احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی زندگی دنیاوی دھندوں میں ضائع کرنے کاازحد افسوس تھا۔ اور آخری عمر میں چشم گریاں اوردل بریاں کے ساتھ اس پر ہمّ وغم کا اظہار فرماتے رہتے تھے۔ خدا کو آپ کے تأسُّف اور ندامت کے آنسو ایسے پسندآئے کہ ان کے دل میں قادیان کی بستی کے عین درمیان میں ایک جامع مسجد بنانے کا ارادہ پیدا ہوا
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کی زندگی کا ایک عظیم الشان کارنامہ
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کا اپنے خداسے ایک خاص تعلق ہی تھا کہ جس کی بنا پر انہیں اپنے خداپرایک بھروسا تھا، ایک مَانْ تھا، ایک توکل تھاکہ وہ خدابھی آپ کی لاج رکھتا تھا۔ آپ کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ’’آپ ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے اوربیماری بہت طوالت پکڑگئی۔اسی اثناء میں ان کے ہاں ایک ملاّں آیا اوراس نے سمجھا کہ مرض کا بہت زورہے تووہ باہر نکل کر کواڑ کے پیچھے اس انتظار میں کھڑاہوگیا کہ کب دم نکلتاہے اور عورتیں رونا شروع کرتی ہیں۔وہ دیر تک اسی حالت میں کھڑاتھا کہ اچانک آپ کی نظر اس پر پڑگئی۔فرمانے لگے ملاں چلے جاؤابھی تومیرے بیس سال باقی ہیں تُو کب تک انتظار کرے گا۔چنانچہ سچ مچ آپ اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ۱۴۲)
اپنے خداپر حسن ظن کا یہ ایک اور واقعہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ایک بغدادی مولوی صاحب قادیان تشریف لائے۔حضرت مرزا صاحب (جو علماء کی قدر کرتے تھے ) نے ان کی بڑی عزت کی اور ہر طرح سے ان کی خاطر داری کی۔بغدادی مولوی صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے؟ فرمایا قصور ہے۔مگر مولوی صاحب کو اس پر زیادہ ضد اور اصرار ہوا۔اور بار بار انہوں نے کہاکہ آپ نماز نہیں پڑھتے۔وہ ہر مرتبہ کہہ دیتے کہ قصور ہے۔آخر مولوی صاحب نے کہا کہ ’’آپ نماز پڑھتے نہیں خدا تعالیٰ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔‘‘
اس پر مرزا صاحب کو جوش آگیااورفرمایاکہ تم کو کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے دوزخ میں ڈالے گایا کہاں؟ میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں۔میری امید وسیع ہے۔ اس نے فرمایا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ (الزمر:۵۴)تم مایوس ہو گے۔میں نہیں۔اتنی بے اعتقادی میں نہیں کرتا۔میں خدا تعالیٰ کے رحم و کرم پر بھروسہ کرتا ہوں۔یہ تمہاری اپنی بد اعتقادی ہے۔تم کو خدا پر ایمان نہیں۔‘‘ (حیات احمدجلداول صفحہ۶۴)
نہ جانے وہ کون سی گھڑی تھی اور اپنے خداپر لَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا (مریم:۵)والاوہ کون سا مان تھا کہ خدا نے اس کو یوں پوراکیا کہ آپ کو ایک ایسا عظیم الشان کام کرنے کی توفیق بخشی کہ جو قیامت تک کے لیے آپؒ کا خداکے نزدیک ایک مقبول بندے ہونے اور ان کے نیک انجام ہونے اورخاتمہ بالخیر کی گواہی دیتا رہے گا۔ قارئین کرام !آپ کا یہ کارنامہ تھا مسجد اقصیٰ کی تعمیر!
