خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2023ء کے موقع پر سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز اختتامی خطاب

کاش کہ آجکل کے مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور یہ حق قائم کریں تو امن قائم ہو۔ بجائے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے اپنے قول و فعل سے اسلام کی خوبصورت تعلیم یہ لوگ دکھانے والے ہوں لیکن ان کو عقل نہیں آ سکتی جب تک یہ زمانے کے امام ؑکو ماننے والے نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی عقل بھی عطا کرے

آج کے ترقی یافتہ لوگوں کو تو آج اس بات کا خیال آیا ہے کہ یہ قانونی کارروائیاں ہونی چاہئیں، لکھنا پڑھنا ہونا چاہیے، لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا تفصیلی حکم دیا ہے تاکہ تجارت اور لین دین اور کاروباروں میں بغیر کسی فتنے اور جھگڑے کے آرام سے سارے کام ہوتے رہیں

جو شخص تنگدست قرضدار کو مہلت دے یا اسے قرض میں سے کچھ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عرش کے سائے کے نیچے جگہ دے گا۔ اس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا

’’ا ستغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

کیا اس کے بعد بھی معاشرے میں بدامنی ہو سکتی ہے کہ اپنے بھائی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اور حق کیا ہے کہ جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ اس کے لیے بھی پسند کرو

آج یہ ہمارا کام ہے کہ ہمدردیٔ خلق کے اعلیٰ معیار قائم کریں اور انہیں پھر پھیلائیں اور دنیا کو اس سے بھی آگاہ کریں

’’اخلاقی معجزہ صداقت کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

اور یہی اخلاقی معجزہ ہے جو ہر احمدی کو دکھانا چاہیے۔ یہ وہ معیار ہیں جنہیں آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس )

’’میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں۔ ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’آج یورپ کو کہا جاتا ہے کہ عوام الناس کو یہ سہولتیں دیتے ہیں۔ اسلام میں سب سے پہلے یہ سہولتیں دی گئیں۔ ان کے حق قائم کیے گئے۔ آج مسلمان حکومتیں اگر اس بات کو دیکھ لیں، اس بات پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ان کے اندر کے فساد ختم ہو جائیں‘‘

حکومت رعایا کے فوائد اور منافع اور ضروریات اور اتفاق اور اخلاق اور حفاظت اور معیشت اور مسکن کی ذمہ دار ہے

پس عوام الناس کو سوشل ہیلپ دینا یہ مسلمان حکومتوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جس کو آج یورپ نے اپنا لیا ہے۔ مکان اور خوراک کے بغیر جسمانی زندگی محال ہے اور لباس کے بغیر اخلاقی اور تمدنی زندگی محال ہے

اسلام نے جس تفصیل سے حقوق بیان کیے ہیں اور ہر طبقے کے حقوق بیان کیے ہیں۔ اب تک مختلف سالوں میں پچیس کے قریب یہ حقوق مَیں بیان کر چکا ہوں یہ حقوق کی ادائیگی ہی وہ بنیادی اصول ہے جو ہر پُرامن معاشرے اور دنیا کے امن کی ضمانت ہے

اور اسلام ہی وہ دین ہے جس نے اس باریکی سے ان حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہمیں توجہ دلائی ہے

قرآن کریم ، احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں
لین دین، عامۃ الناس اور حکومت اور رعایا کے حقوق کا پُر معارف بیان

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2023ء کے موقع پر سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز اختتامی خطاب (فرمودہ مورخہ03؍ستمبر 2023ء بروزاتواربمقام جلسہ گاہ (Messe Stuttgart)، جرمنی )

(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

اَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

جیسا کہ میں اس سال برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے آخری اجلاس میں اور اس سے پہلے بھی دو تین جلسوں کی اختتامی تقریر میں

اسلام کے مختلف طبقات کے حقوق کے بارے میں

کچھ بیان کرتا رہا ہوں۔ آج یہاں بھی میں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا اور معاشرے کے مختلف طبقات کے بعض حقوق کے بارے میں

قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان

کروں گا۔ یہی حقوق وہ خوبصورت راہنما اصول ہیں جو معاشرے میں امن اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کو اس کا حق دلواتی ہے۔

قرض اور تجارت کے لین دین کے بارے میں

اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی حکم دیا ہے تا کہ ہر طبقے کا حق قائم کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ ؕ وَلۡیَکۡتُبۡ بَّیۡنَکُمۡ کَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ ۪ وَلَا یَاۡبَ کَاتِبٌ اَنۡ یَّکۡتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلۡیَکۡتُبۡ ۚ وَلۡیُمۡلِلِ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ وَلۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلَا یَبۡخَسۡ مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا اَوۡ لَا یَسۡتَطِیۡعُ اَنۡ یُّمِلَّ ہُوَ فَلۡیُمۡلِلۡ وَلِیُّہٗ بِالۡعَدۡلِ ؕ وَاسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰٮہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ وَلَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ؕ وَلَا تَسۡـَٔمُوۡۤا اَنۡ تَکۡتُبُوۡہُ صَغِیۡرًا اَوۡ کَبِیۡرًا اِلٰۤی اَجَلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدۡنٰۤی اَلَّا تَرۡتَابُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیۡرُوۡنَہَا بَیۡنَکُمۡ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَکۡتُبُوۡہَا ؕ وَاَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَاِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔(البقرۃ:283)

یہ ایک بڑی تفصیلی آیت ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہوجب تم ایک معین مدت تک کے لیے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے۔ اور کوئی کاتب اِس سے انکار نہ کرے۔ کوئی لکھنے والا انکار نہ کرے لکھنے سے۔ کہ وہ لکھے۔ پس وہ لکھے جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے۔ اور وہ لکھوائے جس کے ذمے دوسرے کا حق ہے، اور اللہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے، اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پس اگر وہ جس کے ذمہ دوسرے کا حق ہے بیوقوف ہو یا کمزور ہو یا استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ لکھوائے تو اس کا ولی اس کی نمائندگی میں انصاف سے لکھوائے۔ اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ یہ اس لیے ہے کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔ اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ اور لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد تک یعنی مکمل معاہدہ لکھنے سے اکتاؤ نہیں۔ تمہارا یہ طرزِعمل خدا کے نزدیک بہت منصفانہ ٹھہرے گا اور شہادت کو قائم کرنے کے لیے بہت مضبوط اقدام ہو گا اور اس بات کے زیادہ قریب ہوگا کہ تم شکوک میں مبتلا نہ ہو۔ لکھنا فرض ہے سوائے اس کے کہ وہ دست بدست تجارت ہو جسے تم اسی وقت آپس میں لے دے لیتے ہو۔ اس صورت میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اسے نہ لکھو۔ اور جب تم کوئی لمبی خرید و فروخت کرو تو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور لکھنے والے کو اور گواہ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناً یہ تمہارے لیے بڑے گناہ کی بات ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرو جبکہ اللہ ہی تمہیں تعلیم دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

