رسول اللہﷺ کے گیارہ لڑکے…ایک تاریخی روایت کا حوالہ
چشمۂ معرفت کے ایک حوالے پر اعتراض کا تاریخی حوالہ جات سے جواب
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے جس جذبہ غیرت رسولﷺ سے سرشار ہوکراس اعتراض کا جواب دیا اس پر یہ کتاب چشمۂ معرفت آپ کے عشق و محبت رسولﷺ پر ہمیشہ گواہی دیتی رہے گی
اللہ تعالیٰ کے نبی دنیا میں حقوق اللہ اورحقوق العبادقائم کرنے کےلیے تشریف لاتے ہیں۔اور وہ دنیا میں ہوتے ہوئےبھی ایک اور جہان میں ہوتے ہیں۔ہر نبی نے یہ نمونہ دکھایا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَجَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً ؕ وَمَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ (الرعد:39)اور ہم نے ىقىناً تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھىجے اور ہم نے ان کے لئے بىوىاں بنائىں اور ذرّىّت بھى اور کسى رسول کے لئے ىہ ممکن نہىں کہ کوئى اىک آىت بھى اللہ کے اِذن کے بغىر لا سکے اور ہر مقدر وقت کے لئے اىک نوشتۂ تحرىر ہے۔مگرہمارے نبی کریمؐ نے یہ دونوں حق کمال توازن سےادا کرکےبے نظیر نمونہ پیش کیا جسے اسوۂ حسنہ قرار دیاگیا۔(احزاب:22)اسلام نے طبعی و اخلاقی ضرورتوں کی بناانصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زائد شادی کرنے کی رخصت دی ہے۔جبکہ رسول اللہﷺ کو الٰہی منشاء اور تعلیمی،تربیتی،معاشی و سیاسی تقاضوں کی خاطراستثنائی طور پر بیک وقت نو(۹) ازواج کی اجازت ہوئی اورآپؐ نےنہایت عدل و انصاف سے سب کے حقوق ادا کر کے اہلی زندگی میں امّت کو ایک بہترین نمونہ عطا فرمایا۔حضرت خدیجہ ؓنے رسول اللہ ﷺکے ساتھ مکی دور کی اپنی پندرہ سالہ رفاقت کے بعدآپ کے اعلیٰ اخلاق فاضلہ اور صلہ رحمی و حسن سلوک کی گواہی دی جبکہ حضرت عائشہ ؓنے رسول اللہﷺ کے مدنی دور کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعدآپؐ کے اخلاق عین قرآن کے مطابق قرار دیے۔آنحضرت ﷺ کی ساری اولاد حضرت خدیجؓہ ے ہوئی سوائے صاحبزادہ ابراہیمؓ کے جوحضرت ماریہ ؓکے بطن سے تھے۔آپؐ کے تمام لڑکے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ چاروں صاحبزادیوں کو اپنی والدہ حضرت خدیجہ ؓکے ساتھ اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔پھر ان کی شادیاں اور اولاد بھی ہوئی۔ تاہم سوائے حضرت فاطمہ اور حضرت عؓلی کے کسی کی نسل معروف نہیں۔اس جگہ رسول کریمﷺ کی اولاد خصوصاً لڑکوں کی تعداد کے بارہ میں اہل سیر کی ایک روایت کا ذکر مقصود ہے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے بھی فرمایا ہے۔آپؑ نےرسول اللہﷺ کے صدمات پرصبر کے بعدتعلق باللہ کےخلق عظیم کا برسبیل تذکرہ بیان کرتے ہوئے تحریرفرمایا:’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ(۱۱)لڑکےپیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اورخدا کی طرف جاؤں گا۔ ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدّم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دُنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے۔‘‘(چشمۂ معرفت صفحہ286 روحانی خزائن جلد23 صفحہ299)مذکورہ بالا بیان میں محض ایک تاریخی روایت کی طرف اشارہ تھا نہ کہ اپنی کسی قطعی تاریخی تحقیق پر اصرار۔اس میں شک نہیں کہ بالعموم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے رسول اللہﷺ کی اولاد کی تعداد میں اختلاف کیا ہے۔تاہم یہ بھی درست ہے کہ بعض روایات میں گیارہ لڑکوں کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ’’السیرة الحلبیة‘‘میں علامہ علی بن برہان الدین الحلبی (متوفی:1044ھ)کے علاوہ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بحوالہ علامہ ابن جوزی صاحب صفوة اس تاریخی روایت کاذکر کیا ہے۔
علامہ علی بن برہان الدین الحلبی (متوفی:1044ھ)نے ’’السیرة الحلبیة‘‘میں ان روایات کو جمع کردیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: وبعد البعثة ولد له صلى اللّٰہ عليه وسلم عبد اللّٰہ، ويسمى الطيب الطاهر. وقيل الطيب والطاهر غير عبد اللّٰہ المذكور ولدا في بطن واحدة قبل البعثة.أي وقيل اللذان ولدا في بطن واحدة قبل البعثة الطاهر والمطهر. وقيل ولد له أيضا قبل البعثة في بطن واحد الطيب والمطيب. وقيل ولد له قبل البعثة عبد مناف، مات هؤلاء قبل البعثة وهم يرضعون، أما عبد اللّٰہ الذي ولد له بعد بعثته صلى اللّٰہ عليه وسلم فكان آخر الأولاد من خديجة رضي اللّٰہ تعالى عنها.وبهذا يظهر التوقف في قول السهيلي رحمه اللّٰہ كلهم ولدوا بعد النبوة. وأجاب بعضهم بأن المراد بعد ظهور دلائل النبوة.
