وہ جس پہ رات ستارے لیے اترتی ہے (قسط پنجم)
مضامین کے اس سلسلہ میں کہیں بیان ہو چکا ہے کہ عام آدمی کی اور خلیفۃ المسیح کے ذہن اور فکر کی wave length میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ ہمارے ذہن زمین پر لوٹیں لگاتے ہیں تو خلیفۃ المسیح کا فکر آسمان پر پرواز کرتا ہے ۔ پھر ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنے ذہن کے مطابق تمام معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ خلیفۃ المسیح کی فراست ہمارے 3D میں مقید اذہان سے بالاتر کسی اور جہت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس بات کا متعدد مرتبہ تجربہ یوں ہوا کہ خاکسار جس روز یہ سوچ کر ملاقات کرنے گیا کہ آج جو چار پوائنٹ میرے پاس لکھے ہیں ، ان پر بہت وقت لگ جائے گا کیونکہ ان میں سے کچھ مسائل پیچیدہ ہیں ، تو اس روز حضورنے ہر معاملہ پر ایک ایک ثانیہ میں جواب عنایت فرمایا اور چاروں باتوں پر رہنمائی چند منٹ میں حاصل ہو گئی ۔ جس روز خیال تھا کہ آج تو دو ہی باتیں پوچھنے والی ہیں ، معمولی سی باتیں ہیں جلد طے ہو جائیں گی، اس روز ہر بات پر دس دس، پندرہ پندرہ منٹ حضور انور نے عنایت فرمائے اور ان سے متعلق اور دیگر باتیں بھی دریافت فرمائیں ، ان پر بھی تفصیل سے رہنمائی سے نوازا ۔ کبھی یوں ہوا کہ چند منٹ کا مختصر fillerبنایا جو ایم ٹی اے پر چلنا ہے ۔ خواہش ہے کہ حضور دیکھیں مگر ارشاد ہوا کہ یہاں رکھ دو، دیکھ سکا تو دیکھ لوں گا ۔ لیکن پھر کبھی یہ کہ 45 منٹ کا پروگرام ہے ۔ ملاقات میں اس کی DVD پیش کی ۔ فرمایا: لگاوَ ۔ اٹھ کر حضور کے کمرے میں رکھے DVD پلئیر میں پروگرام چلایا ۔ خود ایک طرف کھڑا ہوگیا ۔ پروگرام چل رہا ہے اور حضور اپنے کام میں مصروف ہیں ۔ دفتری ڈاک، ذاتی ڈاک کے انبار ہیں جو حضور کے سامنے رکھے ہیں ۔ اگر 45منٹ کا پروگرام ہے تو میرا مشاہدہ ہے کہ حضور کی نظرِمبارک ٹی وی کی سکرین پر جتنی دیر ٹھہری، وہ دورانیہ 45 سیکنڈ یا حد ہوئی تو ایک منٹ بنتا ہو گا ۔ باقی کا سارا وقت حضور اپنے کام میں مصروف ہیں ۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کہیں اچانک حضور نے روکا اور ہدایت ارشاد فرمائی ۔ پہلے پہل تو یہ ہوتا کہ میں نے تو چونکہ بننے کے سارے مراحل دیکھ لئے ہوتے تھے، پھر پروگرام بن جانے کے بعد کئی دفعہ اسے review بھی کر لیا ہوتا تھا، اس لئے اس وقت اتنی توجہ مرکوز نہیں رہتی تھی ۔ بلکہ ایسے میں حضور انور کو نظر بھر کردیکھنے کا شوق پورا کیا کرتا تھا ۔ مگر ایسے مواقع نے یہ سبق سکھا دیا کہ خود بھی توجہ برقرار رکھی جائے کیونکہ حضور نے اچانک اگر کچھ پوچھ لیا تو یہ نہ ہو کہ خود مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ کیا بات چل رہی ہے ۔ مگر جہاں بھی حضور انور نے نظر اٹھا کر دیکھا، وہاں اکثر کچھ اصلاح طلب بات ہوتی ہے ۔