پس یہ ایک تفصیلی حکم ہے، بڑا واضح ہے جس سے نہ صرف لین دین احسن طریق پر ہو گا بلکہ معاشرے کا امن بھی قائم ہو گا۔

بہت سے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا یا گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا لکھنے والوں کو روک دیا جاتا ہے یا لکھا ہی نہیں جاتا۔ معاہدے ہی نہیں ہوتے پھر لڑائی اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ پس

آج کے ترقی یافتہ لوگوں کو تو آج اس بات کا خیال آیا ہے کہ یہ قانونی کارروائیاں ہونی چاہئیں لکھنا پڑھنا ہونا چاہیے لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا تفصیلی حکم دیا ہے تا کہ تجارت اور لین دین اور کاروباروں میں بغیر کسی فتنے اور جھگڑے کے آرام سے سارے کام ہوتے رہیں۔

قرض لے کر اسے اتارنے کی کس قدر فکر ہونی چاہیے۔

اس بارے میں روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمودہ ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے بنی اسرائیل میں سے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض مانگیں تو اس نے کہا میرے پاس کوئی گواہ لے کے آؤ میں ان کو گواہ ٹھہراؤں اور رقم دے دوں۔ تو اس نے کہا کہ اللہ ہی کافی گواہ ہے۔ اس نے کہا پھر اپنا کوئی ضامن پیش کرو۔ اس نے کہا اللہ ہی کافی ضامن ہے۔ اس نے کہا تم نے سچ کہا اور اس کو مقررہ میعاد کے لیے اشرفیاں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ کی ضمانت اور گواہی پر قرض دے دیا۔ جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام سرانجام دیا اور اس کے بعد جہاز کی تلاش کی کہ جس پر سوار ہو کر اس کے پاس اس میعاد پر پہنچ جائے جو اس نے مقرر کی تھی یعنی وہاں واپس آئے اور قرض دینے والے کا قرض اتار سکے مگر اس نے کسی جہاز کو نہیں پایا۔ آخر اس نے ایک لکڑی لی اور اسے کریدا اور اس میں ایک ہزار اشرفیاں اور اپناایک خط اپنے دوست کے نام رکھ دیا پھر اس کا منہ بند کر دیا اور پھر اسے لے کر سمندر پر آیا اور کہا اے میرے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار اشرفیاں لی تھیں اور اس نے مجھ سے ضامن مانگا تھا اور میں نے کہا تھا اللہ ہی کافی ضامن ہے اور وہ تیرا نام سن کر راضی ہو گیا تھا اور اس نے مجھ سے گواہ مانگا تھا اور میں نے کہا تھا اللہ ہی کافی گواہ ہے اور وہ تیرا نام سن کر راضی ہو گیا تھا اور میں نے بہت کوشش کی کوئی جہاز پاؤں کہ تا اس کا مال اس کو بھیج دوں مگر میں نہ کر سکا اور اب میں یہ مال تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں ڈال دی یہاں تک کہ وہ سمندر میں آگے چلی گئی۔ اس نے کہا اب اَور کوئی ذریعہ نہیں تو اللہ پہ توکل کرتے ہیں۔ پھر اللہ کے توکل کا کیا نتیجہ نکلا اس کے بعد وہ واپس گھر آ گیا اور جہاز کی تلاش میں پھر بھی رہا تا کہ اپنے ملک واپس جا سکے۔ وہ شخص جس نے اس کو قرض دیا ہوا تھا ایک دن باہر نکلا کہ دیکھیں شاید کوئی جہاز اس کا مال یا روپیہ لے کر آیا ہو تو اس کی نظر اس لکڑی پر پڑی جس کے اندر مال رکھا ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے گھر والوں کے لیے ایندھن سمجھ کے لے گیا۔ جب اس نے اس کو چیرا تو اس میں مال اور خط پایا۔ پھر کچھ مدت کے بعد وہ شخص بھی آ پہنچا جس کو اس نے مال قرض دیا تھا۔ وہ ایک ہزار دینار اپنے ساتھ لایا اور کہا اللہ کی قسم! میں نے جہاز کی انتہائی تلاش کی تھی تا تمہارا مال تمہیں واپس کروں مگر جس جہاز میں مَیں آیا ہوں اس سے پہلے میں نے کوئی جہاز نہیں پایا تو قرض خواہ نے کہا کیا تو نے کوئی رقم میرے لیے بھیجی تھی۔ اس نے کہا کہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ مجھے اس جہاز کے سوا جس میں اب آیا ہوں کوئی جہاز نہیں ملا۔ قرض خواہ نے کہا کہ اللہ نے تیری طرف سے وہ مال مجھے پہنچا دیا ہے جو تو نے لکڑی میں بند کر کے بھیجا تھا۔ پس تو اطمینان سے ایک ہزار اشرفیاں لے کر واپس لوٹ جا۔

(صحیح البخاری کتاب الکفالۃ باب الکفالۃ فی القرض والدیون حدیث 2291)

یہ ایمانداری دونوں طرف سے ہمیں ملتی ہے۔ پس یہ ایمان کی حالت ہے اور یہ قرض اتارنے کی فکر ہے جو ایک قرض دار کو ہونی چاہیے۔اور پھر جس کا قرض اتارنا تھا اس کی ایمانی حالت بھی کس اعلیٰ معیار کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے ادائیگی کا سامان کر دیا تو پھر دھوکے سے دوبارہ لینے کی کوشش اس نے نہیں کی۔

پس یہ وہ معیار ہیں جو ہمارے اندر ہونے چاہئیں اور یہی وہ معیار ہیں جن سے ہم اپنے ایمان میں کامل اور اپنے عہد بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے جو کاروبار کرتے ہیں یا لین دین کرتے ہیں۔

پھر

قرض دار کو سہولت دینے کا حق اسلام قائم کرتا ہے۔

چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تنگدست قرضدار کو مہلت دے یا اسے قرض میں سے کچھ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عرش کے سائے کے نیچے جگہ دے گا۔ اس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔

(سنن الترمذی ابواب البیوع باب ما جاء فی انظار المعسر والرفق بہ حدیث 1306)

