متفرق مضامین

امریکن مشنری H. D. Griswold کی قادیان آمد اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے انٹرویو

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں دو امریکن مشنریز کے قادیان آنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر……اس سوال و جواب کا حال 18 صفحات پر مشتمل ہے

ڈاکٹر ایچ ڈی گرس وولڈ (Dr. Hervey DeWitt Griswold) امریکی ریاست نیویارک کے ایک چھوٹے سے شہر ڈرائڈن (Dryden) کے رہنے والے تھے جو 1860ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد نیویارک شہر میں واقع مشہور عیسائی درسگاہ Union Theological Seminaryسے تعلیم حاصل کی جس کے بعد بطور مشنری انڈیا میں متعین ہوئے۔ ڈاکٹر گرس وولڈ 1890ء میں انڈیا پہنچے اور پہلے جھانسی (یو پی) اور پھر لاہور کے ایف سی کالج (F .C.xCollege) میں بطور پروفیسر آف فلاسفی تقرری ہوئی۔ ایف سی کالج میں بطور لائبریرین بھی نمایاں کام کیا، زیادہ عرصہ اسی کالج سے منسلک رہے۔ 1900ء میں Cornell University, Ithaca, New Yorkسے پی ایچ ڈی کی۔ انڈیا میں 36؍سال کام کرنے کے بعد واپس امریکہ چلے گئے اور مئی 1945ء میں وفات پاکر اپنے آبائی شہرDryden میں ہی مدفون ہوئے۔ قبر آج بھی موجود ہے۔

ڈاکٹر گرس وولڈ کے تالیفاتی کاموں میں سے ایک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ان کا مقالہ The Messiah of Qadianبھی ہےجو 1905ء میں The Victoria Institute لندن میں پڑھا گیا۔ اصل مقالہ 1902ء میں Mirza Ghulam Ahmad: The Mehdi & Messiah of Qadianکے نام سے لکھا گیا تھا جو دی امریکن ٹریکٹ سوسائٹی لدھیانہ نے شائع کیا بعد میں اس میں کچھ کانٹ چھانٹ کر کے دوسرا مقالہ بنایا گیا جو پہلے سے نسبتاً مختصر ہے۔ اپنے اس مقالہ لکھنے سے پہلے ڈاکٹر گرس وولڈ 1901ء میں قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کر کے سوالات کیے اور حضرت اقدسؑ سے تفصیلی جوابات پائے۔

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں دو امریکن مشنریز کے قادیان آنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر یوں درج ہے:

‘‘19؍اپریل 1901ء کو لاہور سے فورمین کالج اور امریکن مشن کے دو پادری مع ایک دیسی عیسائی کے قادیان آئے تھے، وہ حضرت مسیح موعودؑ سے بھی ملے اور اُنہوں نے کچھ سوالات حضورؑ سے کیے جن کا جواب حضرت اقدسؑ دیتے رہے….’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ487تا488)

ملفوظات میں نام درج نہیں ہیں کہ کون امریکن مشنری آئے تھے نہ ہی جماعتی لٹریچر میں کہیں اور ان کے نام مذکور ہوئے ہیں لیکن ڈاکٹر گرس وولڈ کی خود نوشت سوانح (غیر مطبوعہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان حاضر ہونے والے یہ دو مشنریز وہ خود یعنی ڈاکٹر H. D. Griswold اور ان کے ایک جونیئر ساتھی مسٹر ڈی جے فلیمنگ (Daniel Johnson Fleming 1877 -1969)تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر گرس وولڈ اپنے اس مقالہ کے متعلق لکھتے ہیں :

“It was the fruit of a visit to Qadian of D. J. Fleming of the FC. College, the manager of the Religious Book Dept. and myself. The Mirza Sahib received us kindly and submitted to our questioning .”

