہے اللہ کا بندہ ۔اس کا عبادت گزار،اس کا مطیع، فرمانبردار، اس کے رنگ یعنی صبغةاللہ میں رنگین،اس پر توکل کرنے والا۔
یہ سب رنگ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کان یذکر اللہ فی کل احیان۔ کہ تمام اوقات میں آپ ﷺ ذکر الٰہی فرماتے تھے۔

ہمارے نبی ﷺ کا تو رات کا بیشتر حصہ اس عبادت میں گزرتا مگر بعض خاص راتیں بھی عبادت کی ہوتی ہیں۔ حضرت ابن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا آپؓ مجھے آنحضور ﷺ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ ؓکو بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓرو پڑیں اور دیر تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر فرمایا کہ آپ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کا ذکر کروں اور کس کا نہ کروں۔ ایک رات میرے ہاں باری تھی حضورؐ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے عائشہ ؓکیا مجھے اس بات کی اجازت دو گی کہ میں اپنے ربّ کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقیناً مجھے آپؐ کا قرب پسند ہے اور آپؐ کی خوشنودی مقصود ہے۔ میں آپؐ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں اس پر حضور اٹھے اور گھر میں لٹکے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپؐ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی پھر آپؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کر دیا۔ پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ اٹھا لئے اور پھر رونے لگے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی اور اس حال میں وہ رات گذر گئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلال ؓ نماز کے لئے آپ کو بلانے آئے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ رو رہے ہیں۔ کیا آپ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ(الفتح3:)پھر آپؐ کیوں روتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اے بلال! کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

(تفسیر کبیر از علّامہ فخر الدین رازہ، زیر آیت آلِ عمران 190)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ آیت قرآنی اَرَئَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًااِذَا صَلّٰی (العلق) کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تم نے دیکھا نہیں ایک ایسے شخص کو یعنی ہر اس شخص کو جو نماز سے روکتا ہے عَبْدًااِذَا صَلّٰی خدا کے بندے کو جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہونے لگتا ہے۔ عَبْدًا میں نکرہ استعمال کیا گیا ہے اور العبد نہیں فرمایا یعنی خدا کے خاص بندے کو یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو عبدًا کی شکل میں ظاہر نہیں فرمایا۔ کیوں؟اس لئے اس میں ایک حکمت ہے لیکن اس کے باوجود اوّلین طور پر آنحضور ﷺہی کا ذکر ہے کیونکہ تمام عبادتوں کا نقطہ معراج آپ ﷺ ہیں ،تمام عبادتیں آپ ﷺ سے پھوٹتی ہیں اور بنی نوع انسان میں پھیلتی ہیں اس لئے عبدًا میں ذکر بھی فرمادیا گیا اور اس لفظ کو عام بھی رکھا گیا۔ذکر اس طرح فرمایاکہ نکرہ میں ایک یہ بھی معنے پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی بہت عظیم الشان وجود کا ذکر کرنا ہو تو اس کو ال کے لفظ سے مخصوص کرنے کی بجائے نکرہ رہنے دیتے ہیں۔ مثلا رسولا کہہ دیا جائے تو یہ بھی مراد ہوگی کہ بہت ہی بڑا رسول۔ اتنا عظیم الشان رسول کہ وہ ال کا محتاج نہیں ہے۔ ہے ہی وہی مراد۔ ان معنوں میں اوّل ہی وہ سامنے آتا ہے۔ تو عبدًا جب فرمایا گیا کہ عَبْدًااِذَا صَلّٰی تو مراد یہ ہے کہ ایک عظیم الشان خدا کا بندہ ہے اس سے بڑی عبادت کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔

(خطبات طاہر جلد3 صفحہ255۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 18مئی1984ء)

عبد اللہ ہونے کی ایک شرط حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہے۔قرآن کریم حق اللہ اور حق العباد کی ادائیگی کے لئے یہ اعلیٰ پایہ کی تعلیم دیتا ہے کہ اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل91:)کہ عدل اور احسان کی سٹیج سے گزر کر ایتاء ذی القربیٰ کے مقام پر پہنچو جس میں اللہ سے محبت ذاتی کا تعلق ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی اس طرح ہو جیسے شفیق اور محبت کرنے والی ماں اپنے بچے کی دن رات دیکھ بھال کرتی ہے اور کسی قسم کے بدلہ اور اجر کا تصور بھی اس کو نہیں ہوتا۔ تو حضور ﷺ محبت ذاتیہ الٰہیہ میں ایسی بلندی حاصل فرماتے ہیں کہ سِدْرَةُ الْمُنْتَہٰی (النجم15:) کی رفعت تک پہنچ جاتے ہیں اور شفقت علیٰ خلق اللہ میں وہ مقام حاصل فرما لیتے ہیں کہ عرش کا خدا آپؐ کی کیفیت کو بَاخِعٌ (الکہف 7:)کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے یعنی جیسے کسی کو کند چھری سے ذبح کیا جا رہا ہو اور دشمن کے لئے آپ کے دکھ کو دیکھ کر فرماتا ہے

فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ (الفاطر9:)

