الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔


حضرت میاں احمد دین صاحب زرگرؓ

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا اپریل 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم نصیرالدین احمد صاحب اپنے دادا حضرت میاں احمد دین صاحب زرگرؓ کا ذکرخیر کرتے ہیں۔

حضرت میاں احمددین زرگر صاحبؓ پنڈی چیری ضلع شیخوپورہ کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کے والد میاں محمد عارف زرگر صاحب اور حضرت سید روشن علی شاہ صاحبؓ گہرے دوست تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور سے قبل یہ دونوں بزرگ اس بات پر گفتگو کرتے تھے کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت ہے اور اُس کا ظہور ہو تو ہم اُس کی بیعت کریں۔ دونوں نے آپس میں اس بات پر عہد و پیماں کیا کہ ہم دونوں میں سے کوئی اگر امام مہدی کے ظہور سے پہلے فوت ہوگیا اور دوسرے کی زندگی میں امام مہدی کا ظہور ہوجائے تو وہ اُس کی بیعت کرے اور فوت شدہ کی اولاد کو بھی امام مہدی کی آمد کی اطلاع دے کر اُنہیں بیعت کے لیے کہے۔

محترم میاں محمد عارف صاحب کی جلد وفات ہوگئی جبکہ حضرت سید روشن علی شاہ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی سعادت بخشی۔ چنانچہ اُن کو جو ٹریکٹ یا اشتہار قادیان سے آتا وہ جاکر بعض دکانوں پر سناتے اور حق تبلیغ ادا کرتے۔ میاں احمد دین صاحب اور ان کے بڑے بھائی میاں محمد یوسف صاحب کی زرگری کی دکان تھی اور یہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت شاہ صاحبؓ وہاں بھی جاتے اور تبلیغ کرتے۔

ایک دن میاں احمد دین صاحب نے حضرت سید روشن علی شاہ صاحبؓ کو مخالفانہ باتیں کہیں تو وہ روتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پر حاجی محمد یوسف صاحب نے اپنے بھائی سے کہا کہ یہ سید ہیں اور اس لیے رو رہے ہیں کیونکہ اُن کے اندر ہمدردی اور سچ ہے۔ بہتر ہے کہ تم خود قادیان جاکر دیکھ کر آؤ۔

اس پر میاں احمد دین صاحب قادیان گئے اور بیعت کرلی۔ پھر بھائی کو خط لکھ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں،سب آکر بیعت کر لو۔ آپؓ کی بیعت البدر8 مئی1903ء، میں یوں درج ہے:

43۔ میاں احمد دین صاحب عارف پنڈی چیری

چنانچہ اُن کے بھائی حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ زرگر نے دیگر اہلِ خانہ سمیت قادیان جاکر بیعت کرلی جن کے اسماء البدر اور الحکم میں شائع ہوئے۔

بعدازاں جلد ہی حضرت میاں احمد دین صاحب ہجرت کرکے قادیان چلے گئے اور وہاں کاروبار شروع کردیا۔ آپؓ نے قادیان میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ سے ترجمہ قرآن کریم پڑھا اور بعض صحابہؓ کے ساتھ قادیان کے قریبی علاقوں میں جاکر تبلیغ بھی کرتے رہے۔ آپ کے بھتیجے حضرت میاں روشن دین زرگر صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میاں احمد دین صاحبؓ کے ساتھ مَیں نے بہت سفر کیے اور اگر گاڑی آنے میں کچھ وقفہ ہوتا تو آپؓ پلیٹ فارم پر ہی کھڑے ہوکر تبلیغ شروع کردیتے۔

حضرت میاں احمد دین زرگر صاحبؓ کی بیان کردہ بعض روایات درج ذیل ہیں:

٭…… ایک مرتبہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنے پیشہ (زرگری) کے بارہ میں سوال کیا کہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملا دیتے تھے۔ اب ملاوٹ چھوڑ دی ہے اور مزدوری زیادہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دیں گے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملا لو۔ ایسا کام ہم اُن کے کہنے سے کریں یا نہ کریں؟

حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کرنا چاہیے اور لوگوں کو کہہ دیا کرو کہ اب ہم نے توبہ کر لی ہے جو ایسے کہتے ہیں کہ کھوٹ ملا دو، وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں۔ پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو، برکت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور برکت دیتا ہے۔’’

(ملفوظات ،جلد سوم، صفحہ228-227 )

٭…… سیر میں ایک دن حضرت صاحب کو مَیں نے خواب سنایا جس میں سنار کا ذکر تھا۔ آپؑ نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سنار کی قوم مکار ہوتی ہے۔ یہ لفظ سن کر مَیں ڈر گیا، جب حضورؑ واپس تشریف لائے اور گھر جانے لگے تو میں نے عرض کیا حضور! مَیں یہ کام چھوڑ دوں کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ سنار کی قوم مکار ہوتی ہے۔ فرمایا: نہ، کبھی ہم بھی زیور کے واسطے کہہ دیتے ہیں اور یہ ثواب کا کام ہے۔

٭…… ایک دن حضورؑ سیر سے واپس تشریف لائے، میں نے عرض کیا حضور مجھے کوئی اپنا کپڑا بطور تبرک دیں، آپ نے اندر جاکر اسی وقت اپنا کوٹ اتار کر بھیج دیا۔

٭…… ایک دن میں نے خواب دیکھا اور حضرت صاحب کو لکھ دیا کہ حضور رات خواب میں دیکھا کہ میں نے حضور کو ایک روپیہ دیا ہے، آپؑ نے مجھے ایک کتاب دی ہے، میں اپنا خواب پورا کرتا ہوں اور ایک روپیہ پیش کرتا ہوں۔ آپؑ نے روپیہ رکھ لیا اور جواب تحریر فرما دیا کہ روپیہ رکھ لیا گیا ہے، کتاب چھپ رہی ہے ان شاء اللہ دے دی جاوے گی۔ مگر کتاب شائع ہونے سے پہلے حضورؑ خالق حقیقی سے جاملے اور بعد میں حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ نے وہ وعدہ پورا کیا اور کتاب ‘‘براہین احمدیہ’’ کا حصہ پنجم عنایت فرمایا۔

٭…… ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے بلوا کر فرمایا کہ ایک جوڑی گجائیاں طلائی بنا کر لاؤ۔ جب میں بنا کر لے گیا، دروازہ پر جاکر دستک دی۔ حضورؑ خود تشریف لائے، میں نے جوڑی گجائیوں کی پیش کی اور عرض کی حضورؑ یہ تیار ہوگئی ہے۔ تعجب سے فرمایا بس یہی گجائیاں ہوتی ہیں اور یہ تیار ہوگئیں اور آپ مسکرائے اور اندر کو لے گئے اور اندر جاکر ان کی مزدوری بھیج دی۔

٭……میں نے کئی بار حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کو کہا کہ حضور! حضرت صاحبؓ کے پاس سفارش کریں کہ میرے بھائیوں کے لیے حضرت صاحب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین دار بناوے۔ میری باربار تاکید پر ایک دن حضرت مولوی صاحبؓ نے مسجد مبارک میں حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ سنار اپنے بھائیوں کے نیک ہونے کے لیے دعا کرانی چاہتا ہے اور مجھے باربار کہا ہے۔ آپؑ مسکرائے اور فرمایا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ دوسرے کے نیک ہونے کے لیے دعا کراتا ہے۔

٭……ایک دن میں حضورؑ کے مکان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ حضورؑ نے پردہ پر سے کرم داد صاحب کو آواز دی (جو حضور کا خدمت گار تھا)۔ میں نے حضورؑ کی آواز سن کر عرض کیا کہ حضور وہ نہیں ہے، مجھے فرمائیں کیا ارشاد ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ لو ایک روپیہ اس کے ٹکٹ یا لفافے لاؤ اور کرم داد کو کہہ دینا کہ حاضر رہا کرے۔

٭……ایک دن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا کہ حضور میری بیوی کو حمل ہے اور بچہ کی پیدائش میں قریبًا ایک ماہ باقی ہے، اگر حضور فرماویں تو ہم اپنی روٹی لنگر سے پکوا لیا کریں؟ فرمایا نہیں ان دنوں میں عورتوں کے لیے کام کرنا بہت مفید ہوتا ہے۔

