الفضل ڈائجسٹمضامین

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں

…………………………

حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری و فروری 2012ء میں حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری کے بارہ میں مکرم محمد رفاقت احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

٭ حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب جالندھری مرحوم و مغفور کو فن مناظرہ میں کمال حاصل تھا۔ مخالف کو مؤثر دلائل کے ساتھ مسکت کر دیتے۔ ایک تحریری مناظرہ المعروف ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘جماعت احمدیہ راولپنڈی اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی (غیر مبائعین ) کے مابین جون 1937ء میں ہوا۔ جماعت احمدیہ (مبائعین) کی طرف سے حضرت مولانا ابو العطا ء صاحب مرحوم نے اور جماعت غیرمبائعین کی طرف سے سید اختر حسین صاحب گیلانی فاضل اور مولوی عمرالدین صاحب شملوی نے مناظرہ کیا۔ اس مناظرہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے فریق مخالف پر نہایت سلجھے ہوئے انداز میں حجّت تمام کر دی اور پہلی مرتبہ (مولوی کرم دین صاحب بھیں والے مقدمہ گورداسپور میں) مولانا محمد علی صاحب مرحوم او ر جناب خواجہ کما ل الدین صاحب پلیڈر مرحوم کے بطور وکیل اور گواہ ’’نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کے متعلق بیانات پیش کئے۔ اور یہ قیمتی حوالہ جات بعدازاں ماہنامہ ’’فرقان‘‘ قادیان کے عدالتی بیان نمبر جولائی 1942ء میں شائع بھی کردیئے۔

٭ 1970ء میں مشہور دیوبندی عالم حافظ ریاض احمد صاحب اشرفی خطیب جامعہ مسجد گوالمنڈی راولپنڈی ایک مرتبہ مسجد بیت الحمد راولپنڈی آئے تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ مکرم میجر عبدالرحمن صاحب مغل مرحوم نے حضرت مولانا صاحب سے عرض کیا کہ حافظ اشرفی صاحب یہ سوال بڑا دہراتے ہیں کہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ میں مقدم، تالی، جزئی اور جزو کلّی کا نتیجہ مرزا صاحب پر چسپاں کریں تو اُن کے حق میں نہیں نکلتا۔ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا: حافظ صاحب! آپ عربی زبان جاننے والے لگتے ہیں تو اپنے اس سوال کا جواب یوں سمجھیں وَلٰکَنّا لَمْ نَاْخُذْ مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ فَثَبَتَ اَنَّہٗ لَمْ یَتَقَوَّلْ عَلَیْنَا۔

٭ اسی طرح ایک مجلس میں ایک غیر از جماعت مولوی صاحب نے کہا کہ آیت یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوااللہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی اْلاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء60:) میں جناب مرزا صاحب کو کس کھاتہ (Category) میں رکھیں گے ؟ مولانا مرحوم نے فرمایا: قرآن کریم میں ہے فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعرا17:)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ ا لسلام دو رسول فرعون کے دربار میں جاتے ہیں مگر لفظ رسولا (تثنیہ ) کے بجائے رسول (واحد مذکر) استعمال کرتے ہیں کہ ہم دونوں ربّ العالمین کی جانب سے تمہاری طرف پیغام دینے کے لئے ایک رسول ہو کر آئے ہیں۔ پھر مولانا صاحب نے جب امام فخرالدین رازی ؒ کا تفسیر کبیر سے اس آیت کی تفسیر میں حوالہ دیا کہ حضرت ہارونؑ کی نبوت رسالتِ موسوی میں ضم تھی یعنی حضرت موسیٰؑ مطاع نبی اور حضرت ہارونؑ مطیع رسول تھے۔ تو سائل کی طبیعت صاف ہوگئی اور مجبور ہو گئے کہ اس کی مزید وضاحت طلب کریں تو مولانا مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ سنایا

’’بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی معہ نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 11)

