لالہ کیشوداس تحصیل دار آف بٹالہ (نمبر21)
(21؍اکتوبر1899ء)
بے شک اگر آپ کے دل میں اہل لوگوں کے ساتھ محبت نہ ہوتی،تو آپ ہمارے پاس کیوں آتے اور ایک دنیا دار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایک دنیا سے الگ گوشہ نشین کے پاس جاوے۔مناسبت ایک ضروری شے ہے
ملتا ہے کہ لالہ کیشوداس صاحب تحصیلدار بٹالہ اتفاق حسنہ سے قادیان میں وارد ہوئے اورانہوں نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جس سے تحصیل دار صاحب موصوف کی وسیع اخلاقی اور بے تعصبی کا پتا لگتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ( جیساکہ خود تحصیل دار صاحب نے عند الملاقات ظاہر فرمایا) کہ ان کو اہل دل لوگوں سے ملنے کا شوق ہے۔
بہرحال حضرت اقدسؑ نے حسب معمول بعد نماز مغرب ملاقات کرنے کا فرمایا چونکہ یہ جمعہ کا دن تھا۔ تحصیل دار صاحب نے جمعہ کے وعظ میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی اور اجازت لے کر بطیب خاطر جامع مسجد میں آئے اور اختتام خطبہ تک نہایت توجہ کے ساتھ سنتے رہے۔ خطبہ میں مولانا مولوی نورالدین صاحب ؓنے سورۃ الدھر کے پہلے رکوع کی تفسیر فرمائی جو انہی دنوں الحکم میں شائع کردی گئی تھی۔ تحصیل دار صاحب نماز کے وقت تشریف لے گئے اور حسب وعدہ شام کو آپ چھوٹی مسجد میں تشریف لائے اور بہت رات تک حضرت اقدسؑ کی پاک صحبت سے فیض اٹھاتے رہے۔ اس موقع پر حضرت اقدسؑ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اسے ایڈیٹر الحکم نے نوٹ کرکے اپنے 9؍اگست 1900ء کے شمارہ کے صفحہ 3 اور 4 پر شائع کردیا۔
الغرض جب معزز مہمان حضرت اقدسؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے فقراء سے ملنے کا کمال شوق ہے۔اور اسی شوق کی وجہ سے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
بے شک اگر آپ کے دل میں اہل لوگوں کے ساتھ محبت نہ ہوتی تو آپ ہمارے پاس کیوں آتے اور ایک دنیا دار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ایک دنیا سے الگ گوشہ نشین کے پاس جاوے۔مناسبت ایک ضروری شئے ہے اور اصل تو یہ ہے کہ جبکہ انسان ایک فنا ہونے والی ہستی ہے اور موت کا کچھ بھی پتہ نہیں کہ کب آجاوے اور عمر ایک ناپائیدار شئے ہے پھر کس قدر ضروری ہے کہ اپنی اصلاح اور فلاح کی فکر میں لگ جاوے،مگر میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اپنی دھن میں ایسی لگی ہے کہ اس کو آخرت کا کچھ فکر اور خیال ہی نہیں ہے۔خدا تعالیٰ سے ایسے لا پرواہ ہو رہے ہیں گویا وہ کوئی ہستی ہی نہیں ایسی حالت میں جبکہ دنیا کی ایمانی حالت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تاکہ میں زندہ ایمان زند ہ خدا پر پیدا کرنے کی راہ بتلاؤں۔جیساکہ خداتعالیٰ کا عام قانون ہے۔بہت لوگوں نے جو سعادت اور رشد سے حصہ نہ رکھتے تھے۔خدا ترسی اور انصاف سے بے بہرہ تھے۔مجھے جھوٹا اور مفتری کہا اور ہر پہلو سے مجھے دکھ دینے اورتکلیف پہنچانے کی کوشش کی۔