متفرق مضامین

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اسلامی تعلیمات

(’ایم-ایم-طاہر‘)

مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ اگر تمام اقوام اس بات پر عمل کرنے لگ جا ئیں تو تمام باہمی جھگڑے ختم ہو جائیں۔ اگر ہر قوم اپنے معبد میں دوسروں کو آنے اور وہاں عبادت اور ذکرِالٰہی کرنے کی اجازت دے دے تو کبھی آپس میں منافقت اور جھگڑا پیدانہ ہواور دنیا میں ہر طرف امن قائم ہو جائے

اسلام کے لفظ کے اندر سلامتی اور امن پایا جاتا ہے۔ جہاں یہ اطاعت و فرمانبرداری کا نام ہے وہاں یہ اپنے حصار میں آنے والوں کے لیے سلامتی اور امن کی ضمانت فراہم کرنے والا دین ہے۔ اور پھر بانیٔ اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ وَمَآ اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ۔ (الانبیاء : 108) کہ ہم نے تجھ کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ گویا دین اسلام سلامتی ہے اور بانی اسلام رحمت ہیں۔ یہ وہ پیغام ہے جو اسلام اپنوں اور غیروں کو دیتا ہے۔

غیر مسلم رعایا یا اقلیتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کا پہلا عملی اظہار مدینہ میں ہوا تھا۔ مکہ مکرمہ کی زندگی تو صبر و استقامت اور مخالفوں کے ظلم برداشت کرنے سے عبارت تھی لیکن جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائےتو یہاں کے سماجی حالات یکسر مختلف تھے۔ یہاں مسلمان بھی تھے، یہودی بھی تھے اور یہاں مشرکین کا ایک طبقہ بھی پایا جاتا تھا۔ عقائد کے لحاظ سے اس متنوع معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے عملی اظہار کا موقع پیدا ہونا شروع ہوا۔

اسلامی تعلیمات میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایسے غیرمعمولی قوانین اور حقوق ہیں جن کے قریب قریب بھی کوئی سابقہ شریعت مثالیں پیش نہیں کر سکتی۔ اصولی طور پر اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں بلکہ بعض لحاظ سے ان کے حقوق زیادہ اور ذمہ داریاں مسلمانوں کی نسبت کم ہیں۔ اسلام انصاف، مذہبی رواداری،مذہبی راہنماؤں کے احترام، جنگوں میں اعلیٰ اخلاق و آداب اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کی چند جھلکیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں:

میثاقِ مدینہ – یہود کے ساتھ معاہدہ

آنحضرتؐ مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے آئے تو یہاں ایک نئی سِول سوسائٹی نے جنم لیا جو مسلمان مہاجرین اور انصار کا گروہ۔ اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا اور پھر یہودی قبائل بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ پر مشتمل تھی۔ آنحضرتؐ کو ریاستِ مدینہ کا سربراہ تسلیم کرلیا گیا اور آنحضرتؐ نے یہودسے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ پُرامن معاشرے کے قیام، ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کی پاسداری اور مکمل مذہبی آزادی کی یہ ایک عظیم الشان دستاویز تھی جس میں ہر گروہ اپنی شریعت یا قوانین کے مطابق آزاد تھا اورمن حیث المجموع ریاست کے دفاع اور امن کا ذمہ دار بھی تھا۔ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت اس میثاق سے بڑھ کر نہیں دی جاسکتی۔ اس میثاق کی تفصیلات کتب تاریخ اور احادیث میں موجود ہیں۔ ابن ہشام نے بھی تفصیلی ذکر کیا ہے۔اس کے چند اہم نکات یہ تھے:مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی نہیں کریں گے۔ ہرقوم کو مذہبی آزادی ہوگی۔ تمام لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے۔ہرقسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہؐ کےسامنے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق کیا جائے گا۔کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہؐ جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔مسلمانوں اور یہود کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد کے لیے کھڑے ہوں گے۔(سیرت ابن ھشام جلد اول صفحہ۵۶۰تا۵۶۳،مطبع دمشق الطبعہ الاولیٰ۲۰۰۵ء)

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے یہ شاندار تعلیمات ہیں۔ نہ صرف تعلیمات بلکہ یہ معاہدہ تھا اور اس پر آپؐ کی طرف سے مکمل عمل کیا گیا۔ جس نے معاہدہ توڑا اس نے نقصان اٹھایا۔

