امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ کینیڈا 2016ء
مسجد بیت النور کیلگری میں خطبہ جمعہ۔ کیلگری میں منعقدہ پِیس سمپوزیم میں کیلگری کے میئر، سابق وزیراعظم کینیڈا اور دیگر اہم سیاسی و سماجی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی شرکت اور معاشرہ میں امن و سلامتی کے قیام اور خدمت انسانیت کے کاموں میں جماعت احمدیہ کے کردار پر خراج تحسین۔
ز….. جس اسلام کا مجھے علم ہے اور جس اسلام پر مَیں عمل کرتاہوں وہ تو مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن کریم کی تعلیمات اور بانیٔ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے اُسوہ پر مبنی ہے۔ …..ز….. مسلمانوں کی اکثریت اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کو بھلا بیٹھی ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ناکام ہورہی ہے۔ ز….. اسلامی تعلیمات ہر گزظالمانہ یا غیر منصفانہ نہیں ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات تو عدل و انصاف کے بے نظیر معیاروں پر مبنی ہیں ۔ …..ز….. اسلام تو معاشرے کی ہر سطح پر امن کی بنیاد قائم کرتاہے اور اس میں مختلف قوموں کے باہمی تعلقات بھی شامل ہیں۔ …..ز….. قرآن کریم نے مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ وہ اسلام کا دفاع کرسکیں یا اس خوف سے دی کہ تمام مساجد تباہ ہوجائیں گی۔ بلکہ یہ اجازت تمام مذاہب اور تمام عبادتگاہوں کی حفاظت کے لئے دی گئی خواہ وہ کلیساہوں، مندر ہوں ، گرجاگھر ہوں ، مسجدیں ہوں یا کوئی بھی عبادتگاہ ہو۔ …..ز….. ابتدائی مسلمانوں نے صرف اپنے دفاع کے لئے نہیں بلکہ انسانیت ،مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر جیسی عالمی اقدار کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا۔ …..ز….. اسلامی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ جہاں بھی یہ دفاعی جنگیں ہوئیں وہاں رسولِ کریم ﷺ نے جنگوں کے نہایت سخت اصول وضع کئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ مسلمان فوجیں کسی قسم کا ظلم نہ کریں۔ …..ز….. آجکل مسلمان ممالک میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں انہیں باہر سے کھلے عام یا خفیہ طور پر بھڑکایاجارہاہے۔ …..ز….. آج کے دور میں ہونے والی جنگیں مذہبی وجوہات کی خاطر نہیں لڑی جارہیں بلکہ ان کا مقصد جغرافیائی سیاست اور طاقت اور دولت کا حصول ہے۔ ز….. بڑی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ اس عالمی بحران کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرائےچلے جانے کی بجائے ذرا ٹھہر کر اپنی حالتوں کوبھی دیکھیں۔
(کیلگری (کینیڈا) میں منعقدہ پِیس سمپوزیم میں حضورانور ایدہ اللہ کا خطاب)
11 نومبر2016ء بروز جمعہ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پینتالیس منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
خطبہ جمعہ
آج جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ نماز جمعہ میں کیلگری جماعت کے علاوہ کینیڈا کی دوسری جماعتوں ٹورانٹو، سسکاٹون، ایڈمنٹن، وینکوور، ریجائنا، لائیڈ منسٹر اور بعض دیگر جماعتوں سے احباب جماعت بڑے سفر طے کرکے پہنچے تھے۔
اسی طرح امریکہ کی مختلف جماعتوں سے احباب جماعت اور فیملیز ہزارہا میل کا سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے پہنچے تھے۔
سیاٹل (Seattle) سے آنے والی بعض فیملیز بارہ گھنٹے کا سفر طے کرکے کیلگری پہنچی تھیں۔ لاس اینجلز اور کیلیفورنیا کے دوسرے علاقوں سے آنے والے احباب دو سے تین گھنٹہ کا سفر بذریعہ جہاز طے کرکے جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچے تھے۔ Texas سے آنے والے احباب بذریعہ جہاز چار گھنٹے کا سفر طے کرکے پہنچے تھے۔ اسی طرح Maryland سے آنے والے بھی چار گھنٹے کا سفر بذریعہ جہاز طے کرکے پہنچے تھے۔
مسجد بیت النور اور اس کی دونوں Lobbies اور ملٹی پرپز ہال اور اس کمپلیکس کی تمام جگہیں اور باہر لگی ہوئی مارکیز نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ چار ہزار سے زائد لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچے تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ براہ راست Live نشر ہورہا تھا۔ خطبہ کے لئے Live Stream کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بجکر تیس منٹ پر مسجد بیت النور میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔
خطبہ جمعہ
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ آجکل کی دنیا سمجھتی ہے کہ مال کو جمع کرنا اور اسے صرف اپنے آرام و آسائش کے لئے خرچ کرنا ہی ان کے لئے خوشی اور سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن ایک مومن جس کو دین کا حقیقی ادراک اور شعور ہو سمجھتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتیں اور سہولتیں انسان کے لئے پیدا فرمائی ہیں لیکن زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، تقویٰ پر چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ مخلوق کی ہمدردی میں جہاں ضرورتمندوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ہے وہاں ان کے دین و ایمان اور انہیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا خیال رکھنا بھی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اس زمانے میں بھی علاوہ مادی ضروریات کے پورا کرنے کے جس کے لئے مال خرچ کرنا ضروری ہے، غریبوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ ہم احمدیوں کے لئے روحانی ضروریات پوری کرنے کے لئے مال خرچ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ تکمیل اشاعت ہدایت کا کام اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اس زمانے میں جماعت احمدیہ ہی مومنین کی وہ جماعت ہے جو ایک نظام کے تحت اشاعت اسلام کے لئے خرچ کرتی ہے جس میں مختلف ذرائع سے تبلیغ کے کام ہیں اور مخلوق سے ہمدردی کی وجہ سے ان کے حق ادا کرتے ہوئے ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تکلیف اٹھا کر یہ خرچ کرتے ہیں اور اس یقین سے خرچ کرتے ہیں کہ جہاں یہ خرچ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا وہاں یہ بھی تسلی ہے کہ صحیح طریق سے خرچ ہو گا۔ اس بات کا اعتراف تو بعض غیر لوگ بھی کئے بغیر نہیں رہتے کہ جماعت کا مالی نظام اور خرچ بہترین ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ چندوں کے لئے پاکیزہ مال بہت ضروری ہے۔ چندے بھی ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جن کے بارے میں کم از کم یہ پتا ہو کہ یہ غلط قسم سے کمایا ہوا مال نہیں ہے اور اگر ہے تو نظام جماعت چندہ نہیں لیتی۔ اور اگر پھر بھی لیا جاتا ہے تو وہ اگر مجھے پتا لگے تو بہرحال یا تو چندہ واپس کیا جاتا ہے یا ان عہدیداروں کو معطّل کیا جاتا ہے۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ قربانی کر کے دینا اور پاک مال میں سے دینا، تبھی اس میںبرکت پڑتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی کروں گا اس لئے مَیں ان چند قربانی کرنے والوں کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں جو مالی قربانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف امیر ممالک میں نہیں بلکہ غریب ممالک اور بالکل نئے شامل ہونے والے احمدی جو ہیں ان کے دل بھی اللہ تعالیٰ احمدیت قبول کرنے کے بعد کس طرح پھیرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ باوجود تنگی کے وہ قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ مالی قربانیوں اور اس پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بیشمار واقعات ہیں جو میرے پاس آئے لیکن میرے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ ان میں سے کون سے نکالوں۔ چند ایک میں نے پیش کئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تقریباً ہر ملک میں رہنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا نوازتا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے مختلف ممالک کے افراد جماعت کے مالی قربانیوں کے حیرت انگیز ایمان افروز اور روح پرور واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ جائزے کے مطابق یہاں ایم ٹی اے سننے کا رواج جتنا ہونا چاہئے وہ نہیں ہے یا کم از کم میرے خطبات براہ راست نہیں سنتے۔ جماعت اتنا بے شمار جو خرچ کرتی ہے یہ جماعت کی تربیت کے لئے ہے۔ اگر وقت کا فرق بھی ہے تو جو repeat خطبہ آتا ہے اس کو سننا چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کو خلافت سے جماعت کا تعلق جوڑنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اگر گھروں میں آپ لوگ اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کی اولادیں پیچھے ہٹنا شروع ہو جائیں گی۔ پس اس سے پہلے کہ پچھتاوا شروع ہو جائے اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ جوڑیں اور اس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے دیا ہوا ہے اسے استعمال کریں۔ دوسرے بھی بے شمار اچھے پروگرام ایم ٹی اے پر آتے ہیں لیکن کم از کم خطبات تو ضرور سنا کریں۔ یہ نہیں کہ مربی صاحب نے ہمیں خلاصہ سنا دیا تھا اس لئے ہمیں پتا ہے کیا کہا گیا۔ خلاصہ سننے میں اور پورا سننے میں بڑا فرق ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ 1934ء میں احرار جماعت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان کر کے دنیا میں مشنری بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔ تبلیغ کا ایک جامع منصوبہ بنایا گیا۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کو جانا جاتا ہے اور 209ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے تحریک جدید میں گزشتہ سال پیش کی جانے والی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ سال(2015ء۔2016ء) میں عالمگیر جماعت احمدیہ کو تحریک جدید میں ایک کروڑ 9لاکھ 33ہزار پاؤنڈز سٹرلنگ کی قربانی کی توفیق ملی ہے۔ الحمدللہ۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ عالمی طور پر جماعتوں کی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان نمبر ایک پر اور اس کے بعد جرمنی، برطانیہ اور امریکہ رہے۔
بعد ازاں حضور انور نے مختلف پہلوؤں سے بڑے بڑے ممالک کی تحریک جدید میں مالی قربانی کے جائزے احباب کے سامنے پیش فرماتے ہوئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سب شامل ہونے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور آئندہ بھی بڑھ چڑھ کر قربانی کی توفیق دے اور خلافت سے ہمیشہ ان کا مضبوط تعلق قائم کرتا رہے۔
(نوٹ : اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 2دسمبر 2016ء میں شائع ہوچکا ہے)۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطبہ جمعہ دو بجکر تیس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جمعہ و نماز عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
پیس سمپوزیم کا انعقاد
آج پروگرام کے مطابق ’’Genesis سنٹر کیلگری‘‘ میں پیس سمپوزیم (Peace Symposium) کا انعقاد ہورہا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچ بجکر دس منٹ پر مسجد بیت النور سے Genesis سنٹر کے لئے روانہ ہوئے اور پانچ بجکر بیس منٹ پر یہاں تشریف آوری ہوئی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لے آئے جہاں اس تقریب میں شامل ہونے والے بعض منسٹرز، ممبران پارلیمنٹ اور کیلگری کے میئر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد کے منتظر تھے۔ اس موقع پر میڈیا اور پریس کے نمائندے بھی موجود تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان مہمانوں سے تعارف حاصل کیا اور ان سے مختلف امور پر گفتگو فرمائی۔
ایک مہمان نے وزیراعظم کینیڈا سے ملاقات کے حوالہ سے بات کی جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مختصراً اس ملاقات کے حوالہ سے بتایا۔
ایک خاتون مہمان نے York یونیورسٹی ٹورانٹو میں حضور انور کے خطاب کے حوالہ سے ذکر کیا اور بتایا کہ میں اس سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔
مہمانوں سے یہ ملاقات قریباً پندرہ منٹ تک جاری رہی۔
اس کے بعد کینیڈا کے سابق وزیراعظم آنریبل Stephen Harper نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پائی۔