ابھی بیان ہوچکاہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی زندگی دنیاوی دھندوں میں ضائع کرنے کاازحد افسوس تھا۔اور آخری عمر میں چشم گریاں اوردل بریاں کے ساتھ اس پرہمّ وغم کااظہار فرماتے رہتے تھے۔خداکو آپ کے تأسُّف اور ندامت کے آنسو ایسے پسندآئے کہ ان کے دل میں قادیان کی بستی کے عین درمیان میں ایک جامع مسجد بنانے کا ارادہ پیداہوا۔اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کے لیے کوشش کی جس مسجدکو قادیان پر قبضہ کرنے کے بعد سکھوں نے دھرم سالہ میں تبدیل کردیاتھا۔لیکن بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے ان کے خلاف شہادت دی جس کی وجہ سے یہ مسجد آپ کو نہ مل سکی۔جس پر انہوں نے نئی زمین خریدکرمسجدبنانے کا ارادہ کیا۔جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجودہے۔یہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔[کاردار: سکھ حکومت میں صوبے کا ناظم اعلیٰ کہلاتا تھا۔اوراس کے ماتحت کاردارتھے جن کافرض تھا کہ زمینداروں سے لگان وصول کریں اورعدالت وانصاف کاقیام کریں۔گویا کاردار ناظم صوبہ کا نائب ہواکرتے تھے۔ ایسےہی کسی سکھ حاکم کی یہ حویلی تھی۔] یہ جگہ جب نیلام ہونے لگی تو اہالیان قادیان کو چونکہ معلوم ہوچکاتھاکہ میرزاصاحب اس جگہ مسجد بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اس لیے ان لوگوں نے حضرت مرزاصاحب کا خوب مقابلہ کیا۔معمولی سی قیمت والی جگہ کی سینکڑوں روپے تک بولی پہنچ گئی۔ایسی صورت حال کو دیکھ کر اس اولوالعزم دل نے عہد کیا کہ مجھے اگراپنی ساری جائیداد بھی فروخت کرناپڑی تو میں وہ فروخت کردوں گا لیکن خداکے گھر کی تعمیرکرنے کے لیے یہ جگہ خرید کے رہوں گا۔(ماخوذ از حیات احمد جلد اول صفحہ ۶۶)
چنانچہ معمولی سی قیمت کا یہ قطعہ نیلامی میں سات سوروپے تک گیا جسے بالآخر حضرت مرزاصاحب نے خریدلیا۔
اس مسجدکی تعمیرکے متعلق مزیدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کوجب انگریزحکومت نے نیلام کرناچاہاتو یہاں کے مقامی ہندوؤں نے اس جگہ ٹھاکردوارہ بنانے کامنصوبہ بنایا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی غیرت دینی نے یہ گوارا نہ کیااور میاں جان محمد صاحب جوکہ مسجداقصیٰ کے مؤذن اورامام وغیرہ بھی تھے ان کوحضرت مرزا صاحب نے فرمایاکہ تم بولی میں کھڑے ہوگے اوریادرکھناکہ آخری بولی ہماری ہی ہونی چاہیے۔(ماخوذ از الحکم جلد ۴۰ نمبر ۱۲،۱۱،۱۰ مورخہ ۷ا؍پریل ۱۹۳۷ء صفحہ۳کالم ۱)چنانچہ پھرایساہی ہوا بولی کاوقت آیاتومعمولی سی قیمت والی زمین کی بولی ایک سوسے دوسوسے تین سویہاں تک کہ سات سوروپے تک چلی گئی۔لیکن دینی غیرت رکھنے والا یہ مردمومن اپنے عزم کاپکارہااور خانۂ خداکے لیے اس جگہ کوحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ایک طرف تو زمین خریدنے کی مخالفت کا یہ عالم تھا دوسری طرف اس مسجد کے جو کہ نسبتاً ایک بڑی مسجدیعنی جامع مسجد بنائے جانے پر تمسخراور طنز کرنے والے بھی تھے جو یہ کہنے لگے کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی۔یہاں نماز کس نے پڑھنی ہے؟ اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے۔(ماخوذ از حیات احمد جلد اول صفحہ ۶۶)
کسی کو کیا معلوم تھا کہ اخلاص وندامت کے جذبات سے جس مسجد کی بنیاد اٹھائی جارہی ہے خدا نے اس کو ایسا قبولیت کا فخروشرف عطاکرناہوگا کہ روئے زمین پر وہ خداکی منظورو مقبول مسجد شمار ہوگی۔اور خداکے نبی کی وہ مسجدکہلائے گی اورجس میں وہ مینار تعمیرہوگا کہ جس کی خبر نبی اکرمﷺ نے چودہ سوسال پہلے دی تھی اورعین اس مینارکے نیچے اس مسجدکے صحن میں اس خدا کے پیارے کی آخری آرامگاہ ہوگی کہ دن میں پانچ وقت اس کے کانوں میں آواز پڑاکرے گی کہ اللہ اکبر اللہ اکبر سب سےبڑاہے وہ اللہ،سب سے بڑاہے وہ اللہ،کتنا بڑاہے کہ اس کےنام سے محبت کرنے والا،اس پرحسن ظن رکھنے والا بھی اتنا بڑاہوجاتاہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ آآکر اس مسجد میں اپنی جبین نیاز جھکانا اپنی عین سعادت سمجھیں گے اور جب وہ واپس جانے لگیں گے تو اس کی روح ان دعائیں کرنے والوں کوپکارے گی کہ
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
اوروہ جو دوردرازملکوں سے اس مسجد کی طرف کھچے چلے آئے ہوئے ہوں گے وہ جاتے ہوئے اس کی مغفرت کے لیے بھی دعا کرتے ہوئے جائیں گے کہ
اے خدا برتربتِ او ابرِ رحمت ہاببار
داخلش کن ازکمال فضل در بیت النعیم
[اے رحیم وکریم خدا! تواس کی قبرپراپنی رحمتوں کی بارشیں برساتے رہنا اور اپنے فضل سے نعمتوں والی جنت میں اس کوداخل فرمانا]
بہرحال مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔اورآپ نے وصیت کرتے ہوئے مسجد کے صحن کے باہر ایک جگہ نشان کیا کہ میری قبر اس جگہ بنائی جائے۔اور ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۲۶ کے مطابق اپنی وفات سے صرف بائیس ۲۲ دن پہلے اپنی قبر کا نشان بتلایا کہ اس جگہ ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے والدماجد کے اس جذبہ ٔ محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة آمین۔ قریباً اسی ۸۰یا پچاسی ۸۵ برس کی عمر پائی۔‘‘ (کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۹۱، حاشیہ)
اور یوں آخری عمر میں رقت کےساتھ پڑھنے والا ان کا اپنا ہی یہ شعر کس طرح ایک دعائے مستجاب بن گیا:
از درِ تو اے کسِ ہر بیکسے
