حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حسن سلوک کے اعلیٰ معیار

ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں

مرد عورتوں پر نگران ہیں

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں سے حُسنِ سلوک کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ سناتے ہوئے فرمایا:’’ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں یہ دل دُکھانا بڑے گناہ کی بات ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ تو جہاں مردوں کو سختی کی اجازت ہے وہ تنبیہ کی اجازت ہے۔ مارنے کی تو سوائے خاص معاملات کے اجازت ہے ہی نہیں اور وہاں بھی صرف دین کے معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے معاملات میں اجازت ہے۔ لیکن جو مرد خود نماز نہیں پڑھتا، خود دین کے احکامات کی پابندی نہیں کر رہا وہ عورت کوکچھ کہنے کا کیا حق رکھتا ہے؟ تو مردوں کو شرائط کے ساتھ جو بعض اجازتیں ملی ہیں وہ عورت کے حقوق قائم کرنے کے لئے ہیں۔ (شاید عورتوں کو یہ خیال ہو کہ یہ باتیں تو مردوں کو بتانی چاہئیں۔ فکر نہ کریں ساتھ کی مارکی میں مرد سن رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں سن رہے ہیں آپ کے حقوق کی حفاظت کے لئے۔)

ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ: یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 75)

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:20)

یعنی اپنی بیو یوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔ اور حدیث میں ہے:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖٖ

یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو ۔‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 75حاشیہ)

تو دیکھیں کہ اس زمانے میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے حقوق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اصل میں تو مرد کو ایک طرح سے عورت کا نوکر بنا دیا ہے۔ آج پڑھی لکھی دنیا کا کوئی قانون بھی اس طرح عورت کو حق نہیں دلواتا‘‘۔

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

جوائنٹ فیملی سسٹم: مشترکہ خاندانی نظام

مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا بیان کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو یہ نصیحت فرمائی:’’پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیا ں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جوائنٹ فیملی (Joint Family) ہے۔ ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے۔ بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی۔ شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں۔ اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو مار دیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کرلی۔ تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اُٹھ گئے۔

تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس آیت کی تشریح میں :

لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ۔ (النور: 62)

کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ:’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو(یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے۔‘‘

تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔

میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں اور آخرپر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پرظلم کر رہی ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 85تا90)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button