Halloween ایک بد رسم ہےجوشرک کی طرف لے جاتی ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ ہُوکی مجلسیں، ذکر اذکار کی مجلسیں بے شک بڑی پاکیزہ مجلسیں ہیں لیکن یہ جب ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو پھر شیطان کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اصل نیکی وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جو توحید کے قیام کے لئے اہم ہے۔ پس بظاہر نیکی کرنے کی طرف توجہ دلانے والی باتیں جب بعض اوقات بدعات بن جاتی ہیں تو دوسری بدعات تو بہت زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔ عام بدعات جو معاشرے پر اثر ڈالتی ہیں وہ تو ڈالتی ہی ہیں۔ لیکن یہ بظاہر نیکی کی طرف لے جانے والی جو بدعات ہیں یہ بھی انسان کو اصل فرائض سے محروم کر دیتی ہیں۔ اس لئے ایک احمدی کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنے فرائض، نوافل، تہجد ضروری چیزیں ہیں جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے اور جن کی سنت ہمارے سامنے پیش فرمائی۔ اور پھر دعائیں اور ذکر اذکارہیں۔ تب ایک انسان حقیقی مومن بننے کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ اس معاشرے میں ان بدعات سے بچنے کے لئے ایک احمدی کو جہاد کے رنگ میں کوشش کرنی چاہئے۔
جیساکہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ جدید ترقیات نے بعض برائیوں کو بھی پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور بغیر سوچے سمجھے بعض لوگ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ان باتوں میں ڈال دیتے ہیں جن کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ بس دیکھا دیکھی معاشرے کے پیچھے چل کر وہ کام کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اُس دعا کی طرف توجہ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے کہ بعض باتیں جو لا علمی میں ہو جاتی ہیں ان کے کرنے پر بھی اے اللہ ہمیں تیری بخشش چاہئے تو جب دعا نیک نیتی سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوتی ہے تو پھر آئندہ انسان بعض برائیوں سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔
بہر حال اس برائی کا جو آج کل مغرب میں ان دنوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور آئندہ چند دنوں میں منائی جانے والی ہے، اُس کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ halloween کی ایک رسم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئی ہوئی ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے۔ چڑیلیں اور جِنّ اور شیطانی عمل، ان کو تو بائبل نے بھی روکا ہوا ہے۔ لیکن عیسائیت میں یہ راہ پا گئی ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا۔ عموماً اس کو funسمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئی جب ہماری ریسرچ ٹیم کی ایک انچارج نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اور توکچھ نہیں کرے گی لیکن اتنی اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغیرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹی بچی ہے۔ انہوں نے اسے منع کر دیا۔ اور پھرجب ریسرچ کی اور اس کے بارہ میں مزید تحقیق کی تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی کچھ (حوالے) دے دیں۔ چنانچہ جو مَیں نے دیکھے ان کا خلاصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہیں۔ خطوط میں پوچھتے رہتے ہیں کہ halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدی خاندانوں کے بچے اپنے والدین کی اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق مَیں جواب تو یہی دیتا رہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور مَیں انہیں روک دیتا تھا۔ لیکن اب جو اس کی تاریخ سامنے آئی ہے تو ضروری ہے کہ احمدی بچے اس سے بچیں۔ عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں، یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش اِزم کی وجہ سے آئی ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان میں پرانی بد مذہبی کے زمانے کی رائج ہے۔ اس کی بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھی کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کی غلط ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں شرک بھی شامل ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ 31؍اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کی ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانی کرتے ہیں۔ bonfireبھی اسی نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر یہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costume اور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں۔ بہر حال بعد میں جیسا کہ مَیں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا۔ اور یہ بھی ان کے تہوار کے طور پر اس میں شامل کر لی گئی۔ کیتھولکس خاص طور پر (یہ رسم) زیادہ کرتے ہیں۔ اب یہ رسم عیسائیت کی وجہ سے اور پھر میڈیا کی وجہ سے، آپس کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں خاص طورپرمغرب میں، امریکہ میں، کینیڈامیں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیاوغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ چُھپی ہوئی برائی ہے۔ جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی اختیار کر رہے ہیں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تا کہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے۔ بے شک آپ یہی کہیں کہ funہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں۔ اور پھر یہ کہ ویسے بھی یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ اور پھر گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے۔ احمدی کا ایک وقار ہونا چاہئے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہی ذہنوں میں قائم کرنا چاہئے۔ اور پھر یہ چیزیں جو ہیں مذہب سے بھی دُور لے جاتی ہیں۔ بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شیطان کی پوجا، مافوق الفطرت چیزوں پر عارضی طور پر جو یقین ہے وہ funکے لئے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انتہائی غلط نظریہ ہے۔ پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہیز کرنا چاہئے بلکہ سختی سے بچنا چاہئے۔ ماضی قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھی کچھ دے دیتے تھے کہ مُردہ روحیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ بہرحال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھی بچوں کی طرف سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس لئے مَیں بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کی طرف لے جانے والی ہے۔ پھر اس کی وجہ سے بچوں میں funکے نام پر، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ماں باپ ہمسایوں سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ ماں باپ سے بھی اور ہمسایوں سے بھی اور اپنے ماحول سے بھی، اپنے بڑوں سے بھی بداخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک سروے ہے۔