موصوف کینیڈا کے بائیسویں وزیراعظم رہے ہیں اور سال 2008ء میں بحیثیت وزیراعظم مسجد بیت النور کیلگری کے افتتاح کے موقع پر تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ موصوف وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے دَور میں جماعت کینیڈا کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کرچکے ہیں اور ایک پروگرام میں شمولیت کے لئے پیس ویلج (Peace Village) بھی آچکے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے موصوف سے مختلف امور پر گفتگو فرمائی۔ امریکہ میں ہونے والے الیکشن کے حوالہ سے بھی بات ہوئی۔ حضور انور نے فرمایا: آپ جب کبھی یوکے آئیں تو ہمارے لئے بھی وقت رکھیں۔ یہ ملاقات پانچ بجکر پینتالیس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوف نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لے آئے۔ حضور انور کی آمد سے قبل جملہ مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں 644 مہمان شامل ہوئے۔ جن میں سابق پرائم منسٹر کینیڈا آنریبل سٹیفن ہارپر، منسٹر آف ہیومن سروسز البرٹا آنریبل عرفان صابر، کیلگری شہر کے میئر Naheed Nenshi، ممبر نیشنل پارلیمنٹ Darshan Sing Kang، سابق منسٹر ڈیفنس Jason Kenny، کیلگری یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ اور وائس چانسلر Elizabeth Cannon، President & CEO Red Deer College، Chestermere شہر کے میئر، کیلگری کے سابق میئر، Red Deer شہر کے سابق میئر، ڈپٹی میئر Drumheller، صوبائی اسمبلی البرٹا کے ممبر پارلیمنٹ Mr. Ric McLver، Mr. Roger Chaffin کیلگری پولیس چیف، Mr. Alvin Manitopyes Elder Cree & Saulteaux Nation ، Mr. Jim Dewald, Dean Huskayne School of Business University of Calgary شامل تھے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر، پروفیسرز، اساتذہ، وکلاء، انجینئرز، جرنلسٹ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے مختلف نمائندے، کونسلرز، مختلف حکومتی محکموں سے تعلق رکھنے والے افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم خدری صاحب نے کی۔ اس کے بعد اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا۔
بعدازاں مکرم لال خان ملک صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا نے اپنا استقبالیہ ایڈریس پیش کیا اور اس تقریب کا تعارف بھی کروایا اور اس میں شامل ہونے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
کیلگری کے میئر Naheed Nenshi صاحب کا ایڈریس
بعدازاں سب سے پہلے کیلگری کے میئر Naheed Nenshi صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے اپنے ایڈریس میں کہا:۔ حضرت خلیفۃالمسیح نے ہمیں اپنے وجود سے برکت بخشی ہے۔ میں خلیفۃ المسیح کا یہاں تشریف لانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا کیلگری اور باقی دنیا میں اس غیرمعمولی جماعت کی قیادت کے لئے بھی بے حد شکرگزار ہوں۔ جماعت احمدیہ کو کینیڈا میں 50 برس ہو گئے ہیں اور آج کادن جماعت احمدیہ کے کاموں کی وجہ سے شکریہ ادا کرنے کا دن ہے ۔ کیونکہ یہ جماعت باقی جماعتوں سے کئی گُنا زیادہ کام کرتی ہے۔ معاشرے میں موجود عدم برداشت اور تنگ ذہنیت کی یہ لڑائی ہم سب کی لڑائی ہے۔یہ جماعت اس بات کو سمجھتی ہے کہ مل جل کر معاشرے کا قیام کرنا ہم سب کے لئے فائدہ مند ہوتاہے۔
موصوف نے کہا:۔ مجھے ا س بات پر فخر ہے کہ حضور نے کینیڈا کی سب سے بڑی مسجدبنانے کے لئے Calgary کا شہر چنا اور کیلگری میں بھی وہ جگہ پسند فرمائی جہاں میں رہتاہوں ۔مسجدبیت النور ہمارے افق پر چمک کر ہمیں ہر روز اس خوبصورت نعرہ کی یاد دلاتی ہے ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ آج ’شکرگزاری‘ (Thanksgiving) کا دن ہے اور میں بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔میں شکرگزار ہوں کہ مجھے ایک ایسے علاقہ میں رہنے کی سعادت حاصل ہے جس میں جماعت احمدیہ کے ممبران کاایک بڑا حصہ آباد ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر حضورانور کا یہاں تشریف لانے پر شکریہ اداکرتاہوں۔
کینیڈا کے سابق وزیرِ اعظم سٹیفن ہارپر صاحب کا ایڈریس
اس کے بعد کینیڈا کے سابق وزیرِ اعظم سٹیفن ہارپر صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے اپنے ایڈریس میں کہا:۔ میں حضرت خلیفۃ المسیح اور دیگر مہمانوں کا شکریہ اداکرتاہوں۔خلیفۃ المسیح کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سے ملاقات کرنا میرے لئے نہایت عزت اور خوشی کا مقام ہے ۔ میں مختصر اً آپ کو اس شہر اور کینیڈا کی غیر معمولی جماعت یعنی ’جماعت احمدیہ‘ کے بارہ میں بتانا چاہتا ہوں۔ میری وزارت عظمیٰ کے دَورمیں جماعت احمدیہ ہمارے اُن بہترین ساتھیوں میں سے تھی جن کے ساتھ ہم نے مل کر کام کیا۔ جماعت احمدیہ کے لوگوں نے بحیثیت کاروباری افراد، بحیثیت پیشہ ورافراد اور بحیثیت دیگر محنتی ورکرز ہماری اقتصادیات میں قابل ذکر حصہ ڈالاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ نے ہمارے معاشرہ کے تقریباً ہر پہلو میں ایک فعال کردار اداکیاہے۔
جماعت احمدیہ Humanity First Canada اور بعض دوسری سرگرمیوں کے ذریعہ رفاہی کاموں کے لئے (جن میں قدرتی آفات کے لئے فنڈز وغیرہ جمع کرنا ہوتاہے) مسلسل مالی اور افرادی قوت کے ساتھ اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے ۔مثال کے طو رپر چند سال قبل ہیٹی میں آنے والے طوفان، پاکستان میں آنے والے سیلاب، فلپائن میں آنے والے طوفان اور افریقہ میں ایبولا سے لڑنے کے لئے اور سب سے بڑھ کر بچوں اور ذہنی امراض کے لئے سہولیات مہیا کرنے میں جماعت احمدیہ نے ہمیشہ ہماراساتھ دیاہے۔ آج خاص طور پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ نے ہماری Remembrance Day Campaign کے لئے بھی فنڈز اکٹھے کرنے میں مدد کی۔
موصوف نے کہا:۔ میں یہ بھی بتاناچاہوں گاکہ یہ جماعت احمدیہ ہی تھی جو Office of Religious Freedom کے قیام میں سب سے آگے تھی جس نے مذہبی اقلیتوں اور انسانی حقوق کے دفاع میں بہت اچھا کام کیا۔ دنیا بھر میں آپ جیسی جماعتوں کو ہماری ضرورت ہے۔ مذہبی آزادی کا یہ کام جاری رہنا چاہئے۔ یہ کام انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کاکام ہے جو کہ مذہبی اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں اورتمام مذاہب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ میں خلیفۃ المسیح اور یہاں پر موجود تمام خواتین و حضرات کو بتانا چاہوں گا کہ جماعت احمدیہ کے لوگ باقی دنیا کی طرح کینیڈا میں بھی اخوت اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسلام کے حقیقی اصولوں کے لئے کمال محنت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جب آپ لوگ باہر نکل کر ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو آپ لوگ تمام کینیڈا کے لوگوں کے دوست اور ہمسائے بن جاتے ہیں۔
مَیں خلیفۃ المسیح کاکیلگری میں تشریف آوری پر شکریہ اداکرنا چاہوں گا اور مجھے آج شام یہاں مدعو کرنے پر بھی آپ شکریہ اداکرنا چاہوں گا۔ آپ لوگوں نے اس ملک کے لئے جو کچھ کیا ہے اس پر بھی آپ سب کا شکریہ اداکرتاہوں۔
