الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

عظیم خواتین مبارکہ سے وابستہ یادیں

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے ۲۰۱۳ء نمبر1 میں محترمہ سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت رقم فرمائی ہے۔

٭…سیّدہ محترمہ تحریر فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ایک نصیحت مجھے ہمیشہ یاد رہی ہے۔ میرا میٹرک کا بورڈ کا امتحان تھا اس لیے دنوں کا کوئی احساس نہ تھا کہ آج کون سا دن ہے۔ مَیں نے اور میری ایک ہم جماعت عزیزہ نے ارادہ کیا کہ دعا کے لیے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہ جمعہ کا روز تھا۔ سب سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ملاقات کے کوئی آثار نہ تھے۔ہم دونوں صحن کے کنارے پر شش وپنج کے عالم میں کھڑی تھیں کہ حضورؒ کسی کام کے سلسلہ میں صحن میں آئے۔ آپؒ ہم سے کچھ فاصلہ پر تھے۔ آپ کی نظر ہم پر پڑی لیکن آپؒ نے کچھ ارشاد نہ فرمایا اور خاموش رہے۔آپؒ کے چہرے کے تأثر سے ہمیں محسوس ہوا کہ آپؒ نے پسند نہیں فرمایا اس لیے ہم چُپ کرکے وہاں سے چلی آئیں۔اس کے بعد ہم حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ہاں گئے۔آپؓ نے ہماری درخواست پر ہمیں اندر بلالیا۔ آنے کا مقصد پوچھا اور پھر سمجھایا کہ جمعہ کا دن نہانے دھونے کا ہوتا ہے اس لیے جمعہ کو ملاقات کے لیے نہیں آنا چاہیے۔ یہ سن کرہم بہت شرمندہ ہوئیں اور اپنی غلطی کی بھی سمجھ آئی اور پھر حضورؒ کے تأثر کی بھی سمجھ آگئی۔ مجھے حضرت سیّدہؓ کا یہ نصیحت فرمانا ہمیشہ آپؓ کے لیے دل میںایک محبت بھری یاد کے ساتھ تازہ رہتا ہے۔

٭…حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نہایت ذہین اور صاحبِ فراست تھیں۔آپؓ سے بھی بچپن سے ہی امّی ملاقات کرواتی رہیں لیکن آپؓ کے لیے میرے دل میں غیرمعمولی محبت اُس وقت پیدا ہوئی جب میری امّی اور بہن انگلستان گئی ہوئی تھیں اور مَیں اور ابّو گھر پر تھے۔ ایک دن اچانک مجھے آپؓ کا فون آیا کہ تمہاری امّی باہر گئی ہوئی ہیں میں نے سوچا فون کرکے تمہارا حال پوچھ لوں۔ آپؓ کے اس احسان اورحسن خلق سے دل میں آپؓ کی محبت بہت بڑھ گئی۔

ایک بار مَیں نے آپؓ سے آپؓ کے تبرک کی فرمائش کی تو آپؓ نے اپنی دو قمیضیں منگوا کر میرے سامنے رکھ دیں کہ جو پسند ہے لے لو۔پھرایک مرتبہ آپؓ نے ازخود شفقت فرماتے ہوئے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بطور تبرک عنایت فرمایا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کے بعد مَیں اپنے بیڈروم میں تھی۔ حضرت سیّدہؓ بھی میرے پاس حضورؒ کے بستر پر تشریف فرما تھیں۔مَیں ہال کمرہ میں جانے لگی تو آپؓ نے اپنی چادر اوڑھنے کے لیے مجھے عنایت فرمادی۔