دین میں جبر نہیں

اسلام نے مذہبی معاملات میں جبروتشدد کو روا رکھنے کے خلاف تعلیم دی جو اس سے قبل جائز سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ قرآن کریم کے ذریعہ اعلان کیا گیا کہ لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۖ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرہ:257)کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہدایت اور گمراہی میں خداتعالیٰ نے نمایاں فرق کرکے دکھا دیا ہے پس جو سمجھنا چاہے وہ دلیل سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہیں کرنا چاہئے۔

اسلامی تعلیم کا یہ خوبصورت اعلان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک زبردست ضمانت ہے۔ اقلیتیں آزاد ہیں جس طرح چاہیں اپنےدین پر اپنے عقائد کے مطابق عمل پیرا رہیں۔

اس ضمن میں اسلام نے ایک یہ اعلان بھی کیا اور عظیم الشان رواداری کی تعلیم دیتے ہوئے سب اقوام کے انبیاء کو تسلیم کیا اور ان کو قبول کیا ہے جب یہ فرمادیا کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْـهَا نَذِيْرٌ (الفاطر:25) کہ ہر امت میں اور قوم میں نبی گزرے ہیں۔ گویا ان امتوں اور قوموں کی مذہبی حیثیت اور ان کے انبیاء کو اسلام تسلیم کرتا ہے۔ یہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک خوشخبری سے کم تعلیم نہیں۔

غیروں کے مذہب اور راہنماؤں کا احترام

آج دنیا میں ہر جگہ تشدد، عدم برداشت اور دوسروں کے جذبات سے کھیلنے کی فضا قائم ہے۔ اسلام نے غیر مذاہب بلکہ لا مذہب یا بت پرستوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی اعلان کردیا کہ ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی گالی نہیں دینی۔ جیسا کہ فرمایا:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍٍ ۔(الانعام:109)یعنی جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو بھی بُرا بھلا مت کہو نتیجةً وہ اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اس میں غیروں کے جذبات کا کس قدر خیال اسلامی تعلیمات میں رکھا گیا ہے۔

اقلیتوں پر کم مالی بوجھ

غیر مسلموں اور اقلیتوں پر اسلامی حکومت میں مالی بوجھ کم ڈالا گیا ہے اور مسلمانوں پر زیادہ ڈالا گیا ہے۔ مسلمانوں کو زکوٰة کا حکم دیا ہے۔ پیداوار میں عُشر ادا کرنے کا حکم ہے اس کے علاوہ طوعی صدقہ و خیرات کی تاکید ہے۔ اسی طرح اگر جنگی کیفیت پیدا ہو تو جنگ میں بھی حصہ لینا ہے۔ غیر مسلم ان احکامات سے آزاد ہیں صرف اڑھائی فیصد حکومتی ٹیکس ادا کرنا ہے۔ لڑائی میں حصہ نہ لینے کی بھی آزادی حاصل ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الخراج باب اخذ الجزیة)

عدل و انصاف کی تعلیم

اسلام نے یکساں طور پر اپنوں اور غیروں کے ساتھ عدل وانصاف کے ساتھ معاملات طے کرنے کی تعلیم دی ہے۔ دشمن کے ساتھ بھی عدل کرنا ہےاور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ جیسے کہ فرمایا: لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المائدہ:9)کسی قوم کی دشمنی تم کو اس امر پر نہ اکسا دے کہ تم عدل کا معاملہ نہ کرو۔ تم بہرحال انصاف سے کام لو۔ یہ بات تقویٰ کے مطابق ہے۔

اس میں اقلیتوں کو عدل و انصاف کی یقین دہانی کروادی گئی ہے۔

کسی بھی قوم کو حقیر نہ جانیں

اسلام کی یہ بھی ایک خوبصورت تعلیم ہے کہ کسی بھی قوم کو جو مفتوح ہے، دشمن ہے، کمزور ہے، اقلیت میں ہے، سماجی طور پر پسماندہ ہے حقیر نہیں جاننا۔ آج بھی ترقی یافتہ دنیا میں کالے گورے اور مختلف نسلی و مذہبی امتیاز برتے جاتے ہیں لیکن اسلام نے یہ شاندار تعلیم دی کہ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ (الحجرات:12) کہ کوئی قوم دوسری قوم کو حقیر سمجھ کر اس کو پامال نہ کرے شاید وہ کل کو اس قوم سے اچھی ہوجائے۔