ایک پروگرام تیار کیا گیا جس میں غیر احمدی مسلمانوں کے احتجاجی جلوس کے مناظر تھے ۔ اچانک حضور کی نظرِ مبارک ٹی وی سکرین کی طرف اٹھی ۔ حضور نے تصویر کو وہیں روکا اور دُورپس منظر میں ایک آدمی کے چہرہ کے بارہ میں فرمایا کہ بالکل ہمارے فلاں احمدی کی طرح کا ہے ۔ میں نے غور سے دیکھا تو بالکل وہی چہرہ ۔ خود متعدد مرتبہ پروگرام کی تیاری کے دوران اس فوٹیج کو دیکھا تھا ۔ ساتھ کام کرنے والے دوست بھی اس چہرہ سے اچھی طرح واقف تھے مگر کسی کی توجہ اس طرف نہ گئی تھی ۔ واپس آکر اپنے رفقائے کار کو احوال سنایا تو سب نے دوبارہ وہ حصہ دیکھا ۔ سب اس احمدی دوست سے خوب واقف تھے جن سے اس شخص کی مشابہت تھی، لہذا سب کہہ اٹھے کہ مشابہت تو صد فی صد ہے ۔ یہ اگرچہ بظاہر ایک ضمنی بات تھی مگر اس میں بھی attention to detail کا گہرا سبق تھا ۔ اگرچہ وہ صاحب وہ نہیں تھے جن سے ان کی مشابہت تھی مگر مجھے میرے شعبہ کے حوالہ سے یہ سبق ملا کہ کوئی بھی ایسا امر نظر انداز نہیں ہونا چاہیے ۔
بات چل رہی تھی کہ ہم کچھ سوچ کر جاتے ہیں ، ہوتا کچھ اور ہے ۔ ہم اپنی عقل کے مطابق سوچتے ہیں ، وہاں فراست کا دھارا کسی اور سمت چل رہا ہوتا ہے ۔ انسان اپنی کم عقلی کے باعث ہمیشہ اپنی توقعات کو درست خیال کرتا ہے ۔ اور اگر دنیا کا کوئی کام اس کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو وہ اپنی عقل کے محدود ہونے اور اپنی توقعات میں غلطی کے امکان کی گنجائش نکالنے کی بجائے نتیجہ میں نقص تلاش کرنے لگتا ہے جو اس کی توقع کے مطابق نہ نکلا ہو ۔ اس بات میں سب سے زیادہ احتیاط حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ پیش آنے والے معاملات میں رکھنی چاہیے ۔ یا تو اپنی توقعات اور خیالات کو اس کی فراست کے سامنے ہیچ مان لیں ،یا اگر ایسا کرنے میں دقّت ہو تو بیعت کے الفاظ اور اپنی ذیلی تنظیم کے عہد کو دوبارہ پڑھ لیں اور اپنے ایمان کی فکر کریں ۔ ہماری حالت تو وہ ہونی چاہیے جو میرے جواں مرگ مرحوم دوست سید ناصر احمد نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کی کہ
قدم بڑھا دیا ہم نے تیرے قدم کے ساتھ
ہ میں خبر بھی نہیں کون سے یہ زینے ہیں
اور پھر جب ایک صدی سے زائد عرصہ اس بات کا گواہ ہو کہ خلیفۃ المسیح کے ساتھ قدم بڑھانے ہی میں عافیت ہے، تو کون چاہے گا کہ اپنی عقل اور اپنی اٹکل کے بل بوتے پر جُوآ کھیلتا پھرے ۔
حضور انور کی فراست کا دھارا جس سمت اورجس فراز پر چلتا ہے، اس کے ادراک کا مجھے ہی نہیں ، کسی کو بھی دعویٰ نہیں کرنا چاہیے، کہ ہم سب ایک نشیب سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔ مگر جو کچھ مشاہدے میں آیا، اسے پیش کرتا ہوں ۔
اصل مضمون کی طرف آنے سے قبل اوپر بیان ہونے والے واقعہ کی کچھ تفصیل عرض کر دینا ضروری ہے ۔ یہ تو بتا دیا کہ حضور اپنے سامنے رکھے خطوط کے انبارسے گزر رہے ہوتے ہیں اور اس کے باوجودٹی وی پر چلنے والے پروگرام کی جزئیات تک سے واقف ہوتے ہیں ، مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور خطوط میں سے سرسری نہیں گزرجاتے ۔ یہ بھی نہیں کہ صرف دستخط فرما رہے ہوتے ہیں ۔ حضو ر ساتھ بات سنتے جاتے ہیں ، پروگرام کوئی بغرضِ ملاحظہ پیش ہوا ہو تووہ بھی چلتا رہتا ہے،ساتھ خطوط ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں ۔ خطوط کو ملاحظہ فرمانے کا جو احوال میں نے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ خلاصوں کے علاوہ پیش ہونے والے خطوط کا نفسِ مضمون حضور خود پڑھتے اور ضرورت ہو تواس پر ہدایت رقم فرماتے ہیں ۔ ذاتی خطوط میں سے جن کا خلاصہ پیش ہوتا ہے، اس پر حضور کے نوٹ کے مطابق جواب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نے تیار کیا ہوتا ہے ۔ مگر جب یہ ذاتی خط دستخط ہونے کے لئے حضور کے پاس آتا ہے، تو اصل خط اس کے ساتھ لف ہوتا ہے ۔ ان بابرکت لمحات میں جو حضور کے قدموں میں میسر آتے ہیں ، ان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں خطوط میں سے گزرتے حضور کو دیکھنے کاموقع ملا ہے ۔ اور ہزاروں مرتبہ کا مشاہدہ ہے کہ حضوربعض دفعہ اصل خط جو ساتھ لف ہوتا ہے، اسے دیکھتے اور پھر جواب کو دیکھ کر دستخط ثبت فرماتے ہیں ۔ اور یہ بھی سینکڑوں دفعہ دیکھا کہ جہاں کوئی تبدیلی درکار ہو، وہ خط پر تحریر فرماتے ہیں جس کے مطابق جواب میں تبدیلی ہو کر دوبارہ پیش ہوتا ہے ۔ جو کچھ حضور اپنے دستخط کے ساتھ کسی بھی احمدی کو ، ذاتی یا انتظامی طور پر، تحریر فرماتے ہیں ، وہ تاریخ کا حصہ بننے جا رہا ہوتا ہے ۔ حضور ہر لفظ کو باریکی سے پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ دیگر کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زمانہ میں ایک شخص ہی کو مل سکتی ہے، اور وہ ایک شخص اِس زمانہ میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں ۔ اللہ کا ہزارہزار شکر کہ ہم نے یہ زمانہ پایا اور خدا کے چنیدہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ۔
اب واپس اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور وہاں فراست کادریا کن چوٹیوں کو سر کرتا ، کن میدانوں سے گزرتا، کن سمندروں کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ۔
…………
پروگرام الحوار المباشر ایم ٹی اے کا پہلا پروگرام تھا جس میں ناظرین کو لائیو سوالات پوچھنے کا موقع ملا ۔ احمدی ، غیر احمدی سبھی کو یہ موقع میسر آیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو سمجھنے کے لئے لائیو سوال پوچھ لیں ۔ یہ پروگرام ایم ٹی اے کی تاریخ کا ایک بہت بڑا break through تھا ۔ حضور انور کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے اس پروگرام کے لئے عرب دنیا کے دلوں میں بہت مقبولیت پیدا فرمائی ۔
اس پروگرام کے شروع ہونے پر اور اس کے بابرکت نتاءج دیکھنے پر ناظرین کی طرف سے اصرار ہونے لگا کہ اردو زبان میں بھی ایسا پروگرام پیش کیا جائے ۔ ناظرین کی آراء ایم ٹی اے کے لئے ہمیشہ بہت اہمیت کی حامل رہی ہیں ۔ پس ان آراء کو جب بھی زیر غور لایا گیا، انتظامیہ کا یہی خیال رہا کہ اردو اور پنجابی مزاج کے حامل ناظرین جب کال کریں گے تو جانے کیا کہہ بیٹھیں اور لائیو ایسے سوالات کو سنبھالنا مشکل نہ بن جائے ۔ لہٰذا ایسے کسی پروگرام کو خارج از امکان خیال کیا جاتا رہا ۔ ناظرین کے اس اصرار سے حضور انور کو بھی آگاہی تھی ۔