٭ اسی مجلس میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ امکانِ نبوت پر وہ آیاتِ قرآنی پیش کریں جن کو جناب مرزا صاحب نے بھی پیش کیا ہو۔ حضرت مولوی صاحب نے دو آیات پیش کیں۔ ہُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ (الجمعۃ آیات 3-4)۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ثابت کیں اور تقدیر آیت یوں بیان کی ہُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیٖٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ ویبعث فِی آخَرین رسولًا منھم۔ دوسری آیت یہ پیش فرمائی وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ (النساء71:)۔ آپ نے مِنْ کی تفسیر بیانیہ اور بعضیہ دونوں طریق سے بیان کی کہ یہ درجات صرف قیامت سے مخصوص نہیں۔

٭ اسی طرح حضرت مولوی صاحب نے سائل کو خاتَم کی تفسیر خاتِم سے کرنے پر فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نےخاتَم تلاوت فرمایا اور کسی صحابی ؓ سے قراء ت بالکسر ثابت نہیں۔ بلکہ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی ؓ جب حسنین ؓ کو خاتِم پڑھانے لگے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے منع فرمایا کہ خاتَم پڑھایا جائے ۔ جب کسی صحابیؓسے قراء ت بالکسر ثابت نہیں تو چند مفسرین کے لکھنے سے متواترہ کس طرح ہو گئی؟

٭ پروفیسر بشیر احمد صاحب نے 1994ء میں کتاب لکھی:”The Ahmadiyya Movement, British-Jewish Connections”۔ اس کا مقدمہ ڈاکٹر محمود احمد غازی سابق وزیر مذہبی امور نے لکھا۔ پروفیسر بشیر احمد صاحب میرے استاد بھی رہے ہیں۔ اُس زمانہ میں ایک بار انہوں نے خاکسار سے کہا کہ کچھ سوالات ہیں اگر مولانا ابوالعطاء صاحب راولپنڈی آئیں تو میری اُن سے ملاقات کروائیں۔ اتفاقاً حضرت مولوی صاحب فروری 1971ء میں تشریف لائے ۔ پروفیسر صاحب نے آکر سوال کیا کہ ہر نبی صاحبِ کتاب و شریعت ہوتا ہے اور بغیر کسی پیغام کے پیغامبر نہیں کہلاسکتا۔ مولانا صاحب نے فرمایا پیغام تو ہر نبی لاتا ہے اور پیغام دوطرح کا ہے تشریعی اور غیر تشریعی۔ پھر آپ نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر45 پیش کی اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْر کہ تورات کے بیان اور خدمت کے لیے بنی اسرئیل میں صدہا غیرتشریعی نبی مبعوث ہوئے۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ تورات حضرت موسیٰ ؑ کی کتاب نہیں بلکہ یہ مجموعہ کتبِ انبیاء بنی اسرائیل کا نام ہے۔ مولانا صاحب نے جب محسوس کیا کہ یہ سوال برائے سوال کر رہے ہیں تو مناظرانہ طریق پر آڑے ہاتھوں لیا۔ فرمایا کہ قرآن مجید، احادیث نبویہ، کتب تفاسیر و فقہ اور تاریخ نیز یہود و نصاریٰ (جن کا توریت سے واسطہ ہے) کی کتب میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ توریت مجموعہ کتب انبیاء بنی اسرائیل ہے تو کیا یہ عُقدہ صرف آپ پر یا جناب پرویز صاحب پر کھلا ہے ؟ اس کے بعد پروفیسر صاحب مزید کوئی سوال نہ کرسکے ۔٭ ایک دفعہ مولانا ابوالعطاء صاحب سے ایک شیعہ عالم مولانا سید امیرحسین صاحب بخاری آف سیالکوٹ نے مسئلہ ختم نبوت پر گفتگو کرتے ہوئے شیعی حوالہ پیش کیا کہ حضرت امام ابو جعفرؓ نے فرمایا فَکَیْفَ یُقِرُّوْنَ فی اٰل اِبْراھیمؑ و یُنْکِرُوْنَہٗ فِی آل محمدٍصلی اللہ علیہ وسلم۔ بخاری صاحب نے بے جا تاویلات سے کام لے کر قواعد عربیہ کے خلاف مفہوم نکالنا چاہا تو مولانا صاحب نے فرمایا: بخاری صاحب! آپ اپنے کسی عربی دان عالم کو اگلی دفعہ ساتھ لائیں تا کہ سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔
٭