اسلامی حکومت میں بلا امتیاز مذہب راشن سسٹم

اسلامی حکومت میں جب راشن سسٹم کا اجرا ہوا تو اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص نہیں تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:’’ یہ وہ چیز تھی جو مسلمانوں نے اپنی حکومت میں کی۔ راشن اور کپڑے کا سسٹم جاری ہوا، امیر اور غریب سب کے لیے حکم ہوا کہ اُن کو کپڑے مِلا کریں گے اور کھا نا مِلا کرے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا حکم دیا کہ جو راشن اورکپڑا مِلا کرے گا اس میں مسلم اور غیرمسلم کا کوئی فرق نہ کیا جائے ہر مذہب وملت کے آدمی کو اُس کا راشن دیا جا ئے۔ ایک بادشاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہوا تو اُس نے کہلا بھیجا کہ میرے پاس ایسے لوگ ہیں جو غیر مذاہب کے ہیں میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا اُن کے ساتھ انصاف کا سلوک کرو، پیا ر کا سلوک کرو اور اگر تمہارے پاس ایسے لوگ ہو ں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہ اُن کے پاس کا فی زمین وغیرہ نہ ہو اور کافی غلّہ نہ پیدا کر سکتے ہوں تو پھر سرکاری خزانہ سے انہیں غلّہ مہیّا کرو۔‘‘ (سیر روحانی،انوارالعلوم جلد 24 صفحہ 293)

عبادت گاہوں کے اردگرد لڑائی نہ ہو

سورة البقرہ کی آیت 192کی تشریح میں حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی عبادتوں اور فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے مذہبی عبادتوں میں رخنہ پیدا ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔

اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادت گاہوں کے ارد گر د بھی لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔ یا ان کو توڑا جائے۔ ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنالے توپھران کےنقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پرنہیں۔‘‘( تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۲۳۶،مطبوعہ لندن۲۰۲۳ء)

غیر مسلموں کو مساجد میں عبادت کی اجازت

سورة البقرہ کی آیت 115 کی تفسیر میں اسلام کی اس پر امن اور خوبصورت تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں:’’ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مساجد میں اللہ تعالیٰ کا نام نہ لینے دے اور اُس کی عبادت سے لوگوں کو رو کے اور اس طرح اُن کو ویران کرنے کی کوشش کرے وہ سب سے زیادہ ظالم ہے۔ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام نے پیش کی ہے۔ اسے سامنے رکھ لو دنیا کا کوئی مذہب اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ مسلمانوں کا عمل جانے دو بلکہ اس حکم اور تعلیم کو دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کا حق نہیں کہ ذکر الٰہی سے کسی کو روکے۔ اگر کوئی شخص مسجد میں جا کر ذکر الٰہی کرنا چاہے یا اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجالانا چاہے تو اس سے روکنا بالکل نا جائز ہے۔ کوئی ہندو سکھ یا عیسائی آجائے اور مسلمانوں کی مسجد میں اپنے رنگ میں عبادت الٰہی کرنا چاہے تو کسی مسلمان کو اُسے روکنے کا حق نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ باجا بجانا اور ناچنا اُن کی عبادت میں شامل ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ کام وہ باہر کر لیں۔ جتنا حصہ ذکر الٰہی کا ہے وہ مسجد میں آکر ادا کر لیں۔ اس آیت میں ان تمام قسم کی زیادتیوں اور تعدیوں کو جو ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذاہب کے عبادت خانوں یا عبادات کے متعلق کرتے ہیں یک قلم موقوف کر دیا ہے اور سب مذاہب کے پیروؤں کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ عبادت خانوں اور عبادتوں کے متعلق اپنے دلوں اور اپنے حوصلوں کو وسیع کریں کیونکہ اُن کا موجودہ طریق عمل نہایت ظالمانہ اور جابرانہ ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ وہ ظالمانہ طریق جو عبادت خانوں یا عبادات کے متعلق زمانہ نزول قرآن کے وقت برتےجاتے ہیں اور جن سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے یہ ہیں :