ان دنوں ایم ٹی اے پر خبریں تو پیش کی ہی جاتی تھیں مگر حضور انور نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ جماعت احمدیہ پرہونے والے مظالم پر ایک ماہوار رپورٹ خبروں کی شکل میں پیش کی جائے ۔ تعمیل ارشاد میں پرسیکیوشن نیوز کا اجراء کیا گیا (معاف کیجئے کہ اس لفظ persecution کا کوئی اردو مترادف نہیں ، حالانکہ یہ ظلم سب سے زیادہ اس ملک میں راءج ہے جس کی قومی زبان اردو ہے) ۔ خاکسار کے ساتھ برادرم محترم عابد وحید خان صاحب اور برادرم محترم مشہود اقبال صاحب اور کبھی محترم داؤد خان صاحب شریک گفتگو ہوتے ۔ ناظرین کی طرف سے اس پروگرام کو بہت سراہا گیا ۔ ابھی اس پروگرام کو شروع ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ایک نام نہاد عالم دین نے ایک پروگرام پیش کیا اور اس میں مختلف فقہاء سے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کو واجب القتل قرار دلوایا ۔ پاکستان کے بالعموم بے حس معاشرہ میں اگر کوئی حس زندہ رہ گئی ہے تو وہ جماعت احمدیہ سے عناد اور اس سے وابستہ حسّاسیت ہے ۔ عام عوام کو تو جیسے اس فتویٰ کا انتظار تھا ۔ چند ہی دن میں سندھ میں دونہایت بزرگ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا ۔ ان میں سے ایک جناب عبدالمنان صدیقی صاحب تھے جو بلحاظِ پیشہ ڈاکٹر تھے اور دن رات غریب مریضوں کے علاج میں صَرف کرتے تھے ۔ انہیں بھی اس فتوی کے نشر ہوتے ہی شہید کر دیا گیا ۔
پرسیکیوشن نیوز میں اس پروگرام اور اس میں نشر ہونے والے غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی اور ان شہادتوں کا ذکر بھی کیا گیا جو اس پروگرام کے نتیجہ میں واقع ہوئی تھیں ۔ ہماری گفتگو کا بہت سا حصہ جماعت احمدیہ کے عقائد کی طرف جھک گیا اور کئی پروگراموں میں یہ جھکاوَ برقرار رہا ۔ حضور انور کے ارشاد پر ایک ای میل اکاوَنٹ بنایا گیا جس میں لوگ جماعت احمدیہ کے عقائد سے متعلق اپنے سوالات بھیجنے لگے ۔ ہم اگلے پروگرام میں ان سوالات کے جوابات دیتے ۔ حضور کی اجازت سے پروگرام کا دورانیہ بھی بڑھانا پڑا اور ماہوار کی بجائے اسے پندرہ روزہ کر دیا گیا تاکہ ناظرین کو جواب کے لئے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے ۔ مگر اس دَور میں یہ وقفہ بھی بہت زیادہ وقفہ تھا ۔
حضور انور نے ایک روز ارشاد فرمایا کہ اس پروگرام سے نیوز کا لیبل اتار کر اسے ایک علیحدہ پروگرام کے طور پر نشر کیا جائے اور نام صرف persecution کر لیا جائے ۔ چونکہ اب سوالات دینی نوعیت کے ہونے لگے تھے، لہذا حضور انور نے فرمایا کہ اب پروگرام میں ایک ماہِر قانون اور ایک عالم دین شامل ہوں ۔ ابتدائی پروگراموں میں مولانا عطا المجیب راشد صاحب اور مولانا لئیق احمد طاہر صاحب اور ساتھ کبھی محترم داوَد خان صاحب اور کبھی مشہود اقبال صاحب شامل ہوتے رہے ۔ یہ پروگرام ریکارڈ ہوتا اور پھر اسے کچھ روز بعد نشر کیا جاتا ۔ اب حضور کی اجازت سے پروگرام میں سوال ریکارڈ کروانے کے لئے ایک ٹیلی فون نمبر بھی دے دیا گیاجہاں لوگ اپنے سوال ریکارڈ کروا دیتے اور ہم انہیں سن کر اگلے پروگرام کی ریکارڈنگ میں ان کا جواب پیش کر دیتے ۔ ان ریکارڈ شدہ سوالات اور تبصروں کو سننا بھی ایک الگ کہانی تھی ۔ پروگرام ریکارڈ شدہ ہوتا ۔ جس روز نشر ہوتا اس روز یہ نمبر سکرین پر دکھایا جاتا اور اس کے اگلے روز خاکسار ٹیلی فون پر ریکارڈشدہ یہ سوالات سنتا ۔ اگرچہ اکثریت معقول سوالات کی ہوتی، مگر بہت سے شریر طبع لوگ ایسی مغلّظات ریکارڈ کرواتے کہ سنتے ہوئے ہوش اڑ جاتے ۔ خیر، ان میں سے سوالات لئے جاتے اور اگلی ریکارڈنگ میں ان کا جواب شامل کر دیا جاتا ۔ رفتہ رفتہ پروگرام کا نقشہ بالکل تبدیل ہو گیا ۔ سوالات اس کثرت سے آتے تھے کہ ان کے جواب دینے کے لئے بھی وقت کافی نہ لگتا کجا یہ کہ پرسیکیوشن کی بات کی جائے ۔ ہرپروگرام حضور انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ پیش ہوتا اور رہنمائی کی درخواست کی جاتی ۔ ہرہر قدم پر حضور انور رہنمائی فرماتے ۔ شرکاء پروگرام کے لئے ارشادات ہوتے کہ فلاں سوال کا جواب یوں زیادہ بہتر تھا، یوں کہنا چاہیے تھا اور یوں نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ یہ ارشادات شرکاء کو پہنچائے جاتے ۔ خاکسار کے لئے بطور میزبان پروگرام کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی ہدایات ہوتیں ۔ مجھے ایک لمبا عرصہ یہ گمان رہا کہ حضور مکمل پروگرام ملاحظہ فرماتے ہیں ۔ مگر کس وقت;238; یہ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ پھر ایک روز حضور انور نے بتا کر ورطہَ حیرت میں ڈال دیا کہ حضور کبھی کہیں کسی موقع پر اتفاق سے چند لمحوں کے لئے پروگرام دیکھتے ہیں ۔ خدا کے چنیدہ خلیفہ کے ایسے لمحات بھی کیسے چنیدہ ہوتے ہیں کہ وہاں وہ بات نظر آجائے جو اصلاح طلب ہے اور جہاں جماعت کی نمائندگی بہتر رنگ میں ہو سکتی ہے ۔
ایک روز حضور نے فرمایا کہ تم لوگ یہ پروگرام کتنے takes میں کرتے ہو؟
عرض کی کہ حضور بالعموم رکنا نہیں پڑتا ۔ کہیں کسی کو کھانسی آجائے یا کوئی ٹیکنیکل مشکل پیش آجائے تو رک جاتے ہیں ورنہ پروگرام روانی سے ایک ہی ٹیک میں ریکارڈ ہو جاتا ہے ۔ فرمایا کہ اگلا پروگرام صرف ایک take میں ریکارڈکرنا ہے ۔
حسبِ ارشاد سب کو بتا دیا گیا کہ ریکارڈنگ کے دوران کہیں رکنا نہیں ہے، لہذاسب انتظامات پہلے دیکھ لئے جائیں ۔ اگلی ملاقات میں عرض کی کہ حضور ، پروگرام ایک ٹیک میں روانی سے ریکارڈ ہوگیا تھا ۔ فرمایا اگلا بھی اسی طرح کرنا ہے ۔ حسبِ ارشاد ایسا ہی کیا گیا ۔ پھر تیسری دفعہ ایسا ہی کرنے کا ارشاد ہوا اور ایسا ہی کیا گیا ۔ جب تیسری مرتبہ عرض کی کہ حضور کل رات بھی پروگرام ایک ہی ٹیک میں ریکارڈ ہوا ہے تو فرمایا پھر پروگرام لائیو کیوں نہیں کرتے؟ چونکہ ہم تو ایسے کسی بھی امکان کو خارج از قیاس سمجھ بیٹھے تھے، لہذا ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ یہاں تک کہ جب حضور نے تین مرتبہ پروگرام کو ایک ٹیک میں ریکارڈ کرنے کا ارشاد فرمایا تب بھی ذہن اس طرف نہیں گیا کہ یہ حضور ہ میں لائیو پروگرام کی تیاری کروا رہے ہیں ۔
