رمضان المبارک فتوحات کا مہینہ اور فتح مکہ
ہر رمضان ہمیں غزوہ بدر اور فتح مکہ کی یادد لاتا ہے اور خدائے غالب کی قدرت نمائی کا شاہکار اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والاہے
ماہ رمضان المبارک برکتوں،رحمتوں،افضال الٰہی کے حصول اورانوار الٰہی کے نزول کا مہینہ ہے۔اس بابرکت مہینے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ قلبی وروحانی،مادی و جسمانی اورمعاشرتی فتوحات کا مہینہ بھی ہے۔قلبی وروحانی لحاظ سے اس طرح کہ انسان اپنے خالق حقیقی کی خاطرکھانا پینا اوردیگرخواہشات نفسانی کو ترک کرکے تقویٰ اور قرب الٰہی کے حصول کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور گناہوں پرقابوپاکرروحانی فتح حاصل کرتا ہے اور قلبی اطمینان پاتا ہے۔جسمانی لحاظ سے اس طرح کہ محض للہ کھانے میں اعتدال کی وجہ سے جسمانی بیماریوں سے نجات پاکر تندرستی کے حصول سے فتح یاب ہوتا ہے۔معاشرتی لحاظ سے ایک دوسرے سے کینہ و حسد،کدورت و بغض کو دور کر کےمحبت و مودت اور مواسات کا تعلق قائم کرکے دلوں کافاتح بنتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں اس مہینہ کی ایک تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں دو عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔پہلی فتح یوم الفرقان غزوۂ بدر کے دن اور دوسری عظیم الشان فتح یوم الفرقان فتح مکہ کے دن۔
مکہ سے ہجرت کی پیشگوئی
سرورکائنات و فخر موجودات خاتم الرسل سیدالانبیاء رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمة للعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔جب آپﷺ پر غارحرا میں پہلی وحی نازل ہوئی توآپؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس آپؐ کولے کر آئیں۔وحی کی ساری کیفیت سن کراس نے کہا تھا یہ توحضرت موسیٰؑ پر اترنے والا فرشتہ ہے۔ کاش!میں اس وقت جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے اس شہر سے نکال دے گی۔رسول اللہﷺنےجو اپنے آبائی شہر مکہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے، حیرانی سے پوچھا:’’اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ‘‘کیا میرے ہم وطن مجھے یہاں سے نکال دیں گے۔تو ورقہ بن نوفل نے جواب دیا کہ پہلے بھی جس کسی نے ایسا دعویٰ کیا اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا آیا ہے۔آپؐ کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ (بخاری کتاب بدء الوحی باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
مکہ واپسی کی الٰہی بشارات
پس تقدیر الٰہی اور سنت انبیاء کے مطابق رسول اللہﷺ کی مکہ سے ہجرت مقدرتھی۔لیکن اللہ تعالیٰ نےاپنے اس شہنشاہ دوجہاں ﷺکے اطمینان قلب کےلیے یہ پیشگی خبر بھی دے دی تھی کہ آپ دوبارہ ضرور اپنے وطن لوٹ کر آئیں گے۔چنانچہ فرمایا:إِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ(القصص :۸۶)یعنی ىقىناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کىا ہے تجھے ضرور اىک واپس آنے کى جگہ(مکہ) کى طرف واپس لے آئے گا۔
پھر سورت بلد میں فرمایا: لَا أُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ۔ وَأَنْتَ حِلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ۔ (البلد: 2-3) خبردار! مىں اس شہر کى قسم کھاتا ہوں جبکہ تو اس شہر مىں (اىک دن) اُترنے والا ہے۔
یہ وہ سورتیں ہیں جو ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئیں اور رسول اللہﷺکی قلبی تسلی کا موجب ہوئیں۔نیز اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو یہ دعا بھی سکھا دی تھی: وَقُلْ رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّأَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيْرًا۔ (بنی اسرائیل:۸۱) اور تُو کہہ اے مىرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ مىرا داخل ہونا سچائى کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ مىرا نکلنا سچائى کے ساتھ ہو اور اپنى جناب سے مىرے لیے طاقتور مددگار عطا کر۔
