خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اکتوبر2020ء
لوگوں میں سے میرے نزدیک وہ ہیں جو متقی ہیں چاہے وہ کوئی ہوں اور کہیں بھی ہوں(الحدیث)
رت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپ نے فرمایا نازو نعم والی زندگی اختیار کرنے سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم والی زندگی اختیار نہیں کرتے۔
میلاد النبیؐ منانے کی اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپؐ کی نصائح پر عمل کیا جائے۔
آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ قاریٔ قرآن، محبوبِ رسولؐ ،صاحبِ علم و دین، حضرت معاذ بن جبل اور اُحُد کے پہلے شہید حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اکتوبر2020ء بمطابق 30؍اخاء1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبے میں حضرت معاذ بن جبلؓ کا ذکر چل رہا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ حضرت معاذؓ بہت فیاض تھے اور خوب خرچ کرنے والے تھے جس کی وجہ سے اکثر انہیں قرض بھی لینا پڑتا تھا۔ جب قرض خواہوں نے زیادہ تنگ کیا تو کچھ دن گھر میں چھپ کر بیٹھے رہے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت معاذؓسے قرض دلوانے کی گزارش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو آدمی بھیج کر بلوایا۔ جب حضرت معاذؓ کی جائیداد سے قرض زیادہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا حصہ نہ لے گا خدا اس پر رحم کرے گا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنا قرض معاف کر دیا لیکن پھر بھی کچھ لوگ قرض کا مطالبہ کرتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری جائیداد کو ان لوگوں میں تقسیم کر دیا لیکن ابھی بھی قرض مکمل ادا نہ ہوا بلکہ یہ ہوا کہ ہر ایک کو قرض کا کچھ حصہ مل گیا۔ قرض خواہوں نے مزید کا تقاضا کیا کہ بقایا بھی ہمیں دیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو۔ ابھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔ اسی مال کو لے جاؤ۔ جب حضرت معاذؓکے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا نقصان پورا کرے اور تمہارا قرض ادا کرا دے۔
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ502 معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5صفحہ 188معاذ بن جبل دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 441،440معاذ بن جبل ومن سبداائائر بني سَلَمَة۔دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
اس موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یہ بھی فرمایا کہ اے معاذ ! تم پر قرض بہت ہے۔ اگر کوئی ہدیہ لائے تو اسے قبول کر لینا۔ مَیں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں۔(بحوالہ سیرالصحابہ جلد 5 صفحہ 146 دار الاشاعت لاہور)آپؐ نے فرمایا: تحفے قبول کرنے کی تمہیں اجازت ہے۔ یعنی تحفہ قبول کرنا تو ویسے کوئی حرج نہیں۔ یہی کہا جاتا ہے کہ محبت بڑھتی ہے۔ ایک دوسرے کو تحفے دینے چاہئیں لیکن یہ کیونکہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندہ بنا کے بھیجے گئے تھے اس لیے آپؐ نے خاص طور پر فرمایا کہ اس نمائندگی کی وجہ سے اگر تمہیں لوگ تحفہ دیں تو تمہیں اختیار ہے کہ وہ تحفہ تم اپنے پرخرچ کر سکتے ہو کیونکہ وہ عموماً بیت المال کے لیے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیا جاتا تھا۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے کے لیے ان کے ساتھ باہر تشریف لے گئے۔ حضرت معاذؓ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات مکمل کر چکے تو فرمایا اے معاذ ! ممکن ہے کہ آئندہ سال تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو۔ حضرت معاذؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کی وجہ سے یہ سن کے زاروقطار رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ تبدیل کیا اور مدینےکی طرف منہ مبارک کر کے فرمایا: لوگوں میں سے میرے نزدیک وہ ہیں جو متقی ہیں چاہے وہ کوئی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔
(ماخوذازمسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد7 صفحہ 359 حدیث 22402 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو اس موقعے پر فرمایا تم عنقریب ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو اہل کتاب ہیں۔ جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں مقرر کی ہیں اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں یہ بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ مقرر کیا ہے جو ان کے دولتمندوں سے لیا جائے اور ان کے محتاجوں کو لوٹا دیا جائے۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو خبردار ان کے عمدہ عمدہ مال صدقے میں نہ لینا بلکہ درمیانے درجے کا لینا اور مظلوم کی پکار سے بچنا اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الی یمن……حدیث4347)
مظلوم کی آہ سے بچنے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی کیونکہ اس کی آہ اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ آپؓ ان لوگوں کو قرآن اور دین سکھاتے تھے۔ ان کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ یمن کے عاملین جو زکوٰۃ اکٹھی کرتے تھے وہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس بھجواتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا انتظام پانچ صحابہ حضرت خالد بن سعیدؓ، حضرت مہاجر بن اُمَیَّہؓ ، حضرت زیادؓ بن لبیدؓ ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ میں تقسیم فرمایا ہوا تھا۔
(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 460 ’معاذ بن جبل‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)
یعنی انتظامات ان پانچ کے سپرد تھے۔ یہ ایک روایت ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا کہ ہر تیس گائے میں زکوٰۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس گائے پر دو سالہ یعنی زکوٰۃ کی شرح بیان فرما رہے ہیں، نصاب بیان فرما رہے ہیں اور ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر مَعَافِر یعنی ایک یمنی کپڑا ہوتا ہے وہ وصول کرنا۔مَعَافِر ایک قبیلے کا نام تھا جو یہ کپڑا بناتے تھے۔ انہی کے نام پہ اس کا نام بھی ہو گیا۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 348 مسند معاذ بن جبل حدیث 22363، عالم الکتب بیروت 1998ء)
(لغات الحدیث جلد 3صفحہ 142 پیر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)