عرفان صابر صاحب کا ایڈریس
٭ بعدازاں عرفان صابرصاحب جو Human Services کے منسٹر ہیں اور البرٹا گورنمنٹ کی نمائندگی میں آئے تھے انہوں نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے اپنے ایڈریس میں کہا:۔ سب سے پہلے میں اس بات کاذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہم اس جگہ اکھٹے ہوئے ہیں جہاں سات قوموں کا معاہدہ طے پایا تھا اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں صوبہ کے وزیر اعلیٰ Rachel Notley اور Alberta کی حکومت کی نمائندگی کر رہا ہوں۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آج ہم جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ دور کو منانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ یقیناً کیلگری کے لئے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو اس خوبصورت صوبہ میں خوش ا ٓمدید کرنا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔
بہت خوشی کی بات ہے کیلگری کی نمائندگی کرتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں مرد ، عورتیں،بچے ،بوڑھےاور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس موقع پر شامل ہیں۔ Alberta صوبہ کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہاں مختلف بیک گراؤنڈز کے لوگ رہتے ہیں۔ہم ایک ایسا صوبہ ہیں جو دنیا کے تمام کونوں سے لوگوں کو کھینچ لاتا ہے۔میں جماعت احمدیہ کا بہت شکریہ اداکرتاہوں کہ انہوں نے اتنی خوبصورت تقریب کا انتظام کیا اور اس سنگِ میل کو عبور کرنے پر آپ کو بہت مبارک ہو ۔ آخر پر ایک مرتبہ پھر خلیفۃ المسیح اور تمام حاضرین کو Alberta کی حکومت کی طرف سے خوش آمدید۔شکریہ
ممبر قومی اسمبلی درشن کنگ صاحب کا ایڈریس
اس کے بعد ممبر قومی اسمبلی درشن کنگ صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔موصوف نے اپنے ایڈریس میں کہا:۔ سب سے پہلے تو میں اس بات کااعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ہم آج اس تاریخی مقام پر موجود ہیں جہاں سات قوموں کا ’Treaty Seven‘ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایاتھا۔
موصوف نے کہا:۔ میں آج یہاں جماعت احمدیہ کے پیس سمپوزیم میں شامل ہونا ایک اعزاز سمجھتا ہوں ۔اور مجھے اس بات کابھی اعزاز ہے کہ میں یہاں امام جماعت احمدیہ کی موجودگی میں حاضر ہوں اور ان کے ساتھ جماعت احمدیہ کے کینیڈا میں 50 سال مکمل ہونے پر خوشی منا رہا ہوں ۔ جن لوگوں کو جماعت احمدیہ کے ساتھ ملنے کا اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کا کینیڈا کے معاشرے میں بین المذاہب تعلقات ، رضاکارانہ خدمات پیش کرنے اور بآواز بلند امن اور رواداری کا پیغام پھیلانے میں بہت اہم کردار ہے۔ جماعت احمدیہ کو ان اقدار (جو کینیڈا کے لوگوں کو بہت محبوب ہیں) کے مظاہرہ میں ایک انفرادی مقام حاصل ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ان کی اقدار خصوصا ً نوجوانوں میں محنت سے کام کرنے اور انہیں کینیڈا کی سوسائٹی کا حصہ بنانے کے پیچھے امام جماعت احمدیہ کا ہاتھ ہے۔
جماعت احمدیہ جیسی کمیونٹی کو جو کہ کینیڈا میں ملٹی کلچرازم کو مضبوط کررہی ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہماری عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ اس حوالہ سے میں حضورانور کی اعلیٰ قیادت پر حضور کی خدمت میں سلام عرض کرتاہوں اور آپ کی جماعت کو کینیڈا میں پچاس سال مکمل ہونے پر آپ کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اور مجھے علم ہے کہ جماعت احمدیہ کے اگلے پچاس سال بھی کامیاب ترین ہوں گے۔ ایک مرتبہ پھر آپ سب کو مبارکباد اور آپ سب کا شکریہ۔آئیے ہم ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کے ذریعہ کینیڈا کو ایک مثالی ملک بنادیں۔
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6 بجکر 10 منٹ پر انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا اردو ترجمہ یہاں دیاجارہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ کا خطاب
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب کا آغاز بسم اللہ الرحمان الرحیم سے فرمایا اورتمام مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
سب سے پہلے میں اس موقع پرا ٓپ سب کا شکریہ اداکرتاہوں کہ آپ لوگ اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ کینیڈا میں ہماری جماعت کے عہدیداروں نے درخواست کی تھی کہ میں دنیا میں قیامِ امن کے ذرائع اور طریقوں کے حوالہ سے بات کروں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہرایک کو اس بات کا احساس ہے کہ دنیا کو اس وقت امن اور ہم آہنگی کی سخت ضرورت ہے۔ بے شک دنیااس بات کو سمجھ تو رہی ہے لیکن لگتاہے کہ قیامِ امن کے لئے ضروری اقدام اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ۔امن کے حصول کے لئے باتیں کرنا تو بہت آسان ہے لیکن درحقیقت اس کے لئے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ نہ ہونے کے برابرہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ صرف دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی طاقت اور اقتدار کی ہوس بجھانے کو ہی ترجیح دی جارہی ہے۔ یہ سن کر آپ میں سے بعض کہیں گے کہ ایک مسلمان رہنمادنیا میں امن کے قیام کے حوالہ سے کیا کہہ سکتاہے جبکہ اس وقت دنیا میں موجود سارافساد اور جنگوں کا مرکزمسلمان ملک خود بنے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض نام نہاد اسلامی گروہوں کے قبیح افعال نے غیر مسلم دنیا میں ڈر اور خوف پھیلایاہواہے۔ مغرب کے اندر لوگوں میں اسلام سے خوف میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اور وہ اسلام کو اپنی تہذیب و تمدن کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھ سکتاہوں کہ آپ میں سے بعض اس بات کو ایک عجیب تضاد خیال کرتے ہوں گے کہ ایک مسلمان رہنما دنیا میں قیامِ امن کے حوالہ سے بات کررہاہے ۔ تاہم کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ لوگ اسلام کی اصل تعلیمات سے متعارف ہوں۔ کسی کو یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ دہشتگردوں اورانتہاپسندوں کے اعمال اسلام سے مطابقت رکھتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جس اسلام کا مجھے علم ہے اور جس اسلام پر میں عمل کرتاہوں وہ تو مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن کریم کی تعلیمات اور بانیٔ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کے اُسوہ پر مبنی ہے۔ چنانچہ جو وقت میسر ہے اس میں انہی حقیقی اسلامی تعلیمات کو آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ آپ ایک بہتر فیصلہ کرسکیں کہ آیا اسلام شدت پسندی اور تفرقہ کو فروغ دیتاہے یا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جومعاشرہ میں رواداری اور باہمی عزت و احترام کو فروغ دیتاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ سب سے پہلے تو میں قیامِ امن کا ایک سنہری اصول بیان کروں گاجس کا احاطہ سورۃالنحل کی آیت 91 میں کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور (غیررشتہ داروں کو بھی) قرابت والے (شخص) کی طرح (جاننے اور اسی طرح مدد) دینے کا حکم دیتا ہے ‘‘ ۔
