احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
جد اقصیٰ سے مرادمسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقعہ ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ کا کلام یہ ہے مبارک ومبارک وکل امرمبارک یجعل فیہ
مسجداقصیٰ کونسی مسجدہے؟
(حصہ دوم)
اب رہا
’’مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔‘‘
کا حل ۔سو جاننا چاہیئے کہ اس الہام کی مصداق دونوں مساجد ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے الہام کو دونوں مساجد پر چسپاں فرمایا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ حصّہ چہارم وا زالہ ٔاوہام و حقیقۃ الوحی میں اس الہام کو مسجد مبارک کے متعلق تحریر فرماتے ہیں او رضمیمہ خطبہ الہامیہ میں مسجد اقصیٰ پر چسپاں کرتے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’مسجد اقصیٰ سے مرادمسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقعہ ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ کا کلام یہ ہے مبارک ومبارک وکل امرمبارک یجعل فیہ اور مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقعہ ہواقرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کےمطابق ہے۔ ‘‘پہلے ظاہر کیاجاچکاہے کہ بارکنا حولہ کی آیت مسجد اقصیٰ کے متعلق ہےاورمسجد اقصیٰ منارہ والی مسجد ہےاور منارہ والی مسجد وہ ہے جس کی آپ کے والدصاحب مرحوم نے بنیاد ڈالی اور توسیع وتکمیل آپ کے دست مبارک سے ہوئی اور جس طرح
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ
کو محض تکمیل کی بناء پرمقام ابراہیم قراردیا گیا ۔ اس طرح محض تکمیل وتوسیع کی بناء پراس مسجد کو مسیح موعودؑ کی مسجد قراردےدیاجیسے
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ
جنگ بدر کے متعلق بھی ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ کی پیشگوئی بھی ہے ۔اسی طرح یہ الہام دونوں مساجد کیلئے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ضمیمہ خطبہ الہامیہ میں شروع سے آخر تک اسی مسجد کا ذکرہے اور مسجد مبارک کا ذکرکہیں اشارۃً بھی نہیں پایاجاتاپھر بلا تعلق اس کا ذکر کس طرح آسکتا تھا۔تمام ذکر منارہ کا ہے اور منارہ بنتاہے بڑی مسجد میں پس بڑی مسجد ہی مسجد اقصیٰ ٹھہری۔دراصل مسجد مبارک مسجد اقصیٰ کی ایک شاخ ہے اور شاخ اصل سے جدانہیں ہوتی جب شاخ کے متعلق مبارک ومبارک الخ کا الہام ہواتو اصل یعنی مسجد اقصیٰ خودبخود اس میں شامل ہوگئی۔ خاکسار سید محمودعالم قادیان ۔
( الفضل جلد24نمبر73 مؤرخہ 25 ستمبر 1936ء ص 6)
واضح رہے کہ حضرت اقدسؑ کے عہدمبارک میں اس مسجدکومسجداقصیٰ کانام دئے جانے کی کوئی روایت ابھی تک خاکسارکی نظرسے نہیں گزری بلکہ جوروایات ملتی ہیں ان کے مطابق اس وقت مسجدمبارک کوچھوٹی مسجداور مسجداقصیٰ کوبڑی مسجدیا جامع مسجد ہی کہا جاتا تھا۔حضرت اقدسؑ کی تحریرات، الہامات اور اس عہدکے اخبارات ورسائل میں یہی نام لکھا ہوا موجودہے۔ مثال کے طورپرتذکرہ ایڈیشن چہارم میں ہی موجودکچھ الہامات کی عبارتیں درج کی جاتی ہیں: حضوراقدسؑ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں …
1۔ ’’ جب بشمبر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد میں تھا۔‘‘(تذکرہ ص11)
2۔ ’’ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔‘‘( تذکرہ ص16)
3۔ ’’ مَیں ایک دن چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمدو خرچ کا حساب کررہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی۔‘‘( تذکرہ ص265)