علامہ ابن سعد کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاؤں میں لنگڑاہٹ تھی۔ جب وہ یمن گئے تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اپنا پاؤں پھیلا دیا یعنی ٹانگ آگے کر لی یا دائیں طرف پھیلا دی ہوگی جس طرح بھی ان کی صورت تھی تو جو بھی پاؤں خراب تھا لوگوں نے بھی اسی طرح اس طرف اپنے پاؤں پھیلا دیے۔ حضرت معاذؓنے جب نماز پڑھا لی تو کہا تم لوگوں نے اچھا کیا کہ جس طرح مَیں کر رہا تھا تم نے کیا لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا کیونکہ مجھے تکلیف ہے اس لیے میں نے نماز میں اپنا پاؤں پھیلایا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 439 معاذ بن جبل۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
مطلب یہ تھا کہ مجھے دیکھ کے تم نے اطاعت کا جو نمونہ دکھایا وہ ہر لحاظ سے ہی قابل تعریف ہے۔ اطاعت اسی طرح ہونی چاہیے کہ امام کے پیچھے مکمل طور پر اس کی پیروی کی جائے لیکن میری یہ مجبوری ہے۔ یہ سنت نہیں ہے اور جس کو مجبوری نہیں وہ صحیح طرح نماز پڑھے۔ اسی طرح جس طرح حکم ہے، جس طرح سنت ہے، جس طرح ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل رہا ہے۔ حضرت معاذؓ نے یمن میں بیت المال کے پیسوں سے تجارت کی اور اس سے جو منافع ہوا اس سے اپنا قرض ادا کیا۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے مال سے تجارت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ہدیہ بھی قبول کرتے رہے اور یہاں تک کہ آپ کے پاس تیس رأس بھیڑ بکریاں ہو گئیں۔
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3 صفحہ 505حضرت معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
(الاستیعاب جلد3 صفحہ 1404معاذ بن جبل مطبوعہ دارالجیل بیروت 1992)
یہ اجازت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی یقیناً قرض کی ادائیگی کے لیے تھی اور تجارت اس حد تک تھی کہ جو منافع ہوتا تھا اس مال میں سے کچھ قرض اتارتے جاتے تھے یا منافع اگر نہیں بھی لیتے تھے تو یہ بھی ممکن ہے کہ تجارت پر جو منافع تھا اس میں اپنے کام کی اجرت کے طور پر لیتے ہوں کہ یہ میں نے اس طرح خرچ کیا۔ جو میرا مشورہ تھا اور جو محنت تھی اس کی یہ اجرت ہے اور اس کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی اس لیےپھر انہوں نے یہ لے لی تاکہ قرض ادا ہو اور یہی بات قابل قبول لگتی ہے کہ منافع کی شرح میں سے اجرت لیتے ہوں یا کچھ حد تک منافع لیتے ہوں لیکن بہرحال جو بھی تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت معاذؓحج کرنے آئے تووہ حضرت عمرؓ سے ملے جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے حج پر عامل بنایا تھا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت معاذؓ کی یَوْمُ التَّرْوِیَہْ کو ملاقات ہوئی۔ دونوں نے آپس میں معانقہ کیا اور ایک دوسرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کی۔ پھر دونوں زمین پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 441 معاذ بن جبل ومن سائر بني سَلَمَة۔دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
الاستیعاب میں لکھا ہے، یہ بھی تاریخ کی ایک کتاب ہے ،کہ حضرت معاذؓ بہت سخی تھے اور اسی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے یہ نوبت آ گئی کہ ان کا سارا مال قرضے کی زد میں آ گیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ ان کا قرض معاف کر دیں۔ پہلے بھی یہ بیان ہوا ہے۔ یہ مختلف حوالے سے دوسری یا وہی بات بیان ہو رہی ہے۔ آپؐ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا لیکن انہوں نے قرض معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر آگے اس نے یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی کسی کی خاطر کسی کا قرض معاف کرتا تو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر حضرت معاذ بن جبلؓ کا قرض معاف کر دیتے۔ سب سے بڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تھا آپ کی خاطر ہی کوئی اپنے قرض کو معاف کر سکتا تھا یا مالی قربانی دے سکتا تھا۔ لیکن اس میں سے بھی بہت سارا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے بعض لوگوں نے معاف نہیں کیا اور یہی عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم تو قرض واپس لیں گے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قرض کی ادائیگی کے لیے حضرت معاذ بن جبلؓ کی جائیداد وغیرہ سب بیچ دی اور حضرت معاذ بن جبلؓ خالی ہاتھ رہ گئے۔ پھر جس سال مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یمن کے ایک حصے کا امیر بنا کر بھیجا۔ یہاں بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ امیر بنا کے بھیجا تھا۔ اس لیے ہدیہ وغیرہ جو تھا ، جو بطور امیر اُن کو ملتا تھا وہ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بیت المال کا ہو گا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کے مال میں، بیت المال کے مال میں تجارت کی۔ وہ وہاں رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور وہ خوشحال ہو گئے۔ اس عرصے میں تجارت میں ان کو فائدہ ہوتا رہا اور وہ جتنا بھی حصہ لیتے تھے ،لیتے رہے تو خوشحالی ہو گئی۔ پھر جب وہ واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اس شخص کو یعنی حضرت معاذؓ کو بلوائیں اور اس کے پاس اس کی ضرورت کا سامان چھوڑ کر اس سے وصول کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی ادائیگی کی اجازت دی تھی۔ اب قرض کی ادائیگی ہو گئی اور جو ضرورت کے لیے ایک انسان کو چیزیں چاہئیں وہ بھی ان کے پاس رہنی چاہئیں لیکن یہ جو خوشحالی ہوئی ہے یہ حضرت عمرؓ کے خیال میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے یہ مال چھوڑ کے باقی جو ہے وصول کر لیں۔ اب حضرت ابوبکرؓ کے پاس یہ معاملہ آیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا ان کو یہ برداشت نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی اجازت دی ہو اور میں اس میں اس کے خلاف کوئی فیصلہ کروں تو بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور میں اس سے کچھ نہیں لوں گا اور یہ کہہ کے بھیجا تھا کہ تم تجارت کر سکتے ہو اور کچھ حصہ لے سکتے ہو یہاں تک کہ وہ خود مجھے دے دیں۔ مَیں نے تو نہیں مانگنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پہ گئے تھے اور یہ اجازت سے جو بھی ہدیہ اور باقی چیزیں لیتے تھے تو سوائے اس کے کہ مجھے خود دے دیں مَیں نے نہیں کہنا۔ حضرت عمرؓ پھر حضرت معاذؓ کے پاس گئے۔ حضرت عمرؓ بھی بعض اصولوں کے بڑے پکے تھے۔ وہ حضرت معاذؓکے پاس گئے اور حضرت معاذؓسے ذکر کیا۔ حضرت معاذؓنے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی طرف اس لیے بھیجا تھا تا کہ میری ضرورت پوری ہو اور میں تو کچھ بھی نہیں دوں گا۔ اور یہ روایات سے بھی اور ان کی زندگی کے سارے عرصہ اور سیرت سے بھی ثابت ہے کہ اگر تو ان کے پاس خوشحالی بھی تھی تو چند دن کے لیے ہوتی ہو گی کیونکہ اکثر وہ لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ بعض ایسی روایات آگے آئیں گی جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح وہ بانٹا کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد حضرت معاذؓحضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں آپ کی بات مانتا ہوں۔ پہلے تو حضرت عمرؓ کو کہہ دیا مَیں کچھ نہیں دوں گا اور پھر کچھ عرصے کے بعد یا کچھ وقفے کے حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا اچھا میں آپ کی بات مانتا ہوں اور میں وہی کروں گا جس کا آپ نے کہا ہے کیونکہ میں نے خواب دیکھی ہے، (کچھ عرصہ کے بعد ہی گئے ہوں گے کیونکہ یہاں خواب کا ذکر ہے۔) کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی ہے کہ پانی میں ڈوب رہا ہوں اور آپؓ نے یعنی حضرت عمرؓ نے مجھے بچایا ہے۔ اس کے بعد حضرت معاذؓحضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں آئے اور ساری بات ان سے بیان کی اور قسم کھا کر کہا کہ مَیں آپؓ سے کسی چیز کو بھی نہیں چھپاؤں گا جو میں نے لیا جس طرح لیا سب کچھ میرے سامنے ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں آپ سے کچھ بھی نہیں لوں گا۔ ٹھیک ہے آپ نے اپنا سارا کچھ حساب کتاب مجھے بتا دیا لیکن میں کچھ نہیں لوں گا۔ میں نےتمہیں وہ سب ہدیہ دیا۔ تحفہ کے طور پر تمہیں دے دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ بہترین حل ہے۔
(ماخوذ از الاستیعاب جلد 3 صفحہ 461 باب حرف المیم معاذ بن جبل۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2010ء)
حضرت عمرؓ بھی ساتھ تھے۔ جب یہ بات ان کو پتہ لگی کہ جو کچھ ہے وہ خود حضرت معاذؓ کو دے رہے ہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے اب کیونکہ خلیفہ وقت نے فیصلہ کر دیا ہے تو کامل اطاعت کے ساتھ اس کو قبول کر لیا۔ ان کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کیوں لیا جا رہا ہے۔ ان کو یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب یہ خلیفہ وقت کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ یہ خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے یا اپنے پاس مال رکھ سکتے ہیں یا نہیں رکھ سکتے۔ پہلے حضرت عمرؓ زور دیتے رہے کہ لینا چاہیے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے فیصلہ کر دیا کہ میں نہیں لوں گا اور میں تحفہ کے طور پر دے رہا ہوں تو پھر حضرت عمرؓ کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ خاموشی سے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ یہ فیصلہ اس سارے معاملے کا بہترین حل ہے۔ یہاں مزید وضاحت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس وقت تک انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا جب تک حضرت معاذؓ کی ضرورت پوری نہیں ہو گئی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہو گئی اور ان کی ضرورت بھی پوری ہو گئی ،کشائش بھی پیدا ہو گئی، قرضے بھی اتر گئے تو خواب کے ذریعے خود ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت معاذؓ کو اس طرف توجہ دلا دی کہ اب نہیں۔ اب اپنی جائیداد پہ ہی گزارا کرو۔ اب نہ وہ ہدیہ بحیثیت امیر کے تم لے سکتے ہو نہ بیت المال میں سے خرچ کر سکتے ہو اور اس کے بعد وہ زیادہ عرصہ وہاں رہے بھی نہیں۔ بہرحال یہ اس کی مختصر وضاحت ہے۔
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہو گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ ملا تو ؟انہوں نے عرض کیا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی اس کا حکم نہ ملا تو ؟انہوں نے عرض کیا کہ میں پھر اجتہاد سے اپنی رائے قائم کروں گا اور میں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ معاذ نے بیان کیا کہ یہ باتیں سن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ پھر فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو ایسی بات کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کی خوشنودی کا باعث ہوئی۔
(مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 347حدیث22357 عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: نازو نعم والی زندگی اختیار کرنے سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم والی زندگی اختیار نہیں کرتے۔
(مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 375 حدیث 22456 عالم الکتب بیروت 1998ء)
اس سے اس بات کی بھی مزید وضاحت ہو گئی کہ جو ہدیے اور تجارت کا مال تھا وہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تھا کہ ان کا ہاتھ کھلا ہے۔ غریبوں کی مدد کرنے و الے ہیں اسی پر خرچ کریں گے لیکن پھر بھی یہ نصیحت کر دی کہ یہ سب کچھ اجازتیں میں تمہیں دے رہا ہوں اس لیے نہیں کہ نازو نعم کی زندگی گزارو بلکہ اس لیے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوں۔ اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔
حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ یمن کی طرف روانہ ہونے کے لیے جب میں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری نصیحت یہ فرمائی کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 439 ’’معاذ بن جبل‘‘ ومن سائر بني سَلَمَة۔دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
آج کل کے مسلمانوں کا حال دیکھیں کہ کیا وہ اسی طرح پیش آتے ہیں اور منا رہے ہیں سیرت النبی ؐکی میلاد النبیؐ۔ میلاد النبیؐ منانے کی اصل چیز تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپؐ کی نصائح پر عمل کیا جائے۔
جب حضرت معاذؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن پر حاکم بنا کر بھیجا تو ان کے رتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ اِنِّیْ بَعَثْتُ لَکُمْ خَیْرَ اَھْلِیْ کہ مَیں اپنے لوگوں میں سے بہترین کو تمہارے لیے بھیجتا ہوں۔
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 502حضرت معاذبن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
ابن اَبُوْنَجِیْح روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو اہل یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجا اور اہل یمن کو تحریر فرمایا کہ یقیناًً میں نے تم پر اپنے لوگوں میں سے بہترین صاحب علم اور صاحب دین شخص کو حاکم بنایا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ 438-439 معاذ بن جبل ومن سائر بني سَلَمَة۔دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)