مولوی صاحب نے اپنے ایک خط محررہ 8؍اپریل 1972ء میں خاکسار کے چار اہم سوالوں کے مختصر لیکن جامع جوابات دئیے۔ رقم فرمایا :

’’ 1۔ خواجہ محمد اسمٰعیل صاحب کے دعویٰ کی معین تاریخ تو مجھے معلوم نہیں غالباً تین چار سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے انہوں نے خاتم النبیین ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ان کی ناکامی ان کے دماغی عارضہ پر واضح دلیل ہے ۔

2۔ تورات حضرت موسیؑ کی کتاب کا نام ہے۔ انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفوں کا نام نہیں۔ قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’شھادۃ القرآن‘‘ میں بھی یہی صراحت فرمائی ہے ۔

3۔ حضرت امام حسن ؓنے حدیث کی پیشگوئی اَلْخِلَافَۃ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً نیز حدیث نبوی اِنَّ ابْنِیْ ھٰذا سَیُصْلِحُ بَیْنَ الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْن کے پیش نظر اس وقت کے خلافتِ راشدہ کے دَور کو ختم سمجھتے ہوئے دستبرداری اختیار فرمالی تھی۔ واللہ اعلم باالصواب

4۔ حضرت مسیحؑ نے آتَانِیَ الْکِتَابَ (سورۃ مریم) کہہ کر تورات کے حقیقی فہم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئے جانے کا اعلان فرمایا ہے ۔ لفظ ایتاء الکتاب قرآن مجید میں دو طرح سے استعمال ہوا ہے (i) نئی کتاب کے دئے جانے کے معنوں میں (ii) سابقہ کتاب کی صحیح تفہیم عطا کئے جانے کے معنوں میں۔ حضرت مسیح ؑکے قول میں دوسرے معنے مراد ہیں۔‘‘ ( ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ ربوہ مئی 1972ء)

٭ حضرت مولانا صاحب کو اردو، عربی، فارسی اور علوم اسلامیہ پر دسترس رکھنے کی وجہ سے علم تفسیر میں بھی کمال حاصل تھا۔ آپ نے ماہنامہ الفرقان میں قرآن مجید کے سلیس اور با محاورہ ترجمہ کے علاوہ مختصر اور جامع تفسیر کا سلسلہ اقساط وار شروع کیا۔ سیّارہ ڈائجسٹ لاہور نے قرآن نمبر حصہ دوم کے صفحہ 397تا 440 تک قرآن کریم کے اردو تراجم اور مفسرین کے نام شائع کیے ہیں۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا ذکرنمبر 6پر درج ہے۔

اسی طرح شیعہ عالم جناب سید حسین عارف نقوی صاحب نے اپنے مقالہ ’’قرآنیات پر … کام ـ‘‘ میں حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کا ذکر بطور مفسر قرآن بیان کیا ہے ۔

٭ حضرت مولوی صاحب کے رسالہ الفرقان میں تحقیقی اور علمی مضامین کے علاوہ قرآنی آیات کی تفسیر، حالات حاضرہ پر تبصرہ، شذرات اور سوالات کے جوابات کا سلسلہ جاری رہا ۔ غیراحمدی بلکہ غیرمسلم علماء بھی آپ سے سوال کرتے جن کا جواب رسالہ کی وساطت سے دیا جاتا۔ چنانچہ کالم نگار جناب عبداللہ طارق سہیل صاحب نے لکھا کہ ’’علمائے اسلام سے معذرت کے ساتھ، قادیانی عالم عطاء جالندھری ایک رسالہ نکالتے تھے جب تک وہ چھپتا رہا، مطالعے میں رہا، نام تھا ’الفرقان‘۔ Comparative Religions (موازنۂ مذاہب) کے موضوع پر یہ ایک رسالہ تھا جس میں مسیحیت کے اعتراضات کا مہذّب اور علمی انداز میں جواب دیا جاتا تھا ۔ سارا رسالہ علمی محنت کی گواہی دیتاتھا‘‘۔

