صحت

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۱۳) (قسط۸۱)

(ڈاکٹر لبینہ وقار بسرا)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

ملی فولیم

Millefolium

(Yerrow)

ملی فولیم کا جریان خون سے خاص تعلق ہے اور بالعموم اس کا جریان خون سرخ ہوتا ہے مگر بورک (Dr. Boericke) نے بھی اسے صرف سرخ خون کے جریان تک محدود رکھا ہوا ہے اور وریدوں (Veins)سے اس کا کوئی تعلق نہیں جوڑا لیکن کینٹ (Dr. Kent) اس کے متعلق پہلے فقرہ میں ہی اس کو ویری کوز و ینز (Vericose Veins) میں چوٹی کی دوا بتاتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے اخراج خون کو ہمیشہ سرخ نہیں بلکہ عموماً سرخ بیان کرتا ہے۔ بہر حال اگر چہ سرخ خون ہی نکلتا ہے مگر جریان خون کی خواہ وہ کالا ہی ہو یہ اولین دوا ہے۔ اس سے بڑھ کر جریان خون کی علامات شاید ہی کسی اور دوائی میں پائی جاتی ہوں۔ اگر کینسر کے زخموں سے خون کا جریان زیادہ ہو تو اس کی روک تھام میں بھی یہ مفید ہو سکتی ہے۔ کینسر کے زخم پر خالص شہد کا لیپ بار بار لگانے سے بھی افاقہ ہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے۔(صفحہ601)

مورگن کو Morgon co

اگر انتڑیوں کی تکلیف کے ساتھ پاؤں اور ٹانگوں پر سوزش اور ورم ہو، جلد بھی متاثر ہو، ذرا سی رگڑ لگنے سے خراش پیدا ہو جائے اور زخم بن جائے تو اس دوا کے مداح ڈاکٹر اس تکلیف میں بھی اسے بہت زوداثر اور مفید بتاتے ہیں۔ (صفحہ605)

میوریٹیکم ایسیڈم

Muriaticum acidum

چہرہ پر دانے نکلتے ہیں ، ہونٹ خشک ہو کر پھٹ جاتے ہیں، زبان پیلی پیلی اور سوجی ہوئی اور بالکل خشک ہوتی ہے اور کئی دفعہ زبان اور منہ میں السر بھی ہو جاتے ہیں۔ (صفحہ608)

بعض مریضوں میں چھونے سے زود حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ نا قابل برداشت ہو جاتی ہے حتیٰ کہ مریض اپنے آپ کو چادر سے ڈھانپنا بھی پسند نہیں کرتا۔(صفحہ608)

میوریٹک ایسڈ میں باوجود اس کے کہ جلد حساس ہوتی ہے، اندرونی طور پر فالج کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ اس قسم کے تضادات دوا کو پہچاننے میں مدد دیتے ہیں۔ جسم بےجان محسوس ہوتا ہے مگر جلد کے اوپر ہلکا سا چھونے سے بھی جھر جھری آجاتی ہے۔ ایگیر یکس سٹیفی سیگر یا اور اوگزیلک ایسڈ میں بھی احساس کی تیزی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پکرک ایسڈ بھی بہت حساس دوا ہے۔ اگر ان دواؤں میں دباؤ مضبوط ہو تو قابل برداشت ہوتا ہے لیکن ہلکا ہاتھ برداشت کرنا مریض کے لیے مشکل ہوتا ہے اور وہ ہاتھ جھٹک دیتا ہے۔ (صفحہ609)

نیٹرم کاربونیکم

Natrum carbonicum

(Carbonate of Sodium)

نیٹرم کا رب کی جلدی بیماریوں میں انگلیوں کے کناروں یا پاؤں کے پنجوں کے کناروں اور انگلیوں کے جوڑوں پر خصوصیت کے ساتھ ابھار پیدا ہوتے ہیں۔ جسم کے دوسرے حصوں پر جگہ جگہ چٹاخ سے بن جاتے ہیں۔ خارش گول گول ٹکڑوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ ہرپیز (Herpes)میں بھی یہ دوا مفید ہے۔ اگر چہ ہر پیز کی علامتوں سے اس دوا کو امتیازی طور پر پہچاننا آسان نہیں ہے۔ اگر مریض میں نیٹرم کا رب کی علامتیں موجود ہوں اور دوسری دواؤں سے ہر پیز کو فائدہ نہ ہو تو نیٹرم کا رب کو بھی استعمال کر کے دیکھنا چاہیے۔ سوڈیم اور کاربونیٹ دونوں اعصاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اس پہلو سے ہر پیز جو بنیادی طور پر اعصابی تکلیف ہے اس کا مریض اس دوا سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔(صفحہ612)

