از مرکزجلسہ سالانہدورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ءیورپ (رپورٹس)

بڑے مقاصد کے حصول کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں (جلسہ سالانہ جرمنی پرحضور انور کا مستورات سے بصیرت افروز خطاب)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…قرونِ اولیٰ میں خواتین کی قربانی کے وقعات کا ایمان افروز تذکرہ

(جلسہ گاہ بمقام شٹٹگارٹ،۲؍ستمبر۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جلسہ سالانہ جرمنی کے دوسرے روز حسبِ روایت امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات کے جلسہ گاہ سے خطاب فرماتے ہیں۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ مقامی وقت کے مطابق بارہ بج کر دس منٹ پر خواتین کے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ نوشین اسلام صاحبہ کو سورۃ النور کی آیات۳۱تا ۳۲ کی تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اوراس کا ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہما نور الہدیٰ صاحبہ نے پیش کیا۔

بعد ازاں انیقہ شاکر صاحبہ کو حضرت مصلح موعودؓ کے درج ذیل منظوم کلام میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت ملی جس کا آغاز اس شعر سے ہوا:

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے
حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے

اس کے بعد تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی بچیوں اور خواتین کے نام پڑھ کر سنائے گئے۔ بعد ازاں بارہ بج کر چالیس منٹ پر حضورِانور منبر پررونق افروز ہوئے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔

خطاب حضورِانور

تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں خواتین کے جلسے میں مَیں نے قرونِ اولیٰ کی خواتین کے بعض واقعات بیان کیے تھے۔ آج بھی اسی تسلسل میں بعض واقعات بیان کروں گا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی صحبت سے فیض پایا اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی تعلیم کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔

اللّہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے کیا معیار تھے؟ اس حوالے سے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا کے متعلق حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ یہ بہت زیادہ روزے رکھنے والی اور بہت زیادہ رات کو قیام کرنے والی ہیں۔

عبادت کے معیار قائم کرنے میں یہ خواتین مردوں سے کسی طورپر پیچھے نہ رہتیں۔ حضرت ابو امامہ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم سے عرض کی کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے اوپر روزہ لازم کرلو کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد صرف ابو امامہ ہی نہیں بلکہ ان کی زوجہ اور خادمہ کو بھی ہمیشہ روزے کی حالت میں دیکھا گیا۔

ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایک دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھیں، اِس کے عوض میں اُس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہ نے فرمایا کہ جب سے مَیں نے یہ سنا ہے مَیں نے اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا۔

مالی قربانی کے ایک واقعے کا یوں ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللّہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عید کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ ان سے پہلے اور بعد کوئی نوافل ادا نہ کیے تھے۔ پھر آپ عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصائح فرمائیں اور صدقے کا حکم دیا۔ پس عورتوں نے اپنی بالیاں اور کنگن اتار اتار کر دینے شروع کر دیے۔

مالی قربانی میں آج احمدی خواتین بھی مثالیں قائم کرنے والی ہیں اور یہی قربانیاں ان کے گھروں کو خیرو برکت سے بھرنے والی ہیں۔

ایک صحابیہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے بیعت کی تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نظرِ مبارک میرے ہاتھ پر پڑی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی عورت کے لیے کوئی ہرج نہیں اگر وہ اپنے ناخنوں پر بناؤ سنگھار کے لیے تبدیلی کرے اور اپنی کلائی میں ریشم یا چمڑے کی کوئی ڈوری پہن لے۔

صحابیات نیکیوں کے حصول کی کس قدر کوشش کرتیں اس حوالے سے ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی لیکن اس نے حج نہیں کیا اور فوت ہوگئی۔ کیا مَیں اس کی طرف سے حج کروں؟ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس کی طرف سے حج کرو۔ اگر تمہاری والدہ پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتی؟ پس! اللہ کا قرض بھی ادا کرو۔

اسلام کی ابتدا میں شہادت کا مقام پانے والوں میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ حضرت سمیہ بنت مسلم نے اسلام قبول کیا تو ان کو کفار نے سخت اذیتیں دینا شروع کردیں۔ سب سے سخت اذیت یہ تھی کہ انہیں مکہ کی تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کردیا جاتا۔ بایں ہمہ وہ اسلام پر قائم رہتیں۔ ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو فرمایا! صبر کرو! تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے۔ بالآخر ابوجہل نے ان کی ران میں برچھا مار کرانہیں شہید کردیا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے انہیں کو شہادت کا مرتبہ عطا ہوا۔

آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر ظلم سہنے کے ایک واقعے کا یوں ذکر ملتا ہے کہ حضرت اسماء بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ سفرِ ہجرت پر روانہ ہوئے تو قریش کی ایک ٹولی میرے پاس آئی جس میں ابوجہل بھی تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے لڑکی! تیراباپ ابو بکر کہاں ہے؟ میں نے کہا میں نہیں جانتی۔ اس پر ابوجہل نے اپنا ہاتھ میرے رخسار پر ایسے زور سے مارا کہ میری بالی گر گئی۔

حضرت ام اسحاق اپنے بھائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئیں۔ ابھی تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا تو ان کے بھائی نے کہا کہ وہ اپنا زادِ راہ بھول آیا ہے اور بہن سے کہا کہ وہ یہاں بیٹھ کر انتظار کرے۔ بہن نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرا خاوند تجھے آنے نہ دے گا۔ اس پر بھائی نے کہا کہ فکر نہ کرو۔ لیکن وہاں بیٹھے بیٹھے کئی دن گزر گئے مگر بھائی نہ آیا۔ اتفاقاً ایک آدمی وہاں سے گزرا اور اس نے ان سے وہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ساری بات بیان کی۔ اس پر اس شخص نے بتایا کہ تیرے بھائی کو تیرے خاوند نے قتل کردیا ہے۔ ام اسحاق کہتی ہیں کہ مَیں انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتی ہوئی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور آگے سفر شروع کردیا۔

حضرت حمزہ کی شہادت پر کفار نے ان کی لاش کا بہت برا حال کیا تھا چنانچہ حضرت صفیہ کو آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کی اجازت نہ دی۔ یہ پیغام ملنے پر حضرت صفیہ نے کہا کہ اگر اجازت نہیں تو ٹھیک ہے مگر خدا کی راہ میں یہ قربانی کوئی بڑی بات نہیں۔ ان کے اس حوصلے کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں لاش دیکھنے کی اجازت دے دی۔ آپ لاش پر گئیں، عزیز بھائی کی لاش کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے مگر آپ رضی اللّہ عنہا نے صرف انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور مغفرت کی دعا مانگی۔

ایک نوجوان لڑکی کی ایمان داری اور اللّہ تعالیٰ کے خوف کا واقعہ یوں ملتا ہے کہ حضرت اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ رات کو پھر رہا تھا۔ ہم نے ایک جگہ پر ایک بڑھیا کی یہ آواز سنی کہ وہ اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھ! دودھ میں پانی ملادے۔ لڑکی نے کہا آپ جانتی نہیں کہ امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔ ماں نے کہا کہ اس وقت کوئی نہیں دیکھ رہا۔ لڑکی نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! یہ بات ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم سامنے تو ان کی اطاعت کریں اور خلوت میں ان کی نافرمانی کریں۔

حضرت عمرؓ اس لڑکی کی بات سے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اے اسلم! اس گھر پر نشان لگادے دوسرے دن آپ رضی اللّہ عنہ نے کسی کو بھجوایا اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کردیا۔ اس شادی سے اولاد بھی ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔

اسلام میں پردے کی تعلیم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کو قید کرکے رکھا جائے؛ جیسے آج کل طالبان میں ہمیں نظر آتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جائیں اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں بلکہ وہ آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں۔ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ سواری کرتی تھیں۔ مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ بس انہیں یہ حکم تھا کہ اپنا سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ کرتے ہیں بند رہیں۔ اگر اس سے زیادہ احتیاط کرسکیں تو نقاب اوڑھ لیں۔

ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوکر تمام جنگی کرتب دیکھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنونِ حرب سے واقف کرنا بھی جائز قرار دیتا ہے تاکہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کرسکے۔ اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر خشک ہوجاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ دلیری سے ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے۔