٭ 1977ء میں حضرت صاحبزاد ہ مرزا طاہر احمد صاحب راولپنڈی تشریف لائے تو ایک مجلس میں خاکسار نے عرض کیا کہ رسالہ ’’الفرقان‘‘ ایک علمی رسالہ تھا اسے حضرت مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی جاری رہنا چاہئے ۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ رسالہ جاری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ تو مولانا صاحب مرحوم کی ہی ہمت تھی کہ مرکزی فرائض کے ساتھ ساتھ یہ تحقیقی و علمی رسالہ بڑی شان سے نکالتے رہے۔ بہرحال اس کے بدل کے طور پر اَور جماعتی رسائل ہیں۔

٭ حضرت مولانا صاحب کو جماعت کے اہم نمائندہ وفود میں شمولیت کی توفیق ملتی رہی۔ 1964ء میں احراری مولویوں کی غلط رپوٹنگ کی وجہ سے حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کتابچہ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ ضبط کر لیا کہ اس کے صفحہ 11حاشیہ کی عبارت سے حضرت فاطمۃالزہرا ؓکی توہین نکلتی ہے۔ 28 جولائی 1964ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جماعت کا ایک وفد زیر قیادت حضرت مرزا عبدالحق صاحب، گورنر مغربی پاکستان جناب ملک امیر محمد خان صاحب کو ملا۔ اس وفد کے نو ممبران میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب شامل تھے۔ وفد نے محترم گورنر صاحب کو بتایا کہ اس حوالہ کی تشریح خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے براہین احمدیہ میں کر دی ہوئی ہے جو پڑھ کر سنائی گئی۔ جناب گورنر صاحب نے اس پر اطمینان کرتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ اس تشریح کو ’’ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ کتابچہ میں متعلقہ صفحہ پر بطور فُٹ نوٹ شامل کر دیا جائے۔ اس کے بعد حکومت نے ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا ۔

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے حضرت مولوی صاحب کو ایک مباحثہ کے لئے سند نیابت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کی جانب سے بھی حضرت مولوی صاحب کو سند وکالت حاصل ہوئی۔ جب24 اگست 1974ء کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اعتراض ’’تحریف فی القرآن‘‘ زیربحث تھا۔ حضورؒ نے کمیٹی کے چیئر مین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر مجھے بھی اجازت ہو تو بعض سوالوں کا جواب میرے delegation (وفد) کے ایک صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب دے سکیں (کیونکہ مخالف فریق کی جانب سے سوالات و جوابات کے لئے مولانا ظفر احمد صاحب انصاری مقرر ہوئے ہیں ) اور یہ کہ مَیں ذمہ داری لے رہا ہوں ۔ پہلے تو یہ کہا گیا :

we do not have any objection ….

مگر بعد میں کہا گیا کہ ابوالعطاء صاحب بول سکتے ہیں لیکن اگر آپ خود جواب دیں گے تو اس میں اتھارٹی بھی بہتر ہوگی اور اس پر weight بھی زیادہ ہو گا۔

اس پر حضور ؒ نے مائیک حضرت مولوی صاحب سے لے لیا اور خود جواب دینا شروع فرما دیا اور اللہ تعالیٰ کی تائید پہلے دنوں سے بھی زیادہ شان سے ظاہر ہوئی۔ مخالفین نے شائد یہ سمجھا کہ حضرت صاحب ؒ عربی عبارتوں کے جواب نہ دے سکیں گے اور ہمارا پلّہ بھاری ہو جائے گا ۔

٭ غیر احمدی علماء کے چند حوالے بھی اس مضمون میں شامل ہیں جن میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے علم و دانش، علوم اسلامیہ پر دسترس، سلجھی ہوئی شخصیت ، عربی فارسی نیز صرف نحو اور منطق کے بہت بڑے فاضل، بہت اچھے مناظر ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے۔