(Autobiography of Hervey DeWitt Griswold, Ph.D page 217. Rare and Manuscript Collections, 2B Carl A. Kroch Library, Ithaca, NY)

ملفوظات جلد اول میں اس سوال و جواب کا احوال موجود ہے، اس میں بھی ایڈیٹر صاحب الحکم نے لکھا ہے کہ وہ تاخیرسے پہنچے اور سلسلہ کلام پہلے سے جاری تھا اس لیے وہ صرف انہی باتوں کو نوٹ کر سکے جو ان کی موجودگی میں ہوئیں۔ اس سوال و جواب کا حال 18 صفحات پر مشتمل ہے جس کو سارا درج کرنا یہاں ممکن نہیں، ڈاکٹر گرس وولڈ نے درج ذیل سوالات کیے:

٭…آپ کی سمجھ میں خدا کا کلام کیا ہے، یعنی کیا آپ بھی کچھ نوشتے چھوڑ جائیں گے جیسے انجیل یا توریت ہے؟

٭…آپ کی رائے میں مذہب پھیلانے کا بہترین طریقہ کیاہے؟

٭…یہ روحانی زندگی کس طرح مل سکتی ہے؟ہمیں کچھ کہنا چاہیے کہ روحانی زندگی ہم کو مل جاوے؟

٭…آپ کی کتابوں کے موافق آپ کا لقب مسیح موعود ہے، اس کے ٹھیک معنی کیا ہوتے ہیں ؟

٭…آپ کی رسالت کا نتیجہ کیا ہوگا؟

٭…جبکہ مختلف مذاہب ہیں پھر کس طرح پہچانیں کہ سچا مذہب خدا کی طرف سے کون ہے؟

٭…آپ کا خیال مسیحؑ کی صلیب کی نسبت کیا ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان سوالات کے جو جوابات بیان فرمائے ان میں سے بعض اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

آمد کا مقصد

‘‘میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرانا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کی زہر سے بچ جاوے اور اس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہوجاوے۔ اُس پر موت وارد ہوکر ایک نئی زندگی اُس کو ملے۔ گناہ سے لذّت پانے کی بجائے اس کے دل میں نفرت پیدا ہو۔ جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے خدا کو پہچان لیا ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اس زمانہ میں یہی حالت ہو رہی ہے کہ خدا کی معرفت نہیں رہی۔ کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس منزل پر انسان کو پہنچا دے اور یہ فطرت اس میں پیدا کرے۔ ہم کسی خاص مذہب پر کوئی افسوس نہیں کر سکتے، یہ بلا عام ہو رہی ہے اور یہ وبا خطرناک طور پر پھیلی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں خدا پر ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے بلکہ ملائکہ کا مسجود ہوتا ہے، نورانی ہو جاتا ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ493تا494)