٭… حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کی شخصیت کے نمایاں پہلو آپ کی عاجزی، انکساری اور محنت کی عادت تھی۔ آپ نرم خُو تھیں۔ مَیں نے آپ کو غصّے کے ساتھ بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ساتھی کارکنات کے ساتھ مادرانہ شفقت کا برتائو نظر آتا تھا۔ آپ لجنہ کے کام،گھر کے کام، جماعتی ذمہ داریاں اور خاندان کی ذمہ داریاں تمام نہایت محنت سے ادا کرتی تھیں۔بڑھاپے میں بھی مَیں نے آپ کو بہت تند ہی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے دیکھا۔ آپ کے گھٹنے میں تکلیف ہوتی لیکن پھر بھی آپ بلامبالغہ ایک ہی دن میں افراد جماعت کی تین تین، چارچار شادیوں میں شمولیت فرما رہی ہوتیں۔مریضوں کی عیادت، غمی اور خوشی کے مواقع ہوں تو آپ بہت با قاعدگی سے اور خیال سے اپنے عزیزوں اور ملنے والوں کے تعلقات کونباہتیں۔

مہمان نواز بھی بہت تھیں۔ عید کی صبح آپ نے سب افراد خاندان کے لیے ناشتے کی ٹرالی سجائی ہوتی اور سب کی خاطر مدارات کرکے خوشی محسوس کرتیں۔ مَیں بچپن سے ہی آپ سے ملتی رہی تھی۔ میری نمایاں کامیابیوں پر آپ ہمیشہ بہت خوش ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بھی آپ کی شفقت اور راہنمائی مجھے اور میری ساتھی احمدی طالبات کو حاصل رہی۔ لیکن یہ بات مَیں نے نمایاں طور پر محسوس کی کہ میری شادی کے بعد آپ میرے ساتھ بالکل مختلف انداز سے پیش آتیں۔ اگرچہ آپ ہر لحاظ اور رشتے سے مجھ سے بڑی تھیں لیکن محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفۂ وقت کی بیوی ہونے کا شرف عطا فرمایا آپ اس رشتے کو بہت ملحوظِ خاطر رکھتیں۔

٭…حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کی طبیعت اپنے الہامی نام کی طرح مہرو محبت والی تھی۔بہت خوش ذوق اور خوش پوش تھیں۔ہمیشہ بہت محبت اور پیار کے ساتھ ملتیں۔لیکن بچپن کی ایک ملاقات اور آپ کا احسان تا زندگی یاد رہے گا۔ مَیں چھوٹی تھی اور امی کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ اُس روز مہر آپا حضورؓ کے پاس تھیں۔ حضورؓ اپنی علالت کے باعث کمرے میں بستر پر ہی لیٹے تھے۔ آپؓ سفید براق لباس میں ملبوس تھے۔ مَیں آپؓ کی دائیں جانب کھڑی ہوگئی اور بچپن کی لاعلمی میں مصافحہ کے لیے حضورؓ کی جانب ہاتھ بڑھادیا۔ حضرت سیّدہ مہر آپا حضورؓ کے سرہانے کھڑی تھیں۔ وہ حضورؓ کے سر کے قریب جھکیں اور بتایا:حضور! خانصاحب کی چھوٹی بیٹی مصافحہ کرنا چاہتی ہے۔ حضورؓ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھادیا اور میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھام کر دیر تک دعا کرتے رہے۔مَیں نے یہ واقعہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو شادی کے بعد سُنایا تو آپؒ بہت زیادہ خو ش ہوئے۔

ایک مرتبہ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے ایک عجیب بات مجھے ارشاد فرمائی۔ میرا MBBSکا نتیجہ نکلا اور مَیں نے اپنے کالج فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس خوشی میں ،مَیں امّی کے ساتھ مٹھائی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔آپ حسبِ معمول نہایت محبت سے ملیں اور باتوں میں مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’نہ کوئی جنا مَیں نے بیٹا ورنہ میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتی۔‘‘ مَیں اسے آپ کی محبت کا ایک انداز سمجھ کر مسکرادی۔جب میری شادی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ہوئی تو مجھے آپ کا یہ فقرہ یاد آیا کہ ایک رنگ میں آپ کی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی ازواج مطہر ات میں سے حضرت چھوٹی آپا اورحضرت مہر آپا کو ہی ملنے کا موقع مجھے ملا۔ مختلف مواقع پر باتوں کے دوران مَیں نے یہی محسوس کیاکہ ان دونوں کو حضرت مصلح موعودؓ سے بےحد محبت تھی۔ محبت کا ہی یہ ایک انداز تھا کہ حضرت مہر آپا نے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک دن گِنا ہواتھا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ صرف بارہ سال گزارے ہیں۔ حضورؓ کو زیادہ میک اپ وغیرہ کرنا پسند نہ تھا۔ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ بس ایک مہینہ تم اپنا شوق پورا کرلو پھر مَیں نے تمہیں سنگھار نہیں کرنے دینا۔ ایک دوسرے موقع پر فرمایا بس لپ سٹک اور کاجل کااستعمال کرلیا کرو۔