4۔ ’’مَیں نے دیکھا کہ گویا ہولیوں کے دن ہیں۔ بہت ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہولی میں مشغول ہیں۔ چند بڑی مسجد میں جہاں مَیں کھڑا ہوں آئے ہیں۔ پھر مَیں بازار کے اندر آیا ہوں اور غول کے غول ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے کھڑے ہیں۔ ایک گروہ کے پاس جو مَیں جاتا ہوں تو کہتا ہوں خبردار مَیں مسلمان ہوں۔‘‘(تذکرہ ص423)
5۔ ’’صبح کے وقت الہام ہوا۔ اوّل خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں بڑی مسجد (میں) ہوں۔ بشیر احمد میرا لڑکا میرے پاس ہے……‘](تذکرہ ص604)
6۔حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحب ؓ الہام
یٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَآئِعَ وَ الْمُعْتَرَّ
کی بابت بیان فرماتے ہیں ’’اگلی صبح کے نو دس بجے میں دیکھتا ہوں کہ پیارا مسیحِ پاک چھوٹی مسجد کے دروازہ میں گلی رخ کھڑا ہوا ہے اور کئی ایک عشاق سامنے کھڑے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو بلائیں……‘‘(تذکرہ ص 632ح)
7۔ ’’(رؤیا) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل رؤیااپنی تقریر میں بیان فرمائی:۔’’چھوٹی مسجد کے اُوپر تخت بِچھا ہوا ہے اور مَیں اُس پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحب ؓ بھی بیٹھے ہوئے ہیں……(برکاتِ خلافت تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ص 31)‘‘ (بحوالہ تذکرہ ص675)
8۔ حضرت مولوی عبداللہ بوتالوی صاحب ؓبیان فرماتے ہیں :
’’خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایامِ قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے ۔حضورکے گرداگرد حاضرین کامجمع استادہ تھا۔حضوربھی ان کے درمیان کھڑے تھے اس وقت حضورؑ نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد (اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے۔اس پرحاضرین میں سے دوتین اصحاب نے کہا کہ ہاں……حضورہمیں یادہے کہ حضورنے اس طرح فرمایا تھا۔خاکسارکوان میں سے ایک کانام تویادہے کہ وہ شیخ یعقوب علی صاحب تھے باقیوں کے متعلق یادنہیں کہ وہ کون کون صاحب تھے۔ اس کے بعد حضور ؑ نے فرمایا کہ اَب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے۔‘‘
(اصحابِ احمد ؑجلد 7ص183۔184،تذکرہ ص694)
یہ چندایک مثالیں تھیں جن سے واضح ہوتاہے کہ حضرت اقدسؑ کی اپنی تحریرات کے مطابق اور اس زمانہ میں مسجداقصیٰ کانام موجودنہیں تھا بلکہ اس کوجامع مسجدیابڑی مسجدہی کہاجاتاتھااور اسی مناسبت سے مسجدمبارک کو چھوٹی مسجدکہاجاتاتھا۔
جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ خاکسارکی نظرمیں ابھی تک کوئی ایسی تحریریاحوالہ یا کوئی مضمون سامنے نہیں آیا کہ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضرت اقدسؑ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانۂ مبارک میں اس کومسجداقصیٰ کہاجاتاتھا۔یہ نام اس مسجدکوکب دیاگیامعین طورپرتوکہناقدرے مشکل ہوگا البتہ یہ عرض کرتاچلوں کہ بعدمیں یہ علمی بحث ضرورہوئی کہ مسجداقصیٰ کایہ نام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاہی عطاکردہ ہے جوکہ الہامی نام ہے ۔گوکہ یہ بحث حضرت اقدسؑ کے زمانہ مبارک میں نہیں ہوئی یاکم ازکم اس کا کوئی حوالہ خاکسارکے سامنے نہیں بعدمیں تحریرات سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق استدلال ہیں۔
اوراس کے لئے عام طورپرخطبہ الہامیہ میں ایک اعلان سے اقتباس پیش کیاجاتاہے جوکہ یہ ہے ۔جس میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:
’’ ایسا ہی مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصٰی ہے کیونکہ وہ صدر اسلام سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے۔ اور ایک روایت میں خدا تعالیٰ کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا نزول مسجد اقصٰی کے شرقی منارہ کے قریب ہوگا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد 16 ص 19)