ایک حدیث میں آتا ہے، یہ روایت مسند احمد بن حنبل کی ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا خواہ تم قتل کر دیے جاؤ یا جلا دیے جاؤ۔ دوسری بات یہ کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو خواہ وہ تمہیں گھر بار اور مال سے بےدخل کر دیں۔ والدین کی نافرمانی نہیں کرنی چاہے کچھ بھی ہو جائے کچھ بھی ان سے نہ ملے۔ پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو کیونکہ جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑنے والا اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور حفاظت سے باہر نکل جاتا ہے۔ پھر فرمایا شراب نہ پیو کیونکہ شراب ہر بے حیائی کی جڑ ہے۔ پھر فرمایا گناہ اور نافرمانی سے بچو کیونکہ گناہ کی وجہ سے خدا کی ناراضگی نازل ہوتی ہے۔ پھر فرمایا دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت فرار اختیار نہ کرو۔ اگر دشمن سے آمنا سامنا ہو جائے تو پھر ڈر کے دوڑ نہیں جانا خواہ لوگ ہلاک ہو جائیں۔ پھر فرمایا اگر لوگ طاعون جیسی وبا کا شکار ہو جائیں اور تم ان کے درمیان ہو تو اپنی جگہ پر ہی رہو۔ طاعون کی بیماری اگر پھیلتی ہے ،کوئی بھی ایسی وبا پھیلتی ہے جو وسیع طور پر پھیلنے والی ہے تو پھر اگر تم بیماری کے علاقے میں ہو تو جہاں ہو وہیں رہو۔ پھر فرمایا کہ اپنے اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرو۔ جتنی طاقت ہے اتنا ان پہ خرچ کرو، ان کے حق ادا کرو اور ان کی تادیب و تربیت میں کوتاہی نہ کرو۔ پھر ان کی تربیت صحیح طرح کرو اور کہیں تھوڑی بہت سختی بھی کرنی پڑے تو وہ بھی کرو تا کہ ان کی صحیح تربیت ہو اور انہیں خدا کا خوف یاد دلاتے رہو۔ یہ دس باتیں ہیں جو آپ نے ان کو فرمائیں۔
(مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 366 مسند معاذ بن جبل حدیث 22425 عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ سے فرمایا اے معاذ! مَیں تمہیں مشفق بھائی کی نصیحت جیسی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ روایت ابن عمرؓ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مَیں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ مریض کی عیادت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ بیواؤں اور ضعیفوں کی ضروریات پوری کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ ضرورت مندوں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھنے اور لوگوں کو اپنی طرف سے انصاف فراہم کرنے اور حق بات کہنے اور اس بات کی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنےوالے کی ملامت تمہارے آڑے نہ آئے۔
(کنز العمال جلد15 صفحہ 903۔ حدیث 43555 کتاب المواعظ… الخ۔ الفصل السادس موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے کہا :کسی چیز کی خواہش کرو۔ کسی نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ ایک شخص نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ مکان ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور میں اس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ صحابہ کی کیسی عجیب اور عظیم خواہشیں تھیں۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا اَور خواہش کرو۔ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا خواہش کریں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا میری یہ خواہش ہے کہ یہ گھر حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت مُعاذ بن جَبَلؓ اور سالم مولیٰ ابوحذیفہؓ اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو۔
(المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 252 حدیث 5005 کتاب معرفۃ الصحابۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پچھلی دفعہ بھی یہ واقعہ بیان کیا تھا۔ اس دفعہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے ذکر میں بھی یہ روایت آگئی۔
حضرت معاذؓ 9؍ ہجری سے 11؍ہجری تک دو سال یمن میں رہے۔
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد3صفحہ505معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
ایک مرتبہ حضرت عمربن خطابؓ نے چار سو دینار ایک تھیلی میں ڈالے اور غلام سے کہا حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے پاس لے جاؤ۔ (یہ گذشتہ خطبے میں حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے ذکر میں بھی بیان ہوا تھا لیکن اس کی بقایا تفصیل رہ گئی تھی تو اس لیے پوری تفصیل اب بیان کر دیتا ہوں)۔ اور گھر میں ان کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرو۔ دیکھو کہ وہ اس مال کے ساتھ کیا کریں گے۔ چنانچہ غلام تھیلی لے کر ان کے پاس گیا اور کہا امیر المومنین نے آپؓ کے لیے کہا ہے کہ اس مال کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے۔ پھر انہوں نے اپنی لونڈی کو بلایا اور کہا یہ سات دینار فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ اور یہ پانچ فلاں کے پاس لے جاؤ یہاں تک کہ وہ سب ختم کر دیے۔ اپنی ملازمہ کو بُلا کے مختلف گھروں میں بھجوانے کے لیے دیےکہ جا کے فلاں فلاں گھروں میں یہ دے آؤ۔ غریب گھر ہوں گے۔ پھر وہ غلام جو تھا حضرت عمرؓ کے پاس واپس آیا اور ساری بات بتائی۔ حضرت عمرؓ نے اتنے ہی دینار حضرت معاذؓ کے لیے بھی تیار رکھے ہوئے تھے۔ جتنے ابوعبیدہؓ کو بھیجے تھے اتنے ہی حضرت معاذؓ کے لیے تیار رکھے تھے۔ دوسری تھیلی تیار کی ہوئی تھی۔ انہوں نے غلام سے کہا کہ اس کو حضرت معاذؓ کے پاس لے جاؤ اور ان کے پاس گھر میں تھوڑی دیر رکنا اور دیکھنا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ غلام تھیلی لے کر حضرت معاذؓ کے پاس گیا۔ ان سے کہا کہ امیر المومنین نے کہا ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کریں۔ حضرت معاذؓ نے کہا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ پھر انہوں نے لونڈی کو بلایا اور کہا اتنے دینار فلاں گھر لے جاؤ اور اتنے فلاں گھر میں لے جاؤ۔ اتنے میں حضرت معاذؓ کی اہلیہ بھی آ گئیں اور انہوں نے کہا بخدا ہم بھی مساکین ہیں یعنی گھر میں بھی کچھ نہیں ہے۔ کچھ گھر کے لیے بھی تو رکھ لو۔ منافع کمانے کی، ہدیہ لینے کی وہ باتیں جو پہلے آئی تھیں وہ بھی یہاں مزید clear ہوتی ہیں، واضح ہو جاتی ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی کچھ نہیں ہے۔ ہم بھی مسکینوں میں شامل ہیں۔ ہمیں بھی دیں۔ تھیلی میں صرف اس وقت دو دینار بچے تھے۔ سارے آپ بانٹ چکے تھے۔ حضرت معاذؓ نے وہ دونوں دینار جو تھے اپنی اہلیہ کی طرف اچھال دیے اور غلام حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور ان کو ساری بات سے آگاہ کیا۔ حضرت عمرؓ اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا یقیناً یہ دونوں حضرت عبیدہؓ اور حضرت معاذؓ اسی طرح خرچ کرنے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
(مجمع الزوائد جلد 3 صفحہ 234۔ کتاب الزکاة باب فی الانفاق۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)
جس طرح یہ خرچ کرتے ہیں ان کی یہ صفت ایک ہے۔