ایک مومن جسے عرش کے سائے کی فکر ہے اس کے لیے کتنی بڑی ضمانت ہے۔ یہ باتیں ہیں جو حسین معاشرے کو قائم کرتی ہیں۔

لیکن بہت سارے معاملات آتے ہیں ایسے جھگڑے اٹھتے ہیں جہاں دھوکے دیے جاتے ہیں ایک دوسرے کو یا انکار کیے جاتے ہیں یا دوہری دوہری رقمیں وصول کی جاتی ہیں یا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے لیے مقدمے بازیاں ہوتی ہیں۔ پس ہمارے معاشرے میں تو یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ایک حسین اور پاک معاشرہ ہونا چاہیے ہمارا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر قرض داری اور گناہ سے پناہ مانگتے تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کیوں قرض داری سے بہت پناہ مانگتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا

جو قرض دار ہو گا وہ جھوٹی بات کہے گا اور وعدہ خلافی کرے گا۔

(سنن النسائی کتاب الاستعاذة باب الاستعاذۃ من المغرم والمأثم حدیث 5456)

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسی کوئی بات نہیں کر سکتے تھے۔ آپؐ اپنی امّت کو سبق دے رہے ہیں، نصیحت فرما رہے ہیں کہ قرض لے کر جھوٹے وعدے نہ کرو اور صاف ستھری بات قرض لیتے وقت بھی کرو اور پھر اپنی نیتوں کوبھی صاف رکھو۔

بہت سے لوگ قرض اتارنے کی توفیق ہوتے ہوئے بھی بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہیں ا ور پھر جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔

پس ہر قرض دار کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔

قرض سے نجات اور جلد اتارنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک نسخہ بیان فرمایا ہے۔

اللہ پر توکل ہو، اللہ سے دعا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی قرض سے نجات اور جلد اتارنے کے سامان فرما دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کیا کہ میرا قرض بہت ہے دعا کریں اتر جائے۔ اب بہت لوگ لکھتے رہتے ہیں قرض کی دعا کے لیے تو آپؑ نے فرمایا:

’’ا ستغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 206۔ایڈیشن 1984ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رویّہ قرض کی ادائیگی کا کیا تھا؟

’’ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپؐ نے قرضہ دینا تھا۔اس نے آ کر سخت کلامی شروع کی اور گو ادائیگی قرض کی میعاد ابھی پوری نہ ہوئی تھی۔‘‘ جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کے مطابق ابھی وقت تھا ’’مگر آپؐ نے اس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیجا کہ فلاں شخص سے جا کر کچھ قرض لے آؤ اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا۔ جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہ کو اس یہودی پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے کے لئے تیار ہو گئے مگر آپؐ نے فرمایا اسے کچھ مت کہو، کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا۔ ‘‘ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفصیل بھی لکھی ہے کہ ’’جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت آپؐ مدینہ اور اس کے ارد گرد کے بہت سے علاقہ کے بادشاہ ہو چکے تھے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگین تھا یہ سارا علاقہ، آپؐ کی حکومت تھی وہاں ’’اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپؐ کا اس یہودی کی سختی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھی۔‘‘ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ’’چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ‘‘ آپؐ کی اس عاجزی کو دیکھ کے اور انصاف کو دیکھ کے’’وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔‘‘

(دنیا کا محسن،انوارالعلوم جلد 10صفحہ 302 – 303)

قرض کی ادائیگی کی پابندی اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ لوگ ایک جنازہ کندھوں پر اٹھائے ہوئے آئے۔ ورثاء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس میت کا نماز جنازہ پڑھا دیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے اس صاحب کے ذمے کوئی قرض تو نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا صرف دو دینار قرض ہے۔ اتنے غریب تھے وہ لوگ دو دینار بھی اتار نہیں سکتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ تم خود ہی اپنے صاحب کا نماز جنازہ پڑھ لو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقروض آدمی کا نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی برکت سے محروم نہ ہو جائے ،دعا کی برکت سے محروم نہ ہو جائے۔ جلدی سے خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں میں ادا کر دوں گا اور میت اس سے بری الذمہ ہے۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کا جنازہ پڑھایا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا۔ اللہ تعالیٰ تجھے بھی رہن سے آزاد کرے جس طرح تم نے اپنے بھائی کو آزادی دلائی ہے۔

ہر میت اپنے قرض کے سبب رہن رکھا ہوا ہوتا ہے اور جو شخص کسی میت کو اس سے چھڑائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس کے دَین سے آزادی دلائے گا۔

(سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 6 صفحہ 121 کتاب الضمان حدیث 11399 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

پس یہ اہمیت ہے۔ یہ ہے وہ معیار جو ایک مومن کی شان ہے کہ قرض اتارنے میں دوسروں سے ہمدردی کا سلوک کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے وہ محروم نہ رہے اس لیے آپ نے ہمدردی کی تھی اور یہ مقروض کی بھی ذمہ داری ہے جس کو ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے کہ حتی المقدور کوشش ہو کہ قرض وقت پر ادا ہوجائے اور ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے۔

قرضداروں کی ادائیگی کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح مدد فرمایا کرتے تھے خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے دین کے لیے قربانیاں دی ہوں۔

اس بارے میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے باپ احد کی جنگ میں شہید ہوئے اور انہوں نے چھ بیٹیاں پیچھے چھوڑیں۔اسی طرح اپنے اوپر قرضہ بھی چھوڑا۔ جب ان کے باغ کی کھجور کاٹنے کا وقت آ پہنچا تو کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! آپ کو علم ہی ہے کہ میرے والد احد کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے اور انہوں نے بہت سا قرضہ اپنے ذمہ چھوڑا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپؐ تشریف لائیں اور قرض خواہ آپ کو دیکھیں تو شاید قرض میں کچھ تخفیف کر دیں ،کچھ کمی کر دیں ،کچھ رعایت دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا! جاؤ اور ہر قسم کی کھجور جو تمہاری پکی کھجور ہے اس کو الگ الگ ڈھیر کر دو۔ چنانچہ کہتے ہیں میں واپس آیا اور ایسا ہی کیا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے گیا تو قرض خواہوں نے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ تشریف لے آئے ہیں تو مجھ سے اَور بھی سختی سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ کہتے ہیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو آپؐ کھجوروں کے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین بار گھومے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیر میں سے انہیں ماپ ماپ کر دینا شروع کیا جو جس جس کا قرض تھا وہ دینا شروع کیا کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ اللہ نے میرے والد کا کل قرضہ ادا کر دیا اور بخدا میں تو اس بات پر راضی تھا کہ اللہ میرے باپ کا قرضہ ادا کر دے چاہے میں اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور بھی نہ لے کر جاؤں لیکن جتنے ڈھیر وہاں تھے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سےبچ رہے۔اور