اول۔ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر فتح پاتا تو اُس کے عبادت خانوں کو گرا دیتا یا انہیں مقفل کر دیتا یا اس مذہب کے پیروؤں کو اس میں عبادت نہ کرنے دیتا۔

دوم۔ ہر مذہب کے پیرو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے سے روکتے اور ان میں دوسروں کو داخل ہونے تک کی بھی اجازت نہ دیتے۔ یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں بڑے زور سے رائج تھیں اور مختلف مذاہب کے پیروؤں کی عادت میں داخل ہو گئی تھیں اور اُس زمانہ میں یہ باتیں عیب نہیں بلکہ حق اور ضروری سمجھی جاتی تھیں…چنانچہ سب سےپہلا انسان جس نے اس پر عمل کیا وہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے نجران کے مسیحیوں کو اپنی مسجد میں گرجا کرنے کی اجازت دے دی۔ زاد المعاد میں لکھا ہے۔لما قدم وَفدُ نَجْرَانَ…(زاد المعاد، فصل في قدوم وفد نجران عليه صلى اللّٰه عليه وسلم ) یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نجران کا عیسائی وفد آیا۔ تو وہ لوگ عصر کے بعد مسجد نبوی میں آئے اور گفتگو کرتے رہے۔ گفتگو کرتے کرتے اُن کی عبادت کا وقت آگیا ( غالباً وہ اتوار کا دن ہو گا ) چنانچہ وہ وہیں مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے چاہا کہ وہ انہیں روک دیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا مت کرو۔ چنانچہ انہوں نے اُسی جگہ مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنےطریق کے مطابق عبادت کر لی۔

پس مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ اگر تمام اقوام اس بات پر عمل کرنے لگ جا ئیں تو تمام باہمی جھگڑے ختم ہو جائیں۔ اگر ہر قوم اپنے معبد میں دوسروں کو آنے اور وہاں عبادت اور ذکر الٰہی کرنے کی اجازت دے دے تو کبھی آپس میں منافقت اور جھگڑا پیدانہ ہواور دنیا میں ہر طرف امن قائم ہو جائے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 406 تا 408،مطبوعہ لندن2023ء)

جنگی آداب کے بارےمیں تفصیلی احکام

اسلام نے غیروں کے ساتھ لڑائی کی صورت میں بھی ایسی خوبصورت تعلیم دی ہے کہ اس کے اصول اور آداب بھی مقرر فرمائے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ اُن احکام سے ظاہر ہے جو آپؐ اُسوقت دیتے تھے جب آپؐ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کوجنگ پر بھیجتے تھے تو آپؐ اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ تقویٰ اللہ اختیا ر کر و اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور فرماتے تھے اُغْزُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ وفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اللہ کا نام لیکر اللہ کی خاطر جنگ کے لیے جا ؤ قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ جو شخص اللہ کا کفر کرتا ہے اُس سے لڑو۔ اِس کے یہ معنے نہیں جس طرح بعض علماء غلط طور پر لیتے ہیں کہ تم کافروں سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے تم سے لڑائی کی ہے اگر وہ مسلمان ہو جا ئے تو اُس سے لڑائی جائز نہیں۔ لڑائی کے لیے تو حکم ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ یعنی جنگ کے لیے نکلنے کی تب اجازت دی گئی ہے جب تم سے پہلے لڑائی کی جائے۔ اس لیے کَفَرَ بِاللّٰہِ اس کے بعد جا کر لگے گا۔ اگر کسی شخص نے لڑائی شروع کردی مگر جب تمہا را لشکر پہنچا تو اُس نے اسلام کا اعلان کر دیا تو وہ ظلم ختم ہو گیا اب تم کو اُس سے لڑنے کی اجا زت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ کا فر ہے اور اُس نے لڑائی نہیں کی تو اُس سے جا کر لڑپڑو۔

