متفرق مضامین

بچوں کےنام سعید اور فاطمہ رکھنا کیسا ہے؟

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

سعید جلد بازی نہیں کرتے بلکہ حسن ظن اور صبر سے کام لے کر ایمان لاتے ہیں اور جوشقی ہوتے ہیں وہ جلد بازی سے کام لے کر اعتراض کرتے ہیں

گذشتہ دنوں سیرت المہدی کی درج ذیل روایت نظر سے گزری:حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام بھی بعض اوقات ناموں سے تفاول لیتے تھے۔ نیز تبرک کے طور پر لوگ آپ سے بچوں کے نام رکھوا لیتے تھے اور آپ اکثر اس بات کا خیال رکھتے تھےکہ باپ بیٹے کے نام میں یا بھائی بھائی کے نام میں مناسبت ہو۔ نیز آپ عموماً بچوں کے نام رکھنے میں فاطمہ اور سعید نام نہ رکھتے تھے۔ فاطمہ کے متعلق فرمایا کرتے تھےکہ اگر خواب میں بھی نظر آئیں تو بالعموم اس سے مراد ھم و غم ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ کی تمام عمر رنج و تکالیف میں گزری اور سعید کے متعلق فرماتے تھے کہ ہم نے جس کا نام بھی سعید سُنا اُسے بالعموم برخلاف ہی پایا۔ اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہِ۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۵۰۵)

گو بظاہر احباب یہ خیال کریں کہ یہ نام نہیں رکھنے چاہئیں۔ لیکن ایسا ہرگز مراد نہیں۔ صرف نیک تفاؤل مراد لیتے ہوئے ایسے نام رکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رکھا جائے تو جیسا حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے ویسا ہی معبرین کرام نے بھی بیان کیا ہوا ہے۔

یہاں سیرالیون میں ہر دوسرا نام فاطمہ، فاماتا، فاطمتا، ایف اے، اور لڑکوں میں سعید یا سعیدو ہے۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان تمام نے نیک کے بجائے بد اثر لیا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تفاؤل مراد لیتے ہوئے اس پر اپنا ذاتی مشاہدہ بیان فرمایا جبکہ دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح روایت میں موجود الا ما شاءاللہ کے الفاظ بھی اس پر دالّ ہیں۔پھر جو نام حضرت رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی صاحبزادی کے لیے منتخب کیا ہو، عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کو کیسے برا خیال کر سکتے ہیں۔

مندرجہ بالا روایت پر محاکمہ دیتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’علم الرویاء میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ کو دیکھنا دنیوی لحاظ سے تکالیف کا مظہر ہوتا ہے مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ اُخروی لحاظ سے ضرور مبارک ہوگا۔ کیونکہ حضرت فاطمہ سَیِّدَۃُ نِسَآءِ الْجَنَّۃ ہیں۔ اور سعید کے متعلق غالباً بعض نامبروں کے تلخ تجربہ سے حضور کو خیال پیدا ہو گیا ہوگا‘‘۔ (سیرت المہدی روایت نمبر ۵۰۵)

اچھا نام اچھی شخصیت کی ایک پہچان ہوتا ہے۔نام شخصیت کے لیے بطور نیک تفاؤل بھی ہوتا ہے۔ پھر بعض لوگ اپنے آباء، اساتذہ، روحانی پیشواؤں کا نام زندہ رکھنے یا برکت کے حصول کے لیے بعینہٖ وہی نام یا نام کا ایک حصہ بطور سابقہ لاحقہ استعمال کرتے ہیں۔

دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مختلف تہذیب و تمدن کے افراد ابھی بھی اور خصوصاً مسلمان اپنے محبوب آقائے دو جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بابرکت نام کے نیک تفاؤل کے طور پر اپنی لڑکیوں کا نام رکھتے ہیں۔

فاطمہ کے معنی اور تفاؤل

وَّفِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡن (لقمان:15) اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں (مکمل) ہوا۔
 وَحَمۡلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا۔ (الأحقاف:16) اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔

قرآن کریم میں دودھ چھڑانے کے لیے فصال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