فوراً عرض کی کہ جی حضور، اگلا پروگرام لائیو کر لیتے ہیں ۔ فرمایا نہیں ۔ اگلے ہفتہ کے دن تو نیشنل اجتماع ہو رہے ہیں ۔ لوگ اس میں مصروف ہوں گے ۔ لائیو پروگرام کے لئے تو تمہیں مضبوط ٹیم چاہیے ۔ اجتماع ہو جائیں پھر ٹیم بنا کر پروگرام شروع کرو ۔
دنیا کے سب سے مصروف آدمی کے سامنے جماعت احمدیہ کا کیلنڈر کس طرح مستحضر رہتا ہے؟ خدا جانے ۔ لیکن دیکھیے تو سہی، ایک طرف لائیو پروگرام کی تیاری کروائی، پھر اس کا حکم بھی دے دیا،پھر یہ بھی خیال ہے کہ ٹیم بنانی ہے اور ٹیم بنانے میں کو ئی دقّت نہ ہو ۔ اور سب سے بڑا سبق یہ کہ جوش کی بجائے ہوش کو مقدم رکھا جائے ۔
پھر اس پروگرام کی نوعیت چونکہ تبدیل ہو چکی تھی، لہذا لائیو پروگرام کو ’راہِ ہُدیٰ‘ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ لائیو پروگرام میں ایک قباحت جو نظر آرہی تھی وہ یہ تھی کہ وائس میسج کی شکل میں جو پیغامات ریکارڈ ہوتے تھے، ان میں شریر طبع لوگ مغلظات بھی ریکارڈ کرواتے تھے ۔ وہ سب اگر لائیو کا ل کرنے لگے اور بدزبانی کی تو ساری جماعت کے لئے تکلیف کا سامان پیدا ہوگا ۔ یہ اندیشہ خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو ارشاد ہوا ’کچھ نہیں ہوگا ۔ شروع کرو، یوں حضور انور نے اس پروگرام کا پودا لگایا ۔ ہم بے موسم بیج ڈالنے کی باتیں کرتے تھے اور فصل کے بدنتاءج کے اندیشوں سے مایوس ہو جاتے تھے ۔ بقول ِ شاعر
وہ شجر بوئے نہیں جن کے ثمر مانگتے ہیں
مگر حضور کو معلوم تھا کہ بیج ڈالنے کا موسم کب ہے، پودا بڑھنے کا وقت کب ہے، گرین ہاوَس میں اسے پروان کیسے چڑھانا ہے، اور پھر اسے کھلی ہواؤں ، بارشوں اوردھوپ میں کب چھوڑنا ہے ۔ مگر کھلی فضا میں جب چھوڑا تو حضور نے اس پودے کی خود نگہداشت فرمائی ۔ ہر پروگرام سے پہلے، ہرپروگرام کے بعد حضور انور ہدایت اور رہنمائی سے نوازتے ۔ کہیں جواب نا مکمل رہ جاتا تو حضور رہنمائی فرماتے اور اگلے پروگرام میں اس کی تصحیح کر دی جاتی ۔
…………
بات چل رہی ہے تو ایک اور بات بھی یاد آگئی ۔ ایک مرتبہ کسی کالر نے پوچھا کہ اسلام میں تو صرف دو طرح کے سفر کو لازم قرار دیا گیا ہے، ایک حج کے لئے ،دوسرے جہاد کے لئے، یہ آپ لوگ جلسہ سالانہ کے لئے سفر اختیار کروانے والے کہاں سے آگئے؟
ہمارے علماء نے اس کا جواب تو دے دیا ۔ اگلے روز ملاقات میں جہاں تمام سوالات حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے، وہاں اس سوال کا ذکر بھی ہوا ۔ حضور نے یہ سوال خاص توجہ سے سنا ۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا جواب دیا تھا ۔ جواب عرض کیا گیا تو حضور نے اپنے پہلو میں پڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی طرف اپنی کرسی کا رخ موڑا ۔ مجموعہ اشتہارات کی ایک جلد اٹھائی ۔ کچھ صفحات پلٹے اور فرمایا کہ اس کا جواب تو یہاں ہے ۔ یہی اعتراض کسی نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کیا تھا ۔ آپ نے اس کے جواب میں پور ا ایک اشتہار شاءع فرمایا ۔ پھر حضور انور نے وہ اشتہار پڑھنا شروع کیا ۔ دو صفحات مسلسل پڑھتے جاتے اور جس رفتار سے پڑھتے، وہ غیر معمولی تھی ۔ لیکن ہر لفظ صاف اور قابلِ فہم، ویسا نہیں جیسا ہم تیزی سے پڑھیں تو بہت سے الفاظ کو گڑبڑا دیتے ہیں ۔ فرمایا ، یہ ہے اس کا جواب ۔ پوچھنا چاہا مگر پوچھ نہ سکا کہ اس سرعت سے اس جواب کا ذہن میں آجانا، پھر یہ بھی کہ اس کا جواب کہاں ہے، پھر وہیں سے کھولنا اور پڑھ کر سنانا، یہ سب کیسے ممکن ہوا ۔ میں جس تعجب کو لے کر ملاقات سے باہر آیا تھا، وہ تعجب اور حیرت آج بھی گویا جوں کی توں ہے،کیونکہ یہ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ ہوَا ۔ ایک مرتبہ کسی عربی قصیدہ کا ذکر تھا ۔ حضور نے فوراً القصائد الاحمدیہ نامی کتاب اٹھائی، متعلقہ قصیدہ تلاش فرمایا اور اس میں وہ اشعار دکھائے کہ یہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حضور کی یہ سب کتب اپنی حالت سے کثرتِ استعمال کا پتہ دیتی ہیں ۔ خاص طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتب تو زبانِ حال سے گویا کہتی ہیں کہ یہ روزانہ اور کثرت سے استعمال ہونے والی کتب ہیں ۔ حضور انور کے پاس پڑا قرآن کریم کا نسخہ بھی ایسی ہی کہانی سناتا ہے ۔ ہزاروں نشانیاں جابجا لگی ہوئی، صفحات کے کنارے اور جلد کی حالت صاف بتاتی ہے کہ وہ جسے اس دور میں قرآن کا سب سے زیادہ علم اور فہم ہے، وہ اس کتاب کا سب سے بڑا عاشق بھی ہے ۔ پھر اس بات کا ثبوت توہر خطبہ، ہر خطاب، وقفِ نو کی ہر کلاس، جامعہ احمدیہ کے ساتھ ہونے والی ہر نشست سے بھی ہ میں روز ملتا ہے ۔
تو یہ پروگرام راہِ ہدیٰ کی بنیاد اور اس کی نشو و نما اور تربیت کا انداز تھاجس سے اس تفہیم کی بنیاد پڑی کہ خلیفہَ وقت کے time and spaceکا اپنا الگ جہان ہوتا ہے ۔ ہمارے ذہن دیواروں پہ لٹکی گھڑیوں اور کیلنڈرز میں مقید ہوتے ہیں ، مگر خلیفہَ وقت اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک اور مدار میں ہوتا ہے ۔ اگر ہمارا اور خلیفہَ وقت کا مدار ایک ہوتا تو نہ جماعت ہوتی، نہ خلافت ہوتی اور نہ اس للّہی قیادت میں چلنے والی جماعت دوسرے لوگوں کے ہجوم سے ممیز و ممتاز ہو تی ۔
یہ پروگرام ہر ہفتہ کے روز لائیو نشر ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے ۔ مئی2009ء میں یہ پروگرام لائیونشر ہونا شروع ہوا ۔ پورے ایک سال کے بعد یعنی مئی2010ء میں لاہور کی احمدیہ مساجد پر بہیمانہ ظلم کا واقعہ پیش آیا جو جماعت احمدیہ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ایک ہی دن میں اتنی بڑی تعداد میں احمدیوں کے شہید ہونے کا یہ پہلا واقعہ تھا ۔ ایسے میں پروگرام راہِ ہدیٰ نے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام کی شکل اختیار کر لی ۔ دنیابھر کے احمدی فون کر کے اپنے جذبات کا اظہار کرتے اور اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے کئی وزرا اور سینئر اہلکاروں اور دانشوروں سے رابطہ کیا گیا ۔ ان کے انٹرویو ریکارڈ کرکے انہیں نشر کیا جاتا رہا ۔ ہر انٹرویو سے قبل حضور سے دعا کی درخواست کی جاتی اور شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی حکومتی اہلکار نے انٹرویو سے گریز کیا ہو ۔ خاکسار جب انہیں فون کرتا تو ان کے پاس تین ہی راستے ہوتے ۔ یا تو وہ ہم سے بات کریں ، یا وہ بات کرنے سے انکار کر دیں یا پھر بدزبانی کرتے ہوئے فون کو بند کر دیں ۔ تینوں صورتوں میں فتح جماعت احمدیہ کی ہوتی کیونکہ یا تو وہ اس سانحہ پر اظہار افسوس کرتے، یا پھر کہتے کہ ہاں یہ ظلم ہوا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا، یا پھر بے بس ہو کر جماعت پر بدزبانی کرتے ۔ تینوں صورتیں ان کے اس ظلم میں شریک ہونے کی گواہی دیتیں ۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ معذرت کرتے وہ بڑی لجاجت سے معذرت خواہانہ انداز میں معذرت کرتے ۔ مثلاً اُس وقت کے وزیر اطلاعات ونشریات نے متعدد مرتبہ وقت دیا کہ فلاں دن ، فلاں وقت کال کر کے انٹرویو ریکارڈ کرلیں ۔ مگر ہمیشہ ٹال مٹول کر جاتے ۔ بالآخر ایک روز مقررہ وقت پر فون کیا تو کہنے لگے کہ یار، معاف کردو ۔ میں یہ انٹرویو نہیں دے سکتا ۔ میں نے یہ معاملہ اوپر پیش کیا تھا ۔ مجھے کلیئرنس نہیں ملی ۔ میں نے پوچھا کہ اوپر سے کیا مراد ہے؟ تو کہنے لگے کہ ایک وفاقی وزیر سے اوپر کون ہوتا ہے آپ جانتے ہی ہیں ۔ یہ تمام باتیں ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں اور یہ بات ان کے علم میں بھی لائی جاتی تھی کہ گفتگو ریکارڈ ہو رہی ہے، مگر ہم آپ کی اجازت کے بغیر نشر نہیں کریں گے ۔ بہت سے نام نہاد علماء دین اور وزیروں کی گفتگو ریکارڈ میں موجود ہے جس میں ایسی زبان استعمال کی گئی جو کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتی ۔ مگر حسبِ وعدہ، ہم نے ان کی اجازت کے بغیر کبھی ان کی گل افشانیاں یا لجاجت سے کی گئی معذرتیں نشر نہیں کیں ۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ پروگرام جو حضور نے مئی 2009 ء میں لائیو شروع کروایا، ایک سال پھلتا پھولتا رہا اور پھر لاہور کے واقعہ پر یہ ایک معروف پروگرام تھا جو اپنے غیر سبھی دیکھتے تھے ۔ یوں ایک پروگرام حضور انور کی توجہ اور شفقت سے ایسا تیار تھا جس میں ہم حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے اور لوگوں تک بات پہنچنے کا سبب بن جاتا ۔
یہی وہ پروگرام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مولد و مسکن قادیان دارالامان سے لائیو نشر ہونے لگا اور آج تک بڑی کامیابی سے ہو رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے ارادہ کی کس طرح لاج رکھتا اور اسے کس طرح پروان چڑھاتا ہے، مذکورہ بالاواقعہ ان ہزاروں واقعات میں سے صرف ایک ہے، اور نہ جانے کتنے واقعات ہوں گے، جن میں سے کچھ ہم جانتے ہیں ، اور ہزاروں ہیں جو ہمارے علم میں بھی نہیں اور لاکھوں ہوں گے جو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اس محبوب کے درمیان رازونیاز کی شکل میں محفوظ ہوں گے اور اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے ۔
(باقی آئندہ)