اُمت محمدیہ کا خاتم الخلفاء

‘‘….خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اور اس مشابہت اور مماثلت کے لحاظ سے جو سلسلہ محمدیہ کو سلسلہ موسویہ سے ہے، اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مسیح موعود کے نام سے بھیجا۔ قرآن کریم میں خاتم الخلفاء کی پیشگوئی تھی اور یہی ذکر تھا کہ ایک مسیح اِس امّت میں آئے گا اور انجیل میں مسیحؑ نے کہا کہ آخری زمانہ میں مَیں آؤں گا۔ وہ مَیں ہی ہوں اور اس کا راز خدا نے مجھ پر یہ کھولا ہے کہ جو لوگ یہاں سے چلے جاتے ہیں، اُن کی خُو، خصلت اور اخلاق پر ایک اور شخص آتا ہے اور اُس کا آنا گویا اُسی شخص کا آنا ہوتا ہے اور یہ بات بے معنی اور بے سَند بھی نہیں ہے، خود انجیل نے اس عُقدہ کو حل کیا ہے۔ یہود جو مسیح ابن مریمؑ سے پیشتر ایلیا نبی کے آنے کے منتظر تھے اور ملاکؔی نبی کی کتاب کے وعدہ کے موافق اُن کا حق تھا کہ وہ انتظار کرتے ….ان کی نظر چونکہ موٹی تھی وہ انتظار کرتے رہے کہ ایلؔیا پہلے آئے چنانچہ ایک بار وہ مسیحؑ کے پاس گئے اور اُنھوں نے یہ سوال کیا۔ آپؑ نے یہی جواب دیا کہ ایلؔیا تو آگیا اور وہ یہی یوحنّا ہے…..مسیح علیہ السلام کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہ یوحنّا جس کو مسلمان لوگ یحییٰ کہتے ہیں، ایلؔیا کی خُو اور طبیعت اور قوّت پر آیا ہے مگر اُنھوں نے یہ سمجھا کہ سچ مچ وہی ایلؔیا جو ایک بار پہلے آ چکا تھا پھر آگیا ہے، حالانکہ خدا تعالیٰ کے قانونِ مقررہ کے یہ خلاف ہے۔ اس کا قانون یہی ہے کہ جو لوگ ایک بار اس دنیا سے اٹھائے جاتے ہیں پھر وہ نہیں آتے۔ ہاں خدا تعالیٰ چاہے تو اُن کی خُو اور طبیعت پر کسی دوسرے بندے کو بھیج دیتا ہےاور شدّتِ مناسبت کے لحاظ سے وہ دونوں دو جُدا جُدا انسان نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی ہوتے ہیں۔ غرض حضرت مسیح نے اپنے آنے سے پیشتر ایلؔیا کے آنے کے وعدہ اور عقدہ کو اس طرح حل کر کے ایک فیصلہ ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے، یہ فیصلہ ہے جو خود مسیحؑ نے اپنی عدالت میں اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنے سے پہلے ایک نبی کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے کہ کسی کے دوبارہ آنے سے مراد اُس کی خُو اور طبیعت پر آنے والے سے ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ایلؔیا تو یوں آیا یعنی یوحنّا ہی اُس کی خُو اور طبیعت پر آگیا لیکن مَیں خود ہی آؤں گا۔ اگر اس قسم کی صراحت اُنھوں نے کہیں انجیل میں کی ہے تو وہ بتانی چاہیے مگر ایک بھی ایسا مقام نہیں ہے جہاں اُنھوں نے اپنی آمد اور ایلؔیا کی آمد میں تفریق کی ہو بلکہ ایلؔیاہ کے قصہ کا فیصلہ کر کے اپنی آمدِ ثانی کے مسئلہ کو بھی حل کر دیا…..سچی بات یہی ہے کہ مسیح کی آمدِ ثانی ایلؔیا ہی کے رنگ میں ہے۔ مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں تناسخ کے مسئلہ کو نہیں مانتا، میرا آنا ایلؔیاہ کے رنگ پر ہے۔ خدا نے مجھے مسیح کے رنگ پر بھیجا ہےاور اصلاحِ خلق کے لیے بھیجا ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 497تا499)

مَیں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا

‘‘خدا کی طرف سے مامور ہوکر آنے والے لوگوں کے دو طبقہ ہوتے ہیں، ایک وہ جو صاحبِ شریعت ہوتے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام اور ایک وہ جو احیائے شریعت کے لیے آتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ اسی طرح پر ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے اس لیے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختمِ نبوت کر دیا تھا۔ پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہرگز نہیں ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خداﷺ مثیلِ موسیٰ تھے اسی طرح آپؐ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے، ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا۔ پس مَیں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں۔ جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ موسوی شریعت کے احیاء کے لیے آئے تھے، مَیں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آ سکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعتِ محمدی کے احیاء کے لیے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے۔ میرے الہامات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہوتے ہیں اور جو ہمیشہ لاکھوں انسانوں میں شائع کیے جاتے ہیں اور چھاپے جاتے ہیں اور ضائع نہیں کیے جاتے، وہ ضائع نہ ہوں گے اور وہ قائم رہیں گے۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 490)

