مگر میں نے گھانا نہیں دیکھا تھا: حالیہ سفر گھانا کی روداد
۱۹۶۲ءمیں جب میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوا تو رہائش ہوسٹل میں تھی جہاں پرانڈونیشیا، کینیا، سنگاپور اور ماریشس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ گھانا مغربی افریقہ کے کچھ طالبعلم بھی پڑھ رہے تھے۔بعد میں جزائر فجی سے بھی دو طالب علم آ گئے تھے۔ مکرم عثمان چینی صاحب بھی ابھی جامعہ میں ہی زیر تعلیم تھے۔گھانا سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں سے مکرم عبدالواحد بن داؤد صاحب، مکرم عبدالمالک صاحب اور مکرم یوسف یاسن صاحب کے نام بھی مجھے اب تک یاد ہیں۔ غیر ملکی طلبہ کی پڑھائی علیحدہ ہوتی تھی کیونکہ ایک تو وہ عموماً انگریزی زبان بولتے تھے دوسرے انہوں نے بالکل ابتدا یعنی الف ب سے اردو سیکھنی ہو تی تھی۔تاہم یہ طالب علم ہوسٹل میں دیگر طالب علموں کے ساتھ ہی رہتے تھے، کھیل کے میدان میں بھی اکٹھے ہوتے تھے۔ علاوہ از یں ہمارا ایک ہی میس تھا جہاں سب ایک ہی وقت میں کھاناکھایا کرتے تھے تاہم ان غیر ملکی بچوں کا انتظامیہ کی طرف سے کچھ خیال رکھا جاتا تھا اور انہیں کھانے میں چاول ملا کرتے تھے۔
جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کرنےکے بعد جب خاکسار میدان عمل میں گیا تو میری تقرری بطور مربی ضلع بہاولپور ہوگئی اور یہاں سے عملی خدمت کا سفر شروع ہوگیا۔ابھی بہاولپور میں مجھے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جماعت کی طرف سے خاکسار کو جرمن زبان سیکھنے کا ارشاد مل گیا اور میں اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز (جو اب یونیورسٹی بن چکی ہے) (NUML) میں جرمن زبان پڑھنے لگا۔ جرمن زبان سیکھنے کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ ۱۹۷۲ء میں میری ہیمبرگ جرمنی کے لیے تقرری ہو گئی اور جنوری ۱۹۷۴ء میں خاکسار جرمنی آگیا۔ مسجد فضل عمر ہیمبرگ کے قریب ایک ہوسٹل میں گھانا کے تین احمدی طلبہ بھی رہتے تھے اور ان کا جماعت کے ساتھ مضبوط تعلق قائم تھا۔ان دوستوں میں مکرم مبارک اوسائی کویسی صاحب، مکرم کلیم آڈےبایوصاحب اور مکرم سلیمان ایسومان صاحب شامل تھے۔ مکرم Mubarak Osei Kwesi جو کہ اچھی جرمن زبان جانتے تھے اور یونیورسٹی کے طالب علم تھے تبلیغ میں میرے بہت مدد گار رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھانا کے کچھ اَور دوست بھی وہاں آگئے جبکہ بعض نے جرمنی آنے کے بعد بیعت کی۔تاہم مذکورہ بالاتینوں احمدی دوست اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے وطن واپس چلے گئے اور خاکسار کا تبادلہ بھی پاکستان ہو گیا۔
۱۹۸۵ءمیں جب خاکسار کی تقرری لائبیریا مغربی افریقہ کے لیے ہوئی تو وہاں بھی جماعت میں غیر معمولی خدمت کرنے والے دوستوں میں گھانا کے افراد بھی شامل تھے جن میں مکرم محمد یارٹے، مکرم یعقوب اوٹو، مکرم محمد عنان، مکرم آنسا اور مکرم آئیڈو کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے اول الذکر مکرم محمد یارٹے صاحب تو میرے ساتھ بطور نائب امیر بھی خدمات سلسلہ بجالا تے رہے۔
ربوہ، جرمنی اور لائبیریا میں گھانا کے احمدیوں سے ملاقات اور جماعت کے ساتھ ان کی غیر معمولی محبت اور اخلاص کے سبب ان کی یادیں ہمیشہ ہی میرے دل پر نقش رہیں لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ دل میں خواہش موجود ہونے اور ویسٹ افریقہ میں رہنے کے باوجود میں کبھی گھانا نہیں جاسکا۔ اس لیے ۲۰۲۳ء میں جب اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے اور لائبیریا میں جماعت کی روز افزوں ترقیات دیکھنے کے لیے میں نے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ لائبیریا جانے کا پروگرام بنایا تو اس سفر میں گھانا کوبھی شامل کرلیا۔