٭ حضرت مولوی صاحب بڑے دعا گو بزرگ تھے ۔ احباب کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ آپ خلافت احمدیہ سے پختہ وابستگی اور نظام جماعت کی کامل اطاعت کی تصویر تھے۔ نومبر 1974ء میں حضرت مولوی صاحب ایک وفد کے ساتھ راولپنڈی تشریف لائے۔ امیر وفد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تھے ۔ نماز مغرب کا وقت ہوا تو کسی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ نماز پڑھا دیں۔ فرمایا: امیر وفد آ رہے ہیں جس کو اجازت دیں گے وہ نماز پڑھائے گا۔

٭ ایک بار تربیلا سے آئے ہوئے ایک احمدی طالبعلم نے آپ سے کہا کہ اُن کے ٹیچر نے کہا ہے کہ جا کر اپنے خلیفہ صاحب سے اس سوال کا جواب لانا کہ ’’انبیاء سابقین کا ذکر قرآن کریم میں صیغۂ ماضی کے ساتھ کیا گیا ہے لہٰذا کسی مزید امّتی نبی کے آنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ حضرت مولانا صاحب نے فرمایا کہ ایسے سوالوں کے جوابات کے لئے حضرت صاحب کے خادم حاضر ہیں اور اپنے استاد صاحب سے پوچھنا کہ کیا انبیاء سابقین کا ذکر قرآن کریم میں بصیغۂ استقبال کیا جاتا؟

٭ حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے۔ بعض خدام جسم دبانے لگے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کس سلسلہ کے پیر ہیں؟ فرمایا: یہ عاجز تو ربوہ والے مرشد کا ایک ادنیٰ خادم ہے۔

برکات خلافت (قبولیت دعا)

مکرم عبدالعزیز ڈوگر صاحب مرحوم کو چار خلفاء کی دعاؤں سے مستفید ہونے کی توفیق ملی۔ آپ کے قلم سے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ و اپریل 2012ء میں خلفائے کرام کی قبولیت دعا کے چند ذاتی مشاہدات شامل اشاعت ہیں۔

٭ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ کافی بیمار تھے تو سندھ میں جماعت کی زمینوں میں کپاس اور پھل کی فصل کا سودا وہاں کے ایک تاجر سے کیا گیا لیکن وہ ایک بڑی رقم لے کر فرار ہو گیا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل اعلیٰ) نے یہ سارا معاملہ حضورؓ کی خدمت میں عرض کرکے دعا کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ یہ خاکسار راولپنڈی جاکر اس سلسلہ میں کسی سرکاری افسر سے ملے۔ چنانچہ مَیں اُسی روز راولپنڈی پہنچ گیا۔ صدر ایوب خان کا دور ِحکومت تھا اور سیکرٹری داخلہ جناب غیاث الدین تھے جو کہ 1953ء کے احمدیہ مخالف فسادات کے دوران پنجاب کے چیف سیکرٹری رہ چکے تھے۔ اس وجہ سے اندر سے مجھے بہت ڈر تھا لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی تھا کہ خلافت کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ چنانچہ خدا پر توکّل کرتے ہوئے مَیں سیکرٹریٹ میں جا کر اُن سے ملا اور تمام واقعات عرض کئے۔ اُنہوں نے اُسی وقت آئی جی لاہور سے فون پر کہا کہ وہ ہمارا مطلوبہ آدمی ڈھونڈیں۔ چنانچہ اگلے روز ایک وفد کی صورت میں ہم آئی جی لاہور کو ملنے گئے۔ اس وفد میں محترم حافظ عبدالسلام صاحب (وکیل المال)، محترم سید میر داؤد احمد صاحب (پرنسپل جامعہ احمدیہ) اور مکرم چوہدری ناصرالدین صاحب (نمائندہ وکالت زراعت) شامل تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں رنگ لائیں اور آئی جی صاحب کے تعاون سے کچھ ہی عرصہ بعد وہ تاجر گرفتار ہوا اور جماعت کاغبن شدہ روپیہ وصول ہوا۔