٭…… مَیں نے حضورؑ سے عرض کیا کہ مجھے قرض دینا ہے حضور دعا کریں تو آپؑ نے یہ دعا پڑھنے کے لیے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ اقْضِ دَیْنِیْ وَ اَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ۔

مَیں نے چند دن اس کو نماز میں پڑھا اور خداتعالیٰ نے قرض سے نجات دے دی۔

٭……حضرت میاں روشن دین زرگر صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اگر کہیں باہر تشریف لے جاتے تو حضرت میاں احمد دین زرگر صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ حضورؑ کے یکّہ کے ساتھ بٹالہ تک پیدل جاتے۔ ایک دفعہ حضرت میاں صاحب نے چلتے چلتے یکّہ کے بانس پر ہاتھ رکھا تو یکّہ بان نے ان کے ہاتھ پر چھانٹا مارا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی یہ دیکھ لیا اور پھر یکّہ بان کا پورا نام لے کر فرمایا: عبدالغفار! لگتا ہے میاں احمد دین تھک گئے ہیں، ان کو بھی یکہ میں بٹھا لو۔ چنانچہ حضرت میاں احمد دین زرگر صاحبؓ بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ یکّہ میں سوار ہوگئے۔

٭……حضرت میاں روشن دین صاحبؓ نے بیان کیا کہ میری پیدائش سے قبل میرے والد حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ کے گھر جو بچہ پیدا ہوتا وہ بہت جلد فوت ہوجاتا تھا۔ مَیں ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ حضرت میاں احمد دین زرگر صاحبؓ مجھے حضور علیہ السلام کی مجلس میں لے گئے۔ مَیں اس دوران حضرت اقدسؑ کے قدموں کے پاس پہنچ گیا جس پر حضورؑ نے پوچھا یہ کس کا بچہ ہے؟ آپؓ نے عرض کی حضور! یہ میرے بڑے بھائی کا بیٹا ہے اور عرض کی کہ حضور اُن کے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں اور دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور علیہ السلام نے میری پشت پر ہاتھ پھیرا اور تین مرتبہ فرمایا: بڑا ہوگا، بڑا ہوگا، بہت بڑا ہوگا۔ چنانچہ یہ حضور علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت تھی کہ حضرت میاں روشن دین زرگر صاحب نے نوّے سال سے زائد عمر پائی۔

٭……حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ‘‘حقیقۃ الوحی’’ میں اپنے ایک نشان ‘‘(7) ساتواں نشان ۔ 28 ؍فروری 1907 ء کی صبح کو یہ الہام ہوا ۔ سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہو گی۔ خوش آمدی نیک آمدی ۔’’ کا ذکر کرکے ساتھ ہی اس پیشگوئی کے قبل از وقت سننے والے گواہوں کے اسماء میں آپؓ کا نام ‘‘احمد دین زرگر’’ بھی رقم فرمایا ہے۔

حضرت میاں احمد دین صاحبؓ جب بھی امرتسر جاتے تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب گھر والوں سے پوچھ کر جاتے اور سب کا سودا سلف خرید کر لادیتے۔ آپ خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ آپؓ صدقہ خیرات اور چندہ کی ہر تحریک میں خود بھی فراخدلی سے حصہ لیتے تھے اور چندہ جمع بھی کرنے جاتے۔ دیہات سے اگر انڈہ، غلّہ یا جو چیز ملتی لے لیتے اور پھر شہر میں فروخت کر کے اُس گاؤں والوں کو اس کی رسید بھجوادیتے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اُن کو کشمیر فنڈ جمع کرنے کے لیے مقرر کیا تو آپؓ نے ابتدا ہی حضور کے گھروں سے کی اور پھر حضورؓ کی خدمت میں عرض کی کہ باقی سب خاندان والوں سے تو وصول کر چکا ہوں صرف حضرت سیدہ امۃالحی صاحبہ ؓ مرحومہ اور حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ ؓ مرحومہ کا رہ گیا ہے۔ حضورؓ نے ہنس کر اُن کی طرف سے خود چندہ ادا کر دیا۔ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ میاں احمد دین صاحب کو چندہ لینا آتا ہے، جہاں مقامی جماعت بھی کہتی ہے کہ چندہ نہیں ہوسکا وہاں سے بھی اکٹھا کر لیتے ہیں۔