حضور انور نے حضرت خولہؓ کی بہادری کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت خالدؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ محاصرہ کیے ہوئے تھے اور حضرت ضرارؓ قید میں تھے۔ انہوں نے ایک گھڑ سوار دیکھا جو لشکر کے آگے آگے جا رہا تھا۔ لوگوں نے بہادری سے اس کو حملہ کرتے دیکھا۔ اس نے مقتولین کے ڈھیر لگا دیے۔ لوگ اسے حضرت خالدؓ سمجھ رہے تھے۔ حضرت خالد بھی حیران کھڑے تھے۔ رومیوں کا کوئی سپاہی اس کے مقابل نہیں آ رہا تھا۔ جب وہ کفار کے نرغے میں پھنس گیا تو حضرت خالد ؓ اس گھڑ سوار کو کفار کے نرغے میں سے بچالائے۔ حضرت خالد کے اصرار پر انہوں نے اپنی پہچان بتائی۔ وہ ضرار کی بہن حضرت خولہ تھیں۔ حضرت خولہ بھی ساتھ شامل ہوئیں۔ اگر جنگی حربے نہ سیکھے ہوتے تو کیسے جنگ میں شامل ہوتیں؟ پھر جنگ کے بعد حضرت خالد نے حضرت رافع کو سو سواروں کے ساتھ حضرت ضرار کو چھڑوانے کے لیے بھیجا۔ حضرت خولہ بھی ساتھ اصرار کر کے گئیں۔ حضرت ضرار بھی قید میں اشعار پڑھ رہے تھے۔ جس میں اپنی بہن کا بھی ذکر کیا کہ اگر اسے معلوم ہوتا تو وہ ضرور آتی۔ حضرت خولہ نے جب شعر سنے تو نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے حملہ کر دیا۔ فتح کے بعد حضرت خولہ نے خود اپنے بھائی کی رسیاں کھولیں۔

پھر حضور انور نے ایک اور خاتون کی بہادری اور صبر کی داستان کا ذکر کیا جن کے بھائی بیٹے اور شوہر کو شہید کر دیا گیا تھا لیکن وہ چٹان بنی رہیں۔ حضرت خلاد بن عمرو کی والدہ حضرت ہند بنت عمرو نے ان سب کی شہادت کے بعد انہیں اونٹ پر لادا اور مدینہ لے آئیں لیکن بعد میں انہیں واپس لے گئیں۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ احد کے شہداء احد میں دفن ہوں۔ حضرت عائشہؓ جنگ کی خبر لینے باہر نکلیں تو ان سے ملاقات ہوئی۔ مدینہ کی طرف جاتیں تو اونٹ بیٹھ جاتا اور احد کی طرف چلنے لگ پڑتا۔ پھر انہوں نے نہایت صبر سے انہیں احد میں دفنایا۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓ احد میں پانی کی مشکوں سے زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں۔ حضرت ربیعہ بنت معوذؓ کہتی ہیں کہ ہم زخمیوں کا علاج کرتیں، پانی پلاتیں اور اٹھا کر لاتیں۔ حضرت ام عمارہؓ احد میں دلیری سے لڑیں۔ حضرت طلحہؓ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن حضرت ام عمارہؓ نے بھی جواں مردی دکھائی۔ جب عارضی شکست ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے سینہ سپر ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی گواہی دی۔ ایک حملہ آور پر جھپٹ پڑیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہوں گی۔ ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ پھر وہ ایک جنگ میں لڑیں تو رسول اللہﷺ نے مالِ غنیمت اس کو بھی دیا۔ عورتیں مرہم پٹی کے لیے جاتیں۔ لڑتی بھی تھیں ۔ حضرت عائشہؓ نے بھی جنگ کی کمان کی۔ کیونکہ وہ فنون ِ حرب سے واقف تھیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ اس زمانے کی عورتیں ہر کام کرتی تھیں گھرمیں نہیں بیٹھا کرتی تھیں۔ اِس زمانہ کا جہاد قلم کا جہاد، لٹریچر کی تقسیم کا جہاد ، تبلیغ کا جہاد ہے۔ پس عورتیں تبلیغ میں حصہ لیں اور اس روحانی ہتھیار سے لیس ہوں۔ قرآنی علوم، حدیث، دینی علم ، حضرت مسیح موعودؑ کے کتب سے علم حاصل کریں۔ اپنی حالتیں اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں تبھی اسلام کی خدمت کر سکیں گی۔ یاد رکھیں کہ بڑے مقصد کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ حیا، دین کی تعلیم کا خیال رکھیں۔ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے اور اس ملک میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے۔

حضورانور کا خطاب تقریباً ایک بج کر تیس منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد عربی، اردو، پنجابی، جرمن،ترکش اور بعض افریقی زبانوں میں مختلف گروپس کی صورت میں ترانے پیش کیے گئے۔

پونے دو بجے حضور انور خواتین کی جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے۔

(خلاصہ تیار کردہ: حافظ نعمان احمد خان و ذیشان محمود)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button