وَلَا تَغُلُّوْا اور قطعی طور پر مالِ غنیمت میں خیا نت یا سرقہ سے کام نہ لو۔

وَلَاتَغْدِرُوْا اور بد عہدی نہ کرو،کسی کو دھو کا مت دو۔

اوّل تو مال غنیمت میں کسی قسم کی ناجائز دست اندازی نہ کرو اور پھر جو سزا دو یا اُن سے وعدے کرو اُن کو کسی بہانے سے توڑنا نہیں۔ انگریزی حکومت سب جگہ اِسی طرح پھیلی ہے۔ پہلے چھوٹا سا معاہدہ کر لینا کہ چھاؤنی رہے گی اور ایک افسر رہے گا۔ پھر کہا کہ ہمارے فلاں سپاہی کو تمہا رے آدمیوں نے چھیڑا ہے اِس لیے اِرد گِرد بھی سات آٹھ گاؤں پر ہم اپنا قبضہ رکھیں گے تاتمہا رے لوگ ہمارے آدمیوں کو کچھ کہیں نہیں۔ پھر اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہمارے آدمی جو اِرد گِرد رکھے گئے تھے اُنکے ساتھ تمہارے آدمی لڑ پڑے ہیں اس لیے ہم مجبور ہیں کہ دارالخلافہ پر اپنا قبضہ رکھیں تا فساد نہ ہو۔ پھر کہہ دیا تم نے فلاں حکم دیدیا ہے اِس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت کا ہم پر بھی بُرااثر پڑتا ہے اِس لیے آئندہ جو حکم دیا کریں ہم سے پوچھ کر دیا کریں۔

وَلَا تُمَثِّلُوْا اور مُثلہ نہ کرو۔مُثلہ کے معنے ہوتے ہیں مرے ہوئے کے، ناک کان کاٹ ڈالنا۔ فرماتا ہے کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کا ٹ دیں تو تم اُنکے مردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کرو۔

وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْداً۔(ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی دُعَاءِ الْمُشْرِکِیْن، السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء)اور کسی نا بالغ بچّے کو مت مارا کرو۔ یعنی صرف جنگی اور سیاسی سپاہی کو مارو جو لڑنے کے قابل نہیں ابھی نابالغ ہے اُسے نہیں مارنا کیو نکہ وہ بِالبداہت جنگ میں شامل نہیں ہوا اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اُسی کے ساتھ لڑائی کی جا سکتی ہے جو لڑائی میں شامل ہوا ہو۔…

سیرۃحلبیہ میں اِس کے علاوہ یہ نصیحت بھی درج ہے کہ آپ نے فرمایا۔ لَا تَقْتُلُوْا امْرَاَۃً عورت کو بھی نہیں مارنا۔ پھر فرما یا وَلَا کَبِیْرًا فَانِـیًا کسی بڈھے کو نہیں مارنا۔ پھر فرمایا وَلَا مُعْتَزِلاً بِصَوْمَعَۃٍ (السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء میں یہ الفاظ ہیں ’’سَتَجِدُوْنَ فِیْھَا رِجَالًا فِی الصَّوَامِعِ مُعْتَزِلِیْنَ فَلَا تَتَعَرَّضُوْ ا لَھُمْ‘‘) کوئی عبادت گزار ہو مسجد وں یا تکیوں میں بیٹھا ہوا ہو اُس کو بھی نہیں مارنا۔ اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو نہ ما رنے کا حکم دیا ہے مگر یہاں گیا نی چُن چُن کر مارے گئے اور وہاں مولوی چُن چُن کر مارے گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کو نہیں چھیڑنا یہ تو خدا کا نام لے رہے ہیں۔ کیا تم خدا کا نام مٹانا چاہتے ہو؟ چاہے کسی طرح لیتے ہیں لیکن لیتے تو خدا کا نام ہیں اس لیے اِن کو نہیں چھیڑنا۔

