منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام
اَے خدا بِن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح
جل گیا ہے باغِ تقویٰ دیں کی ہے اب اِک مزار
تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو
ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار
اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں
اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار
کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سو گئے
کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار
عقل پر پردے پڑے سَو سَو نشاں کو دیکھ کر
نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہل نار
گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا
اس کا ہووے ستیاناس اس سے بگڑے ہوشیار
بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ
پَر کے اک ریشہ سے ہوجاتی ہے کوّوں کی قطار
حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا
کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار
کیا خدا نے اتقیاء کی عَوْن و نصرت چھوڑ دی
ایک فاسق اور کافر سے وہ کیوں کرتا ہے پیار
ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نِشاں
کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار
کیا بدلتا ہے وُہ اب اس سُنت و قانون کو
جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار
(در ثمین صفحہ ۱۵۴۔۱۵۵،جدید ایڈیشن)