٭… حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ سرورسلطان بیگم صاحبہؓ (اُمّ مظفر) کو یہ عظیم سعادت بھی حاصل ہے کہ آپؓ کے وجودِ مبارک سے اللہ تعالیٰ نے تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًا کا الہام پورا فرمایا اور آپ کی دختر اوّل حضرت صاحبزادی امۃالسلام بیگم صاحبہؓ کی ولادت حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہوئی۔

مجھے اپنی والدہ کے ساتھ حضرت اُمِّ مظفرؓ سے بچپن میں کئی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُمّی کو آپؓ سے خاص محبت تھی کیونکہ میری نانی نیازی پٹھان تھیں اور حضرت امّ مظفرؓ بھی نیازی تھیں۔آپؓ اُن کے ساتھ دوپٹہ بدل بہن بھی بنی ہوئی تھیں۔

حضرت اُمّ مظفرؓ کو مَیں نے جس عمر میں دیکھا وہ آپؓ کی بڑھاپے کی عمرتھی۔ ٹانگ میں فریکچر کی وجہ سے بستر پر دراز ہوتیں۔ آپؓ کا چہرہ پُرشفقت نرمی لیے ہوتا۔ سر پر ہمیشہ ریشمی تکون رومال باندھا ہوتا۔ مَیں جب کبھی بھی آپؓ سے ملنے گئی آپؓ نے ہمیشہ خادمہ سے منگوا کر مجھے بسکٹ کھانے کے لیے دیے۔ آپ کا محبت بھری نظر سے مجھے دیکھنا بھی مجھے یاد ہے۔ اِنہی ملاقاتوں کی ایک اَور برکت کایہاں ذکر کردینا بےمحل نہ ہوگا۔ ایک بار مَیں اورامّی حضرت اُمّ مظفرؓ سے مل کر آپ کے گھر البشریٰ کے صحن میں آئے تو وہاں چارپائی پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لیٹے آرام فرمارہے تھے۔ امّی نے اُنہیں سلام کیا اور مجھے بھی آپؓ کی چارپائی کے قریب آپؓ سے ملنے کے لیے کیا۔ آپؓ نے بہت محبت سے مجھ سے میرا نام، جماعت وغیرہ کا پوچھا۔مَیں اُس وقت قریباً ۶سال کی تھی اور غالباً دوسری جماعت میں تھی اور اپنی کلاس میں اوّل آئی تھی۔ آپؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے۔ پھر امّی نے مجھے آپؓ کو دبانے کے لیے کہا۔اُس وقت مجھے دبانے کا صرف اتنا ہی مطلب آتا تھا جتنا کہ مَیں اپنے ابّا کو دباتی تھی یعنی کہ سر میں انگلیاں پھیرنا۔ اس لیے میں حضرت میاں صاحبؓ کے سرہانے بیٹھ کر اُن کے سر میں انگلیاں پھیرنے لگ گئی۔ اچانک میری نظر امّی کے گھبرائے ہوئے چہرے پر پڑی جو آپؓ کی چارپائی کی پائنتی کی طرف کھڑی تھیں اور آپ نے مجھے کہا کہ ایسے نہیں، ادھر آئو اور پائوں دبائو۔ لیکن حضرت میاں صاحبؓ نے فرمایا کہ نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے۔ ا ور مَیں کچھ دیر تک آپؓ کے مبارک سر میں ہاتھ پھیرتی رہی۔

