لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرتﷺ کے پاس ہوتا تھا
ایک وقت ہے کہ آپؐ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیرو تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں، تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں، تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتےّ غرضیکہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے۔ لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا، کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے۔ اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ ؓ برداشت نہیں کر سکتے، مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہؓ کا قصور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبخش دیا ،بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپؐ نبوت کا دعویٰ کرتے تھےکہ محمد رسول اللہ مَیں ہوں۔ کہتے ہیں حضرتؐ کی پیشانی پر ستّر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے، یہ خُلقِ عظیم تھا۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۸۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ آپؐ ایک درخت کے نیچے سوئے پڑے تھے کہ ناگاہ ایک شور وپکار سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنگلی اعرابی تلوار کھینچ کر خود حضورؐ پر آ پڑا ہے۔ اس نے کہا اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم)بتا، اس وقت میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟آپؐ نے پورے اطمینان اور سچّی سکینت سے جو حاصل تھی فرمایا کہ اللہ۔ آپؐ کا یہ فرمانا عام انسانوں کی طرح نہ تھا ۔اللہ جو خدا تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے۔ایسے طور پر آپؐ کے منہ سے نکلا اور دل پر ہی جاکر ٹھہرا۔کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں،لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو ، وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔الغرض ایسے طور پر اللہ کا لفظ آپؐ کے منہ سے نکلا کہ اس پر رعب طاری ہو گیا اور ہاتھ کانپ گیا ۔تلوار گر پڑی۔حضرتؐ نے وہی تلوار اٹھا کر کہا کہ اب بتلا۔میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟وہ ضعیف القلب جنگلی کس کا نام لے سکتا تھا۔آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا اور کہا جا تجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ مروت اور شجاعت مجھ سے سیکھ۔اس اخلاقی معجزہ نے اس پر ایسا اثر کیا کہ وہ مسلمان ہو گیا۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ۶۱۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)