شُرَیْح بن عُبَید اور رَاشِد بن سَعد وغیرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ جب سَرْغْمقام پر پہنچے، سَرْغْوادی تبوک کی ایک بستی کا نام ہے۔ تو آپؓ کو بتایا گیا کہ شام میں سخت وبا پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ شام میں شدید وبا پھیلی ہوئی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر میری وفات کا وقت آ جائے اور ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ زندہ ہوں تو مَیں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ان کے متعلق سوا ل کیا کہ تم نے اسے امّتِ محمدیہ پر خلیفہ کیوں مقرر کیا تو مَیں یہ عرض کروں گا کہ مَیں نے تیرے رسول ؐکو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن جَرَّاح ہے۔ یہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی وہ کہنے لگے کہ قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنو فِہْر کا کیا بنے گا؟ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میری وفات کا وقت آ جائے اور ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ بھی فوت ہو چکے ہوں تو معاذ بن جبلؓ کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں گا اور اگر میرے رب عزّوجل نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا تو مَیں کہوں گا کہ مَیں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے لائے جائیں گے۔
(مسند احمد بن حنبل مسند الخلفاء الراشدین مسند عمر بن الخطاب جلد 1صفحہ 109حدیث 108 عالم الکتب بیروت1998ء)
(معجم البلدان جلد 3صفحہ239)
علم میں ان کا بہت مقام ہو گا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے جنگِ یرموک 15؍ ہجری کے موقعے پر میمنہ، وہ حصہ جو لڑائی کے وقت فوج کا جو کمانڈر ہوتا ہے اس کے دائیں طرف کھڑا ہوتا ہے اس کے ایک حصے کا افسر مقرر کیا۔ عیسائیوں کا حملہ اس قدر سخت ہوا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے الگ ہو گیا لوگ بکھر گئے۔ جب حضرت معاذؓ نے یہ حالت دیکھی تو نہایت شجاعت اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور گھوڑے سے نیچے اتر گئے اور کہا کہ مَیں اب پیادہ پا لڑوں گا۔ اگر کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکتا ہے تو گھوڑا اس کے لیے حاضر ہے۔ ان کے بیٹے بھی میدانِ جنگ میں موجود تھے انہوں نے کہا مَیں اس کا حق ادا کروں گا کیونکہ مَیں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ غرض دونوں باپ بیٹا رومی فوج کو چیر کر اندر گھس گئے اور اس دلیری سے لڑے کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔
( ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 508معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
(فیروز اللغات صفحہ 1332زیر لفظ میمنہ)
اور جو خوف کی حالت تھی وہ پھر انہوں نے دوبارہ ان کو شکست دے کے مسلمانوں کو فتح دلوا دی۔ ابوادریس خَوْلَانی بیان کرتے ہیں کہ میں شام میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں چمکتے دانتوں والا نوجوان موجود تھا اور اس کے گرد لوگ جمع تھے۔ جب لوگوں کا کسی بات پر اختلاف ہوتا تو وہ معاملہ اس کے پاس لے جاتے اور اس کی رائے کو فوقیت دیتے تو میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں۔ اگلے روز میں دوپہر کے وقت گیا تو دیکھا کہ وہ میرے سے پہلے دوپہر کے وقت وہاں موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے ان کا انتظار کیا۔ جب انہوں نے نماز ادا کر لی تو میں ان کے سامنے گیا اور انہیں سلام کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے اللہ کی خاطر آپ سے محبت ہے۔ حضرت معاذؓ نے کہا اللہ کی قسم! مَیں نے کہا اللہ کی قسم!حضرت معاذؓ نے پھر کہا، پھر سوال کیا اللہ کی قسم! مَیں نے کہا اللہ کی قسم۔ پھر انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ خوش ہو جاؤ کیونکہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عزّوجل نے یہ فرمایا ہے کہ میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت لازم ہو گئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت لازم ہو گئی۔
(مسند احمد بن حنبل مسند معاذ بن جبل جلد 7 صفحہ 353-354حدیث 22380 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں تھیں جب باری کے مطابق ایک کے پاس ہوتے تو دوسری کے پاس پانی تک بھی نہیں پیتے تھے۔اتنا انصاف تھا۔
ایک اَور روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کی دو بیویاں تھیں۔ جس دن ایک کی باری ہوتی دوسری کے گھر میں وضو تک نہیں کرتے تھے۔ پھر دونوں ملک شام میں وبائی بیماری میں فوت ہو گئیں۔ ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ دفن کرتے وقت حضرت معاذؓ نے قرعہ ڈالا کہ پہلے کس کو قبر میں داخل کریں۔ یہ ان کا انصاف تھا۔
(حلیة الاولیاء جلد اول حصہ اول صفحہ 204 مترجم محمد اصغر مغل۔ دار الاشاعت کراچی 2006ء)
ایک اور روایت ہے سیر الصحابہ کی کہ حضرت معاذؓ کی دو بیویاں تھیں۔ اور وہ دونوں طاعونِ عَمَوَاسسے وفات پا گئی تھیں۔ جبکہ ایک بیٹے کا پتا چلتا ہے جس کا نام عبدالرحمٰن بیان ہوا ہے اور وہ جنگ یرموک میں حضرت معاذؓ کے ساتھ شامل تھے ان کی وفات بھی طاعون عَمَوَاسسے ہوئی۔ (یعنی طاعون کی وہ وبا جو اس زمانے میں پھیلی تھی)
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 510-511حضرت معاذ بن جبلؓ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
جب حضرت ابوعبیدہؓ کی طاعون عَمَوَاس سے وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ کو شام پر عامل مقرر فرمایا۔ عَمَوَاس یہ ایک بستی کا نام ہے۔ میں اس کی تفصیل پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ رَملہ سے سات میل کے فاصلے پر ہے اور بیت المقدس کے راستے پر واقع ہے۔ حضرت معاذؓ کی بھی اسی سال اسی طاعون سے وفات ہوئی۔
(الاستیعاب جلد3صفحہ 1405معاذبن جبل مطبوعہ دارالجیل بیروت)
(معجم البلدان 4صفحہ 177-178)
کثیر بن مُرَّہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے اپنی بیماری میں ہمیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی تھی جسے میں نے تم سے چھپا کر رکھا تھا ۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا۔ آپ نے فرمایا جس کا آخری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی ۔
(مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 355 مسند معاذ بن جبل حدیث 22383 عالم الکتب بیروت 1998ء)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ تمہیں یہ حدیث بتانے میں صرف یہ بات مانع تھی کہ کہیں تم اس پر ہی بھروسا نہ کر لو اور باقی عمل چھوڑ دو۔
(مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 361 مسند معاذ بن جبل حدیث 22410 عالم الکتب بیروت 1998ء)