مورخہ ۱۹؍ستمبر کو براستہ برسلز گھانا کے دار الحکومت اکرا کے لیے روانہ ہوئے اور اسی شام بغیر کسی دقت یا پریشانی کے جب ہمارے جہاز نے Kotoka Int. Airport Accra پرلینڈ کیا تو یہ لمحہ میرے لیے بہت دلچسپ اور جذباتی اہمیت کا حامل تھا۔ ایئرپورٹ پر امیگریشن سے فارغ ہوکر اپنے میزبان کے ساتھ ہم اکرا مشن ہاؤس پہنچ گئے۔ اکرا کے جماعتی ہیڈ کوارٹرز میں ایک ہی چاردیواری میں جماعتی دفاتر، نو تعمیر شدہ مسجد اور ایک اچھا گیسٹ ہاؤس بنا ہوا تھاجس کی پانچویں منزل پر ہمیں رہائش کے لیے جگہ دی گئی جو کافی عمدہ تھی۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد افریقہ میں یہ ہماری پہلی رات تھی۔گو اپنے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہم سب فرینکفرٹ جرمنی سے Yellow Fever کا ٹیکہ لگوا کر گئے تھے اور ملیریا سے محفوظ رہنے کے لیے روزانہ کھانے کی گولیاں بھی ساتھ لے کر گئے تھے لیکن چونکہ سورج غروب ہو چکا تھا اس لیے مچھر وں سے واسطہ پڑنے کا خوف بھی دامن گیر تھا۔ کھانا کھانے اور نمازیں ادا کرنے کے بعد ملیریا سے حفاظت کی گولی کھائی اور مچھروں سے ڈرتے ہوئے سو گئے۔
صبح نماز پڑھی، ناشتہ کیا اور اکرا میں رہائش پذیر Mr. Mubarak Kwesi کا انتظار کر نے لگے، انہیں پہلےسے اس ملاقات کے لیے اطلاع کی جا چکی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد ہم نے منکسم (Mankessim)جانا تھا،جہاں شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھاناواقع ہے۔ اکرا میں قیام کے دوران ہم نے جماعت کی نو تعمیر شدہ بہت ہی خوبصورت اور عالی شان مسجد کو بھی دیکھا جس کے بعض حصے ابھی زیر تعمیر ہیں۔ جماعت کا ہیڈ کوارٹر ایک بہت بڑےکمپاؤنڈ پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں مسجد واقع ہے۔جبکہ دیگر دو اطراف میں دفاتر اور گیسٹ ہاؤس وغیرہ ہیں۔ مکرم و محترم امیر صاحب ان دنوں جماعتی دورے پر بیرون ملک گئے ہوئے تھےاس لیے ان سے تو ملاقات نہیں ہوسکی تاہم اکرا میں خاص طور پر مجھے Mr. Mubarak Kwesi کو ملنا مقصود تھا جو کہ اب بوڑھے ہو گئے تھے۔ جب وہ مسجد پہنچے تو دن کے گیارہ بج چکے تھے۔ ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور ان کی آنکھوں سے بھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہےتھے۔ یہ دو دینی بھائیوں کی ایک جذباتی ملاقات تھی جس نے دل پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ میرے بیٹوں نے ان سے جرمن زبان میں گفتگو کی۔ مگر ہم زیادہ دیر رک نہ سکے کیونکہ ہمیں یہاں سےسفر کرکے منکسم (Mankessim)جانا تھا جہاں کا فاصلہ کچھ زیادہ تونہیں تھا مگر کوئی کہتا تھا کہ تین گھنٹے لگ جائیں گے اور کوئی کہتا تھا کہ ڈیڑھ دوگھنٹے کا سفر ہے۔کوئی بھی حتمی رائےاس لیے نہیں دی جاسکتی تھی کیونکہ منکسم جانے والی سڑک شہر کے وسط سے گزرتی ہے اور اس پر بہت رش ہوتا ہے۔ سفرمیں لگنے والے وقت کا تمام تر دارومدار اس امر پر ہے کہ سڑک پر کس قدر ٹریفک ملتی ہے۔ٹریفک کی وجہ سے بہت زیادہ وقت لگ جانے کا امکان بھی تھا اور میرا ارادہ تھا کہ دن غروب ہونے سے پہلے پہلے منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔
جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کو اپنے وزٹ کا حصہ بنانے کے لیے جس امر نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا تھا وہ یہ خیال تھا کہ وہ جامعہ کیسا ہوگا جس میں اکتیس ممالک سے تعلق رکھنے والے ۲۵۶؍ طالب علم پڑھ رہے ہیں اور ان دور افتادہ علاقوںمیں مسیح محمدیؑ کےیہ غلام محض دینی تعلیم کے حصول کےلیے اکٹھے رہتے ہیں۔جامعہ احمدیہ ربوہ کی یادوں کے سبب مجھے ان سے ملنے کا شوق تھا۔ بالخصوص جب سے مجھے یہ علم ہوا تھا کہ وہاں افغانستان سے آئے ہوئے چھ طالب علم بھی پڑھتے ہیں تو میرا اشتیاق اَور بھی بڑھ گیا کہ میں ان سے ملوں کہ شہزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی سرزمین تک جانا تو شاید ممکن نہ ہو،چلو وہاں کے بہادر او ر غیور احمدیوں سے ہی مل لوں۔
مکرم فرید احمد نوید صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانانے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ہم نے اکرا مشن ہاؤس سے نکل کر ایک ہوٹل میں چائے پی اور کچھ چھوٹی موٹی خریداری کے لیے ایک شاپنگ مال میں گئے۔ دوپہر کا کھانا ایک لبنانی ریسٹورنٹ میں کھایا جو بہت لذیذ تھا جس کے بعد ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اکرا (Accra)سے منکسم تک کی سڑک بعض جگہوں پر ٹوٹی ہوئی تھی اس لیے سفرتوقع سے کچھ زیادہ لمبا ہو گیا۔جب ہم جامعہ پہنچے تووہاں بھی ہمیں ایک خوبصورت اور نہایت آرام دہ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا۔ پرنسپل صاحب نے بتایا کہ اگر ہمیں مناسب لگے تو جب تک ہم جامعہ میں ہیں ملیریا کی مزید گولیاں لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ جامعہ میں باقاعدگی سے مکھی اور مچھر مار اسپرے کروایا جاتا ہے اور یہاں مچھر نہیں ہیں۔ہم نے اس مشورے کے بعد گولیاں لینا بند کردیں اور واقعی بالکل بے فکر ہو کرہم چار پانچ روز جامعہ میں قیام پذیر رہے۔
جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے کمپاؤنڈ میں قیام کے دوران ایک روز طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ملاقات کی یہ تقریب جامعہ کے مسرور ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں مکرم محمد یارٹے صاحب بھی جن کا ذکر پہلے آچکا ہے، شامل ہوئے۔تلاوت قرآن کریم کے بعد وائس پرنسپل صاحب جامعہ نے تعارف اردو میں کروایااس لیے میں نے بھی اردو میں گفتگو کی اور سوال جواب کا سلسلہ اردو اورانگریزی میں چلتا رہا۔ حال ہی میں جامعہ میں داخل ہونے والے طلبہ اور ہمارے مہمان مکرم محمد یارٹے صاحب کے لیے تمام گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ بھی خلاصۃً بیان ہوتا رہا جس کے بعد سب کلاسوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فوٹو ہوئے اورمختلف ممالک سے آئے ہوئے طلبہ بشمول افغانستان کے طلبہ سے ملاقات بھی ہوئی۔اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام طلبہ ہاسٹل میں رہتے ہیں جہاں پر کھانے میں تین Menu مہیا کیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک افریقن طلبہ دوسرا کانٹی نینٹل اور تیسرا بیمار طلبہ کے لیے بطور پرہیزی تیار کیا جاتاہے۔جس طالب علم نے جوبھی Menu لینا ہوتا ہے اس کے بارے میں طلبہ پر مشتمل میس کمیٹی کو پہلے بتا کر نام لکھوادیاجاتاہے اور اسی کے مطابق انہیں کھانا مہیا کردیا جاتا ہے۔ جامعہ کے کچن میں دس خواتین کھانا پکانے کے لیے بطور سٹاف کام کرتی ہیں۔ مذکورہ پروگرام کے بعد ہم تدریسی بلاک میں گئے جہاں سب اساتذہ کے ساتھ تعارف ہوا۔