مسیح موعود کا کام

‘‘اگر یہ سوال ہو کہ تم نے آکر کیا بنایا؟ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، دنیا کو خود معلوم ہوجاوے گا کہ کیا بنایا۔ ہاں اتنا ہم ضرور کہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے پاس گناہوں سے توبہ کرتے ہیں، اُن میں انکسار، فروتنی پیدا ہوتی ہے اور رذائل دور ہوکر اخلاقِ فاضلہ آنے لگتے ہیں اور سبزہ کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے اخلاق اور عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں۔ انسان ایک دم میں ہی ترقی نہیں کر لیتا بلکہ دنیا میں قانونِ قدرت یہی ہے کہ ہر شے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے، اس سلسلہ سے باہر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آخر سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی ہوگی۔ یہ میرا کام نہیں ہے بلکہ خدا کا کام ہے، اُس نے ارادہ کیا ہے کہ پاکیزگی پھیلے ….اسی واسطے اُس نےمحض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 494تا495)

روحانی زندگی پانے کا طریق

‘‘دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی نیک صحبت میں رہنا چاہیے۔ سب تعصبوں کو چھوڑ کر گویا دُنیا سے الگ ہوجاوے….دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ اُن مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے…..زبان سے دعویٰ کرنا کہ مَیں نجات پاگیا ہوں یا خدا تعالیٰ سے قوی رشتہ پیدا ہوگیا ہے، آسان ہے لیکن خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ کہاں تک ان تمام باتوں سے الگ ہوگیا ہے جن سے الگ ہونا ضروری ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پا لیتا ہے۔ سچے دل سے قدم رکھنے والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں ….’’(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 492)

مامورین کی مخالفت

‘‘مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے دل میں حضرت موسیٰ اور حضرت مسیحؑ کی ہی بڑی عزّت کیوں نہ ہو لیکن جس جگہ مَیں بیٹھا ہوں کہ اگر آج اسی جگہ حضرت موسیٰؑ یا حضرت مسیحؑ ہوتے تو وہ بھی اسی نظر سے دیکھے جاتے جس نظر سے مَیں دیکھا جاتا ہوں۔ یہی بھید ہے کہ ہر نبی کو دکھ دیا گیا…یہ بھی سچی اور یقینی بات ہے کہ ایک وقت آ جاتا ہے کہ ان کی جماعتیں مستحکم ہو جاتی ہیں، وہ دنیا میں صداقت کو قائم کر دیتے ہیں اور راستبازی کو پھیلا دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کے بعد ایک زمانہ آتا ہے کہ ایک دنیا اُن کی طرف ٹوٹ پڑتی اور اُن تعلیمات کو قبول کر لیتی ہے جو وہ لے کر آتے ہیں۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 289)

حضرت مسیحؑ کی صلیبی موت

‘‘….حضرت مسیحؑ کا بڑا معجزہ یہی تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مریں گے کیونکہ یونسؑ نبی کے نشان کا اُنہوں نے وعدہ کیا تھا اب اگر یہ مان لیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے غلطی سے مان رکھا ہے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے تو پھر یہ نشان کہاں گیا اور یونسؑ نبی کے ساتھ مماثلت کیسی ہوئی…مسیح کے نہ مرنے کے دو بڑے زبردست گوا ہ ہیں : اوّل تو یہ ہے کہ یہ ایک نشان اور معجزہ تھا ہم نہیں چاہتے کہ اس کی کسرِ شان کی جائے …دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ وہ صلیب پر مرے ہیں بلکہ صلیب پر سے زندہ اُتر آئے اور پھر اپنی طبعی موت سے مرنے کی تصدیق فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اگر انجیل کی ساری باتوں کو جو اس واقعہ صلیب کے متعلق ہیں یکجائی نظر سے دیکھیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر مرے ہوں، حواریوں کو ملنا، زخم دکھانا، کباب کھانا، سفر کرنا۔ یہ سب اُمور ہیں جو اس بات کی نفی کرتے ہیں …یہ واقعات اور صلیب کے بعد کے دوسرے واقعات گواہی دیتے ہیں اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دو تین گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہیں رہے اور وہ صلیب اس قسم کی نہ تھی جیسے آج کل کی پھانسی ہوتی ہے جس پر لٹکاتے ہی دو تین منٹ کے اندر ہی کام تمام ہو جاتا ہےبلکہ اس میں تو کیل وغیرہ ٹھونک دیا کرتے تھے اور کئی دن زندہ رہ کر انسان بھوکا پیاسا مر جاتا تھا۔ مسیح کے لیے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا وہ صرف دو تین گھنٹہ کے اندر ہی صلیب سے اُتار لیے گئے … پھر ایک اور بڑی شہادت ہے جو اس کی تائید میں ہے وہ مرہم عیسیٰ ہے…’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 500تا502)

