تکبّر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف لے کر جاتا ہے
امت کو تو یہ حکم ہے کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے لیکن کیا ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں۔ کسی کو اپنی قوم کا فخر ہے، خاندان کا فخر ہے، تو کسی کو دولت کا فخر ہے، کسی کو دوستوں کا فخر ہے، کسی کو اولاد کا فخر ہے اور جس طرف بھی نظر ڈالیں آپ ،کوئی نہ کوئی فخر کا راستہ یا کوئی نہ کوئی فخر کی سوچ ہر ایک میں نظر آجاتی ہے۔ پھر اور تو اور بعض دفعہ بعض لوگ اچھے سوٹ سلوالیں یا کپڑے پہن لیں تو اسی پر فخر ہونے لگ جاتا ہے۔ اس تعلیم پر نظر نہیں۔ اگر ہر ایک کی اس تعلیم پر نظر ہو جو ہمیں آنحضرتﷺ نے دی تو فخر کے بجائے ہم میں سے ہر ایک میں ہر وقت عاجزی ہی عاجزی نظر آنی چاہئے۔
پھر دیکھیں روایت میں ہے جس میں آپ نے اپنے زبردست مقام کے بارے میں اعلان فرمایا ہے کہ اَنَا سَیَّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ۔ یعنی پہلی بات تو یہ اَنَا سَیَّدُ وُلْدِ اٰدَمَ۔ اور پھر ساتھ ہی عاجزی کا بھی ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ پھر فرما رہے ہیں وَلَا فَخْرَکہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں اور یہ بہت بڑا اعلان ہے لیکن عاجزی کی انتہا کہ مگر کوئی فخر نہیں کرتا۔ اس میں مجھے کوئی فخر نہیں ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 2 مطبوعہ بیروت)
اب ایسے لوگ جن کو اپنی بڑائی بیان کر کے اپنے مقام کا اظہار کرنے کا بڑا شوق ہو تا ہے ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے۔ اچھا باغبان یا مالک ہو باغ کا وہ ہمیشہ درخت کی اُس شاخ کی قدر کرتا ہے جو پھلوں سے لدی ہواورزمین کے ساتھ لگی ہو۔ اسی طرح مالک ارض و سما اس سر کی قدر کرتا ہے جو زمین کی طرف جھکتا ہے۔ عاجزی کے مقابلے پہ فخر، غرور اور تکبّر ہی ہے یعنی اس کا الٹ، تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ شرک کے بعد تکبّر جیسی کوئی بَلا نہیں۔ اگر غور کریں تو تکبّر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف بھی لے کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ عاجزانہ راہوں پر چلائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۰۲؍جنوری۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء)