تفکّر اور تدبّر مومنوں کی علامت ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
مومنوں کی علامت ہی یہی ٹھہرا دی ہے کہ وہ ہمیشہ زمین اور آسمان کے عجائبات میں فکر کرتے رہتے ہیں اور قانون حکمت الٰہیہ کو سوچتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے…یعنے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں۔ دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے ، کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکّر اور تدبّر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہریک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے۔
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 305، 306 حاشیہ نمبر 11)
(مشکل الفاظ کے معانی: علامت ٹھہرانا: نشانی بیان کرنا، عجائبات: عجیب و غریب چیزیں، فِکْر کرنا: غور کرنا، سوچنا، دانشمند: عقلمند، صانع عالم: دنیا کو بنانے والا، ہستی: ذات، تفکّر و تدبّر: غورو فکرکرنا، مناجات: دعا، التجا، عرض، عبث و بیہودہ:بے کار، بے فائدہ، فضول۔ قدرت: خدائی طاقت یا شان خداوندی۔ دلالت: رہنمائی)