لغت میں کہتے ہیں الفِصال: الفِطام (لسان العرب زیر مادہ فطم) یعنی فصال کا مطلب ہے فطام یعنی دودھ چھڑانا
فصال‏:فطام الصغير عن ثدي أمه‏. (فقهية) فصال کا معنی ہے بچے کا ماں کے پستان سے دور کرنا۔

فطام دو سال کی رضاعت کا عرصہ مکمل ہونے پر بچے کے دودھ چھڑانے کو کہتے ہیں۔ فَطَم الصبيَّ: فَصْلُهُ عَنْ ثَدي أُم و رضاعها (لسان العرب زیر مادہ فطم) بچے کا فطام مکمل ہوا یعنی بچے کا ماں یا رضاعی ماں کی چھاتی سے جدا کیا جانا۔ فاطمہ کا لفظ اسی عربی لفظ فطام سے اسم فاعل ہے۔ فاطمہ کے لفظی معنی یہ ہیں کہ بچے کو دودھ چھڑانے والی عورت۔

دوران تعلیم جامعہ،ہمارے ایک استادنے صحیح مسلم پڑھاتے ہوئے ایک بار فاطمہ نام کی وجہ تسمیہ اور نیک تفاؤل بتایا تھا کہ یہ نام نیک تفاؤل کے طور پر اس لیے رکھا جاتا ہے کہ یہ بچی گو ابھی پیدا ہوئی ہے لیکن یہ بڑی بھی ہو گی پھر وہ شادی کی عمر کو پہنچے گی۔ پھر اس کی شادی ہوگی۔ پھر وہ حاملہ ہوگی، پھر حمل کی مدت مکمل ہوگی۔ اس دوران وہ صحت مند بھی رہے گی، پھر بچی یا بچہ زندہ بھی پیدا ہوگا، پھر وہ زچہ و بچہ صحت مند ہوں گے اس لئے کہ وہ بچہ اسی ماں کا دودھ پئے گا اور دو سال تک مکمل پیئے گا۔ کیونکہ وہ ماں صحت مند ہوتی ہے جو دو سال تک دودھ پلاتی ہے۔ گویا یہ نام زچہ و بچہ کی صحت پر بھی دلالت کرتا ہے۔اس نام میں یہ تمام نیک تفاؤل مخفی ہے۔ پھر یہ نام صرف ایک بچہ پر دلالت نہیں کرتا بلکہ بار بار دودھ چھڑانا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یعنی لمبی صحت والی عمر پانا اور متعدد بچے ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ فاطمہ نام سے ایک صحت مند، طویل العمر، کثیر العیال لڑکی کا نیک تفاؤل لیا جاتا ہے۔

صحابیات رسول اللہ ﷺ میں سے کئی اس نام کی حامل خواتین تھیں مثلاً سید الشہداء حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی، حضرت عمرؓ کی بہن، حضرت علی ؓ کی والدہ و اہلیہ، حضرت اسامہ بن زیدؓ کی اہلیہ۔

حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ

آپؓ کی تمام زندگی پر رسول کریم ﷺ کی چھاپ ہے۔ جتنی تکالیف رسول الله ﷺ نے برداشت کیں اسی قدر حضرت فاطمہؓ نے بھی کیں۔ننھے ننھے ہاتھوں سے عبادت میں مشغول والد کی کمر سے اونٹ کی اوجھڑی یا بچہ دانی ہٹائی۔ اپنی والد و والدہ کے ساتھ مکہ کے مشرکین کے مظالم اور بائیکاٹ میں شامل ہوئیں۔ دار ارقم کے نہایت تکلیف دہ حالات نے دس سال کی عمر کی اس معصوم بچی سے اس کی والدہ حضرت خدیجہؓ اور دادا یا خسرحضرت ابو طالب کو چھین لیا۔ ہجرت کی تکلیف، مدینہ میں ایک نبی کی بیٹی ہونے کے بڑی ذمہ داری نبھائی۔ اعلیٰ اخلاق، مثالی نمونہ، میانہ روی اور بظاہر غربت میں زندگی گزانے والی یہ شہزادیٔ شہنشاہِ دو جہان اپنے ہاتھوں سے چکی سے آٹا پیستی تھیں۔جنگوں میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ شامل بھی ہوئیں۔ آپ نے جنگ احد میں آگے بڑھ کر رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک سے نکلنے والا خون بندکیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں تمام امت تو کیا، بہشت میں بھی تمام خواتین کی سردار قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے جا ملیں۔