خدا کی قسم! میں اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے وہ ایسا ہی رہا جیسے ایک کھجور بھی اس میں سے کم نہیں ہوئی۔

(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب قضاء الوصی دیون المیت … الخ حدیث 2781)

پس یہ آپؐ کی شفقت تھی ان لوگوں کے بچوں کے لیے جو دین کی راہ میں قربان ہوئے اور انہیں دعا دی اور قرض بھی اتر گیا۔یہ نہیں کہ قرض خواہوں کو مہلت دی کہ تم بعد میں لے لینا بلکہ قرض اتارا اور بچوں کو ان کا مال بھی مل گیا۔

پھر

عامۃ الناس کے حقوق اسلام قائم کرتا ہے۔

عامۃ الناس کے حقوق بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ عبادت کے حق کے بعد اپنے والدین رشتے داروں اور معاشرے کے ہر طبقے کے حق کو ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِي الْقُرْبٰی وَ الْيَتٰمٰی وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۔ (البقرۃ:84)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل کا میثاق ان سے لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کروگے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اس کے باوجود تم میں سے چند کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے۔ اور تم اِعراض کرنے والے تھے۔

یہ مثال دے کے مسلمانوں کو کہا گیا کہ تم نے پابندی کرنی ہے۔ پس اس میں تمام قسم کے حقوق بیان کر دیے۔

خوبصورتی یہ ہے کہ صرف قریبیوں اور رشتہ داروں یا محدود محروم طبقے تک بات نہیں رکھی بلکہ تمام انسانوں سے حُسنِ سلوک کرنے اور ان کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ خوبصورت تعلیم ہے جس سے دنیا کے امن کی ضمانت ملتی ہے۔

پہلے نبیوں کی تعلیم کو ان کے ماننے والوں نے بھلا دیا لیکن مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ تم نہ بھلا دینا ،تم ہمیشہ یاد رکھنا۔اور پھر ہم جنہوں نے اس زمانے کے امام کو بھی مانا ،جنہوں نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے ذریعہ سے ہمیں نئے سرے سے اسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا اور ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم تعلیم کی پابندی کریں گے تو ہمارے لیے یہ حکم ہے۔ عوام الناس کے حقوق کی کس طرح اسلام حفاظت کرتا ہے۔ بلا تفریق مذہب کس طرح ہر ایک کا عزت و احترام کرتا ہے۔

اسلام میں مُردوں کا بھی عزت و احترام کس طرح کیا جاتا ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو کیا فرق ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ یھودی حدیث 1311)

قطع نظر اس کے کہ یہودی تھا یاکون تھا۔ جنازہ جا رہا ہے اس کے احترام میں تمہارا کھڑا ہونا ضروری ہے۔

پاکستان کے مولوی اور حکومت جو آج اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں اور لبیک یا رسول اللہ کی باتیں کرتے ہیں رسول اللہ ؐکا تو یہ حکم ہے۔کجا یہ کہ احمدیوں کے مردوں کو بھی قبروں سے نکال کے باہر رکھا جائے ،ان کے جنازوں سے روکاجائے ،ان کو دفن کرنے سے روکا جائے۔ تو یہ ان کا حال ہے تبھی اس ملک کا بھی یہ حال ہو رہا ہے۔ کاش کہ ان لوگوں کو عقل آ جائے!

حضرت انسؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث 13)محبت اور پیار کے فروغ اور حقوق ادا کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

کیا اس کے بعد بھی معاشرے میں بدامنی ہو سکتی ہے کہ اپنے بھائی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اور حق کیا ہے کہ جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ اس کے لیے بھی پسند کرو۔

ابونظرہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک ایسے آدمی نے یہ روایت بیان کی جس نے ایامِ تشریق کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے سنا کہ

اے لوگو! بلا شبہ تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ سن رکھو کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ ہی کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے ہاں مگر تقویٰ کی بنا پر۔

(مسند احمد بن حنبل جلد7 صفحہ 760 حدیث 23885 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس جب فضیلت نہیں تو پھر سب انسان بھائی بھائی ہیں۔ ا یک دوسرے کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ اور

یہ ایسا حکم ہے جو کہیں کسی مذہب میں نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں بھی اس شرط پر زور دیا ہے۔ آپؑ کی شرائط بیعت کی چوتھی شرط یہی ہے کہ کس طرح آپؑ نے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے ہیں عوام الناس کے حق ادا کرنے ہیں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے ہیں۔ چوتھی شرط میں فرمایا

’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اَور طرح سے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 189 اشتہار’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 48۔ ایڈیشن 1989ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔‘‘

’’اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کئے جاتے ہیں۔ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔‘‘

(ملفو ظات جلد8صفحہ 102،ایڈیشن 1984ء)

پس آج یہ ہمارا کام ہے کہ ہمدردی خلق کے اعلیٰ معیار قائم کریں اور انہیں پھر پھیلائیں اور دنیا کو اس سے بھی آگاہ کریں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔‘‘ اعلیٰ اخلاق ہوں تواس سے بندوں کے حق ادا ہوتے ہیں اور جب بندوں کے حق ادا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی تقویت ملتی ہے۔اس سے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پید اہوتی ہے۔ فرمایا :’’جو شخص نوعِ انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے۔‘‘ دکھاوے کے لیے اخلاق نہیں ہونے چاہئیں۔ دل سے ایک آواز نکلنی چاہیے، دل سے ہمدردی پیدا ہونی چاہیے اور فرمایا ’’وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لیے نہیں ہوتے۔ اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنادیتے ہیں۔ ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔ اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔ میں نے تذکرةالاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھاکہ ایک اسّی برس کا بوڑھا گبّر ہے‘‘ آتش پرست ہے ’’جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے۔ میں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہو گا؟ اس گبّر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہو گا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبّر طواف کر رہا ہے۔ اس گبّر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو! ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہو گئے۔‘‘ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی۔

