خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ جولائی ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:گذشتہ خطبہ میں کفارِ مکہ پر مسلمانوں کے رعب کا ذکر کرتے ہوئے ابوجہل اور عتبہ کے جنگ کرنے کے بارے میں اختلاف کا ذکر ہوا تھا اور پھرابوجہل کے طعنے کی وجہ سے عتبہ نے جنگ کا اعلان بھی کیا اور یوں باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ عُتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے درمیان چلتا ہوا نکلا اور صفوں سے آگے نکل کر مبارزت طلب کی۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں مبارزت اورحضرت ابوعبیدہ بن حارثؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ربیعہ آگے بڑھا اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور اس کا بھائی آیا اور اس نے پکارا کہ کون اس سے مبارزت کرے گا، مقابلے پہ آئے گا؟ تو انصار کے کچھ نوجوانوں نے اس کو جواب دیا۔ اس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ عتبہ نے ان انصار سے پوچھا کون ہو تم؟ انہوں نے اسے بتایا کہ ہم کون ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ہمارا تم سے کوئی سروکار نہیں۔ عتبہ نے ان کو یہ جواب دیا۔ ہمارا ارادہ تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے لڑنے کا ہے۔ قریش سے، مکے والوں سے ہم نے لڑائی کرنی ہے، انصار سے نہیں۔ اور ساتھ ہی بلند آواز میں پکار کر کہا۔ اے محمد! (ﷺ) ہمارے رشتے داروں میں سے ہمارے برابر کے لوگوں کو ہمارے مقابلے پہ بھیجو۔ تو نبیﷺ نے فرمایا۔ اٹھو اے حمزہ! اٹھو اے علی! اٹھو اے عُبَیدہ بن حارث! حضرت حمزہ ؓآپؐ کے چچا تھے اور علی چچا زاد ہیں جبکہ عبیدہ رشتے میں چچا بنتے ہیں۔ حمزہؓ عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علیؓ کہتے ہیں میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہؓ اور ولید میں دو جھڑپوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو زخمی کر کے کمزور کر دیا۔ پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مارڈالا اور عبیدہؓ کو ہم اٹھا کر لائے۔ان دونوں نے، حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تو اپنے دشمنوں کو مار دیا۔ جب حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ اپنے ساتھی حضرت عُبیدہ بن حارثؓ کو اپنی فوج میں اٹھا لائے تو ان کا پاؤں کٹ چکا تھا۔ جب ان کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! کیا مَیں شہید نہیں ہوں؟ آپؐ نے فرمایا بیشک تم شہید ہو۔حضرت عبیدہؓ جو آنحضرتﷺ کے چچازاد تھے ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور بدر سے واپسی پر راستے میں انتقال کیا۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں ابوجہل کےدعاکرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جب دونوں لشکر آپس میں مل گئے یعنی شدید لڑائی ہونے لگی تو ابوجہل نے دعا کی کہ اے خدا! ہم میں سے جو شخص قریبی رشتہ داریوں کو توڑتا ہے اور ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنیں تو آج اسے ہلاک کر۔حضرت مسیح موعودؑ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’بدر کی لڑائی کے وقت میں ایک شخص مُسَمّٰی عمرو بن ہشام نے جس کا نام پیچھے سے ابوجہل مشہور ہوا جو کفار قریش کا سردار اور سرغنہ تھا ان الفاظ سے دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مَنْ کَانَ مِنَّا اَفْسَدَ فِی الْقَوْمِ وَاَقْطَعَ لِلرَّحْمِ فَاَحِنْہُ الْیوْمَ یعنی اے خدا! جو شخص ہم دونوں میں سے (اس لفظ سے مراد اپنے نفس اور آنحضرتﷺ کو لیاتھا) تیری نگہ میں ایک مفسد آدمی ہے اور قوم میں پھوٹ ڈال رہا ہے اور باہمی تعلقات اور حقوق قومی کو کاٹ کر قطع رحم کا موجب ہو رہا ہے آج اس کو تو ہلاک کردے اور ان کلمات سے ابوجہل کا یہ منشاء تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ ایک مفسد آدمی ہیں اور قوم میں پھوٹ ڈال کر ناحق قریش کے مذہب میں ایک تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور نیز انہوں نے تمام حقوق قومی تلف کر دئیے ہیں اور قطع رحم کا موجب ہوگئے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کو یہی یقین تھا کہ گویا نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی زندگی پوتر اور پاک نہیں ہے۔ تبھی تو اس نے دردِ دل سے دعا کی لیکن اس دعا کے بعد شاید ایک گھنٹہ بھی زندہ نہ رہ سکا اور خدا کے قہر نے اسی مقام میں اس کا سرکاٹ کر پھینک دیا اور جن کی پاک زندگی پر وہ داغ لگاتا تھا وہ اس میدان سے فتح اور نصرت کے ساتھ واپس آئے۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں ابوجہل کےقتل کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ابوجہل کے قتل کے بارے میں بخاری میں جو روایت آتی ہے اس کے مطابق حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں جنگِ بدر کے دن ایک صف میں کھڑا تھا۔ مَیں نے نگاہ پھیری تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دائیں اور بائیں دو نوعمر نوجوان لڑکے ہیں جیسے ان کی اس موجودگی پر میں اپنے آپ کو امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ انہوں نے کہا یہ نوجوان لڑکے یا بچے انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے۔ کہتے ہیں مَیں امن میں نہیں سمجھتا تھا۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے چپکے سے جس کی خبر اس کے ساتھی کو نہ ہوئی مجھے پوچھا۔ چچا! مجھے ابوجہل تو دکھا دو۔ مَیں نے کہا میرے بھتیجے تجھے اس سے کیا کام؟ وہ کہنے لگا مَیں نے اللہ سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں اس کودیکھ پاؤں تو اسے مار ڈالوں گا یا اس کے سامنے خود مارا جاؤں گا۔ پھر دوسرے نوجوان نے چپکے سے جس کی خبر اس کے ساتھی کو نہ ہوئی مجھ سے ایسے ہی پوچھا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے تھے کہ مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہوتی اگر مَیں ان کی جگہ دو مردوں کے درمیان ہوتا۔ ان کے اس جذبے کے باوجود بھی ان کو تسلی نہیں ہوئی پھر بھی چاہتے تھے کہ دو مضبوط آدمی میرے دائیں بائیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان دونوں کو ابوجہل کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ ہے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں شکروں کی طرح اس پر جھپٹے اور اس کو مار ڈالا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے معاذ اور معوذ۔حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ ابوالحکم تک کسی کی رسائی نہ ہوسکے گی۔ چنانچہ مَیں نے ارادہ کر لیا کہ ضرور اس پر حملہ کروں گا اور مَیں اس پر جھپٹ پڑا اور تلوار کی ایک ضرب سے اس کا پاؤں ساق تک کاٹ دیا۔ اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر وار کیا اور میرا ہاتھ اڑا دیا۔ صرف جلد کے سہارے وہ میرے پہلو میں اٹکا رہا۔ تمام دن میں اسی طرح لڑتا رہا جب تکلیف زیادہ ہوئی تو مَیں نے اس پر پاؤں رکھ کر جسم سے علیحدہ کر دیا۔ جنگ کے اختتام پر آنحضورﷺ مقتولین کے درمیان کھڑے ہوئے اور ابوجہل کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ آپؐ نے اس کو نہ پایا تو یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ لَا تُعْجِزْنِی فِرْعَوْنَ ہٰذِہِ الْاُمَّةِ۔ اے اللہ! تو مجھے اس امّت کے فرعون کے مقابلے پر عاجز نہ کر دینا۔ کہیں بچ کے نہ چلا جائے۔ پھر لوگوں نے اس کی تلاش شروع کی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے ڈھونڈ لیا…جب حضورﷺ نے ابوجہل کی لاش کو تلاش کرنے کا حکم دیا تو عبداللہ بن مسعودؓ مقتولوں میں تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس آئے۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم کو اس کا پتہ نہ چلے تو اس طرح اس کو پہچاننا کہ اس کے گھٹنے پر ایک زخم کا نشان ہے کیونکہ میں نے ابوجہل کو ایک مرتبہ عبداللہ بن جُدْعَان کے ہاں ایک دعوت کے موقع پر زور کا دھکا دیا کہ وہ گھٹنوں کے بل گرا اور اس کے گھٹنے میں زخم ہو گیا۔ اس کا نشان اب تک اس کے گھٹنے میں موجود ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ اسی نشان کے ساتھ مَیں نے اس کو پہچانا اور کچھ رمق زندگی کی ابھی اس میں باقی تھی۔ مَیں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھ دیا کیونکہ مکہ میں اس نے مجھ کو بہت تکلیف پہنچائی تھی۔ مَیں نے کہا اے دشمن خدا !تُو نے دیکھا کہ خدا نے تجھ کو کیسا ذلیل کیا! کہنے لگا مجھ کو کس بات نے ذلیل کیا ہے؟ ایک شخص کو تم نے مار ڈالا۔ کیا ہوا؟کیا تم نے آج تک کسی ایسے آدمی کو قتل کیا ہے جو مجھ سے زیادہ معزز اور صاحبِ رتبہ ہو؟ اچھا یہ بتاؤ کہ فتح کس کی ہوئی؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ ابوجہل نے مجھ سے اپنے آخری وقت میں جبکہ مَیں نے اس کی گردن پر قدم رکھا،کہا تھا کہ اے بکریوں کے چرانے والے ذلیل چرواہے! تو ایسی جگہ پر چڑھ گیا ہے جہاں تجھے نہیں چڑھنا چاہیے تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ پھر مَیں نے اس کا سر کاٹ لیا اور حضورﷺ کی خدمت میں لا کر آپؐ کے پاؤں میں ڈال دیا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! یہ دشمنِ خدا ابوجہل کا سر ہے۔ حضورؐ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا: اَللّٰہُ الَّذِی لَا اِلٰہَ غَیرُہٗ۔ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں آنحضرتﷺکی دعااورکفارکی طرف کنکریاں پھینکنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:صحیح بخاری میں ہے کہ جب آنحضورﷺ خیمے میں دعا کر رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! بس کیجیے۔ آپؐ نے اپنے رب سے دعا مانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپؐ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ خیمے سے نکلے اور آپؐ یہ پڑھ رہے تھے کہ سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَالسَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَاَمَرُّ۔ (القمر:46-47) عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے۔اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ’’غرض کیا مہاجر اورکیا انصار سب مسلمان پورے زوروشور اور اخلاص کے ساتھ لڑے۔ مگر دشمن کی کثرت اوراس کے سامان کی زیادتی کچھ پیش نہ جانے دیتی تھی اورنتیجہ ایک عرصہ تک مشتبہ رہا۔ آنحضرتﷺ برابر دعا و ابتہال میں مصروف تھے اورآپؐ کا اضطراب لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا مگر آخر ایک کافی لمبے عرصہ کے بعد آپؐ سجدہ سے اٹھے اور خدائی بشارت سَیھْزَمُ الْجَمْعُ وَیوَلُّوْنَ الدُّبُرَ کہتے ہوئے سائبان سے باہر نکل آئے…‘‘حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:’’اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاءﷺ نے جنگِ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اِسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے … یعنی جب تونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخر پر احباب جماعت کو دعا کے حوالے سے کیا تحریک فرمائی؟
جواب:فرمایا:کچھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔مظلوموں کی دادرسی فرمائے۔ ان کو ایسی لیڈرشپ یا راہنما عطا فرمائے جو ان کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کی صحیح راہنمائی کرنے والے ہوں اور انہیں ظلموں سے نکالنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ان کی اب بہت زیادہ مظلومیت کی حالت ہو چکی ہے اور لگتا ہے کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں۔ کوئی ان کو راہنمائی کرنے والا نہیں۔ مسلمان اگر ایک ہو جائیں تو ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ اسی طرح سویڈن میں اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی جو آزادیٔ رائے اور مذہبی آزادی کے نام پر غلط کام کرنے والوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور اس بہانے سے جو مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر آئے دن کچھ نہ کچھ کوئی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو مسلمانوں کے جذبات کو تکلیف پہنچانے والی ہیں انتہائی کریہہ حرکتیں ہیں۔ قرآن کریم کی بے حرمتی ہے یا آنحضرتﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی پکڑ کے سامان فرمائے۔ اس میں بھی مسلمان حکومتوں کا قصور ہے جن میں پھوٹ کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتیں اس قسم کی غلط حرکتیں کرتی ہیں۔ اگر کوئی ردّعمل ہو گا مسلمانوں کی طرف سے تو وہ بھی عارضی ہی ہو گا اور ایسا ہو گا جس کا کوئی اثر نہ ہو۔ پس مسلمان راہنماؤں اور امہ کے لیے بہت دعائیں کریں اس کی بہت ضرورت ہے۔پھرفرانس میں جو حالات ہیں یہاں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جو مسلمانوں کا ردّعمل ہے وہ بھی غلط ہے یا دوسروں کا بھی ساتھ مل کے۔ توڑ پھوڑ سے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کو اپنے عمل اسلامی تعلیم کے مطابق کرنے ہوں گے۔ جب مسلمانوں کے قول و فعل اسلامی تعلیم کے مطابق ہوں گے تو تبھی کامیابیاں بھی ملیں گی…اسی طرح پاکستان میں جو احمدی ہیں ان کے لیے بھی بہت دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