انہی تکالیف کی بنا پر معبرین نے حضرت فاطمہ ؓکو خواب میں دیکھنے سے نیک تفاؤل نہیں لیا۔ مثلاً امام عبد الغنی النابلسی میں لکھا ہے کہ(فاطمة بنت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم) رؤيتها في المنام تدل على فقد الأزواج والآباء والأمهات والذرية۔ (كتاب تعطير الأنام في تعبير المنام۔ باب الفاء)یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ کو خواب میں دیکھنا شوہر والدین اور ذریت میں سے کسی کے گم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے محاکمہ درج کیا کہ یہ نام اخروی لحاظ سے نہایت بابرکت ہے۔

سعید کے معنی

سعید کا لفظ سعادت سے نکلا ہے۔ اس کے معنی ہیں:سعادت مند، خوش بخت، خوش مزاج۔ اس کے دوسرے مشتقات بھی بطور نام استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے سعد، سعادت، سعود، اسعد، سعیدہ، مسعود۔

قرآن کریم میں یہ لفظ شقی کے متضاد کے طور پر آیا ہے:يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (ھود:۱۰۶)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شقی وہ ہے جس کے اندر نیکی کا مادہ نہ ہو۔ اور اس کا قلب نیکی کی تحریک سے متاثر نہ ہو۔ اورسعید وہ ہے۔ جس میں نیکی کا مادہ ہو۔ اور نیکی کی تحریک سے متاثر ہونے والا ہو۔ (تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۲۵۲)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سعید اور شقی کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جور بانی فیض کے رنگ سے کم حصہ رکھتا ہے اس کو قرآنی اصطلاح میں شقی کہتے ہیں اور جس نے کافی حصہ لیا اس کا نام سعید ہے۔خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں مخلوقات کو سعادت اور شقاوت کے دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے مگر ان کو حسن اور قبح کے دوحصوں پر تقسیم نہیں کیا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ سے صادر ہوا اس کو برا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے جو کچھ بنایا وہ سب اچھا ہے۔ ہاں اچھوں میں مراتب ہیں۔ پس جو شخص اچھا ہونے کے رنگ میں نہایت ہی کم حصہ رکھتا ہے وہ علمی طور پر برا ہے اور حقیقی طور پر کوئی بھی برانہیں۔ (ست بچن، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ ۱۳۸،حاشیہ)

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ کوئی شخص مراتب اخلاق یا علمی طور پر مقرر کردہ اصولوں پر برا کہلا سکتا ہے لیکن اندرونی خوبی سے اور بظاہر خلقت سے کوئی بر انہیں۔ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔

پھر فرمایا کہ ’’ایمان کی حقیقت کچھ نہ کچھ مخفی رہناضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جوفر مایا ہے منهم شقی و سعید یہ دونوں اسی سے بنتے ہیں۔سعید جلد بازی نہیں کرتے بلکہ حسن ظن اور صبر سے کام لے کر ایمان لاتے ہیں اور جوشقی ہوتے ہیں وہ جلد بازی سے کام لے کر اعتراض کرتے ہیں‘‘۔ (الحکم مورخہ ۱۰؍جنوری۱۹۰۳ء صفحہ۱۱)