جب شام میں طاعون پھیلی اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو بھی طاعون ہو گئی تو اس کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہو گئی۔ جب ذرا سنبھلے تو کہا اے اللہ !تو اپنا غم مجھ پر مسلط کر دے۔ تیری عزت کی قسم !تُو جانتا ہے کہ مَیں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر جب ذرا سنبھلے تو دوبارہ ایسا ہی کہا۔
جب حضرت معاذ بن جبلؓ کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو فرمایا دیکھو صبح ہو گئی ہے؟ کہا گیا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو کہا گیا کہ صبح ہوگئی ہے۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ میں اس رات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کی صبح جہنم کی طرف لے جائے۔ میں موت کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں اپنے محبوب سے ملنے والے کو خوش آمدید کہتا ہوں جو ایک مدّت کے بعد آ رہا ہے۔ اے اللہ !تُو جانتا ہے کہ مَیں تجھ سے ڈرتا ہوں لیکن آج کےدن مَیں پُرامید ہوں۔ مَیں دنیا اور لمبی زندگی سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ اس میں نہریں کھودوں یا اس میں درخت لگاؤں بلکہ اس لیے کہ دوپہر کی پیاس اور حالات کی تکالیف برداشت کروں اور ان علماء کے ساتھ بیٹھوں جہاں تیرا ذکر کیا جائے۔ پھر ایک اَور روایت میں ہے کہ جب حضرت معاذؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ مَیں مرنے کے غم کی وجہ سے نہیں رو رہا اور نہ اس لیے کہ دنیا پیچھے چھوڑے جا رہا ہوں بلکہ مَیں تو صرف اس لیے رو رہا ہوں کہ دو گروہ ہوں گے اور مَیں نہیں جانتا کہ میں کس گروہ میں اٹھایا جاؤں گا۔ (مأخوذ از اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5صفحہ 189 ’’معاذ بن جبل‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت) ایک جنتی ہے اور ایک دوزخی اور مجھے تو صرف اللہ کا خوف ہے اس لیے رو رہا ہوں۔
مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ حضرت معاذؓ نے کہا کہ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہو جائے گا لیکن وہاں تم لوگوں میں ایک بیماری ظاہر ہوگی جو پھوڑے پھنسیوں یا سخت کاٹنے والی چیز کی طرح ہوگی۔ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصّے میں ظاہر ہوگی۔ اللہ اس کے ذریعے انہیں شہادت عطا فرمائے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ فرمائے گا۔ اے اللہ! اگر تُو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کواس کا وافر حصہ عطا فرما۔ یہ آپؓ ہی فرما رہے ہیں۔ چنانچہ وہ سب اس طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہیں رہا۔ جب حضرت معاذؓ کی شہادت والی انگلی میں طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ ملنا بھی پسند نہیں ہیں۔ میں اسی بات پر خوش ہوں۔
(مسند امام احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 371 مسند معاذ بن جبل حدیث 22439 عالم الکتب بیروت 1998ء)
تاریخ طبری میں ہے کہ آپؓ کی ہتھیلی میں پھوڑا نکلا۔ آپ اپنی ہتھیلی کو دیکھتے اور اس ہاتھ کی پشت کو بوسہ دیتے اور کہتے مجھے یہ پسند نہیں کہ تیرے بدلے میں دنیا کی کوئی چیز ملے۔
(تاریخ الطبری جزء 4 صفحہ 238 ۔ خروج عمر بن الخطاب الی الشام۔ دار الفکر بیروت)
حضرت معاذ بن جبلؓ نے 18؍ ہجری میں وفات پائی۔ آپؓ کی عمر کے متعلق مختلف آراء ہیں ان کے مطابق تینتیس چونتیس اور اڑتیس سال عمر بیان کی گئی ہے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5صفحہ 190 ’’معاذ بن جبل‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
حضرت معاذؓ کی روایات کی تعداد جو حدیثوں میں ہے 157 ہے جس میں سے دو حدیثوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے۔ دونوں میں یہ درج ہیں۔
(سیر الصحابہ جلد سوم ، حصہ پنجم صفحہ 156، ادارہ اسلامیات لاہور)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے وہ عبداللہ بن عمرو ہیں۔ حضرت عبداللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنوسلمہ سے تھا۔ آپ کے والد کا نام عَمرِو بن حَرَام اور والدہ کا نام رُبَاب بنت ِقَیس تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جز3صفحہ 423، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 2012ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو ہجرتِ نبوی سے تقریباً چالیس سال قبل پیدا ہوئے۔
(صحابہ کرام انسائیکلوپیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم صفحہ 486،عبد اللہ بن عمروؓ، بیت العلوم پرانی انارکلی لاہور)
یعنی ہجرت کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ایک مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ کے والد تھے۔
(الاصابة فی تمییز الصحابہ جزو4 صفحہ 162، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت 2005ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ حضرت عَمرِ وبن جَمُوحؓ کے برادر نسبتی تھے۔
(خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) ، تقریر جلسہ سالانہ 1979ء،صفحہ 349)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اور غزوۂ اُحُد میں شہید ہوئے۔ بعض کے نزدیک حضرت عبداللہ بن عمروؓ غزوۂ اُحُد میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے شہید تھے۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جز3 صفحہ 84، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 2002ء)
ان کے ایمان لانے کا واقعہ اس طرح بیان ہوتا ہے کہ حضرت کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایام ِتشریق یعنی ایام حج کے آخری تین دن جو گیارہ سے تیرہ ذوالحجہ تک ہے اس کے درمیانی دن عقبہ میں ملنے کا وعدہ کیا۔ عقبہ مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ جب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آ گئی جس کا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا تو ہمارے ساتھ عبداللہ بن عمرو بھی تھے جو ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار تھے اور ہمارے شرفاء میں سے تھے۔ ہم نے انہیں اپنے ساتھ لیا۔ ہم نے اپنے لوگوں میں سے مشرکین سے اپنا معاملہ چھپایا ہوا تھا۔ ہم نے ان سے کہا اے ابوجابرؓ! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں۔ ان کی کنیت ابوجابر تھی اس لیے ان کو ابوجابر بھی کہتے تھے ۔تو کہتے ہیں ہم نے ان سے کہا کہ اے ابوجابر! آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے شرفاء میں سے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ جہنم کا ایندھن بنیں۔ پس ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عقبہ مقام میں جانے کی خبر دی۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بیعت عقبہ میں شامل ہوئے اور نقیب مقرر ہوئے۔
(سیرت ابن ہشام جز 1صفحہ 236،امر العقبة الثانیة، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