٭ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مجھے وقف سے فارغ کرتے ہوئے لاہور جا کر کام کرنے کا ارشاد فرمایا تو مجھے کچھ بھی علم نہیں تھا کہ وہاں جا کر کیا کروں گا۔ چند بزرگوں نے جن میں مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب شامل تھے، مل کر مسجد مہدی ربوہ میں نماز کے بعد میری روانگی کے سلسلہ میں ایک لمبی دعا کروائی۔ دعا کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آواز آئی ہے کہ ’’چھاؤنی کی طرف خیال رکھو‘‘۔ اُس وقت تو مجھے اس بات کی سمجھ نہ آئی لیکن لاہور جاکر کچھ ہی عرصہ بعد مجھے لاہور چھاؤنی میں پاکستان ایئر فورس MESS میں کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔ مجھے اس کام کا نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی میرے پاس ایسے ہنر مند افراد تھے اور نہ ہی مالی وسائل۔ انہی دنوں رمضان کا مہینہ بھی آ گیا اور مَیں واپس ربوہ آ گیا۔ جہاں مَیں نے ایک خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو دیکھا۔ حضورؓ نے میرا بازو پکڑا اور فرمایا: ’’میاں غلام احمد، میاں غلام احمد، میاں غلام احمد! یہ لو‘ ‘۔ اور ایک لفافہ مجھے دیا جس میں کچھ روپے تھے اور مجھے اس میں ایک سو کا نوٹ بھی نظر آیا۔ لفافہ دیتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا: ’’پیسہ کمانا بہت مشکل ہے، آئندہ کمی نہیں آئے گی‘‘۔ اس خواب کے بعد دل کو بے حد تسّلی ہوئی کہ مَیں ’غلامِ احمد‘ ہی تو ہوں۔

عید کا وقت قریب تھا اور اس سال جب پہلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ نے تمام کارکنان کو عیدی بھجوائی تو اس خاکسار کے لئے بھی ایک لفافہ میں عیدی کی رقم جو کہ 132 روپے تھے گھر پر بھجوائی گئی۔ انہی دنوں مَیں نے حضرت اماں جانؓ کو بھی خواب میں دیکھا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے میری کمر پر ہاتھ پھیرا اور چلی گئیں۔ اس خواب کے بعد میرا یقین اَور بڑھ گیا کہ اب میری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ چنانچہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے بھی عرض کیا کہ اب آپ میرے لئے نہ روئیں، آپ کی دعائیں سنی گئی ہیں۔

اس واقعہ کے چند ہی دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک تین ٹینڈر موصول ہوئے۔ میں نے لاہور میں ایک دوست کی مدد سے یہ تینوں ٹینڈر بھرکر جمع کروا دیئے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ یہ تینوں ٹینڈر ہی مجھے مل گئے اور یہ محض خداتعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات ہی کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے اس کام میں بے حد برکت ڈالی۔

٭ 1974ء میں احمدیوں کے خلاف ہنگاموں کے دوران مغل پورہ لاہور میں ہماری مسجد کو شرپسندوں نے آگ لگا دی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ خاکسار نے مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب امیر جماعت لاہور کو مل کر تمام حالات سے مطلع کیا اور دوبارہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے مسجد پہنچا تو وہاں لوگوں کا ایک جمِ غفیر موجود تھا اور کچھ پولیس کے آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ مسجد پر قابض لوگوں میں سے چند افراد لاؤڈسپیکر کے ذریعہ لوگوں کو مزید مشتعل کررہے تھے۔ اس وقت وہاں پر ہمارے صدر جماعت اور بشیر احمد DSP لاہور کے دوران کچھ بات چیت بھی چل رہی تھی۔ میں بھی جا کر اُن میں شامل ہو گیا اور بات کرنے کی اجازت مانگی۔ ملاقات کے دوران تلخ کلامی کی نوبت آ پہنچی اور بات ہاتھاپائی تک جا پہنچی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے باہر بھی شور اور افراتفری اَور زیادہ بڑھ گئی۔ جس کو دیکھتے ہوئے موقع پر موجود ایک مجسٹریٹ جن کا نام ندیم احمد تھا وہ بھی اندر آ گئے۔ ہم نے مجسٹریٹ صاحب کو حالات بتاتے ہوئے عرض کی کہ یہ DSP صاحب ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ مجسٹریٹ ندیم احمد صاحب نے ہماری بات توجہ سے سُنی اور اُسی وقت حکم دیا کہ مسجد کو فوری طور پر خالی کروایا جائے۔ FSF پولیس نے ہوائی فائرنگ کر کے مشتعل ہجوم کو منتشر کرتے ہوئے ہمیں ہماری مسجد کا قبضہ واپس دلایا۔ 1974ء کے ہنگاموں میں یہ واحد مسجد تھی جو کہ خداتعالیٰ کے خاص فضل سے ہمیں واپس مل گئی۔