نیٹرم کا رب میں ناک کے سر پر کچے کچھے ناسور ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ اس کی خاص علامت ہے کہ ناک کی چونچ کسی نہ کسی جلدی بیماری میں مبتلا رہتی ہے۔ اگرناک پر پھوڑے بن جائیں تو اس میں بھی مفید ہے لیکن ایک دفعہ ایک مریض کو نیٹرم کا رب سے فائدہ نہیں ہو رہا تھا ، جب میں نے اسے پروپلس (Propolis)کی مرہم بنا کر دی جو شہد کی مکھی خود اپنے لیے جراثیم کش دوا کے طور پر بناتی ہے تو ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ میں اس کا زخم بالکل ٹھیک ہو گیا۔ شہد کینسر کے زخموں اور آنکھوں کے ناسور وغیرہ میں بھی غیر معمولی اثر دکھاتا ہے۔ پروپلس بہت طاقتو ر دوا ہے لیکن کیمیائی لحاظ سے بہت ہلکی ہے۔ ایک دفعہ فرانس میں یہ تحقیق ہوئی کہ دنیا میں جتنے بھی کیڑے مکوڑے ہیں وہ سب کچھ نہ کچھ جراثیم (Bacteria) اٹھائے پھرتے ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم کیا جائے کہ ہر قسم کے کیڑے مکوڑے کا کس خاص بیکٹیریا سے تعلق ہے۔ جس سائنس دان نے شہد کی مکھی پر تحقیق کی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شہد کی مکھی کے بدن پر کسی بیکٹیریا کا کوئی نشان نہیں ملتا اور وہ ہر قسم کے جراثیم سے کلیۃًپاک ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی جس سے ایک نئے تحقیقی دور کا آغاز ہوا کہ کیا وجہ ہے کہ شہد کی مکھی ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہوتی ہے۔ قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ فِيْهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ جب فرانس میں یہ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ شہد کی مکھی اتنی صفائی پسند ہے کہ شہد کے ہر چھتے کے کنارے پر یہ ایک کیمیکل لگاتی ہے جس کا نام پروپلس (Propolis)ہے۔ مکھی پروپلس کو سفیدے اور دوسرے درختوں سے رسنے والے موم سے تیار کرتی ہے اور اپنے چھتے کے کناروں پر ہر طرف مل دیتی ہے۔ جب بھی اندر جاتی ہے پہلے کنارے پر پاؤں رکھتی ہے۔ جب باہر آتی ہے پھر بھی اس پر پاؤں رکھ کر باہر نکلتی ہے جس سے اس کے پاؤں پر وہ مادہ لگ جاتا ہے جو اسے جراثیم سے پاک رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے شہد کے چھتے میں کوئی جراثیم داخل نہیں ہو سکتے۔ اس تحقیق کے بعد ڈنمارک میں ایک قابل زمیندار نے خصوصی فارم تیار کر کے شہد کی مکھی کی افزائش کی جہاں سے وہ بڑی مقدار میں پر و پلس حاصل کرتا تھا۔ پروپلس کو گلیسرین یا وٹامن ای کریم میں ملا کر استعمال کیا جائے تو روز مرہ کے پھوڑے پھنسیوں میں بہت مفید دوا ہے۔ (صفحہ613،612)

منہ پر بھورے تل، پہلے دھبے اور کیل بن جاتے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ سوجا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چہرے کا رنگ زرد ہوتا ہے، آنکھوں کے گرد نیلے حلقے پڑ جاتے ہیں اور پپوٹے متورم ہو جاتے ہیں۔ (صفحہ615)

نیٹرم میوریٹیکم

Natrum muriaticum

(Sodium Chloride)

عام طور پر نیٹرم میور کی علامات رکھنے والے مریض کی جلد چمکدار ہوتی ہے۔ نمک کی زیادتی کی وجہ سے خون میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے جلد پر چکنا پن آ جاتا ہے جیسے تیل مل دیا گیا ہو۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر مریض اپنی تمام علامات کو ظاہر کرے یا اس کے ہر عضو میں دوا کی ہر علامت ظاہر ہو۔ کسی دوا کے بالمثل ہونے کے لیے اس کی بنیادی اور امتیازی علامات مریض میں ملنی چاہئیں۔ ہر تفصیلی علامت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ (صفحہ618)

ہاتھ کے ناخنوں کے اردگرد کی جلد خشکی سے پھٹ جاتی ہے۔ٹانگیں بے حس ہو جاتی ہیں۔ (صفحہ621)

نیٹرم میور کا اثر جلد پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایگزیما، خارش اور سوزش بالوں کے کناروں پر زیادہ ملتے ہیں۔ یہ نیٹرم میور کی خاص علامت ہے۔ خشک دانے بھی نکلتے ہیں اور بہنے والے زخم بھی ہوتے ہیں۔ جلد میں خارش اور سوئیاں چبھتی ہیں۔ خارش کے دانوں سے رطوبت بہتی ہے۔ مختلف ٹکڑوں میں کھرنڈ بن کر اترنے لگتے ہیں۔ نیٹرم میور کی ایک علامت سارسا پر یلا (Sarsaparrila)سے ملتی ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ (صفحہ621)