کفر کے فتوے دے کر مُسلمانوںکو بدظن کرنا چاہا اور خلاف واقعہ امور کو گورنمنٹ کے سامنے پیش کر کے اس کو بھڑکانے کی کوشش کی۔جھوٹے مقدمات بنائے۔گالیاں دیں۔قتل کرنے کے منصوبے کیے۔غرض کونساامرتھاجو اُنہوں نے نہیں کیا۔ مگر میرا خدا ہر وقت میرے ساتھ ہے۔اُس نے مجھے اُن کی ہر شرارت سے پہلے اُن کے فتنہ اور اس کے انجام کی خبر دی اور آخر وہی ہوا جو اُس نے ایک عرصہ پہلے مجھے بتلایا تھا اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سعادت،خداترسی اور نورایمان سے حصّہ دیا ہے۔جنہوں نے مجھے پہچانا اور اُس نُورکے لینے کے واسطے میرے گرد جمع ہوگئے جو مجھے خداتعالیٰ نے اپنی بصیرت اور معرفت بخشی ہے۔ان لوگوںمیںبڑے بڑے عالم ہیں۔گریجویٹ ہیں،وکیل اور ڈاکٹرہیں،معززعہدہ دارانِ گورنمنٹ ہیں۔تاجر اور زمیندارہیں اور عام لوگ بھی ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ نااہل مخالف اتنا بھی تو نہیں کرتے کہ ایک حق بات جو ہم پیش کرتے ہیں۔ اس کو آرام سے سن ہی لیں۔اُن میںایسے اخلاق فاضلہ کہاں؟ورنہ حق پرستی کا تقاضا تو یہ ہے ؎
مرد باید کہ گیر داندر گوش
گر نوشت است پند بر دیوار
اس زمانہ میں مذہب کے نام سے بڑی نفرت ظاہر کی جاتی ہے اور مذہب حقہ کی طرف آنا، تو گویاموت کے منہ میں جانا ہے۔
مذہب حق وہ ہے جس پر باطنی شریعت بھی شہادت دے اُٹھے۔مثلاً ہم اسلام کے اصول توحید کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی حقانی تعلیم ہے کیونکہ انسان کی فطرت میںتوحیدکی تعلیم ہے اور نظارہ قدرت بھی اس پر شہادت دیتا ہے۔خداتعالیٰ نے مخلوق کو متفرق پیداکرکے وحدت ہی کی طرف کھینچا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت ہی منظور تھی۔پانی کا ایک قطرہ اگر چھوڑیں۔تو وہ گول ہو گا۔ چاند سُورج سب اجرام فلکی گول ہیں اورکرو یّت وحدت کو چاہتی ہے۔
تثلیث
ہم اس وقت بے انتہا خداؤں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ تو ہے ہی ایک بیہودہ اور بے معنی اعتقاد اور بےشمار خدا ماننے سے امان اُٹھ جاتا ہے۔مگر ہم تثلیث کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم نے جیساکہ قدرت کے نظائر سے ثابت کیا ہے کہ خدا ایک ہی ہے۔اس طرح پر اگر خدا معاذ اللہ تین ہوتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں توچاہیے تھا کہ پانی،آگ کے شعلے اور زمین آسمان کے اجرام سب کے سب سہ گوشہ ہوتے تاکہ تثلیت پر گواہی ہوتی۔ اور نہ انسانی نُور قلب کبھی تثلیث پر گواہی دیتا ہے۔پادریوں سے پُوچھا ہے کہ جہاں انجیل نہیں گئی،وہاں تثلیث کا سوال ہو گا یا توحیدکا تو انہوں نے صاف اقرار کیا ہے۔ کہ توحید کابلکہ ڈاکٹر فنڈر نے اپنی تصنیف میں یہ اقرار درج کر دیا ہے۔ اب ایسی کھلی شہادت کے ہوتے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ تثلیث کا عقیدہ کیوں پیش کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سہ گوشہ خدا بھی عجیب ہیں۔ ہر ایک کے کام الگ الگ ہیں۔ گویا ہر ایک بجائے خود ناقص اور نا تمام ہے اور ایک دوسرے کا متمم ہے۔
مسیح کی الُوہیت