پھر فرماتے ہیں۔وَلَا تَقْرَبُوْ ا نَخْلاً کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی اُن کو نہ کا ٹ دینا کہ کسی طرح دشمن کو تباہ کریں کیو نکہ تم اُن کو تباہ کرنے نہیں جا رہے صرف اُن کے ضرر کو دُور کرنے کے لیے جا رہے ہو تمہا را یہ کا م نہیں کہ اُن کی روزی بند کردو۔ پھر فرمایا وَلَاتَقْطَعُوْا شَجَرًا بلکہ کوئی درخت بھی نہ کا ٹو۔ کیو نکہ مسافر بیچارہ اس کے نیچے پناہ لیتاہے، غریب بے چارے اُس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں اور تم لوگ لڑنے والوں سے لڑنے کے لیے جارہے ہو۔ اِس لیے نہیں جارہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے اِس لیے اُن کو نہیں کا ٹنا۔ پھر فرمایا۔ وَلَا تَھْدِمُوْابِنَاءً (مؤطا امام مالک کتاب الجھاد۔ باب النَّھْیُ عن قَتْلِ النِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزْوِ صفحہ 285مطبوعہ بیروت الطبعۃ الاولیٰ اپریل 1997ءمیں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکرؓ کی طرف منسوب ہیں۔)کوئی عمارت نہ گراناکیو نکہ ان کے گرانے سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ان کو تکلیف ہو گی۔

اب دیکھو پچھلے فسادات میں کتنے مکان جلائے گئے۔ لاہو ر میں ہزاروں مکان جلا ئے گئے، امرتسر میں ہزاروں مکان مسلمانوں کے جلائے گئے، بلکہ کوئی شہر بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے مکانات دس بیس یا تیس فیصدی نہ جلائے گئے ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لَا تَھْدِمُوْا بِنَاءً۔ایک مکان بھی تم کو گِرانے کی اجازت نہیں کیو نکہ تم اس لیے نہیں جا رہے کہ لوگو ں کو بے گھر کردو بلکہ اس لیے جا رہے ہو کہ ظلم کا ازالہ کرو اس سے آگے تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھا نا۔

اِسی طرح آپؐ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور خوف پیدا نہ کرنا۔ فوجیں جاتی ہیں تو اُن کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہ اتنا ڈرائیں کہ اُن کی جان نکل جائے۔…

رسول کریمﷺایک صحابیؓ پر شدید نا راضگی

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عزیز اور آپؐ کا ایک مقرّب صحابیؓ ایک جنگ پر جاتا ہے اور جب وہ ایک شخص کو مارنے لگتا ہے تو وہ کہتا ہے صَبَوْتُ میں صابی ہو گیا ہوں۔وہ لوگ اسلام کا نام نہیں جا نتے تھے اور مسلمانوں کو صابی کہتے تھے۔ صَبَوْتُکا یہ مطلب تھا کہ میں مسلمان ہو تا ہوں۔ غرض وہ اسلام سے اتنا ناواقف تھا کہ نام بھی نہیں جا نتا تھا۔ کہنے لگا صَبَوْتُ۔ مگر انہوں نے اُس کو ما ر ڈالا۔ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا۔ تم نے اُسے کیوں مارا۔ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ!اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسلام کیا ہو تا ہے۔ اُس نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ صَبَوْتُ۔ آپؐ نے فرمایا تم نے اس کا دل چِیر کر دیکھا تھا اس کو نہیں پتہ تھا کہ اسلام کا نام کیا ہے لیکن اس کا مطلب تو یہی تھا کہ میں اسلام میں داخل ہوتا ہوں۔ تم نے اس کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ! میں نے مارا اِس لیے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا۔ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا تُو قیامت کے دن کیا کرے گاجب خدا تجھ سے کہے گا کہ اِس شخص نے یہ کہا اور پھر بھی تُو نے اُسے قتل کردیا۔ اسامہؓ آپ کے نہا یت ہی محبوب تھے۔ وہ کہتے ہیں میں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس نا راضگی کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا۔اے کا ش!میں اس سے پہلے کا فر ہوتا اور آج میں نے اسلام قبول کیا ہوتا تاکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا راضگی کا مورد نہ بنتا۔( مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 207مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت) اب کُجا یہ احتیا ط کا حکم اور کُجا یہ کہ یونہی مارے چلے جا تے ہیں تاکہ سارے ملک میں خوف اور ڈر پیدا کردیا جائے۔

مفتوحہ ممالک کے لیے سہولتیں مہیّاکرنے کا حکم

اِسی طرح فرماتے ہیں کہ جب مفتوحہ ممالک میں جا ؤ تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اِس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رُکے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اِس طرح نکلا کہ لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا اورراستہ پر چلنا مشکل ہو گیا۔ اِس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا یا راستہ کو روکا اُس کا جہا د جہاد ہی نہیں ہوا۔ (ابوداؤد کتاب الجھاد باب مَا یُؤمَرُ من انضمام العسکر و سعتہٖ حدیث 2629 مطبوعہ دارالسلام الطبعۃ الاولیٰ اپریل 1999ء) (سیر روحانی(۷)،انوارالعلوم جلد 24 صفحہ 301 تا 310)