’’حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا۔ کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہوگا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اُسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تُو مسلمان ہو گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے۔ پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دُور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جبتک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروّت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7صفحہ281-282 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا (المائدۃ:33) یعنی جس شخص نے ایسے شخص کو قتل کیا کہ اس نے کوئی ناحق کا خون نہیں کیا تھا یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا جو نہ بغاوت کے طور پر امن عامہ میں خلل ڈالتا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلاتا تھا تو اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ یعنی بے وجہ ایک انسان کو قتل کر دینا خدا کے نزدیک ایسا ہے کہ گویا تمام بنی آدم کو ہلاک کر دیا۔ ان آیات سے ظاہرہے کہ بے وجہ کسی انسان کا خون کرنا کس قدر اسلام میں جرمِ کبیر ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 394)

آج کل جو شدت پسند ملّاں بلا وجہ قتل و غارت گری کا میدان گرم کیے ہوئے ہیں یا طالبان ہیں یا دوسرے ہیں کیا یہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں یہ لوگ تو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ فساد پھیلا کر لوگوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے بھی ہیں چاہے ان کو عقل آئے یا نہ آئے یا یہ سمجھیں یا نہ سمجھیں لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے یہ لوگ آ چکے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’درجہ کمال کے دوہی حصے ہیں۔ ایک تَعْظِیْم لِاَمْرِ اللّٰہ، دوسرے شفقت عَلٰی خَلْقِ اللّٰہ۔ امر اوّل کا تعلق تو دل سے اورخدا سے ہوتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی عظمت کا خیال رکھنا ،جاننا ،پہچاننا، عمل کرنا یہ تو دل اور خدا کا معاملہ ہے ’’جس کو یکایک ہر کوئی نہیں جان سکتا۔ دوسراپہلو چونکہ خلقت سے تعلق رکھتا ہے اور اوّل ہی اوّل انسان کی نظر انسانی اخلاق پر پڑتی ہے اس واسطے اس خُلق کا کمال ایک بڑا بھاری اورشاندار معجزہ ہے۔ دیکھو !آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے کئی ایک نمونے پائے جاتے ہیں کہ بعض لوگوں نے محض آپؐ کے اخلاقی کمال کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مشرک عیسائی مہمان آیا۔ صحابہؓ اس کو اپنا مہمان بنانا چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں یہ میرا مہمان ہے اس کا کھانا میں لاؤں گا۔ چنانچہ اس مشرک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاں مہما ن رکھا اور اس کی بہت خاطر تواضع کی اورعمدہ عمدہ کھانے اس کو کھلائے اور عمدہ مکان اوراچھا بستر ہ اس کو رات بسر کرنے کے واسطے دیا مگر وہ بوجہ کھانا زیادہ کھا جانے کے بدہضمی کی وجہ سے رات بھر اسی کوٹھڑی میں رفع حاجت کرتا رہا۔ مکان اور بسترہ خراب کر دیا۔ صبح منہ اندھیرے ہی شرم کے مارے اٹھ کر چلا گیا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاش کی اور وہ نہ ملا تو بہت ہی افسوس کیا اور کپڑے جو نجاست سے آلودہ ہوگئے تھے ‘‘ بستر کو جو گندا کر گیا تھا ’’خود اپنے دست مبارک سے صاف کررہے تھے کہ وہ اتنے میں واپس آگیا کیونکہ وہ اپنی ایک بیش قیمت صلیب بھول گیا تھا۔ اس کو آتے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اوراس سے کوئی اظہار رنج نہیں فرمایا‘‘کسی قسم کا غصہ کا اظہار نہیں فرمایا ’’بلکہ آپؐ نے اس کی مدارات اورخاطر کی اور اس کی صلیب نکال کر اس کو دےدی۔ وہ شخص اس واقعہ سے ایسا متاثر ہواکہ وہیں مسلمان ہو گیا۔ اس کے سوااَورکئی ایسے ایسے واقعات اس قسم کے اعلیٰ درجہ اخلاق کے موجود ہیں۔ غرض یہ ہے کہ

اخلاقی معجزہ صداقت کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 198-199۔ایڈیشن 1984ء)

اور یہی اخلاقی معجزہ ہے جو ہر احمدی کو دکھانا چاہیے۔

یہ وہ معیار ہیں جنہیں آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسلام اس قوم کے بدمعاشوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ بعض ایک ایک روپیہ کی لالچ پر بچوں کا خون کر دیتے ہیں۔ ایسی وارداتیں اکثر نفسانی اغراض سے ہوا کرتی ہیں اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیز گاری سیکھنے کے لئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں۔

میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں۔

ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں۔‘‘

انسانوں سے دشمنی نہیں لیکن ان کی باتوں کی اصلاح چاہتا ہوں، ’’ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں۔ اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اَور عدالت میں۔ اور باایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے۔‘‘

(سراجِ منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28)

اسلام کی تاریخ میں عوام الناس کے حقوق ادا کرنے کے لیے خلفاء نے کیا کوششیں کیں۔

حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی بھلائی اور بہتری کے لیے بہت سے کام سرانجام فرمائے۔ زراعت میں بہتری اور عوام کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے نہریں کھدوائیں۔ نہر ابو موسیٰ دریائے دجلہ سے نو میل لمبی نہر بنا کر بصرہ تک لائی گئی۔ نہر معقل، یہ نہر بھی دریائے دجلہ سے نکالی گئی۔ نہر امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم سے دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملایا گیا۔ اٹھارہ ہجری میں عرب میں جب قحط پھیلا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو امداد کے لیے خط لکھا۔ فاصلہ چونکہ زیادہ تھا اس لیے امداد میں تاخیر ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے عمرو کو بلا کر کہا کہ دریائے نیل کو سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب میں کبھی قحط نہ ہو۔ عمرو نے واپس جا کر فسطاط سے بحیرہ قلزم تک نہر تیار کروائی جس کے ذریعہ بحری جہازمدینہ کی بندرگاہ جدہ تک پہنچ جاتے۔ یہ نہر انتیس میل لمبی تھی اور چھ ماہ کے عرصہ میں تیار کر لی گئی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم کو آپس میں ملانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ فَرْمَا کے پاس سے جہاں بحر قلزم اور بحر روم میں ستر میل کا فاصلہ تھا نہر نکال کر ان کو ملا دیا جائے لیکن حضرت عمرؓ یونانیوں کے ہاتھوں حاجیوں کے لوٹے جانے کے ڈر سے اس پر رضا مند نہ ہوئے اگر عمرو بن عاصؓ کو اجازت مل جاتی تو نہر سویز کی ایجاد عربوں کے حصہ میں آتی۔

حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی سہولت کے لیے مختلف عمارتیں تعمیر کروائیں۔