مسیحؑ کی قبر

‘‘…ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور امر پیدا ہوگیا ہے جس نے قطعی طور سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا صلیب پر مرنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے، وہ ہرگز صلیب پر نہیں مرے اور وہ ہے مسیح کی قبر۔ مسیح کی قبر سری نگر خانیار کے محلہ میں ثابت ہوگئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں سے آگئی…چونکہ مسیح علیہ السلام کا کام بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنا تھا اور اہل کشمیر بہ اتفاقِ اہل تحقیق بنی اسرائیل ہی ہیں اس لیے اُن کا یہاں آنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ خود یُوز آسف کا قصہ یورپ میں مشہور ہے…اگر یہ ثابت کر کے دکھایا جاوے کہ مسیحؑ کے کسی حواری کا نام یوز آسف، شہزادہ نبی اور عیسیٰ صاحب ہے تو بے شک یہ قبر کسی حواری کی قبر ہوگی۔ اگر یہ ثابت نہ ہو اور ہرگز ہرگز ثابت نہ ہوگا تو پھر میری بات کو مان لو کہ اس قبر میں خود حضرت مسیحؑ ہی سوتے ہیں۔ ’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ502تا503)

آخر پر ڈاکٹر گرس وولڈ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی مہربانی اور خاطر داری کا شکریہ ادا کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘یہ تو ہمارا فرضِ منصبی ہے جس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو بھیجا ہے اس کو کرنا ضروری ہے۔ ’’

بعد ازاں کتب خانہ حضرت اقدس علیہ السلام اور دفتر اخبار الحکم سے کچھ کتابیں لیں اور واپس چلے گئے۔

اس انٹرویو کے قریباً ایک سال بعد یعنی 1902ء میں ڈاکٹر گرس وولڈ نے اپنا مقالہ لکھا لیکن اس مقالہ میں اس انٹرویو کے علاوہ حضرت اقدسؑ کی کتب اورتازہ شروع ہونے والے رسالے ریویو آف ریلیجنز سے بھی مدد لی ہے۔ مسیحی مشنری ہونے کے لحاظ سے چونکہ مقالہ کا مقصد حضرت اقدس علیہ السلام کی ذات اور دعاوی پر نکتہ چینی کرنا تھا لہٰذا مقالہ میں اپنے تجزیے کے علاوہ پادری عماد الدین کی کتاب توزین الاقوال اور اخبار نور افشاں لدھیانہ وغیرہ کے مخالفانہ بیانات کی بھی آمیزش کی ہے۔ بہرکیف ہمارا مقصد یہاں اس مقالہ کے مندرجات پر بحث کرنا نہیں ہے۔ ڈاکٹر گرس وولڈ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر شہرت کی خواہش کا الزام لگایا ہےاور آپؑ کے متعلق عیسائیوں کی پالیسی “ignore him” یعنی ان کو نظر انداز کرتے رہو کا ذکر کیا ہےلیکن ساتھ ہی اس پالیسی کے خطرے سے خالی نہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کر کے صلاح دی ہے کہ کم از کم (حضرت) مرزا صاحب کے دعویٰ ‘‘وفات مسیح’’کے متعلق جواب کی “decided need” یعنی ‘‘یقینی ضرورت’’ہے جس کی خاص طور پر مسلمان حلقوں میں اشاعت کی جائے۔ پھر 1902ء والے مقالے میں صفحہ 26 پر لکھتے ہیں :

“…it is pretty clear that the numbers of the new sect are increasing.”