یروشلم کے عیسائیوں پر اسلامی حکومت کی رواداری کا غیر معمولی اثر

غیر مسلموں کے بارے اسلامی تعلیمات پر جب مسلمانوں نے عمل کیا تو غیربھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’جب یر وشلم پر مسلمان گئے توعیسائی لشکر حملہ آور ہوااُس وقت مسلمانو ں نے فیصلہ کیا کہ ہم مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ہم پیچھے ہٹیں گے۔جب پیچھے ہٹنے لگے تو یر وشلم کے لوگ بلکہ پادری بھی روتے ہوئے آتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو ہمارے ملک میں پھر لائے کیونکہ ہم نے امن تمہا رے ذریعہ سے ہی دیکھا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی عیسائی حکومت تھی اور قیصر کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ گویا پوپ کا قائم مقام ہے اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ مذہبی طور پر بھی لیڈر ہے مگر وہ اُس کی حکومت کو توڑنے والی حکومت کے لیے باہر نکلے تھے۔ اگر مسلمان مذہبی معاملات میں دخل دیتے، اگر وہ اُن کے گِر جوں میں دخل دیتے اور اگر وہ اُن پر سختیا ں کرتے جو ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں تو اُن کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ روتے ہوئے نکلتے کہ تم ہمارے گھروں میں آؤ، ہمارے گِرجے گراؤ اور ہمارے مذہب میں دخل دو وہ لازماً اُن کی مخالفت کرتے اور رومن ایمپائر کی مدد کرتے لیکن حالت یہ تھی کہ وہ روتے تھے۔ پس جب مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو وہ جانتے تھے کہ یروشلم سے اسلامی لشکر کو تو نکال لائے ہیں لیکن یروشلم میں بیس ہزار جا سوس چھوڑ آئے ہیں جو ہمیں رومیوں کی خبر یں دیں گے اور اُن کے ذریعہ ہم پھر واپس آجائیں گے۔ تو یروشلم کا ہر عیسا ئی مسلمانوں کا جا سوس بن گیا تھا اور اُن کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ اگر یہی سلوک مسلمان قومیں دوسروں کے ساتھ کرنا شروع کردیں تو دیکھو فوراً یہ صورت شروع ہو جائے گی کہ غیر ملکوں میں ہمارے ہمدرد پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور وہ ہماری مدد کرنی شروع کردیں گے۔‘‘ (سیرروحانی(۷)، انوارالعلوم جلد 24 صفحہ 288، 289)

اپنے بلند اخلاق سے اقلیتوں کو متاثر کریں

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’اپنے اخلاق کو اس معیار تک بلند کرنا چاہیے جہاں پہنچ کر بغیر الفاظ کے دوسروں کو متأثر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس طرح غیر مسلموں کو اسلام سے متأثر کرنے میں ہم کامیاب ہوجائیں تو اسلامی شریعت کی سادگی خود بخود ان کے دلوں کو کھینچ لے گی کیونکہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ اقلیتوں کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنی رواداری سے کام لیا گیا ہے کہ دنیا کی کوئی شریعت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔‘‘ (الفضل کے اداریہ جات، انوارالعلوم جلد 19 صفحہ 289)

اقلیتوں اور غیر مسلم رعایا کے بارے میں اسلام نے شاندار تعلیمات دی ہیں جن میں ان کی مذہبی اور معاشرتی حیثیت کو برابری کی بنیاد پر تسلیم کر کے انہیں بنیادی انسانی حقوق کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ اس تعلیم پر جب تک مسلم حکومتوں کی طرف سے عمل ہوتا رہا اس کے غیر معمولی نتائج بھی نکلے۔ لیکن جہاں اکثریت کے مطالبے پر اقلیت کے حقوق غصب کر دیے جائیں اور عدل و انصاف کا دامن چھوڑ کر ظالمانہ فیصلے کر دیے جائیں تو پھر اس معاشرے میں امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور ظلم کا رویہ ظالمانہ نتائج ہی پیدا کرے گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button