ہجرت مدینہ
پس مکہ سے ہجرت کرنا خدائی تقدیر کے مطابق ضروری تھا۔ چنانچہ۲۴؍ صفر بمطابق ۷؍ستمبر۶۲۲ء کی شب افضل الرسل خاتم النبیینﷺکوکفار مکہ کے ظلم و ستم اور قاتلانہ منصوبہ کی وجہ سے اپنے آبائی وطن مکہ سےہجرت کرنا پڑی۔جس روز آپؐ مکہ سے نکلے ہیں آپؐ غمگین وحزین تھے۔ شہر سے باہر آکر مکہ کی طرف منہ کر کے اسے مخاطب ہو کر فرمایا:’’اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیاراوطن تھا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ نکلتا۔‘‘(مسنداحمدجزء۴صفحہ۳۰۵)لیکن یہ ہجرت اسلام اور بانیٔ اسلام کےلیے ہرلحاظ سے بابرکت ثابت ہوئی۔ایک طرف اس کے نتیجہ میں اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ کی بنیاد پڑی تو دوسری طرف اسلام کی کرنیں دیگر قبائل عرب کو بھی منور کرنے لگیں اور تبلیغی راستے وسیع ہوئے اور مسلمانوں کو مذہبی آزادی نصیب ہوئی۔
پہلا یوم الفرقان جنگ بدر رمضان المبارک میں
رمضان المبارک، ماہ فتوحات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ(البقرة:۱۸۶) رمضان کا مہىنہ جس مىں قرآن انسانوں کے لیے اىک عظىم ہداىت کے طور پر اُتارا گىا اور اىسے کھلے نشانات کے طور پر جن مىں ہداىت کى تفصىل اور حق و باطل مىں فرق کر دىنے والے امور ہىں۔
اس آیت کریمہ میں رمضان کی اہمیت و عظمت اور اس کی برکات کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو پیش خبریاں بھی عطا فرمائیں۔ بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ بیان کرکے اس میں یہ تخصیص فرمائی کہ یہ ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں حق و باطل کا فرق نمایاں کیاجائے گا۔پس اسی مقدس مہینہ میں پہلایوم الفرقان معرکۂ کفر واسلام غزوۂ بدر ہواجو ۱۷؍رمضان المبارک ۲؍ ہجری کو ہوا جس میں صرف ۳۱۳جاں نثار مردانِ حق صحابہ کرام نے اسلحہ سے لیس ایک ہزارکے لشکرکفارسے مقابلہ کیا۔حق و باطل کی اس جنگ میں حق کی فتح ہوئی اور باطل نے شکست کھائی۔
صلح حدیبیہ
غزوہ بدرکے بعد ۳؍ہجری میں غزوۂ احد ہوا۔پھر ۵؍ہجری کو غزوۂ احزاب درپیش ہوا۔6؍ہجری میں رسول اللہﷺ ایک خواب کی بنا پراپنے جاںنثار صحابہ کے ساتھ عمرہ کےلیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔لیکن قریش مکہ نے آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو بطور سفیر مکہ میں بھیجاجنہیں قریش نے کچھ دیر کےلیے روک لیا کہ وہ کوئی قطعی فیصلہ کرسکیں۔اس دوران آپؓ کی شہادت کی افواہ حدیبیہ میں پہنچ گئی جس پر رسول اللہﷺ نے چودہ سو صحابہ سے آپؓ کی شہادت پر بیعت رضوان لی۔اس بیعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کومخاطب کرکے فرمایا:اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَمَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا(الفتح:11) ىقىناً وہ لوگ جو تىرى بىعت کرتے ہىں وہ اللہ ہى کى بىعت کرتے ہىں اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے پس جو کوئى عہد توڑے تو وہ اپنے ہى مفاد کے خلاف عہد توڑتا ہے اور جو اُس عہد کو پورا کرے جو اُس نے اللہ سے باندھا تو ىقىناً وہ اسے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔
قریش مکہ اپنی اسی بات پر مصر رہے کہ اس سال مسلمان مکہ میں داخل نہیں ہوں گےاور اگلے سال ہی عمرہ کی اجازت کے فیصلہ کے ساتھ حضرت عثمانؓ کو واپس بھجوادیااور حالات کی نزاکت کے پیش نظراس بارے میں معاہدہ کی طرح ڈالی اور سہیل بن عمرو کو بطور سفیر روانہ کیا۔رسول اللہﷺنے بہت سی حکمتوں کے پیش نظر اس معاہدہ کو قبول کیا،جس سے دوررس نتائج پیدا ہوئے۔
فتح کی تجدیدی بشارت
اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کو پہلے بھی متعدد مرتبہ مکہ واپسی کی بشارات عطا فرمائی تھیں جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔لیکن صلح حدیبیہ سے واپسی پرخصوصی طور پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ پرسورة الفتح نازل فرمائی جس کے آغاز میں ہی ایک فتح مبین کا ذکر فرمادیا جس میں قریب کی فتح اور آئندہ ہونےوالی فتوحات کی نوید سناکر جملہ مومنین کے دلوں کو سکینت عطا فرمائی جو ازدیادایمان کا موجب بنی۔چنانچہ فرمایا:’’اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَیَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا وَّیَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا(الفتح: 2-4)ىقىناً ہم نے تجھے کھلى کھلى فتح عطا کى ہے تاکہ اللہ تجھے تىرى ہر سابقہ اور ہر آئندہ ہونے والى لغزش بخش دے اور تجھ پر اپنى نعمت کو کمال تک پہنچائے اور صراطِ مستقىم پر گامزن رکھے اور اللہ تىرى وہ نصرت کرے جو عزت اور غلبہ والى نصرت ہو۔
کفار مکہ کی معاہدہ شکنی
صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ فریقین کےلیےدس سال کےلیے جنگ کرنا ممنوع قراردیاگیا۔اور ایک شق یہ بھی تھی کہ جو کوئی قبیلہ محمدﷺ کے ساتھ شامل ہونا چاہے وہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح جو قریش کے ساتھ شامل ہونا چاہے وہ ہوسکتا ہے اور شامل ہونے والے اسی فریق کا حصہ سمجھے جائیں گے اور ان سے کسی قسم کی زیادتی اور حملہ اس فریق پر حملہ اور زیادتی کےمترادف ہوگا۔چنانچہ اس موقع پر بنوخزاعہ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اور بنوبکرنے قریش کے ساتھ الحاق کرلیا۔
لیکن ۸؍ہجری میں بنوبکر نے اپناپرانا بدلہ لینے کےلیے بنوخزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا اورقریش نے عہدشکنی کرتے ہوئے ان کی مددکی۔بنوخزاعہ کے باقی افرادنے مکہ جاکر پناہ لی اور پھرمدینہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا سانحہ بتایا۔تو رسول اللہﷺ نے اپنا سفیر کفار مکہ کی طرف تین شرائط کے ساتھ بھیجا کہ بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کرو یا بنو بکرکی حمایت سے الگ ہوجاؤ وگرنہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔جس پر قریش نے پہلی دونوں باتوں کو نہ مان کرمعاہدہ صلح حدیبیہ توڑڈالا۔ (المواھب اللدنیۃ للزرقانی جزء ۲صفحہ۲۹۲)
جب قریش کو اپنی عہدشکنی کا احساس ہوا توانہوں نے باہمی مشاورت سےابوسفیان کو اپنا نمائندہ مقرر کرکے تجدید صلح کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا۔لیکن آپﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور ابوسفیان وہاں سے مایوس ہوکر واپس آگیا۔
رمضان المبارک میں مکہ کی طرف روانگی
یہ عجیب اتفاق اورتقدیر الٰہی ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں حق وباطل کے درمیان فرق کردینے والا نشان دو دفعہ ظاہر ہوا۔غزوۂ بدر جو حق و باطل میں تمیز کا معرکہ تھا وہ بھی ماہ رمضان المبارک میں وقوع میں آیااور فتح مکہ کےلیے مدینہ سے روانگی اور ماہ رمضان میں ہی اس کی فتح بھی اسی بابرکت مہینہ رمضان المبارک میں ہوئی۔
چنانچہ۱۰؍رمضان ۸ ہجری کو مدینہ سے الٰہی قدیم نوشتوں کی پیشگوئیوں کے مطابق دس ہزار صحابہ کے ساتھ آپﷺ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔جیساکہ عہدنامہ قدیم میں ہے:’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا۔فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گرہوا۔دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کےلیے تھی۔‘‘ (کتاب مقدس،استثناء باب 2:33)
مرالظہران میں پڑاؤاور دوران سفر روزہ افطار کرنےکی سنت
رسول اللہﷺ نے مکہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔آپﷺاور آپؐ کے صحابہ کرام سب روزہ کی حالت میں تھے۔جب آپ مقام کدید پہنچے جو قدیداور عسفان کے درمیان ایک چشمہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو گیا۔(بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الْفَتْحِ فِي رَمَضَانَ)
دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے یوں مروی ہے کہ’’نبی کریمﷺ رمضان میں مدینہ سے نکلے اور آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھے اور یہ کوچ مدینہ میں آپؐ کی آمد سے(پورے)ساڑھے آٹھ سال بعد ہوا اور جو مسلمان آپؐ کے ساتھ تھے،مکہ کو روانہ ہوئے۔آپؐ بھی روزہ رکھتے اور وہ بھی۔یہاں تک کہ جب آپؐ کدید میں پہنچے اور وہ ایک چشمہ ہے جو عسفان اور قدید کے درمیان ہے وہاں آپؐ نے روزہ افطار کیا اور لوگوں نے بھی۔زہری نے کہا: نبی کریمﷺ کی اسی بات کو سنت بنایا جاتا ہے جو سب سے آخری ہو۔‘‘(بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ الْفَتْحِ فِي رَمَضَانَ)رات کے ابتدائی اوقات میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام نے مر الظہران وادی فاطمہ پہنچ کر نزول فرمایااور حضرت عمر بن خطابؓ کو پہرے کا نگران مقرر فرمایا۔(الرحیق المختوم اردو ترجمہ صفحہ۵۴۶)
ماہ رمضان اور یوم الفرقان فتح مکہ کا دن
۱۷؍رمضان المبارک ۸؍ہجری منگل کی صبح رسول اللہﷺ مرالظہران سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (الرحیق المختوم اردو ترجمہ صفحہ۵۴۶) اورخداتعالیٰ کے خاص فضل اوررسول اللہﷺ کی کمال حکمت عملی سےمعمولی مزاحمت کے بعد مکہ فتح ہوگیا۔علامہ ابن سعد کے نزدیک فتح مکہ ۲۰؍رمضان المبارک بروز جمعة المبارک ہوئی۔(طبقات ابن سعد جزء۲صفحہ ۱۰۴)اس عظیم غزوہ میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سےصرف دس سے اٹھائیس افراد قتل ہوئے۔(سیرت الحلبیہ جزء۴صفحہ۹۷-۹۸)
رسول اللہﷺ کی مکہ میں آمد اور عام معافی کا اعلان
فتح مکہ کے بعدآپﷺمسجد حرام میں داخل ہوئے، حجراسود کو بوسا دیا اوربیت اللہ کا طواف کیا۔اس وقت آپؐ اونٹنی پر سوار تھے اورآپؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی اس سے بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر موجود تین سو ساٹھ بتوں کو توڑدیا ساتھ فرماتے جاتے کہ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل۔پھر آپ نے کعبہ کی کنجی منگوائی اور اسے شرکیہ تصاویر سے پاک کیا اور وہاں نفل نمازادا کی۔اس سے فارغ ہوکرکعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ اور اس کے خاندان کے ہی سپردکردی۔جب بابِ کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپؐ کے تمام جانی دشمن آپؐ کے سامنے تھے۔آپؐ نے اس جگہ عظیم الشان خطبہ ارشادفرمایاجو اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔اس خطبہ میں خونی دشمنوں کے لیے معافی اورمساوات انسانی کا اعلان تھا، کسی غرور کی بجائے فخرو مباہات کے خاتمہ کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ آرا خطبہ بھی دراصل آپؐ کےاخلاق فاضلہ کاکمال اظہار تھا۔اس خطاب کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’اے مکّہ والو! اب تم خود ہی بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟‘‘ اورپھر خودہی نہایت عفوکرم کا سلوک فرماتے ہوئے فرمایا: اِذْ ھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْکہ جاؤ تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لیے عفو کا طلب گار ہوں۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد ۴صفحہ۹۴)
ساتھ ہی یہ احکام جاری فرمائے کہ جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے، جو خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے،جو شخص ابوسفیان یا حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی قتل نہ کیاجائے،معذور کا تعاقب نہ کیا جائے، بوڑھوں،بچوں،عورتوں ا ور زخمیوں کو قتل نہ کیاجائے۔ (مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فتح مکہ)