اس مقالہ کے تین سال بعد ہی ایک اور مقالہ لکھ کر لندن بھجوایا۔ پس جس وجود کو شہرت کا متمنی قرار دے کر اُسے نظر انداز کرنا چاہتے تھے، ڈاکٹر گرس وولڈ خود اس کی شہرت کو The Victoria Institute of Philosophical Society, London جیسے ادارہ میں پہنچانے کا باعث ہوئے یہاں تک کہ مقالہ پڑھے جانے کے بعدبحث میں یہ اظہار کیا گیا کہ

“….When we entered this room most of us did not know who Qadian was or where it or he was.”

(The Messiah of Qadian, 1905. page 13)

یعنی جب ہم اس ہال میں داخل ہوئے تھے تو ہم میں سے اکثر کو یہ علم نہیں تھا کہ قادیان کیا ہے اور کہاں ہے؟

خدائے عزیز و حکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقبولیت کے جہاں دیگر سامان کیے وہاں انہی ڈاکٹر گرس وولڈ کے ہاتھوں لندن میں مقالے کے بعد 1912ء میں امریکہ سے شائع ہونے والے بین الاقوامی رسالے The Moslem World میں بھی (اکتوبر 1912ء کے شمارہ میں) The Ahmadiyya Movement کے عنوان سے مضمون شائع کرواکے اسلام احمدیت کی اشاعت کا باعث بنایا۔ بٹالہ میں کام کرنے والے جرمن نژاد مشنری Herbert Udny Weitbrecht 1851- 1937 نے مسیحی مشنریز کے لیے مختلف مذاہب کے متعلق تیاری کے سلسلے میں ایک کتابچہ A Bibliography for Missionary Students 1913لکھا جس میں اسلام کے تحت ڈاکٹر گرس وولڈ کے مقالہ The Messiah of Qadian کو بھی رکھا ہے۔ (صفحہ 66) ڈاکٹر گرس وولڈ کے مضمون احمدیہ موومنٹ کے تسلسل میں ہی YMCA سے وابستہ ایک امریکی مشنری Howard Arnold Walter1883.-1918 نے بھی 1916ء میں قادیان آنے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے سوالات کا موقع پانے کے بعد رسالہ The Moslem World میں The Ahmadiyya Movement Today کے عنوان سے مضمون لکھا اور اس مضمون کے دو سال بعد The Ahmadiyya Movement نامی کتاب لکھی جسے Oxford University Press نے 1918ء میں شائع کیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پادری W.R.W. Gardner 1873-.1928نے لکھا:

“In conclusion we strongly recommend The Ahmadiyya Movement…..It is to be specially hoped that the book will have a wide circulation among all who are interested in Christian missions to Moslems.”

(The Muslim World, Vol. X, 1920 page 64)

گویا وہ ذات جس کے متعلق مسیحی مشنریز نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے اب مسیحی مشنریز کا ضروری نصاب ہوگئی تھی جس کا مطالعہ فیلڈ میں جانے سے قبل ضروری تھا۔

آنے والا خداوند قدوس کی طرف سے ہے کہ نہیں اس کے لیے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا بیان فرمودہ اصول ‘‘جو پَودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایاجڑ سے اُکھاڑا جائے گا۔’’(متی باب15آیت13) نہایت سچا اور صاف ہے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :

‘‘… اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے۔ جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لوگے۔ ’’

(متی باب7آیت17-20)

مزید فرماتے ہیں :

‘‘…اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہَوا کے پرندے آ کر اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ ’’

(متی باب13آیت32)

حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے یہ سب پُر حکمت فرمودات ایک حق پسند انسان کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر گواہی کے طور پر کافی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button