نیٹرم میور میں بھی پھلپھلی سی ورمیں پائی جاتی ہیں جیسی شہد کی مکھی کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے شہد کی مکھی کاٹ لے تو نیٹرم میور بطور علاج بہت مؤثر دوا ہے۔ اگر آرسینک اور لیڈم کے ساتھ ملا کر استعمال کی جائے تو حیرت انگیز سرعت کے ساتھ فائدہ دیتی ہے۔ علاوہ ازیں شہد کی مکھی کے زہر کا اثر فوری طور پر دور کرنے کے لیے کاربالک ایسڈ بہت شہرت رکھتی ہے۔ (صفحہ624،623)

نیٹرم فاسفوریکم

Natrum phosphoricum

(Phosphate of Sodium)

سر میں خارش ہوتی ہے اور زرد رنگ کے دانے بن جاتے ہیں۔ ماتھے کے ایگزیما میں بھی مفید ہے۔ سر بھاری ہو اور بال جھڑتے ہوں تو نیٹرم فاس اچھی دوا ہے۔ عموماً گنجے پن میں کوئی دوا کافی نہیں سمجھی جاتی لیکن کسی کمزوری کی وجہ سے بال جھڑنے لگیں تو اگر وہ کمزوری دور کر دی جائے تو گنجا پن خود بخود ٹھیک ہونے لگے گا۔ خصوصاً اگر ایلو پیشیا (Alopecia) ہو تو اس میں ہو میو پیتھی کا نسخہ غیر معمولی کامیاب ہے اور حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے۔ اس بیماری میں سارے سر کے بال گچھوں کی صورت میں اترنے لگتے ہیں جو صحیح دوا دینے سے دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ اگنے لگتے ہیں۔ (صفحہ629)

جلد پر خشک ، جلن والے دانے بن جاتے ہیں اور زرد سنہری کھرنڈا بھر آتے ہیں۔ جسم پر سرخ یا زرد رنگ کے داغ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ فیرم فاس میں بھی سرخ دانے نکلنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ نیٹرم فاس میں جلد زردی مائل ہو جاتی ہے۔ ماؤف حصہ میں اور جلد میں ورم ہوتی ہے۔ چیونٹیاں رینگنے کا احساس ہوتا ہے۔ مہاسے بھی نکلتے ہیں۔ (صفحہ631)

نیٹرم سلفیوریکم

Natrum sulphuricum

نیٹرم سلف میں مریضوں کے جسم پر مہاسے نکلنے کا رجحان عام ملتا ہے۔ تمام جسم پر مہاسے نکل آتے ہیں۔ سر کا ایگزیما بھی اس کی نمایاں علامت ہے۔ سرخ رنگ کے دانے بنتے ہیں۔ (صفحہ634)

بازوؤں اور ہاتھوں پر مسوں کے لیے بھی نیٹرم سلف کام آسکتی ہے۔ ہتھیلی کے ایگزیما اور انگلیوں کے درمیان نم دار ایگزیما میں نیٹرم سلف 6X غیر معمولی موثر ثابت ہوئی ہے۔ یہ مرض پرانا بھی ہو تو چھوٹی طاقت سے ہی دور ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ مریض کے مزاج اور علامتوں کے لحاظ سے طاقت بدلنی پڑتی ہے۔(صفحہ636)

نیٹرم سلف کی ایک اور علامت یہ ہے کہ ناخنوں کی جڑوں میں سوزش ہو جاتی ہے، ایڑیاں جلتی ہیں ، گھٹنوں میں سختی اور اینٹھن کا احساس ہوتاہے۔(صفحہ636)

نکس وامیکا

Nux vomica

(Poison Nut)

نکس وامیکا کا سلفر سے گہرا تعلق ہے۔ سلفر زندگی کو تقویت دے کر جو ردعمل پیدا کرتی ہے وہ اکثر جلدی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور بہت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ نکس وامیکا ان جلدی علامتوں میں جھاڑو کا سا کام دیتی ہے لیکن عوارض کو واپس اندر کی طرف نہیں دھکیلتی۔ اس لحاظ سے یہ سلفر کی بہترین مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ اس کے اچھے اندرونی اثر کو زائل کیے بغیر جلدی تکلیفوں کو نرم کرتی ہے۔ سلفر سے اگر بواسیر کے مسوں کا علاج کیا جائے تو ساتھ نکس وامیکا ضرور دینی چاہیے۔ یہ ان مسوں میں نرمی پیدا کرنے کے لیے بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ637)

(نوٹ: ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button