آج یورپ کو کہا جاتا ہے کہ عوام الناس کو یہ سہولتیں دیتے ہیں۔ اسلام میں سب سے پہلے یہ سہولتیں دی گئیں۔ ان کے حق قائم کیے گئے۔ آج مسلمان حکومتیں اگر اس بات کو دیکھ لیں، اس بات پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ان کے اندر کے فساد ختم ہو جائیں۔

ان میں مساجد بھی تھیں جو حضرت عمرؓ نے تعمیر کرائیں، عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں، بیرکس ،ملکی تعمیراتی کاموں کے لیے مختلف دفاتر، سڑکیں، پل، مہمان خانے، چوکیاں، سرائے وغیرہ۔ مدینہ سے مکہ تک ہر منزل پر چشمے اور سرائیں بنوائیں چوکیاں بھی تعمیر کروائیں۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ226تا 230مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 1991ء)

مارکیٹ کے حقوق

مارکیٹ کی جو قیمتیں ہیں ان میں بھی بعض دفعہ حکومت کی دخل اندازی ایک حد تک جائز ہو جاتی ہے۔ اسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت ہے۔ اس لیے کہ اس سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، دوسرے کاروباریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس سے پھر بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے۔ قیمت کا گرانابھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ طاقتور تاجر اِس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فروخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالیہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپؓ بازار کا دورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھاکہ وہ خشک انگور نہایت سستی قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آپؓ نے اسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اٹھا کر لے جاؤ یا پھر اسی قیمت پر فروخت کرو جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کررہے ہیں۔ جب آپؓ سے اِس حکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپؓ نے جواب دیا کہ اگر اِس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کررہے ہیں نقصان پہنچے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہیے مگر ان کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنی ہیں کہ پیداوار اور مانگ (Supply and demand) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہیے۔ ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گااور تاجر تباہ ہو جائیں گے۔(ماخوذ از اسلام کا اقتصادی نظام، انوارالعلوم جلد 18 صفحہ 53) لیکن اس طرح یہ قیمتیں جو ہیں اس میں کوئی دخل اندازی نہیں۔ پس اس حد تک اسلام معاشرے کے حقوق کو قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

پھر جو حقوق کا ذکر ہے۔

حکومت اور رعایا کے حقوق کا ذکر۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔ (النساء: 60) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملے میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے۔‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 493)

یعنی آجکل کی مغربی حکومتیں بھی اگر ہمیں یہاں accommodateکرتی ہیں اپنے اندر جذب کرتی ہیں، ہمارے حقوق ادا کرتی ہیں، ہمیں تبلیغ کی اجازت دیتی ہیں تو یہاں حکومت کی طرف سے جو قوانین واضح اسلامی ہدایات کے خلاف نہیں ہیں عمومی طور پر جو ملک کے قوانین ہیں ان میں بہرحال حکومت وقت کی، قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے اور کسی قسم کی غیر قانونی حرکتیں نہیں ہونی چاہئیں کہ جی کافر حکومت ہے اس لیے جو مرضی کر لو۔

امیر کی اطاعت کا اسلام نے حکم دیا ہے

لیکن اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے روگردانی نہ ہو۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا۔ اس پر ایک شخص کوامیر بنایا۔ اس نے آگ جلائی اور کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا مگر دوسروں نے کہا اسی سے تو ہم بھاگے ہیں۔ یعنی کہ اپنے آپ کو کیوں آگ میں ڈالیں۔ انہوں نے انکار کر دیا اور واپس آئے۔ پھر اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر ہوا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا فرمایا کہ اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور دوسروں کے بارے میں اچھی بات فرمائی اور فرمایااللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب سریۃ عبد اللّٰہ بن حذافۃ السہمی … الخ حدیث 4340)

یعنی اللہ تعالیٰ نے جب تمہیں حکم دیا ہے کہ ایسی حرکتیں نہیں کرنی تو ایسا حکم اگر امیر دے جو اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایات اور احکامات کے خلاف ہو تو اس کی نافرمانی کرنی ٹھیک ہے۔ فرمایا اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ امیر کی اطاعت اس میں ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے حکموں اور رسولؐ کے حکموں کے تابع جو حکم ہو۔ اگر وہ ان کے تابع نہیں ہے تو وہاں اطاعت ضروری نہیں ہے۔ پس خود کشی حرام ہے اس لیے یہ معروف نہیں۔

معروف کی تعریف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی واضح تعلیم پر چلنا ہے۔

حکومت کے فرائض کیا ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس پہ ایک تفصیلی خطاب فرمایا تھا۔ فرمایا کہ سب سے پہلے فرض جو اسلام حکومت پہ مقرر کرتا ہے یہ ہے کہ

حکومت رعایا کے فوائد اور منافع اور ضروریات اور اتفاق اور اخلاق اور حفاظت اور معیشت اور مسکن کی ذمہ دار ہے۔

یہ ساری باتیں حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک شخص مثل گڈریے کے ہے۔ اس چرواہے کے ہے جو اپنی بکریوں اور جانوروں کو چراتا ہے اور ان لوگوں یا چیزوں کے متعلق پورا ذمہ دار ہے جو اس کے سپرد کیے گئے ہیں۔ بادشاہ کے سپرد ایک جماعت کی گئی ہے اور وہ ان کا ہر طرح ذمہ دار اور جواب دہ ہے اورہر مرد کے سپرد ایک خاندان ہے اور وہ اس خاندان کا ذمہ دار ہے۔ اب اپنا گھر جو ہے اس کا ذمہ دارمرد ہے بیوی اور بچوں کا ذمہ دار مرد ہے اس لیے یہ کہنا کہ عورتیں کام کریں یا عورتوں کا مردوں کی بات نہ ماننا، جائز باتیں بھی نہ ماننا یہ بھی غلط ہے۔ اگر مرد اپنے نمونے دکھائیں تو گھروں میں امن اور سکون قائم رہے گا۔ فرمایا کہ وہ اس خاندان کا ذمہ دار ہے اور جواب دہ ہے اور نوکر کے سپرد اس کے آقاکی جائیداد اور مال ہے۔ اسی طرح جو ملازم پیشہ ہیں ان کا کام ہے اپنے مالک کی جہاں تک نوکری کر رہے ہیں ایمانداری سے نوکری کریں اور وہ اس کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ اس حکم سے ظاہر ہے ہر ایک اپنے اپنے حلقے میں گڈریے کی طرح ہے، رکھوالے کی طرح ہے ،نگران کی طرح ہے۔یہ نہیں ہے کہ کوئی اس سے آزاد ہو جاتا ہے۔

نوکر سے لے کے بادشاہ تک سب اپنے اپنے کام کے ذمہ دار ہیں ا ور اس بارے میں پوچھے جائیں گے۔