جامعہ احمدیہ کا تدریسی بلاک دو منزلہ ہے جو باہر سے جامعہ احمدیہ ربوہ کی طرز پر بنایا گیا ہے زیریں منزل پر دفاتر، سٹاف روم اور بعض کلاس رومز کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے ای لائبریری (E-Library)، فرسٹ ایڈ کلینک اور ایک ٹک شاپ بھی بنائی گئی ہے جو شعبہ صنعت وتجارت مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔جبکہ جامعہ کی بالائی منزل پر لائبریری اور ایک سٹوڈیو بنایا گیا ہے جہاں ایم ٹی اے کے لیے پروگرام ریکارڈ کروائے جاتے ہیں۔ دوران وزٹ مکرم وائس پرنسپل صاحب کے ہمراہ ہر کلاس میں بھی گئے جہاں تمام طلبہ کو سلام کہا اور سفر کے لیےدعا کی درخواست کی۔
تدریسی بلاک اور ہال کے درمیان ایک مسجد واقع ہے جس کا نام حضور انور نے مسجد نیّر عطا فرمایا ہے۔طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب یہ مسجد اب صرف مردوں کے لیے مخصوص کردی گئی ہے۔اس مسجد کی تعمیر کے اخراجات مکرم عبد الرشید صاحب آرکیٹیکٹ لندن اور ان کے ایک بھائی نے ادا کیے تھے۔خاکسار اس مسجدمیں نماز جمعہ کے علاوہ دیگرنمازوں کے وقت میں بھی شامل ہوتا رہا، مسجد میں امامت کی ذمہ داری سینئر طلبہ کو تفویض کی گئی ہے جن کی عربی تلاوت دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خطبہ جمعہ بھی اردو زبان میں ایک طالب علم نے ہی دیا اور نماز بھی پڑھائی۔
جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کی ستّر ایکڑ زمین ایک مقامی احمدی دوست مکرم الحاج ابو بکر اینڈرسن صاحب نے جامعہ کے لیے عطیہ کی تھی۔ یہ زمین جو کہ ابتدا میں شہر سے بالکل باہر ایک جنگل کی صورت میں تھی پچاس فیصد صاف کرکے جامعہ، ہوسٹل اور مکانات بنائے گئے ہیں اوراس تمام علاقہ کی بہت عمدہ نگہداشت کی جارہی ہے۔جا بجا پھل دار پودوں کے علاوہ راستوں کے ساتھ دیگرآرائشی پودے بھی لگے ہوئے ہیں جبکہ کوارٹرز کے ساتھ بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک پارک بھی بنایا گیا ہے۔تمام کمپاؤنڈ کو بہت صاف رکھا جاتا ہے، جس پر انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ سیکیورٹی کا انتظام بھی عمدہ ہے۔
جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل کو دیکھنے کے علاوہ Saltpond جانے کا ارادہ بھی تھا کیونکہ اکرا سے پہلے یہی شہرجماعت احمدیہ کا مرکز تھا۔ اس لیے Saltpond کو دیکھنے کا بہت شوق تھا۔یہ وہی قصبہ ہے جس میں مولانا نذیر احمد مبشر صاحب جب تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے اور امام مہدی کی آمد کا بتایا تو اس بات کا بہت چرچا ہوا لیکن یہ بات مخالفین کو ہضم نہ ہوئی اس لیے یہاں کے رواج کے مطابق لوگوں نے جلوس نکالا اور اعلان کیا کہ ابھی مہدی نہیں آیا کیونکہ اس کی آمد کی نشانی کے طور پر زلزلہ نہیں آیا۔مولانا صاحب واپس مشن ہاؤس میں آگئے اور دعاؤں میں لگ گئے اور ابھی چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ اس علاقے میں ایک زور دار زلزلہ آگیا۔ لوگ حیران رہ گئے اور انہوں نے پھر بازاروں میں جلوس نکالا اور یہ اعلان کیا کہ مہدی آگیا ہے مہدی آگیا ہےکیونکہ زلزلہ آگیا ہے۔ سبحان اللّٰہ وبحمده سبحان اللّٰہ العظيم اللّٰهم صل علی محمد و آل محمد۔