ان اقتباسات پر گہری نظر ڈال کر روایت مذکورہ بالا کی تطبیق کی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ سعید سے مراد حضور اقدس ؑ کی شاید وہ سعادت مندی تھی جو قرآن کریم نے شقی کے مقابل بیان فرمائی۔ سعید نام والے کچھ احباب میں شاید ان علامات کا فقدان آپ کے مشاہدہ میں آیا ہو۔ اس لیے سعید کا نیک تفاؤل حقیقی مراد لیا جانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اس آیت سے آگے سعید لوگوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے:وَاَمَّا الَّذِیۡنَ سُعِدُوۡا فَفِی الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ۔(ھود:۱۰۹)یعنی اور وہ لوگ جو خوش نصیب بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ اس میں رہنے والے ہیں جب تک کہ آسمان اور زمین باقی ہیں سوائے اس کے جو تیرا ربّ چاہے۔ یہ ایک نہ کاٹی جانے والی جزا کے طور پر ہوگا۔

پھر خلیفۂ وقت بھی ہمیشہ سعید روحوں کے حق کو پہچاننے کے لیے دعا کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور بعض وفات پانے والے احباب کو بھی سعید روح یا سعید فطرت قرار دیتے ہیں۔

کئی صحابی بھی اس نام کے ہوئے۔ حضرت سعید بن زیدؓ حضرت محمدﷺ کے صحابی تھے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔ یہ وہی سعید ہیں جو حضرت عمر ؓکے بہنوئی تھے۔حضرت فاطمہ بنت خطابؓ حضرت عمر بن خطاب ؓکی حقیقی بہن تھیں، لیکن وہ خود اس وقت تک اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے، بہن اور بہنوئی کی تبدیلی مذہب کا حال سن کر نہایت برافروختہ ہوئے اور دونوں کو اس قدر زود و کوب کیا کہ وہ لہولہان ہو گئے۔

دیگر صحابہ میں سے بھی بعض کا یہ نام تھا جیسے حضرت سعید بن عامرؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت سعید بن رُقَیشؓ، حضرت سعید بن حُرَیْثؓ،حضرت سعید بن جبیرؓ، حضرت سَعِید بن سُہَیْلؓ۔

اچھے نام کی تلقین

آنحضرت ﷺ نے نام رکھنے کے حوالہ سے تلقین فرمائی کہ اَحْسِنُوْا اَسْمَآئَکُمْ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی تغییر الاسماء) کہ اپنے اچھے اچھے نام رکھا کرو۔

پھر آنحضرت ﷺ نے اچھے ناموں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:’’انبیاء کے ناموں جیسے اپنے بچوں کے نام رکھو اور سب سے اچھے نام عبد اﷲ اور عبد الرحمان ہیں۔‘‘(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب تغییر الاسماء)

تربیتِ اولاد کے لیے بھی بچوں کے اچھے نام رکھنا ضروری ہیں۔ پھر بچوں کے نام دعائیہ رنگ میں رکھے جا سکتے ہیں پھر جب بھی کوئی ان کو پکارے گا تو ساتھ دعا دے رہا ہوگا۔ ان دعاؤں کی وجہ سے بچہ نیک ہوتا جائے گا۔ مثلاً عبد اللہ: اےاللہ کے بندے۔ یعنی ساتھ ہی دعا ہے کہ اللہ کا بندہ ہو۔مظفر : جب بھی کوئی پکارے گا اور آواز دے گا تو اس میں یہ دعا ہوگی کہ تو ہمیشہ کامیاب وکامران ہو۔

مسرور : نام کوپکارے گا تو ساتھ ہی دعا دے رہا ہوگا کہ تو خوش رہے۔

اسی طرح عابد، ناصر، خالد، صائم، جاہد، نعیم، سرفراز، طیب، بشیر، شریف، مبارک وغیرہ نام ہیں۔ جن میں دعائیہ رنگ بھی پایا جاتا ہے۔

فاطمہ اور سعید نام بذاتہ اچھے اور متبرک نام ہیں۔ لیکن جن شخصیات کو ذہن میں رکھ کر تفاؤل کے طور پر نام رکھا جاتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ان کی اس شخص کے اخلاق اور اس کی زندگی کی چھاپ بھی آ جائے۔ شاید یہی امر حضرت مسیح موعودؑ کے مدنظر رہا ہو۔

سو اچھے نام رکھنے چاہیں اور بچوں میں شعور پیدا کرنا چاہیئے کہ وہ اسم بامسمیٰ ہوں اور نیکی میں بڑھنے کی کوشش کریں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button