اس حکم سے ظاہر ہے کہ اسلام نے بادشاہ کو مثل گڈریے کے قرار دیا ہے جس کے سپرد مالک ایک ریوڑ کرتا ہے۔ پس جس طرح اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسے بکھرنے اور پراگندہ نہ ہونے دے۔ بھیڑئیے کے حملے سے بچائے اس کی صحت کا خیال رکھے خوراک کا خیال رکھے مکان کا خیال رکھے۔ غرض ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھے اسی طرح حکومت اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو تفرقہ اور فساد اور ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور بیرونی حملوں سے بچائے اور ان کی تمام ضروریات کی فکر رکھے خواہ وہ علوم کے متعلق ہوں، خواہ تربیت کے ،خواہ خوراک کے ،خواہ رہائش کے، خواہ صحت کے، خواہ اور کسی قسم کے ہوں۔ پس

اگر ہماری اسلامی حکومتیں ان باتوں کا خیال رکھنے لگیں تو آج کل جو آئے دن فتنہ و فسادہوتا ہے یا آوازیں اٹھتی ہیں یا coup ہوتے ہیں یا ہڑتالیں ہوتی ہیں یا جنگیں ہوتی ہیں یہ نہ ہوں۔ کاش کہ مسلمان حکمران اسلامی حکموں کی تعمیل کرنے والے ہوں!

یہ تعلیم تو عام ہے اس کے علاوہ تفصیلی فرائض یہ ہیں کہ

اسلامی حکومت اس امر کی ذمہ دار رکھی گئی ہے کہ وہ ہر ایک شخص کے لیے خوراک، لباس اور مکان مہیا کرے۔

یہ ادنیٰ سے ادنیٰ ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا حکومت کے ذمے ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ چیز جس کی حفاظت ان کے سپرد کی گئی ہے زندہ نہیں رہ سکتی۔

پس عوام الناس کو سوشل ہیلپ دینا یہ مسلمان حکومتوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جس کو آج یورپ نے اپنا لیا ہے۔ مکان اور خوراک کے بغیر جسمانی زندگی محال ہے اور لباس کے بغیر اخلاقی اور تمدنی زندگی محال ہے۔

(ماخوذ از احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوارالعلوم جلد 08صفحہ 295تا 296)

حسن کہتے ہیں ایک روایت میں آتا ہے کہ عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسارؓ کے پاس گئے وہ بیمار تھے انہوں نے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا میں تمہیں ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جو میں تمہیں سنانے والا نہیں تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ جب کسی بندے کو رعایا کا نگران بناتا ہے اور وہ اس حال میں مر جاتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دے رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔

(صحيح مسلم کتاب الایمان باب استحقاق الوالی الغاش … الخ حدیث 363)

کاش کہ مسلمان لیڈروں کو یہ سمجھ آ جائے۔

حضرت عمرؓنے رعایا کا حق ادا کرنے کی کس طرح کوشش کی

اس کے بےشمار واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں سارے عرب سے لوگ جمع ہو کے مدینہ آگئے تھے۔حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ان کا انتظام کریں اور انہیںکھانا کھلائیں۔ مدینہ کے چاروں طرف حضرت عمرؓ نے مختلف اصحاب کی ڈیوٹی لگا دی تھی جو ایک ایک لمحے کی خبر شام کو جمع ہو کر آپؓ کو دیتے تھے۔ لوگوں کا ایک گروہ بنو سلمیٰ کے نواح میں بھی جمع تھا جو مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ پس جب لوگ رات کا کھانا کھا چکے تو ان کا شمار کیا گیا تو سات ہزار کے قریب افراد نے کھانا کھایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان کی عورتوں کا بھی شمار کرو اور مریضوں اور گھروں میں رہ جانے والوں کا بھی شمار کرو تو وہ چالیس ہزار کی تعداد ہوئی جو روزانہ شام کو کھانے میں حاضر ہوتی۔ چند دن میں یہ تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ تمام لوگ اس وقت تک مدینہ میں رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بارش نازل نہ ہو گئی۔ جب بارش نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے عاملین کو حکم دیا کہ لوگوں کی واپسی کا انتظام کریں اور زادِ راہ کے لیے سواری اور غلہ ساتھ دیں۔ پس راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ  بھی بذات خود ان لوگوں کو روانہ کرنے کے لیے آتے تھے اور اپنے ہاتھ سے زادِ راہ دیتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3صفحہ240 تا 241 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

(سیرت اعلام النبلاء جلد 28 صفحہ 86 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 2014ء)

رعایا کے حقوق مقرر کرنے اور اس کی ادائیگی میں حضرت ابوبکر ؓکی کیا ہدایات تھیں اور آپؓ نے یہ انصاف کس طرح قائم فرمایا۔

اس بارے میں لکھا ہے کہ عہد نبوت میں جن غیر مذاہب کے پیروؤں کو اسلامی ممالک میں پناہ دی گئی تھی اور عہد ناموں کے ذریعہ سے ان کے حقوق متعین کر دیے گئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓنے نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھا بلکہ اپنی مہر و دستخط سے ان کی توثیق فرمائی۔ اسی طرح خود

ان کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے وہاں کے ذمی رعایا کو تقریباً وہی حقوق دیے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔

چنانچہ اہل حیرہ سے جو معاہدہ ہوا اس کے یہ الفاظ تھے کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے۔

آج مسلمانوں کے عمل دیکھیں۔ہماری مسجدیں بھی، گرجے خانقاہیں کیا، احمدیوں کی مسجدیں گرائی جاتی ہیں۔عیسائیوں کے چرچ تو یہ گراتے ہی ہیں۔

ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا قصر گرایاجائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں۔ ناقوس یعنی گھنٹے بجانے کی ممانعت نہیں ہو گی۔وہ اپنی عبادت کے لیے بلانے کے لیے گھنٹے بجاتے ہیں بجائیں۔اور تہوار کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے نہ جائیں گے۔ یہ معاہدہ طویل ہے یہاں صرف وہی نقل کیے گئے ہیں جن سے مسلمانوں کی غیر معمولی مذہبی رواداری کا ثبوت ملتا ہے۔

خلیفہ اوّلؓ کے عہد میں جزیہ یا ٹیکس کی شرح آسان تھی اور انہی لوگوں پر مقرر کرنے کا حکم تھا جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے ہوں۔چنانچہ حیرہ کے سات ہزار باشندوں میں سے ایک ہزار بالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر کیے گئے تھے۔ معاہدوں میں یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ذمی بوڑھا، اپاہج اور مفلس ہو جائے گا تو وہ جزیہ سے بری کر دیا جائے گا نیز بیت المال اس کا کفیل ہو گا۔