اس واقعہ کے بعد DSP نے انتقاماً مجھ پر حملہ بھی کروایا جس میں مَیں شدید زخمی ہوا۔ پھر میرے وارنٹ گرفتاری جاری کروا کر مجھے پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کروا دیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات سے چند ہفتوں بعد ضمانت پر رہائی ہوئی اور تقریباً ایک سال تک مقدمہ چلنے کے بعد مجھے بری کر دیا گیا۔ بری ہونے کے باوجود بشیر احمد (جو SP بن چکا تھا) کی انتقامی کارروائیاں میرے خلاف جاری رہیں اور مجھے انتہائی خطرناک اور مطلوب افراد کی فہرست میں ایک لمبا عرصہ شامل رکھا گیا۔ آخر کار 1982ء میں ایک CID انسپکٹر افتخار احمد نے میرے حق میں رپورٹ دیتے ہوئے میرا نام اس لِسٹ سے خارج کروادیا۔

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مسند خلافت پر متمکّن ہونے کے بعد خاکسار کو دوبارہ وقف میں آنے کا ارشاد فرمایا تو اُس وقت خاکسار کا ذاتی کاروبار عروج پر تھا۔ یہاں تک کہ مَیں نے اس سال 46 ہزار روپیہ صرف انکم ٹیکس کی مَد میں دیا تھا۔ مگر حضورؒ کے ارشاد پر خاکسار نے دین کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اپنا تمام کاروبار چھوڑ کر ادارۂ تعمیرات میں جماعت کے لئے کام شروع کردیا۔

1983ء سے 1990ء کے دوران خاکسار نے فضل عمرہسپتال کی توسیع، بیوت الحمد کی تعمیر، ربوہ گیسٹ ہاؤس، سوئمنگ پول، دفاتر انجمن احمدیہ کی توسیع، مسجد مبارک کی توسیع، مسجد اقصیٰ کے مینار کی مرمت اور مسجد کی چاردیواری کی تعمیر کا کام کروانے کی سعادت پائی۔ اس کے بعد حضورؒ کے ارشاد پر گیمبیا اور سیرالیون میں مختلف مساجد اور ہسپتالوں کی تعمیرات کے کام کی ذمہ داری نبھائی۔ سیرالیون میں ملکی حالات کی خرابی کی وجہ سے ہمیں اپنا کام روکنا پڑا۔ مگر گیمبیا میں غیر معمولی خدمت کا موقع ملا جس میں مسجد، مرکزی دفاتر، گیسٹ ہاؤس، افریقہ میں پہلا پریس اور دیگر کئی شہروں میں ہسپتال اور دفاتر کی تعمیر شامل ہے۔ اسی اثناء میں حضورؒ کی طرف سے انجینئر ناصر بھٹی صاحب لندن سے کام کا جائزہ لینے وہاں آئے۔ انہوں نے واپس جا کر حضور کو تعمیراتی کام کی رپورٹ دیتے ہوئے یہ بھی عرض کیا کہ حضور! جیسے حضرت داؤدؑ کو اللہ تعالیٰ نے مدد کے لئے جِن عطا کئے تھے اسی طرح گیمبیا میں عبدالعزیز بھی کسی جِن سے کم نہیں۔ حضورؒ نے میرے نام اپنے ایک خط میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا نے ایک نہیں اس طرح کے کئی ’جِن‘ جماعت کو عطا کئے ہیں۔