عبد اللہ کا ایک رنگ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو دوست نہ بنائے ، کسی اَور پر توکل نہ کرے اور کسی اور سے توقع نہ رکھے۔ قرآن کریم ہمارے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ کہلواتا ہے کہ قُلْ اَغَیْرَ اللہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الانعام15:)تم کہہ دو کہ میں اللہ کے سوا جو آسمان و زمین کی پیدائش کا آغاز کرنے والا ہے کسی اور کو دوست اور مددگار اور سہارا بناؤں۔ اور اِنَّ وَلِیّیِ اللہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ (الاعراف197:) کہ میرا دوست اور مددگار اور سہارا تو وہ اللہ ہے جس نے کتاب اتاری۔ آپ ﷺ کی زندگی اور آپؐ وہ عظیم الشان مہمات جو آپؐ نے اپنی زندگی میں سرانجام دیں گواہ ہیں کہ آپ کا ولی، آپ کا دوست، آپ کا مددگار، آپ کا سہارا صرف ایک خدا تھا۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے ایک عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں۔

’’واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے۔ کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہوکر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کرکے کھلا شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ111-112)

4۔اوّل المسلمین:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نام کا ذکر سورة الانعام میں ہے جو شرک کی جملہ اقسام کے ردّ اور محض توحید باری تعالیٰ کے لئے فنا ہونے کا مضمون بیان کرتی ہے۔ اس مضمون کی انتہا ان آیات کریمہ میں ہے جن میں آپ ﷺ کو اوّل المسلمین کہا گیا ہے۔ فرمایا:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (163) لَا شَرِيْكَ لَهُ وَبِذَلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (164) (الانعام 164-163)

تو کہہ دے کہ یقیناً میری عبادت اور میری قربانیاں اورمیرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سےسب سےاوّل ہوں۔

اوّل کا معنی بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

ہمارے نبی ﷺ جو اوّل المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اَوروں کی نسبت علوم معرفت الٰہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الٰہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اوّل المسلمین ہیں۔

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ186،187)

اس جگہ ایک سوال اٹھتا ہے کہ سورة الحجرات کی آیت

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ(الحجرات 15:)

کے مطابق تو ایمان کا درجہ اسلام سے افضل معلوم ہوتا ہے لیکن خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کوتو اوّل المسلمین کہا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کو اوّل المومنین کہا گیا۔ اس شبہ کا ازالہ حکم و عدل وامام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھ کر ہوتا ہے جو آپ علیہ السلام نےآیت کریمہ

بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ أَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرة 113:)

کی فرمائی ہے۔ یعنی کہ سب سے اچھا دین اس کا ہے جو نمبر ایک اللہ کو اپنا تمام وجود معہ اس کی تمام طاقتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کے سونپ دے اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ(البقرة113:) اور دوسری طرف وہ بنی نوع انسان سے بلکہ تمام مخلوق سے احسان اور نیکی کا سلوک کرنے والا ہو وَھُوَمُحْسِنٌ(البقرة113:)

تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ اس مقام پر انتہائی درجہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ آپ کی ہر حرکت اور ہر سکون، آپ کی ہر طاقت اور صلاحیت، آپ کی ہر استعداد اور ہر قوت خدا کی راہ میں وقف تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آئینہ کمالات اسلام میں یہ تحریر اس مضمون کو خوب بیان کرتی ہے کہ

’’مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے ۔ مطلب یہ ہےکہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔

اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ58)

اس طرح وہ اسلام جس پر محمد مصطفیٰ ﷺ اعتقادی اور عملی طور پر قائم تھے دیگر انبیاء کے ایمان سے بہت بڑھ کر تھا۔

5۔داعیًا الی اللہ/الداعی لا عوج لہ

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قرآن کریم میں داعیًا الی اللہ کہہ کر بھی پکارا گیا ہے۔ایسا داعی الی اللہ جس میں کوئی کجی نہیں۔

اگر قرآن کہتا ہے

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا(الکہف2:)

کہ سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ نہ قرآن مجید میں کوئی کجی ہے نہ ہمارے نبی ﷺ میں کوئی ٹیڑھا پن ہے۔ دونوں ہر عیب سے پاک ہیں اور ہر کجی سے مبرّا ہیں۔ یورپ کے نادان خصوصیت سے گزشتہ دو سو سال سے پورا زور لگا چکے کہ ان دونوں میں کوئی نقص نکال سکیں مگر نہ نکال سکے بلکہ جہاں بھی انہوں نے کسی نقص کا دعویٰ کیا وہی جگہ خوبی اور خوبصورتی کی نکلی اور آج بھی رسول کریمﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؐ کی جماعت اس چیلنج کے ساتھ کھڑی ہے کہ تم قرآن مجید اور رسول اکرم ﷺ پر انگلی اٹھا کر دیکھو تو وہاں سے آپ کی عظمت اور خوبصورتی اور قرآن شریف کا حسن و جمال دکھا دیا جائے گا۔

(از کان خلقہ القرآن)

آنحضور ﷺ کی اس صفت داعی الی اللہ کو قرآن کریم

وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ (الانعام20:)

کے الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے نہ صرف اس لئے کہ تمہیں انذار کروں بلکہ جس کو بھی یہ پیغام پہنچ سکے۔ تو ہمارے نبی ﷺ اس زمانہ میں جبکہ نہ ڈاک کا انتظام تھا نہ تار تھی نہ ریڈیو تھا نہ ٹی وی ، ہر ممکن کوشش کر کے دکھ اٹھا کر ماریں کھا کر زخمی ہو کر قرآن کے پیغام کو جہاں تک ممکن ہے ہر جگہ پہنچانے کے لئے جدو جہد فرماتے ہیں۔ اس وقت کے شہنشاہوں قیصر و کسری،مقوقس و نجاشی، سبھی کو الٰہی پیغام دیتے ہیں اور جیسا کہ کشمیر کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے آپ ﷺ نے خط کے ذریعہ اس پیغام کو کشمیر تک پہنچایا۔

٭۔۔۔٭۔۔۔٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button