منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے
بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتاہے۔اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن:۶۱) میںاللہ تعالیٰ نے کوئی قیدنہیں لگائی کہ دشمن کے لئےدعا کرو تو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہیئے اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہیئے۔شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے…منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور ان سے محبت کرنی چاہیئے۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۹۷،۹۶ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)