والدہ کی عزّت و تعظیم
پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنؓی کے لیے بسا اوقات رسول اللہﷺ یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔ بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خداﷺ موجود ہیں، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔ صرف اپنی والدہ کی خدمت گذاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیّت فرمائی۔یا اویسؓ کو یا مسیح ؑ کو۔ یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ ان سے ملنے کو گئے، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لیے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہوں گے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہﷺ کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کرکے اس کو ماننا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹۵-۱۹۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)