اور مسیح جس کو خدا بنایا جاتا ہے۔اس کی تو کچھ پُوچھو ہی نہیں۔ساری عمر پکڑدھکڑ میں گزری اور ابن آدم کو سر دھر نے کو جگہ ہی نہ ملی۔ اخلاق کا کوئی کامل نمونہ ہی موجود نہیں۔تعلیم ایسی ادھوری اور غیر مکتفی کہ اس پر عمل کر کے انسان بہت نیچے جا گرتا ہے۔
وہ کسی دوسرے کو اقتدار اور عزت کیا دے سکتا ہے۔جو اپنی بے بسی کا خود شاکی ہے،اوروں کی کیا سن سکتا ہے۔جس کی اپنی ساری رات کی گریہ وزاری اکارت گئی اور چلّا چلّا کر ایلی ایلی لما سبقتانی بھی کہا مگر شنوائی ہی نہ ہوئی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ آخر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا۔ اوراپنے اعتقاد کے موافق ملعون قرار دیا۔خود عیسائیوں نے لعنتی مانا۔مگر یہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے لعنتی ہوا۔حالانکہ لعنت ایسی چیز ہے کہ انسان اس سے سیاہ باطن ہو جاتا ہے۔ اور وہ خدا سے دُور اور خدا اس سے دور ہو جاتا ہے۔گویا خدا سے اس کو کچھ تعلق نہیں رہتا۔اس لئے ملعون شیطان کا نام بھی ہے۔اب اس لعنت کو مان کر اور مسیح کو ملعون قرار دے کر عیسائیوں کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے:لعنت نال ککھ نہیں رہندا۔گلے پڑا ڈھول ہے جو یہ لوگ بجا رہے ہیں۔غرض ان لوگوں کے عقائد کا کہانتک ذکر کیا جاوے۔حقیقت وہی ہے جو اسلام لے کر آیا۔ اور خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا کہ مَیں اس نور کو جو اسلام میں ملتا ہے۔ان کو جو حقیقت کے جو یاں ہوں دکھاؤں۔سچ یہی ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اور میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر انجیل اور قرآن کریم اور تمام صحف انبیاء بھی دنیا میں نہ ہوتے تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید ثابت تھی کیونکہ اس کے نقوش فطرت انسانی میں موجود ہیں۔
مسیح کی ابنیت
خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے۔کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یاد گار ہو۔اب اگر مسیح خدا کا بیٹا ہے تو پھرسوال ہو گا کہ کیا خدا کو مرنا ہے؟مختصر یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے عقائد میں نہ خدا کی عظمت کا لحاظ رکھا اورنہ قوائے انسانی کی قدر کی ہے۔ اور ایسی باتوں کو مان رکھا ہے کہ جن کے ساتھ آسمانی روشنی کی تائید نہیں ہے۔ایک بھی عیسائی ایسا نظر نہ آیا جو خوارق دکھا سکے اور اپنے ایمان کو ان نشانات سے ثابت کر سکے جو مومنوں کے ہوتے ہیں۔یہ فضیلت اور فخر اسلام ہی کو ہے کہ ہر زمانہ مین تائیدی نشان اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس زمانہ کو بھی خدا نے محروم نہیں رکھا۔مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ ان تائیدی نشانوں سے جو اسلام کا خاصہ ہے۔اس زمانہ میں اسلام کی صداقت دنیا پرظاہر کروں۔مبارک وہ جو ایک سلیم دل لے کر میرے پاس حق لینے کے لئے آتا ہے۔اور پھر مبارک وہ جو حق دیکھے۔ تو اس کو قبول کرتا ہے۔
٭…٭…٭