یہ آیت مسلمانوں سے تقاضاکرتی ہے کہ وہ ہر ایک سے اپنے قریبی عزیزوں جیسا سلوک کریں۔ یہ آیت اس بات کی پابندی کرواتی ہے کہ مسلمان دوسروں سے محبت کریں اور اس کے پیچھے کسی بدلہ کی خواہش نہ ہو جیساکہ ایک ماں اپنے بچہ کو بے نفس ہوکر پیارکرتی ہے۔ پھر قرآن کریم یہ نہیں کہتاکہ مسلمان صرف دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایساسلوک کریں بلکہ قرآن کریم کہتاہے کہ مسلمان ’دوسروں‘ سے پیار اور محبت کے ساتھ پیش آئیں جن میں تمام مسلمان اور غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجودآج جب ہم بعض مسلمان ممالک کے حالات دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوجاتاہے کہ اس اسلامی تعلیم کو کلیتہً نظرانداز کیاگیاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ بہت سی مسلمان حکومتیں اپنے شہریوں کے حقوق ادا کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے اندر بے چینی میں اضافہ ہواہے جس کے اثرات بہت گہرے اور دیرپا ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں دہشتگرد اور باغی گروہوں نے جنم لیاہے اور یہ سب نہایت بھیانک مظالم ڈھانے کے قصوروار ہیں۔ماضی کی کامیاب قومیں آج تباہ و برباد ہوگئی ہیں اور نہایت تکلیف دہ خانہ جنگی میں جکڑی جاچکی ہیں۔ اس جنگ وجدل کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کو بھلا بیٹھی ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ناکام ہورہی ہے۔عدل و انصاف کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ان کے ہر فعل کے پیچھے طاقت کی ہوس اور لالچ ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس طرح یہ اضطراب عوام کے اندر پھیل رہاہے اس کا آخری نتیجہ یہی ہے کہ امن تباہ ہورہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اسلام انصاف کے جن معیاروں کو بیان کرتاہے ان کےتعلق میں قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت 136 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اے ایماندارو! تم پوری طرح انصاف پر قائم رہنے والے (اور) اللہ کے لئے گواہی دینے والے بن جاؤ ۔ گو (تمہاری گواہی) تمہارے اپنے (خلاف) یا والدین یاقریبی رشتہ داروں کے خلاف (پڑتی ) ہو۔ اگر وہ (جس کے متعلق گواہی دی گئی ہے) غنی ہے یا محتاج ہے تو (دونوں صورتوں میں ) اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیرخواہ ہے۔ اس لیے تم (کسی ذلیل ) خواہش کی پیروی نہ کیا کرو۔ تا عدل کر سکو اور اگر تم (کسی شہادت کو ) چھپاؤ گے یا (اظہار حق سے) پہلو تہی کر وگے تو ( یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے ۔‘‘
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر گزظالمانہ یا غیر منصفانہ نہیں ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات تو عدل و انصاف کے بے نظیر معیاروں پر مبنی ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ سچائی کے قیام کی خاطر ایک شخص کو اپنے یا اپنے اقرباء کے خلاف بھی گواہی دینے کے لئے تیار رہناچاہئے۔ یہ کہناتو بہت آسان ہے کہ میں اپنے خلاف بھی بولنے کے لئے تیارہوں لیکن عملاً اس معیارکے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس کے باجود خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے یہ ہدف اور مقصد رکھاہے کہ حقیقی انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتاجب تک ہر ایک اپنے تمام تر ذاتی مفادات کوبالائے طاق رکھنے کے لئےراضی نہ ہوجائے۔ اگر اس انمول اصول پر عمل کیاجائے تو یہ نہ صرف مسلمان ممالک بلکہ دنیا کے ہر ملک، ہر شہر، ہر قصبہ اور ہرگاؤں میں امن قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ عموماً یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اسلام دہشتگردی کو فروغ دیتاہے لیکن اس قسم کے تمام اعتراضات محض اسلامی تعلیمات کے بارہ میں کم علمی اور کم فہمی کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ ایک شخص جو بغیر کسی تعصب کے اسلامی تعلیمات پر غوروفکر کرے تو دیکھے گاکہ یہ تعلیمات توکلیتہً ہر قسم کے ظلم، تعصب اور برائی کے منافی ہیں۔ اسلام تو معاشرے کی ہر سطح پر امن کی بنیاد قائم کرتاہے اور اس میں مختلف قوموں کے باہمی تعلقات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ الحجرات کی آیت 10 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:۔ ’’اور اگر مومنوں کے دوگروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو۔ پھر اگر صلح ہو جانے کے بعد ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر چڑھائی کرے، تو سب مل کر اس چڑھائی کرنے والے کے خلاف جنگ کرویہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو عدل کے ساتھ ان (دونوں لڑنے والوں ) میں صلح کرادو اور انصاف کو مد نظر رکھو اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ اگر دو فریق یا قومیں کسی تنازعہ کا شکارہوجائیں تو ہمسایہ ملکوں یا اتحادیوں کو مفاہمت کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر باہمی بات چیت کے ذریعہ امن قائم نہ ہوسکے تو دیگر قوموں کو اُس فریق کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے جو عدم انصاف کا مرتکب ہورہاہو اور اسے روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا چاہئے۔ مَیں ذاتی طور پر سمجھتاہوں کہ یہ زبردست قرآنی اصول صرف مسلمانوں کے لئے ہی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں اگر اس اصول پر عمل کریں تو یہ اصول دنیا کے استحکام اور دیرپاامن کے قیام کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ لیکن اس طریق کے مطابق نہ تو مسلمان ممالک اور نہ ہی غیر مسلم ممالک امن کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد تنازعات کو حل کرنے کے لئے ثالثی کایہ اصول اپنایا نہیں گیا جس کے نتیجہ میں قوموں کے مابین پیدا ہونے والی رنجشیں ابھی تک چل رہی ہیں۔ چنانچہ دنیا کو متحد کرنے اور مخالف گروہوں کی ترقی کی روک تھام کے لئے جو بھی کوششیں کی گئیں وہ سب بے معنی اور ناکام ثابت ہوئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو کچھ میں کہہ رہاہوں یہ کوئی نئی یا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ گزشتہ سالوں میں کئی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں نے اُن تنظیموں کو اور بنیادی طور پر اقوامِ متحدہ کوکھلے عام تنقید کا نشانہ بنایاہے جنہیں دنیا میں امن و تحفظ قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ تنظیمیں بنیادی طور پر ناانصافی کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ مزید برآں معاشرہ میں امن کے قیام کے حوالہ سے قرآن کریم سورۃ المائدہ کی آیت 9 میں بیان فرماتاہے ’’اے ایماندارو! تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لیے ایستادہ ہوجاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو، وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جوکچھ تم کرتے ہواللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مسلمان پرفرض ہے کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ انصاف کے ساتھ کارروائی کرے اور اس کی دشمنی یا حسد اُسے انتقام لینے پر مجبور نہ کرے۔ یہ سن کر آپ میں سے شاید بعض سوال کریں گے کہ اگر یہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور اگر واقعی اسلام امن اور انصاف کا مذہب ہے تو پھر جنگ وجدل اور جہاد کا نظریہ مسلمانوں کے ساتھ کیسے وابستہ ہو گیاہے؟ اس سوال کے جواب میں مَیں پھر قرآن کریم کا حوالہ دوں گا۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکّہ میں شدید ظلم و ستم اور ایذاءرسانیوں کا شکار رہے۔ بالآخر انہیں سکون کی خاطر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی ۔ لیکن مکہ کے کفار نے وہاں بھی انہیں امن کے ساتھ رہنے نہیں دیا اور ان کے پیچھے مدینہ تک چلے آئے اور ان پر جنگ مسلط کردی۔ اللہ تعالیٰ نے محض ان حالات میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو جوابی کارروائی کرنے کی اجازت دی۔ دفاعی جنگ کی یہ اجازت سورۃ الحج کی آیت 40 میں ان الفاظ میں دی گئی ’’وہ لوگ جن سے (بلا وجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ۔‘‘
اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ پر مزید روشنی ڈالی ۔ چنانچہ سورۃ حج کی آیت 41 میں قرآن کریم فرماتاہے ’’ (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا ربّ ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا اور اگر اللہ ان (یعنی کفار) میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے (شرارت سے) باز نہ رکھتا تو گرجے اور یہودیوں کی عبادتگا ہیں اور مسجد یں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے برباد کر دئیے جاتے اور اللہ یقیناً اس کی مدد کرے گا جو اس ( کے دین ) کی مدد کرے گا۔ اللہ یقیناً بہت طاقتور (اور) غالب ہے‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی گئی کہ انہیں ظلم و ستم کا سامنا تھا بلکہ انہیں تمام تر معاشرے کی حفاظت اور تمام لوگوں کے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے جوابی جنگ کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے کھل کر اپنے عقیدہ اور مذہب کا اظہارکرسکیں۔ یہ اعلیٰ اسلامی تعلیمات کا عظیم الشان اظہارہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ وہ اسلام کا دفاع کرسکیں یا اس خوف سے دی کہ تمام مساجد تباہ ہوجائیں گی۔ بلکہ یہ اجازت تمام مذاہب اور تمام عبادتگاہوں کی حفاظت کے لئے دی گئی خواہ وہ کلیساہوں، مندر ہوں ، گرجاگھر ہوں ، مسجدیں ہوں یا کوئی بھی عبادتگاہ ہو۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پس اُن ابتدائی مسلمانوں نے صرف اپنے دفاع کے لئے نہیں بلکہ انسانیت ،مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر جیسی عالمی اقدار کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا۔ مسلمانوں نے اُن ظالموں کا ہاتھ روکنے کے لئے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا جو دنیا کا امن تباہ کردینا چاہتے تھے۔ مزید یہ کہ اسلامی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ جہاں بھی یہ دفاعی جنگیں ہوئیں وہاں رسولِ کریم ﷺ نے جنگوں کے نہایت سخت اصول وضع کئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ مسلمان فوجیں کسی قسم کا ظلم نہ کریں۔ آپ ﷺ نے خاص طور پر فرمایاکہ کلیسا، گرجاگھر، مندر اور دیگر عبادتگاہوں کو ہرگز نشانہ نہ بنایاجائے۔اسی طرح مسلمانوں کو حکم دیاگیاکہ وہ پادریوں، ربّیوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کو نشانہ نہ بنائیں۔ نہ ہی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچے اور نہ ہی فصلوں اور درختوں کو تباہ کیا جائے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے چاروں خلفائے راشدین اور بعدمیں آنے والے ایسے مسلمان حکمران جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی پیروی کی انہوں نے ہمیشہ مذہبی عبادتگاہوں اور تمام مذاہب کے تقدس کا احترام کیااور ان کی حفاظت کی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ دراصل ان اصولوں پر عمل کرنا تمام مسلمانوں کا فرض ہے کیونکہ قرآن کریم سورۃ بقرہ کی آیت 191 میں فرماتاہے: ’’اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کروجو تم سے جنگ کرتے ہیں اور (کسی پر) زیادتی نہ کرو (اور یاد رکھوکہ) اللہ زیادتی کرنے والوں سے ہر گز محبّت نہیں کرتا۔‘‘