حضرت میاں احمد دین صاحبؓ زرگر ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ آپ کا وصیت نمبر21تھا۔ آپ نے 14؍فروری 1954ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت میاں احمددین صاحبؓ کو تلاوت قرآن کریم سے خاص رغبت تھی اور اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہتے۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کی وفات ربوہ میں ہو۔ چنانچہ اسی دن چنیوٹ سے ربوہ آئے جس دن آپؓ کی وفات ہوئی۔ آپؓ کی یہ بھی خواہش تھی کہ وفات کے بعد حضرت اماں جان ؓ کے قدموں میںدفن کیا جائے۔ چنانچہ آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں مرکزی چاردیواری کے باہر اُس پہلے قطعہ میں دفن کیا گیا جو حضرت امّاں جانؓ کے قدموں کی طرف ہے۔

آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہ بیگم صاحبہؓ بنت حضرت احمد جان خیاط صاحبؓ آف پشاور بھی ایک مخلص خاتون تھیں اور لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی ممبرات میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتی تھیں۔ انہیں مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کی رضاعی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ انہوں نے یکم مئی 1968ء کو وفات پائی۔

حضرت میاں احمددین صاحبؓ کے بڑے بھائی حضرت میاں محمد یامین صاحبؓ کی بیعت کا واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ وہ نواب آف ریاست بہاولپور کے محکمہ جنگلات میںملازم تھے جبکہ نواب صاحب مرید تھے حضرت سید غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والوں کے۔ ایک مرتبہ مُرشد حضرت سیّد غلام فرید صاحب جب نواب صاحب کے دربار میںتشریف لائے ہوئے تھے تو کسی مرید نے اُن سے کہا کہ شاہ صاحب! مرزا غلام احمدکی آتھم والی پیشگوئی تو پوری نہیںہوئی۔ یہ سن کر شاہ صاحب جلال میں آگئے اورفرمایا:

کون خنزیرپیاآکھدا اے کہ مرزاصاحب دی پیشنگوئی پوری نہی ہوئی مینکوتے آتھم دی لاش پئی نظرآوندی۔

(یعنی کون سؤر کہتا ہے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی، مجھے تو آتھم کی لاش پڑی نظر آتی ہے)۔

حضرت میاں محمد یامین صاحبؓ نے جب یہ سنا تو فوراً بیعت کا خط لکھ دیا (آتھم کی موت 1896ء میں ہوئی)۔اوربعدمیں مع فیملی قادیان آکر آپؓ نے دستی بیعت کرلی، آپ کی بیعت کا اعلان مع اہلیہ و دختر اخبار البدر 24؍جولائی 1903ء میں شائع ہوا ہے۔

حضرت میاں محمدی امین صاحبؓ کی وفات کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خواص میں سے تھے اس لیے ا نہیں قطعہ خاص میں دفن کیا جائے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 5؍نومبر2012ء میں مکرم عبدالصمد قریشی صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی ہے جو جلسہ سالانہ کے حوالہ سے کہی گئی ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

دل میں خوشی کے پھول مہکتے رہیں یوں ہی
یہ دن سرور و کیف میں کٹتے رہیں یوں ہی
قلب و نظر کو ملتی رہیں یوں ہی وسعتیں
ہم اپنے جذب و عشق میں بڑھتے رہیں یوں ہی
ہوتے رہیں سدا یوں ہی ساماں بہار کے
غنچے دلوں میں پیار کے کِھلتے رہیں یوں ہی
ہوتی رہیں فلک سے یہ رحمت کی بارشیں
سب زندگی کے راستے سجتے رہیں یوں ہی
پروانہ وار ہم بھی ہوں اس نُور پر فدا
پل پل وفا کی آن پہ مرتے رہیں یوں ہی
پہنچیں ہر اک دُوار پہ جلسے کی برکتیں
یہ سلسلے قرار کے ملتے رہیں یوں ہی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button