(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجدصفحہ 183البدر پبلیکیشنز لاہور2000ء)

(کتاب الخراج لابی یوسف فصل فی الکنائس والبیع صفحہ148 مطبوعہ المکتبہ التوفیقیہ2013ء)

(ابوبکر الصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ318مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

کیا دنیا کی تاریخ ایسی بے تعصّبی اور رعایا پروری کی نظیر پیش کر سکتی ہے؟ آج اگر کچھ دیتے ہیں تو اب بھی وہ حقوق ادا نہیں ہوتے جس طرح اس زمانے میں ہوتے تھے۔

حضرت عمرؓ نے

امیر اور رعایا کے فرائض

کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ حضرت سلمہ بن شہاب عبدی ؓکہتے ہیں حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: اے رعایا! ہمارے تم پر کچھ حقوق ہیں۔ ہماری غیر موجودگی میں بھی تم ہمارے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرو۔ یہ ہمارا حق ہے۔ حکومت کا حق ہے کہ رعایا حکومت کی خیرخواہی کا معاملہ کرے اور خیر کے کاموں میں ہماری مدد کرو اور اللہ کے نزدیک امام کی بردباری اور نرمی زیادہ پسندیدہ اور فائدے کے لحاظ سے زیادہ اہم ہے۔ اور امام کی جہالت اور سختی اللہ کو زیادہ ناپسندیدہ ہے۔اور امام یا امیر کا کام یہ ہے اس کی بردباری اور نرمی ہو اور سختی نہ ہو کیونکہ وہ جہالت ہے۔

(حیاۃ الصحابہ از محمد یوسف کاندھلوی جلد 2 صفحہ 306 باب حق الامیر علی الرعیۃ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1999ء)

پس

جہاں لوگوں کو قانون کے دائرے میں رہنے کی نصیحت فرمائی وہاں امراء کو بھی ان کے حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔

اسلامی حکومت میں کس طرح حق کا خیال رکھا جاتا تھا؟

ابوقبیل سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے رعایا کی خبر گیری کے لیے ایک شخص جس کا نام ابوالجیش تھا مقرر کیاہوا تھا۔ پس وہ ہر روز مجالس کا دورہ کرتا اور پوچھتا کہ کیا کسی کا بچہ پیدا ہوا ہے یا کسی کے ہاں کوئی مہمان آیا ہے۔ پس جب وہ خبر لے آتاتو وہ اس خبر کو رجسٹر پر نوٹ کر لیتا تا کہ اس کے رزق کا انتظام کیا جا سکے۔

(البدایۃ والنہایۃ جلد 11 صفحہ 437-438 مطبوعہ دار ھجر بیروت 1998ء)

کاش کہ آجکل کے مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور یہ حق قائم کریں تو امن قائم ہو۔ بجائے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے اپنے قول و فعل سے اسلام کی خوبصورت تعلیم یہ لوگ دکھانے والے ہوں لیکن ان کو عقل نہیں آ سکتی جب تک یہ زمانے کے امامؑ کو ماننے والے نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی عقل بھی عطا کرے۔

خدا تعالیٰ ہمیں اسلام کی تعلیم کے مطابق ان حقوق کو سمجھنے اور اپنے ذمہ جو ہمارے یہ حقوق ہیں ان کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مختلف وقتوں میں جیسا کہ میں نے بتایا تھا حقوق کی تفصیل بتا رہا ہوں۔

اسلام نے جس تفصیل سے حقوق بیان کیے ہیں اور ہر طبقے کے حقوق بیان کیے ہیں۔ اب تک مختلف سالوں میں پچیس کے قریب یہ حقوق مَیں بیان کر چکا ہوں۔

یہ حقوق کی ادائیگی ہی وہ بنیادی اصول ہے جو ہر پُرامن معاشرے اور دنیا کے امن کی ضمانت ہے اور اسلام ہی وہ دین ہے جس نے اس باریکی سے ان حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہمیں توجہ دلائی ہے۔

پس ہر احمدی کو جہاں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہیے وہاں اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کرنے کی ضرور ت ہے۔ مسلمانوں کو بھی اس خوبصورت تعلیم کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور غیر مسلموں کو بھی اس سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

پس اس ذمہ داری کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا بھی چاہیے اور اس کو ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ اب ہم دعا کریں گے۔اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو خیریت سے اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ جو بھی انہوں نے یہاں سیکھا ،سنا ،سمجھا اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرے یہ بھی بتادوں کہ اب تو حکومت کی طرف سے یہی اعلان ہے کہ کووڈ (covid) کی بیماری یہاں جرمنی میں ختم ہو گئی ہے لیکن ان دنوں میں بھی بعض لوگوں کا پتہ لگا ہے مجھے کہ ان کو کووڈ کی بیماری ہوئی ہے۔اس لیے عمومی طور پر ہر ایک کو احتیاط کرتے رہنا چاہیے اور ہومیو پیتھک دوائیاں اگر یہاں حکومت کی طر ف سے منع نہیں۔ ان کو کھانا چاہیے۔ اول تو نہیں منع ،اپنے طور پر ہر ایک اپنی ذمہ داری سے لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے اور سب کو اللہ تعالیٰ اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خیریت سے اپنے گھروں کو جائیں۔ دعاکر لیں۔ (دعا)

دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا: السلام علیکم ورحمة اللہ۔ حاضری کے بارے میں بھی رپورٹ دے دوں جو ان کی حاضری کی رپورٹ ہے۔ مستورات کی حاضری تیئس ہزار چھ سو پندرہ (23,615) اور مرد حضرات کی تیئس ہزار چھ سو بائیس (23,622)۔ صرف چھ مرد ہی زائد ہیں۔لیکن ایک بات میں یہاں بتا دوں کہ صبح اس دفعہ میں نے دیکھا کہ لجنہ کے ہال میں خاموشی اور ڈسپلن یہاں مردوں کی نسبت زیادہ تھا اور اجتماع کے بعد بھی انہوں نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ تبلیغی مہمانوں کی حاضری 970۔ کُل حاضری سینتالیس ہزار دو سو سینتیس (47,237) اور گذشتہ سالوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ 2019ء میں تینتالیس ہزار تھی اب سینتالیس ہزار ہے، چار ہزار زیادہ ہے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ تا ۲۷؍ جولائی ۲۰۲۴ء (سالانہ نمبر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button