نیست امیدم کہ روم نا امید
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۹حاشیہ)
[اے ہر بے سہاروں کے سہارے ! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔]
جس کے لیے نہ جانے ان کا فرزنددلبند گرامی ارجمند،خداکاوہ فرستادہ کتنی دعائیں کرتاہوگا کہ جس میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة۔
آپؒ کی وفات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزاپُرسی
ایک مختصر علالت کے بعد آپؒ کی وفات جون ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ایک اور روایت کے مطابق آپ کی وفات کا سنہ ۱۸۷۲ء بھی ہو سکتا ہے۔ (قادیان کے آریہ اورہم، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۴۲۳-۴۲۴)
حضرت اقدسؑ نے اپنے والد صاحب کی وفات کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان دنوں انہیں دردِ گردہ اور زَحِیْر یعنی پیچش کی تکلیف شروع ہوئی۔دردِ گردہ سے تو افاقہ ہواالبتہ پیچش کی تکلیف تھی کہ آپ کی وفات ہوئی۔
چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑان کی وفات کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھراس کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کانشان ہے۔یہ بہت پراناالہام ہے اور اُس وقت کاہے جبکہ میرے والدصاحب مرحوم کاانتقال ہوا۔میں لاہور گیا ہواتھا۔مرزاصاحب کی بیماری کی خبرجومجھے لاہورپہنچی میں جمعہ کویہاں آگیا۔ تودردگردہ کی شکایت تھی۔پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔اس وقت تخفیف تھی۔ہفتہ کے دن دوپہرکوحقّہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھا کر رہا تھا۔ مجھے کہاکہ اب آرام کا وقت ہے تم جاکرآرام کرو۔میں چوبارہ میں چلا گیا۔ ایک خدمتگارجمال نام میرے پاؤں دبارہاتھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا وَالْسَّمَآءِ وَالْطَّارِق‘‘ ( ملفوظات جلدسوم صفحہ ۳۵۵ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک قدیمی صحابی ؓ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے اپنی پرانی نوٹ بکوں سے کچھ اقتباسات دیے ہیں۔ان میں وہ حضورؑ کایہ ارشادنوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب ہمارے والد کی وفات کے ایام قریب آئے تو ہم لاہورچیف کورٹ کے کسی مقدمہ میں گئے ہوئے تھے۔ وہیں خواب میں دیکھاکہ ان کی وفات کے ایام قریب ہیں۔بعدمیں ان کی بیماری کی خبرملی۔ہفتہ کادن اوردوپہرکاوقت تھا۔ڈیوڑھی میں مَیں لیٹاہواتھااورجمال کشمیری میرے پاؤں دبارہاتھا۔ الہام ہوا وَالْسَّمَآءِ وَالْطَّارِق جس کے معنے ہیں قسم ہے آسمان کی اورقسم ہے اس حادثہ کی جوغروب آفتاب کے بعد پڑے گا۔‘‘ (ذکرحبیب مرتبہ حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ ۱۷۶)
آپؒ کی تدفین مسجد اقصیٰ کے صحن سے باہر اس جگہ کی گئی جہاں آپ نے پہلے سے نشاندہی کی ہوئی تھی[تب یہ جگہ باہر ہی تھی اوربعد میں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع کی گئی تو یہ قبر صحن کے اندر آگئی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قبر کافی نیچے ہے موجودہ شکل اس تعویذ کی ہے جو قبر کے اوپر بنایاگیاہے۔] اور پنڈت دیوی رام جو کہ اس زمانے میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے ان کا بیان ہے کہ ’’جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے۔ تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنا دی گئی۔‘‘ (سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر۷۵۹)
آپ کی وفات کا واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسی عظمت اوروقعت رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس حادثۂ وفات کی قسم کھائی۔اس واقعہ کی تفصیلات حضرت اقدسؑ نے ایک نشان کے طورپر اپنی کتب میں بیان فرمائی ہیں۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھاکہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔میں اس وقت لاہور میں تھاجب مجھے یہ خواب آیاتھا۔تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلا پایا۔لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اوروہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھےدوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے۔کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایاکہ اس وقت تم ذرہ آرام کر لو۔کیونکہ جون کا مہینہ تھااور گرمی سخت پڑتی تھی۔میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ۔ یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاوقدر کا مبدء ہےاور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو گا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہےاور حادثہ یہ ہےکہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا۔سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہو نے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے۔اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گےکہ خداتعالیٰ کی عزا پرسی کیا معنے رکھتی ہے۔مگر یاد رہےکہ حضرت عزت جلشانہٗ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے۔تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے۔‘‘ (کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۹۲-۱۹۴، حاشیہ)
٭…٭…٭