(اردودائرہ معارف اسلامیہ جلد6صفحہ413مطبوعہ شعبہ اردودائرہ معارف لاہور)
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اور میرے والد اور میرے دو ماموں اصحابِ عَقَبہ میں سے ہیں۔ ابن عُیَیْنَہ ایک راوی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک حضرت بَرَاء بن مَعْرُورؓ ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب وفود الانصار الی النبیﷺ بمکة و بیعة العقبة حدیث نمبر3890- – 3891)
عَقَبہ ثانیہ کے بارے میں ’سیرت خاتم النبیین‘ سے مَیں ایک صحابی کے ذکر میں بلکہ دو کے ذکر میں پہلے ایک تفصیل بیان کر چکا ہوں۔ یہاں تھوڑا سا حصہ دوبارہ بیان کرتا ہوں۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بارے میں ’سیرت خاتم النبیین‘ میں جو لکھا گیا ہے اس میں جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے متعلقہ حصہ ہے، بیان کرتا ہوں۔
تیرہ نبوی کا جو مہینہ ہے ذی الحجہ، اس میں حج کے موقعے پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکے میں آئے۔ ان میں ستّر شخص ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے اور یا اب مسلمان ہونا چاہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مکے آئے تھے۔
اس موقعے پر ایک اجتماعی اور خلوت کی ملاقات کی ضرورت تھی اس لیے مراسِم حج کے بعد ماہ ذی الحجہ کی وسطی تاریخ مقرر کی گئی۔ کہ اس دن نصف شب کے قریب یہ سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر ملیں۔ یہ مقرر کیا گیا تاکہ اطمینان اور یکسوئی کے ساتھ علیحدگی میں بات چیت ہو سکے۔ اور آپؐ نے انصار کو تاکید فرمائی کہ اکٹھے نہ آئیں بلکہ ایک ایک دو دو کر کے وقت مقررہ پر گھاٹی میں پہنچ جائیں اور سوتے کو نہ جگائیں اور نہ غیر حاضر کا انتظار کریں۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ آئی تو رات کے وقت جبکہ ایک تہائی رات جاچکی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھر سے نکلے اور راستہ میں اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپؐ سے محبت رکھتے تھے اور خاندانِ ہاشم کے رئیس تھے اور پھر دونوں مل کر اس گھاٹی میں پہنچے۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ انصار بھی ایک ایک دو دو کر کے آپہنچے۔ یہ ستّر اشخاص تھے اور اوس اور خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔
سب سے پہلے عباس نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ اے خزرج کے گروہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے اور وہ خاندان آج تک اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اور ہر خطرہ کے وقت میں اس کے لیے سینہ سپر ہوا ہے ۔مگر اب محمد کا ارادہ اپنا وطن چھوڑکر تمہارے پاس چلے آنے کا ہے۔ سو اگر تم اسے اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف صاف جواب دے دو کیونکہ صاف صاف بات اچھی ہوتی ہے۔ بَرَاء بن مَعْرُور جو انصار کے قبیلے کے ایک معمر اور بااثر بزرگ تھے انہوں نے کہا عَبَّاس! ہم نے تمہاری بات سن لی ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرما دیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرما دیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ معاملہ کرو۔ جب آپؐ تقریر ختم کر چکے تو بَرَاء بن مَعْرُور نے عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا یا رسول اللہ ؐ! ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپؐ کو حق و صداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپؐ کی حفاظت کریں گے۔ ان میں سے ایک شخص کے کہنے پر کہ یہ تو ہم عہد کرتے ہیں کہ کریں گے لیکن یہ بتائیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب آپؐ کو غلبہ ملے گا تو ہمیں چھوڑ تو نہیں جائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہنس کر فرمایا کہ تمہارا خون میرا خون ہو گا۔ تمہارے دوست میرے دوست ہوں گے۔ تمہارے دشمن میرے دشمن ہوں گے۔ اس پر عباس بن عُبَادَہ انصاری نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈال کر کہاکہ لوگو !کیا تم سمجھتے ہوکہ اس عہد اور پیمان کے کیا معنے ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ اب تمہیں ہر اسود و احمر، ہر کالے گورے، سرخ سفید کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔ لوگوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں۔ مگر یا رسول اللہؐ! اس کے بدلہ میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا تمہیں خدا کی جنت ملے گی جو اس کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ سب نے کہا ہمیں یہ سودا منظور ہے۔ یا رسول اللہؐ! اپنا ہاتھ آگے کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک آگے بڑھادیا اور یہ ستّر جاں نثاروں کی جماعت ایک دفاعی معاہدہ میں آپؐ کے ہاتھ پر بِک گئی۔ اس بیعت کا نام بیعتِ عَقَبہ ثانیہ ہے۔
جب بیعت ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی قوم میں سے بارہ نقیب چنے تھے جو موسیٰ کی طرف سے ان کے نگران اور محافظ تھے۔ مَیں بھی تم میں سے بارہ نقیب مقرر کرنا چاہتا ہوں جو تمہارے نگران اور محافظ ہوں گے اور وہ میرے لیے عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ہوں گے اور میرے سامنے اپنی قوم کے متعلق جوابدہ ہوں گے۔ پس تم مناسب لوگوں کے نام تجویز کر کے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ بارہ آدمی تجویز کیے گئے جنہیں آپ نے منظور فرمایا اور انہیں ایک ایک قبیلہ کا نگران مقرر کر کے ان کے فرائض سمجھا دیے اور بعض قبائل کے لیے آپ نے دو دو نقیب مقرر فرمائے۔ بہرحال ان بارہ نقیبوں میں عبداللہ بن عمرو کا نام بھی شامل تھا اور ان کو بھی آپ نے نقیب مقرر فرمایا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 227تا231)
ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحُد کے موقع پر جب عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلُولنے جو منافقین مدینہ کا سردار تھا غداری کی تو حضرت عبداللہ بن عمرو نے ان لوگوں کو نصیحت کرنے کی کوشش کی۔
(غزوہ اُحد از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ 215، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی، 1989ء)