یہ نہایت واضح اور اہم حکم اسلامی جنگوں کے لئے بعض شرائط عائد کرتا ہے۔ یہ آیت تقاضاکرتی ہے کہ مسلمانوں کو ہر گز از خود جنگ مسلط نہیں کرنی چاہئے یا پھر کسی قسم کا جارحانہ قدم نہیں اُٹھانا چاہئے۔ پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی یا ظالمانہ جہاد کی اجازت دیتاہے وہ سراسر گمراہی کا شکار ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ الانفال کی آیت 62 میں فرماتاہے کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں مسلمانوں کو امن اور صلح کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’اور (اگر تمہاری تیاریوں کو دیکھ کر) وہ (کافر) صلح کی طرف مائل ہوں تو (اے رسول!) تو بھی صلح کی طرف مائل ہو اور اللہ پر توکّل کر۔ اللہ یقیناً بہت دعائیں سننے والا(اور) بہت جاننے والا ہے۔ ‘‘
اس کا مطلب ہے کہ مسلمان کو امن کی طرف جانے والا ہر ممکن راستہ اختیار کرناچاہئے۔ مثال کے طورپر ممکن ہے کہ جنگ کے دوران ایک بھرپور حملہ کرنے کے لئے اور دوبارہ سے اپنے فوجیوں کو جمع کرنے کے لئے جنگ بندی کی اپیل محض ایک جنگی چال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ سورۃالانفال کی آیت 63 میں فرماتاہے ’’اور اگر وہ اس بات کا ارادہ رکھتے ہوں کہ بعد میں تجھے دھوکا دیں تو (یاد رکھ کہ) اللہ تیرے لیے یقیناً کافی ہےوہی ہے جس نے تجھ کو مومنوں کے ذریعہ اور اپنی مدد کے ذریعہ مضبوط کیا‘‘۔
چنانچہ اگر یہ بھی خوف لاحق ہو کہ مخالف شاید دھوکہ دینے کے لئے ایسا کررہاہے تو تب بھی مسلمانوں کو حکم دیاگیاہے کہ وہ اپنے ان خوفوں کو ایک طرف کرتے ہوئے اللہ پر توکل کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو کچھ میں نے بیان کیاہے اس کی روشنی میں کیا اب بھی کہاجاسکتاہے کہ اسلام انتہاپسندی اور دہشتگردی کا مذہب ہے؟ ظاہرہے کہ اس سوال کا جواب ’نفی‘ میں ہے۔ بلکہ واضح طور پر یہ ثابت ہوتاہے کہ اگر آج کل کے مسلمان مظالم ڈھارہے ہیں اور ناقابل بیان حرکتیں کررہے ہیں تو یہ لوگ اسلام کی اصل تعلیمات کی ہتک کررہے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو بیگانے ملکوں میں داخل ہوکر قتل و غارت اور بہیمانہ مظالم ڈھانے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پھرآگے بڑھتے ہیں۔ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ مان جائیں کہ اسلامی تعلیمات پُرامن ہیں لیکن اس کے باجود اُن کا سوال ہوگاکہ کیا رسولِ کریم ﷺ کے دور میں واقعی ان تعلیمات پر عمل درآمد بھی ہواتھا؟ اس بارہ میں آپ میرے الفاظ پر نہ جائیں بلکہ غیرمسلم تاریخ دان اور مستشرقین، جنہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ رسولِ کریم ﷺ کے زمانہ کا مطالعہ کیا ہے ، کو دیکھیں کہ وہ رسولِ کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے بارہ میں کیا کہتے ہیں۔ مثلاً ایک برطانوی مستشرق اور ماہرِ آثارِ قدیمہ Stanely Lane-Poole جوکہ ڈبلن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہیں وہ رسولِ کریم ﷺ کے مسلسل ظلم و ستم سہنے کے بعد دوبارہ اپنے آبائی وطن مکہ میں فاتحانہ واپسی پر آپ ﷺ کے اخلاق کے بارہ میں لکھتے ہیں:
’’محمد (ﷺ) کی اپنے دشمنوں کے خلاف سب سے بڑی کامیابی کا دن بھی وہی دن تھاجس دن محمد (ﷺ) نے اپنے نفس پر عظیم الشان فتح حاصل کی تھی۔ محمد (ﷺ)نے قریش کے اُن تمام ظلموں اور دکھوں کو کھلے عام معاف کردیا جو وہ آپ ﷺ پرسالہاسال ڈھارہے تھے اور آپ ﷺ نے تمام اہلِ مکہ کے لئے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔آپ ﷺ کی فوج نے آپ کے نمونہ پر عمل کیا اور انتہائی امن کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئی۔ نہ کوئی گھر لوٹا گیا ، نہ کسی عورت کو بے آبرو کیا گیا۔ ……… یہ تھا وہ منظر جب محمد(ﷺ) اپنے آبائی شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ دنیا کے تمام معرکوں کی تاریخ میں اس عظیم الشان فتح کا کوئی ثانی نہیں ہے۔‘‘
(The Speeches and Table Talk of the Prophet Muhammad by S Lane Poole)
پس یہ مصنف اس حقیقت پر گواہ ہے کہ فتح کے وقت رسولِ کریم ﷺ نے نہ تو کسی شان و شوکت کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی اُن لوگوں سے انتقام لیاجنہوں نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کو سخت تکالیف دی تھیں۔ بلکہ آپ ﷺ کاردِّ عمل ہر ایک کی معافی تھی۔ اس لئے میں ایک مرتبہ پھر آپ پرمکمل طور پر واضح کردوں کہ وہ لوگ جو دہشتگردی اور انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ قرآن کریم کی تعلیمات اور رسولِ کریم ﷺ کے اسوہ کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایک طرف تو پیغمبر ِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے اُن تمام لوگوں کو معاف فرمادیا جنہوں نے آپ ﷺ اور آپؐ کے پیاروں کو اذیتیں دیں اور دوسری طرف آجکل کے نام نہاد مسلمان بے انتہا ظلم کررہے ہیں اور معصوم جانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کررہے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ تاہم یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ آجکل مسلمان ممالک میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں انہیں باہر سے کھلے عام یا خفیہ طور پر بھڑکایاجارہاہے۔ مسلمان حکومتوں اور نہ ہی باغیوں اور دہشتگردتنظیموں میں سے کسی کے پاس اس طرح کے جدید اور مہلک ہتھیار بنانے کی صلاحیت ہے جو وہ استعمال کررہے ہیں۔ پس شام اور عراق میں استعمال ہونے والا اکثر و بیشتر اسلحہ باہر سے درآمد ہورہا ہے۔ اس لئے ایسے ممالک جو یہ ہتھیار بنارہے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اسلحہ کی تجارت کررہے ہیں انہیں بھی آجکل کے فتنہ و فساد کے حوالہ سے اپنے حصہ کی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ بہت سے تجزیہ نگار اور ماہرین بلا شبہ اس بات کو ثابت کرچکے ہیں کہ دہشتگرد گروہ ’داعش‘ اور بعض دیگر باغی اور انتہاپسند گروہوں کے زیرِ استعمال ہتھیار اصل میں مغرب اور مشرقی یورپ کے ممالک میں بنائے گئے ہیں۔ چنانچہ بڑی طاقتیں مسلمان ممالک میں موذی جنگوں کو ختم کرنے کی بجائے انہیں مزید بھڑکارہی ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ امن کو ترجیح دیں وہ مسلسل اس صورتحال پر اثر انداز ہورہے ہیں اور جنگ وجدل سے اپنے فوائد حاصل کررہے ہیں۔ مسلمان ممالک میں جہاں کہیں خانہ جنگی یا فسادات ہوئے ہیں وہاں بہترین حل یہی تھاکہ صرف ہمسایہ ممالک اس میں دخل اندازی کرتے اور اس خطہ میں امن کے قیام کی ذمہ داری اٹھاتے۔ لیکن بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسی اور ان کے کاروباری مفاد کچھ اور چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض مغربی ممالک سعودی عرب کو کروڑہا ڈالرز کے عوض بھاری اسلحہ فروخت کرتے چلے جارہے ہیں باوجود یکہ یہ اسلحہ عرب کے ایک چھوٹے ملک یمن میں گھناؤنے ظلم ڈھانے کے لئے استعمال ہورہاہے۔ اسلحہ کااندھادھند استعمال اور بمباری لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کررہی ہے اور شہروں اور قصبوں کا صفایاہورہاہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں معصوم لوگ مررہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہسپتال جیسی جگہیں جہاں لوگ پناہ لیتے ہیں ان کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہی کچھ شام اور عراق میں بھی ہورہاہے جہاں ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے جنہوں نے بڑی بہادری کے ساتھ متاثرین کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا ۔ اسی طرح مذہبی عبادتگاہوں کو نشانہ بنانا بھی معمول بن چکاہے۔ پھر کئی منزلوں پر مشتمل رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایاجارہاہے جس میں معصوم بچے اور عورتیں مر رہی ہیں۔ ان سارے مظالم کو کس طرح جائز قرار دے سکتے ہیں؟ اس جدید دور میں آپ اس کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ اور انجامکار ان غیر منصفانہ پالیسیوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہی وجہ ہے کہ ان قوموں کی نوجوان نسل کو انتہاپسندی کی طرف راغب کیاجارہاہے۔ اپنے مستقبل کی تمام امیدیں کھودینے کے بعد یہ نوجوان مغرب کے اندر دہشتگردی کے گھناؤنے ظلم ڈھاکر اپنا ردِ عمل ظاہر کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک کا ان کی تباہی کے پیچھے بڑاہاتھ ہے۔ اس لئے میں ایک مرتبہ پھر کہوں گاکہ دنیا کو اس وقت امن کی فوری ضرورت ہے۔آج کا دن یہاں کینیڈا میں اور دنیا کے بعض دیگر ملکوں میں Remembrance Day کے طور پر منایا جارہا ہے۔اور اگرپیچھے مڑکر دوسری جنگِ عظیم کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں تقریباً سات کروڑ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ آج کئی دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی جب انسان اُس وقت ہونے والی تباہی و بربادی کے بارہ میں سوچتاہے تو کانپ اُٹھتاہے۔ اس فیصلہ کُن جنگ نے ہمیں بتادیا تھاکہ اس دور کی جنگ کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں بلکہ یہ دراصل لالچ کی انتہا اور طاقت کی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں دنیا کو پہلی مرتبہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرنا پڑا۔ امریکہ کی جانب سے ان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال اور ظلم و ستم کا پیغمبرِ اسلام ﷺ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بیسویں صدی کے مشہور مصنف Ruth Cranston صاحب نے 1949 ء میں اپنی کتاب World Faith میں لکھا:
’’محمد(ﷺ) نے کبھی بھی جنگ اورخون ریزی کی ترغیب نہیں دی۔ آپ ﷺ نے جو جنگ لڑی وہ صرف جوابی کارروائی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی بقا کی خاطر دفاعی جنگ کی اور اپنے زمانہ کے ہتھیاروں اور طریق کے مطابق کی۔ یقیناً چودہ کروڑنفوس پر مشتمل ایک عیسائی قوم جو آج ایک بم کے ذریعہ ایک لاکھ بیس ہزار بے یاس ومددگار لوگوں کا خاتمہ کردیتی ہے ہرگز ایک ایسے رہنماکو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتی جس نے سنگین حالات میں بھی بمشکل پانچ یا چھ سو لوگوں کو مارا ہو۔‘‘
یہ کسی مسلمان یا تعصب کی طرف مائل انسان کا بیان نہیں بلکہ یہ تو ایک قابلِ احترام اور غیر جانبدار غیر مسلم مصنف کا بیان ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے دور میں ہونے والی جنگیں مذہبی وجوہات کی خاطر نہیں لڑی جارہیں بلکہ ان کا مقصد جغرافیائی سیاست اور طاقت اور دولت کا حصول ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے وقت صرف امریکہ کے پاس نیوکلیئر ہتھیار تھے جبکہ آج کئی ملکوں، جن میں بعض بہت چھوٹے ملک شامل ہیں، کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اور اس بات کا بھی امکان بڑھتاہوانظر آرہاہے کہ یہ ہتھیار کسی ایسے دہشتگرد گروپ کے ہاتھ لگ جائیں گے جن کے لئے ان ہتھیاروں کا استعمال بہت آسان ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ پس اس میں تو کوئی سوال ہی نہیں کہ دنیا اس وقت عظیم تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔تیسری جنگِ عظیم کے بادل دن بدن گھنے ہورہے ہیں۔ اس قسم کی جنگ کے اثرات کئی دہائیوں تک چلیں گے۔ اغلب گمان ہے کہ دیرپا تابکاری اثرات کے نتیجہ میں بچے نسل درنسل معذور یا موروثی نقائص کے ساتھ پید اہوں گے۔ پس اس وقت انسانیت کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی حفاظت کے لئے کام کرے۔
بڑی طاقتوں کو چاہئے کہ وہ اس عالمی بحران کے لئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرائےچلے جانے کی بجائے ذرا ٹھہر کر اپنی حالتوں کوبھی دیکھیں۔ دنیا کو اس وقت شہرت کے بھوکے سیاستدانوں، جومسلمانوں کو اپنے ملکوں میں داخل ہونے پر پابندیاں لگانے کے ارادے کررہے ہیں، کی بجائے ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو ہمارے درمیان اختلافات کو ختم کرنے والے ہوں۔ اور یہ صرف اُسی صورت میں ہوسکتاہے جب کامل انصاف، جس کی بنیاد بے غرضی پر ہو، ہر قسم کی ہواو حرص پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اوردانش عطافرمائے جو جنگ و جدل کو فروغ دے رہے ہیں اورقبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے اللہ تعالیٰ انہیں ا ن کی حرکتوں کے نتائج سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ کرے دنیا کے لوگ اپنے خالق کو پہچانیں اورقیامِ امن کے لئے جدو جہدکی اہمیت سمجھیں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا احساس کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک بہتر اور روشن مستقبل دیکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب کے آخر میں فرمایا:۔ ان الفاظ کے ساتھ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا دعوت قبول کرنے پر شکریہ اداکرتاہوں۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بجکر باون منٹ تک جاری رہا۔
جونہی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب ختم ہوا۔ تمام مہمانوں نے کھڑے ہوکر کافی دیر تک تالیاں بجائیں اور یوں اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
اس کے بعد تمام مہمانوں نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیّت میں کھانا کھایا۔
(باقی آئندہ)