گیمبیا سے واپسی پر جرمنی میں ایک سو مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے 7 سال تک خدمت کا موقع دیا۔ جب ناصرباغ کی مسجد زیرتعمیر تھی تو کافی مشکلات درپیش تھیں۔ خاکسار نے بے حد دعا کی تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے کوئی چیز دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو میں نے جنگِ خندق میں استعمال کئے تھے۔ خاکسار نے یہ خواب حضور کو تحریر کی اور حضور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بابرکت خواب ہے۔ خدا تعالیٰ خود تمام رکاوٹیں دُور فرمادے گا اور اس کے ساتھ حضور نے یہ شعر بھی تحریر کیا کہ

خدمتِ دین کو اِک فضلِ الٰہی جانو                   اس کے بدلے میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو

اور پھر واقعی خدا کے فضل اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی برکت سے وہی انجینئر جو پہلے مشکلات پیدا کر رہا تھا اُسی نے مسجد کے گنبد اور محراب کی اجازت دلوادی۔

٭ چند سال پہلے کی بات ہے کہ شوگر کے مرض کی وجہ سے میری نظر بتدریج بہت کمزور ہورہی تھی۔ میں دعا کی درخواست کرنے کی غرض سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ سے ملاقات کرنے لندن گیا اور حضور کو اپنی تکلیف بتائی۔ میری گزارش سننے کے بعد حضور کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر اپنی نشست سے اُٹھے اور میری آنکھوں پر اپنی خلافت کی انگوٹھی کا لمس فرمایا اور دعا کی۔ اس کے بعد معجزانہ طور پر میری نظر بہتر ہو گئی اور مَیں اب تک بغیر عینک کے دیکھ اور پڑھ سکتا ہوں۔

اسی طرح سے ایک وقت ایسا آیا کہ اندرونی بیماریوں کی وجہ سے میری ٹانگوں میں شدید درد شروع ہو گیا اور مجھے چلنے پھرنے میں انتہائی دشواری محسوس ہوتی تھی۔ میں اُن دنوں اپنے بیٹوں کے پاس جرمنی گیا ہوا تھا۔ حضور بھی اُن دنوں جرمنی کے سالانہ جلسہ کے لئے تشریف لائے تو وہاں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دورانِ ملاقات میں نے ذرا بے تکلفی کے انداز میں عرض کیا کہ حضور! یہ میری وہی ٹانگیں ہیں جن پر اپنے قدمِ مبارک رکھ کر حضرت مصلح مو عودؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا کرتے تھے اور یہی وہ ٹانگیں ہیں جنہیں 1974ء کے ہنگاموں میں غیراحمدیوں نے انتقام کی غرض سے توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ بس آپ دعا کریں کہ یہ ٹانگیں اس عمر میں میرا ساتھ نہ چھوڑیں۔ اس پر حضورِانور نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام واقعات اور حالات انہیں لکھ کر بھیجوں۔ چنانچہ خاکسار نے ایسا ہی کیا۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے فالج کے حملہ کے باوجود خاکسار ابھی تک اس قابل ہے کہ چل پھر سکتا ہے اور کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ایمان ہے کہ اپنی ساری زندگی میں مَیں نے جو کچھ بھی پایا وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت کی برکات سے پایا۔

(نوٹ: محترم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی وفات جنوری 2016ء میں ہوئی۔)

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا، اگست 2011ء، میں مکرم انجینئر مبشر احمد خورشید صاحب کی ماہِ صیام کے حوالہ سے ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

ہے ماہِ صوم بندوں کے لئے انوار کا تحفہ
کبھی سحری کی صورت اور کبھی افطار کا تحفہ
سخاوت اور فیّاضی کا ملتا ہے سبق اس سے
الٰہی قرب و خوشنودی ، ہے روزہ دار کا تحفہ
کرو پرہیز غیبت، جھوٹ، ایذا اور تکبّر سے
وگرنہ جیت کے بدلے ملے گا ہار کا تحفہ
ہے اس کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی نعمت
یقیناً ہے خدا کا قرب ، شبِ بیدار کا تحفہ
عبادت اور تقویٰ سے گزاریں دن تو پھر خورشیدؔ
ہے عیدالفطر کی صورت خدا کے پیار کا تحفہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button