پس رسول رحمت ﷺ نے چندواجب القتل مجرموں کی بجائےاپنے تمام جانی دشمنوں سے عفوودرگزر فرماتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔واجب القتل مجرموں کی تعداد مورخین نے دس بتائی ہے جن میں سے صرف تین عبداللہ بن ہلال بن خطل،حویرث بن نقیذاور مقیس بن ضبابہ وغیرہ اپنے انجام کو پہنچے۔عبداللہ بن ابی سرح کو حضرت عثمان بن عفانؓ نے پناہ دے دی۔باقی سب جب معافی کے طلبگار ہوئے تو رحمة للعالمین ﷺنے معاف فرماتے ہوئے انہیں امان دے دی۔جیسے ہند زوجہ ابوسفیان جس نے جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد ان کا کلیجہ چبایا،وحشی جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا،عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ،حارث اورزہیروغیرہ۔فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ اس حسن سلوک اور ان کے حقوق کی حفاظت کی بے نظیر مثال کامستشرقین نے حیران ہوتے ہوئےذکر کرکےرسول اللہﷺ کی بے حدتعریف کی ہے۔
پس رمضان المبارک میں فتح مکہ کا نشان ایک عظیم الشان نشان ہےاورنامساعد حالات کے باوجود فتح پانا ایک ایمان افروز واقعہ ہے۔ اس لیے ہر رمضان ہمیں غزوہ بدر اور فتح مکہ کی یادد لاتا ہے اور خدائے غالب کی قدرت نمائی کا شاہکار اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے والاہے۔
رمضان المبارک اور دعاؤں کے ہتھیار
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ میں جماعت آخرین کےلیے بھی رمضان المبارک فتوحات کا مہینہ ثابت ہو۔آمین۔لیکن یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسیح و مہدی کا زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں کہ میدان جنگ میں بزوربازوتیرو تفنگ،بندوقوں اور توپوں سےفتوحات حاصل ہوں بلکہ یہ زمانہ جہاد بالنفس،جہاد بالقلم اور دعاؤں کے ذریعہ جہاد کا زمانہ ہے جس سے عظیم الشان فتوحات حاصل ہونا مقدر ہیں۔چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا:’’اےاحمدی ! اِس رمضان کو فیصلہ کُن رمضان بنا دو۔اس الٰہی جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ مگر تمہارے لئے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے۔دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرناہے۔یہ لڑائی فیصلہ کُن ہو گی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں،صحنوں اور میدانوں میں نہیں، بلکہ مسجدوں میں اس کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ راتوں کو اُٹھ کر اپنی عبادت کے مَیدانوں کو گرم کرو اَور اِس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ وبکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔ مَتٰی نَصْرُاللّٰہ کا شور بلند کردو۔خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے سینے کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رَبّ کو دکھاؤ اور کہو کہ اَے خدا!
قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج
شورِ محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے
پس اِس زور کا شور مچاؤ اور اس قُوّت کے ساتھ مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہِ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں اور ہر دروازے سے یہ آواز آئے۔ اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیبْ،اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب سنو سنو ! کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔اے سننے والوسنو! کہ خدا کی مدد قریب ہے۔اے مجھے پکارنے والوسنو! کہ خدا کی مدد قریب ہے اور وہ پہنچنے والی ہے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد۲ صفحہ۳۴۹)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں دعاؤں کی خاص تاکید کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں …آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اورآپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اپریل۲۰۲۰ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی۲۰۲۰ءصفحہ۶)