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ بُوزینب بیگم صاحبہؓ کی طبیعت خاموش تھی اور بہت زیادہ ملناجُلنا نہ تھا۔ مَیں نے آپؓ کو اپنے سکول یا کالج کے فنکشنزمیں کبھی نہ دیکھا اور نہ ہی امّی کبھی آپؓ سے ملوانے کے لیے لائیں۔ لیکن میری شادی کے بعد، حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اپنے خاندان کی جن دو بزرگ ہستیوں سے بطورخاص مجھے ملوانے کے لیے خود لے کر گئے اُن میں سے پہلی خاتون مبارکہ آپؓ ہی تھیں۔ حضورؒ آپؓ کو چچی جان بُو کے نام سے بُلاتے تھے۔ (دوسری بزرگ ہستی حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ تھیں۔)

چچی جان بُو کو شادی شدہ لڑکیوں کا اچھا پہننا اوڑھنا اور زیور وغیرہ پہننا پسند تھا۔اس لیے جس روز ہم نے آپؓ کو ملنے جانا تھا تو حضورؒ نے مجھے خاص طور پر فرمایا کہ آج اچھی طرح سے زیور وغیرہ پہن کر تیار ہونا۔ اور یہ واحد موقع تھا جب آپؒ نے مجھے خاص طور پر تیار ہونے کے لیے ارشاد فرمایا ورنہ آپؒ بذاتِ خود زیادہ سنگھار کو پسند نہ فرماتے تھے۔

حضورؒ جمعہ کے روز عصر کی نماز کے بعد بہشتی مقبرہ جاتے تھے۔ آپؒ نے مجھ سے فرمایا کہ واپسی پر ہم چچی جان بُو کو ملنے جائیں گے۔ چنانچہ ہم آپؓ سے ملنے گئے۔ حضورؒ آپؓ سے محبت اور ادب سے ملے، مجھے ملوایا اور پھر کچھ دیر تک آپؓ کے کمرے میں بےتکلّفی کے ساتھ آپؓ کے ساتھ تشریف فرما رہے۔ آپؓ کم گو تھیں۔باوقار اور سادہ لباس(تنگ پاجامہ قمیض) اور سادہ گھر لیکن رکھ رکھائو بہت تھا۔ حضورؒ کی وفات کے بعد مَیں کئی مرتبہ آپؓ سے ملنے گئی۔آپؓ غیرمعمولی شفقت اور محبت سے مجھے ملتیں اور خاطرتواضع بھی فرماتیں۔ چند مرتبہ مجھے آپؓ کے ہاں گھر کی بنی آئس کریم کھانے کا موقع ملا۔ آئس کریم کھلانے کے بعد خادمہ سے کہہ کر بڑے اہتمام سے چلمچی اور پانی کا جگ منگوا کر ہاتھ دھلواتیں۔ آپ کی بڑی صاحبزادی محترمہ آپا باری صاحبہ نے مجھے بتایا کہ جب کبھی بھی تمہارا ذکر کرتیں تو ہمیشہ تمہیں چھوٹی دلہن کہہ کر یاد فرماتیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مجھے بتایا کہ قادیان میں جمعہ کی نماز کے بعد ہم لڑکے ہمیشہ چچی جان بُو کے گھر جاتے اور آپؓ شکرپاروں، پتوڑ (پالک کے پتوں کے پکوڑے) اور چائے کے ساتھ سب کی تواضع فرماتیں۔ آپؓ کی یاد میں حضورؓ نے صاحبزادہ مرزا فرید کو فرمایا کہ اب تم یہ تیار کروایا کرو اور اُس کا نام ’’چچی جان بُو سٹائل دعوت‘‘ رکھا۔

(آئندہ سوموار کے شمارہ میں جاری ہے۔ ان شاءاللہ)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button