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ بن عَمرو اور ماموں غزوہ اُحُد میں شہید ہو گئے تو میری والدہ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ پھوپھی جو حضرت عَمرِو بن جَمُوحؓ کی اہلیہ تھیں ان دونوں کو اونٹنی پر رکھ کر مدینہ لا رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اپنے مقتولوں کو ان کے لڑنے کی جگہ پر دفناؤ۔ اس پر ان دونوں کو واپس لے جایا گیا اور ان کے لڑنے کی جگہ پر ہی دفنا دیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ جز3 صفحہ 423، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 2012ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد2صفحہ 287 عبداللّٰہ بن عمرودارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحُد کے موقعے پر اہلِ مدینہ میں خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر مدینے میں آہ و بکا ہونے لگی اس پر انصار کی ایک عورت بھی اُحُد کی طرف نکلی تو راستے میں اس نے اپنے والد، بیٹے، خاوند اور بھائی کی نعشوں کو دیکھا ۔راوی کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں سب سے پہلے اس نے کسے دیکھا۔ جب وہ ان میں سے کسی کے پاس سے گزرتی تو وہ کہتی یہ کون ہے؟ لوگ کہتے تمہارا والد ہے، تمہارا بھائی ہے، تمہارا خاوند ہے، تمہارا بیٹا ہے۔ وہ کہتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے سامنے ہیں یہاں تک کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کے کپڑے کا دامن پکڑ کر عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جب آپؐ صحیح سلامت ہیں تو مجھے کسی کی موت کی کوئی پروا نہیں۔
(مجمع الزوائد جز6صفحہ120، کتاب المغازی والسیرباب فیمن استصغر یوم احد، دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ خلافت سے دو تین سال پہلے کی بات ہے جلسہ سالانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور غزوات پر تقریر کیا کرتے تھے وہاں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے بارے میں جو ایک بیان کیا وہ بھی میں یہاں پڑھ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی بہن یعنی حضرت عَمرِو بن جَموح ؓکی اہلیہ بھی اپنے بھائی ہی کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سراپا رنگین تھیں۔ خاوند اس جنگ میں شہید ہوا۔ بھائی اس جنگ میں شہید ہوا۔ بیٹا اس جنگ میں شہید ہوا لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کی خوشی ان سب غموں پر غالب آ گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں میدانِ جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جا رہی تھی کہ راستے میں مجھے عَمرِو بن جَموح کی بیوی ہِند ایک اونٹ کی مہار پکڑے مدینہ کی طرف جاتی ہوئی ملی۔ مَیں نے اس سے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے؟ اس نے جواب دیا الحمد للہ سب خیریت ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ لدا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا یہ اونٹ پر کیا لدا ہوا ہے؟ کہنے لگی میرے خاوند عَمرِو بن جَموح کی نعش ہے، میرے بھائی عبداللہ بن عمرو کی نعش ہے، میرے بیٹے خَلّاد کی نعش ہے۔ یہ کہہ کر وہ مدینہ کی طرف جانے لگی مگر اونٹ بیٹھ گیا اور کسی طرح اٹھنے میں نہ آتا تھا ۔آخر جب وہ اٹھا تو مدینہ کی طرف جانے سے انکار کر دیا تب اس نے یعنی اس خاتون نے اس کی مہار پھر اُحُد کے میدان کی طرف موڑ دی تو وہ خوشی خوشی چلنے لگا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ادھر تو عورت کا یہ ماجرا گزر رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی یہ داستان تھی اور ادھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے یہ فرما رہے تھے کہ جاؤ عَمرِو بن جَموح اور عبداللہ بن عمرو کی نعشیں تلاش کرو کہ انہیں اکٹھا دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اس دنیامیں بھی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔
(ماخوذ از خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 350-351)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان دونوں کا بڑا خیال تھا۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرو ؓنے غزوۂ اُحُد کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا تو اپنے بیٹے حضرت جابر کو بلایا اور ان سے کہا اے میرے بیٹے! مَیں دیکھتا ہوں کہ مَیں اوّلین شہداء میں سے ہوں گا اور اللہ کی قسم! مَیں اپنے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بعد تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چھوڑ کے جا رہا جو مجھے زیادہ عزیز ہو۔ میرے ذمہ کچھ قرض ہے میرا وہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا اور مَیں تمہیں تمہاری بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ اگلی صبح میرے والد صاحب سب سے پہلے شہید ہوئے اور دشمنوں نے ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے تھے۔
(اسد الغابة فی معرفة الصحابہ جلد3 صفحہ 344، عبد اللّٰہ بن عمرو، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحُد کے شہداء کو دفن کرنے کے لیے تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ میں ان پر گواہ ہوں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہو گا اور اس کا رنگ زعفران کا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہو گی۔ یعنی کہ یہ پسندیدہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ انہیں نہلانے اور کفنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہی کا لباس ان کا کفن ہے۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرے والد کو ایک چادر کا کفن دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب یہ شہداء دفن کیے جارہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپؐ فرماتے کہ اس کو قبر میں اس کے ساتھیوں سے پہلے اتارو یعنی جو قرآن جاننے والے لوگ تھے ان کو آپؐ پہلے دفن کرواتے جاتے تھے اور لوگ کہتے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ اُحُد کے روز سب سے پہلے شہید ہوئے۔ اس وقت یہ بھی لوگوں میں باتیں ہو رہی تھیں کہ سب سے پہلے جو شہید تھے عبداللہ بن عمروؓ تھے۔سفیان بن عبد شمس نے آپؓ کو شہید کیا تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزیمت سے قبل آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ دوبارہ جو حملہ ہوا ہے اس سے پہلے ہی آپؓ کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی اور فرمایا کہ عبداللہ بن عمروؓ اور عمرو بن جَموح ؓکو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیونکہ ان کے درمیان اخلاص اور محبت تھی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کو جو دنیا میں باہم محبت کرنے والے تھے ایک ہی قبر میں دفن کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمروؓ سرخ رنگ کے تھے اور آپؓ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اور قد زیادہ لمبا نہ تھا جبکہ حضرت عَمرِو بن جَموحؓ لمبے قد والے تھے اس لیے دونوں پہچان لیے گئے اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
(الطبقات الکبریٰ جزو 3 صفحہ 424، عبد اللّٰہ بن عمرو، دارالکتب العلمیة بیروت، 2012ء)
ان کا باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
(الفضل انٹر نیشنل 20 نومبر 2020ء صفحہ 5تا10)
٭…٭…٭