Saltpond میں ایک جامع مسجد ہے وہ بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔اس پر ایک تختی لگی ہوئی ہےجس پہ لکھا ہوا ہے کہ اس کا سنگ بنیاد مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے رکھا اسی طرح اس کی تعمیر بھی انہوں نے کروائی۔افریقہ کے ان ممالک میں ایسے ایسے پھل بھی پیدا ہوتے ہیں جو بعض دیگر ممالک کے رہنے والے لوگوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوتے۔یہاں کا انناس اور ناریل بہت ہی عمدہ ہوتا ہےاورتھوڑی قیمت پر وافرتعدادمیں یہاں ہر جگہ مل جاتا ہے۔ بحر اوقیانوس جو کہ مغربی افریقہ کے کئی ممالک کو Touchکرتا ہے کے کنارے ایک ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے کے لیے گئے تو پہلے قریب ہی موجود درختوں سے اتار کرتازہ کوکونٹ کا پھل لایا گیا جس کاپانی پینے کی بہت خواہش تھی۔یہاں سمندر کے کنارے کھانا کھاتے ہوئے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر کا وہ حصہ بھی یاد آگیا جس میں حضور نے افریقہ کے ابتدائی مبلغین کو پیش آنے والی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے یہ مبلغ ایسے ممالک میں کام کر رہے ہیں جہاں جنگل ہی جنگل ہیں۔شروع شروع میں جب ہمارے مبلغ وہاں گئے تو بعض دفعہ انہیں وہاں درختوں کی جڑیں کھانی پڑتی تھیں اور وہ نہایت تنگی سے گزارہ کرتے تھےجس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوجاتی تھی۔‘‘( خطبات محمود جلد نمبر ۲، خطبات عید الاضحی صفحہ ۴۰۰)
ان ابتدائی جاں نثاران کی قربانیوں کی یاد نے ان کے لیے دعا کی توفیق بھی عطا کی جن کی قربانیوں کے ثمرات آج ہم ان ممالک میں مشاہدہ کررہے تھے۔
جامعہ میں اسی قیام کے دوران ایک روز ہم ایسارچر بھی گئے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گھانا میں اپنےوقف کا ایک لمبا عرصہ گزارا تھا۔ پھروہاں وہ رہائش گاہ بھی نظر آئی جہاں حضور انورقیام پذیر رہے۔ پھر وہ سکول بھی دیکھا جو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کوششوں سے جاری ہوا تھا۔
اس سکول کے نزدیک ہی گھانا کا مشنری ٹریننگ کالج بھی واقع ہے جہاں مقامی معلمین تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ بہت پرانا ہے جو شروع میں Saltpond میں قائم ہوا تھا اورحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات میں جن معلمین کا ذکرآپ سنتے ہیں وہ اسی ادارہ کےتعلیم یافتہ ہیں۔ اسی سفر میں ہمیں موسلادھار طوفانی بارش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی بعض جگہوں کو دیکھ سکے۔مگر جامعۃ المبشرین کے اندر تو جانا تھا اور وہاں طالب علموں سے گفتگو بھی کرنی تھی مگر بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ دیر بعد بارش تھم گئی اور طلبہ بھی جمع ہو گئے اور طلبہ سے کچھ گفتگو کرنے اور ان کے سوالات کےجواب دینے کا موقع مل گیا۔
یہاں سے واپسی پر ہم اکرافو (Ekrawfo)کے اس قبرستان بھی گئے جہاں گھانا کے پہلے احمدی بزرگ مکرم چیف مہدی آپامدفون ہیں جن کی دعوت پر حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ بذریعہ شپ گھانا آئے تھے اور اس طرح سے یہاں احمدیت کا پودا لگا تھابلکہ پروان بھی چڑھا۔ اس قبرستان میں اس بزرگ کی قبر پرمسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تین خلفاء نے دعا کی ہے مگر افسوس کہ شدید بارش کی وجہ سےہم اندر نہ جاسکے اور کار میں بیٹھ کر ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ۔