اور اس جگہ حاشیہ میں رقم فرماتے ہیں :
’’بعض احادیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ دمشق کے مشرقی طرف کوئی منارہ ہے جس کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ سو یہ حدیث ہمارے مطلب سے کچھ منافی نہیں ہے کیونکہ ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہمارا یہ گاؤں جس کا نام قادیان ہے اور ہماری یہ مسجد جس کے قریب منارہ طیار ہوگا دمشق سے شرقی طرف ہی واقع ہیں۔ حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ وہ منارہ دمشق سے ملحق اور اُس کی ایک جزو ہوگا بلکہ اس کے شرقی طرف واقع ہوگا۔ پھر دوسری حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ منارہ بھی مسجد اقصیٰ کا منارہ ہے اوردمشق کا ذکر اُس غرض کے لئے ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں۔ اور مسجد اقصیٰ سے مراد اس جگہ یروشلم کی مسجد نہیں ہے بلکہ مسیح موعود کی مسجد ہے جو باعتبار بُعد زمانہ کے خدا کے نزدیک مسجد اقصیٰ ہے۔ اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ جس مسجد کی مسیح موعود بنا کرے وہ اس لائق ہے کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہا جائے جس کے معنے ہیں مسجد اَبْعد۔ کیونکہ جب کہ مسیح موعود کا وجود اسلام کے لئے ایک انتہائی دیوار ہے اورمقرر ہے کہ وہ آخری زمانہ میں اور بعید تر حصۂ دنیا میں آسمانی برکات کے ساتھ نازل ہوگا۔ اس لئے ہرایک مسلمان کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی مسجد مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ اسلامی زمانہ کاخط ممتد جو ہے اس کے انتہائی نقطہ پر مسیح موعود کا وجود ہے لہٰذا مسیح موعود کی مسجد پہلے زمانہ سے جو صدر اسلام ہے بہت ہی بعید ہے۔ سو اس وجہ سے مسجد اقصٰی کہلانے کے لائق ہے اور اس مسجد اقصٰی کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچا ہو کیونکہ یہ منارہ مسیح موعود کے احقاق حق اور صَرفِ ہمت اور اتمامِ حجّت اور اعلاء ملّت کی جسمانی طور پر تصویرہے پس جیسا کہ اسلامی سچائی مسیح موعودکے ہاتھ سے اعلیٰ درجہ کے ارتفاع تک پہنچ گئی ہے اور مسیح کی ہمت ثریّا سے ایمان گم گشتہ کو واپس لارہی ہے اسی کے مطابق یہ مینار بھی روحانی امور کی عظمت ظاہر کررہا ہے۔ وہ آواز جو دنیا کے ہر چہار گوشہ میں پہنچائی جائے گی وہ روحانی طور پربڑے اونچے مینار کوچاہتی ہے۔ قریبًا بیس برس ہوئے کہ مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ کلام جومیری زبان پر جاری کیا گیا لکھا تھا۔ یعنی یہ کہ انا انزلناہ قریبًا من القادیان۔ و بالحق انزلناہ و بالحق نزل صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امر اللّٰہ مفعولا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ498۔ یعنی ہم نے اس مسیح موعود کو قادیان میں اتارا ہے اور وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اُتارا گیا اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا۔ خدا نے قرآن میں اور رسول نے حدیث میں جو کچھ فرمایاتھا وہ اُس کے آنے سے پورا ہوا۔ ‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ث،ج حاشیہ، روحانی خزائن 16ص19-20حاشیہ)
خاکسارکے نزدیک اس مذکورہ بالااقتباس میں موجود بعض فقرات پر غور کیا جائے تو صاف نظرآتاہے کہ اس مسجداقصیٰ سے مراد جس کوخدانے اپنے الہام میں مسجداقصیٰ قراردیاہے وہ یہ مسجدہے جومسیح موعودکی مسجد ہے ۔اور ظاہرہے کہ بڑی مسجدمسیح موعودؑکے والدمحترم کی بنائی ہوئی مسجدتھی۔ لیکن اسی اقتباس سے آگے پڑھیں تو مزیدواضح ہوجاتاہے کہ الہام میں موجودمسجداقصیٰ سے مرادوہ مسجدہے جس کوخدانے مسجدمبارک کےنام سے بھی یادکیاہے۔
(باقی آئندہ)