اب ہم جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل اور جامعۃ المبشرین کا وزٹ مکمل کرچکے تھے۔ جماعت کے نئے اور پرانے ہیڈکوارٹرز بھی دیکھ لیے تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ایسارچر بھی دیکھ لیا تھا اور جامعہ کے قریب تعمیر ہونے والی مسجد نصرت میں نماز بھی ادا کرلی تھی۔ مکرم پرنسپل صاحب نے مشورہ دیا کہ ان سب اداروں کے ساتھ ساتھ ہمیں گھانا میں جماعت کی طرف سے قائم کردہ ایک ہسپتال بھی دیکھ لینا چاہیے تاکہ جماعت کی صحت کے میدان میں خدمات کی جھلک بھی نظر آسکے۔ انہوں نے بتایا کہ گھانا کی جلسہ گاہ سے گزرتے ہوئے ہم سویڈرو (Swedru)کا ہسپتال دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ایک دن اس ہسپتال کے وزٹ کے لیے مختص کرلیا۔یہاں بشیر آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک مخلص ڈاکٹر مکرم محمد ابراہیم صاحب ابن مکرم محمد صدیق صاحب ( ہیڈ ماسٹرتعلیم الاسلام ہائی سکول بشیر آباد) بطور انچارج کام کررہے ہیں۔ اور آپ کو اپنی ڈاکٹر اہلیہ محترمہ کے ہمراہ گذشتہ ۲۳؍ سال سے گھانا میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ ایک دور دراز علاقے میں اپنے احمدی ڈاکٹرز کو لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل خانہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
سویڈرو سے واپسی پرجامعہ احمدیہ ربوہ سے تعلیم حاصل کرنے والے واقف زندگی مکرم مولوی یوسف یاؤسن صاحب سے بھی ملنے گئے جو حال ہی میں ریٹائر منٹ کے بعد اکرا سے اپنے آبائی علاقے میں شفٹ ہوئے ہیں۔آپ جامعہ احمدیہ ربوہ سےشاہد کرکے ۱۹۷۲ء میں اپنے وطن گھاناواپس لوٹے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھانا میں نائب امیر جماعت احمدیہ گھاناکے علاوہ دیگر بہت سی خدمات کی توفیق عطا فرمائی۔لمبا زمانہ گزر جانے کے سبب مجھے پہچاننے میں انہیں کچھ مشکل پیش آئی تاہم بڑے تپاک سے ملے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ یوں ہمارا گھانا کا یہ سفر مکمل ہوا اور ہم نے اگلے سفر کی تیاری شروع کردی۔
اس روداد کو ختم کرتے ہوئے میں مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل اور ان کے سٹاف کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وائس پرنسپل مکرم مرزا خلیل احمد بیگ صاحب اورمکرم محمد نصیر اللہ صاحب کا حسن سلوک تو ہمیشہ یاد رہے گا۔امن و سکون کے ماحول میں چند دن گزارنے کے بعدہم ۲۵؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو اکرا واپس آ کرعازم لائبیریا ہوئے۔
یہاں پر مسجد نصرت کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو میدان عمل کی ذمہ داریوں سے روشناس کروانے کے لیے انہیں تبلیغ کے لیے گروپس کی شکل میں قریبی دیہات میں بھی بھجوایا جاتا ہے۔ اس تبلیغ کے نتیجے میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ سے متصل دیہات میں احمدیت کا تعارف بھی پہنچا اور دو نئی جماعتوں اوبیڈان اور سپروڈو کا قیام بھی عمل میں آیا۔
ان جماعتوں میں سے Suprodo جس میں ۷۰؍ کے قریب افراد احمدی ہوگئے تھے ان کا کہنا تھا کہ انہیں عبادت کے لیے ایک مسجد کی ضرورت ہے انہی ایام میں سکاٹ لینڈ سے مکرم فرید احمد نوید صاحب کی بڑی بہن مکرمہ نصرت خالد صاحبہ اہلیہ مکرم ملک خالد محمود صاحب جامعہ گھانا آئی ہوئی تھیں۔ انہیں جب اس ضرورت کا علم ہوا تو انہوں نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس گاؤں کی پہلی مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب یہ مسجد تعمیر ہو گئی اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس مسجد کا نام رکھنے کی درخواست کی گئی تو حضور نے ازراہ شفقت اس مسجد کا نام مسجد نصرت عطا فرمایا۔