’’حضرت خدیجہؓ سے رسول اللہﷺ کے یہاں قاسمؓ پیدا ہوئے۔یہ آنحضرتﷺ کی نبوت سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔یہ آپﷺ کی پہلی اولاد تھے….ظہور کے بعد آپﷺ کے یہاں عبداللہ پیدا ہوئے جن کو طیب و طاہر کا نام دیاگیا مگر ایک قول ہے کہ طیب و طاہر ان عبداللہ کے علاوہ دوسرے تھے وہ دونوں جڑواں بھائی تھے اور آپﷺ کی نبوت سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ظہور سے پہلے جو دو بچے جڑواں پیدا ہوئے وہ طاہراور مطہر تھے۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ظہور سے پہلے ہی اور ایک ہی پیٹ سے طیب اور مطیب بھی پیدا ہوئے تھے۔ایک قول کے مطابق نبوت سے پہلے آپﷺ کے یہاں عبد مناف پیدا ہوئے تھے لیکن یہ سب کے سب نبوت سے پہلے دودھ پینے کے زمانے میں ہی انتقال کرگئے تھے۔جہاں تک ان عبداللہ کا تعلق ہے جو ظہور کے بعد پیدا ہوئے وہ حضرت خدیجہؓ سے آپﷺ کی آخری اولاد تھے…پھر 8ھ میں….ان(حضرت ماریہؓ) سے آپﷺ کے یہاں ابراہیم پیدا ہوئے…..ابراہیمؓ کا انتقال10ھ میں ہوا۔‘‘(السیرة الحلبیہ اردو جلد سوم نصف آخر ص404-407مرتب و مترجم اردواز مولوی محمد اسلم قاسمی مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ کراچی پاکستان)مذکورہ بالاحوالہ کے مطابق حضرت خدیجہؓ کے بطن سےرسول اللہﷺ کےدس کم سن وفات یافتہ بیٹوں اورحضرت ماریہؓ کے بطن سے گیارہویں وفات یافتہ بیٹے کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔قاسم2۔عبد اللہ(قبل از بعثت)3۔طیب4۔طاہر
5،6۔طاہرومطہر(جڑواں)7،8۔طیب و مطیب (جڑواں) 9۔عبد مناف10۔عبد اللہ(بعد از بعثت) 11۔گیارہویں لڑکےابراہیم تھے جو حضرت ماریہؓ کے بطن سے ہوئے۔ یوں رسول اللہﷺ کے گھر گیارہ لڑکوں کی پیدائش اور کم سنی میں ان کی وفات ثابت ہوئی۔ علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی(متوفی:1052ھ)نےحضرت خدیجہؓ کے بطن سےآٹھ بیٹوں اورچار بیٹیوں سمیت کل بارہ بچوں کا ذکر کیا ہے اورحضرت ماریہؓ کے بطن سے تیرہویں صاحبزادہ ابراہیم کو شمار کیا ہے۔(مدارج النبوة،قسم پنجم،باب اول،درذکر اولاد کرام،اردو ترجمہ،جلد دوم صفحہ 524)اس تاریخی حقیقت کے باوجود بعض مخالفین نے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی اس تحریر پر اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے گیارہ بیٹے نہ تھے۔یہ اعتراض محض برائے اعتراض ہی ہے کیونکہ اول تو حضرت مرزا صاحب نے محض مذکورہ بالا تاریخی روایت کاذکرکیااوراسے آخری قطعی تحقیق قرار نہیں دیا۔ دوسرے اس روایت کے بیان سے آپ کا مقصد رسول اللہﷺ کی سیرت کا ایک پہلو بیان کرناتھا اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب ہندوستان کے آریہ ہندوؤں نے رسول کریمﷺ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا۔اس اہم پس منظر کی کسی قدر تفصیل بھی ضروری اورمفیدہے۔یہ1907ءکاواقعہ ہے، آریہ سماج کا مذہبی جلسہ لاہور میں ہوا جس میں آریوں نے اسلام،قرآن اور سیّد المعصومین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ناروا حملے کیے۔اس وقت اور کوئی مسلمان لیڈر تو پورے برصغیر میں آریوں کے مقابل پر جواب دینے کے لیے کھڑا نہ ہوا۔ایک حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اپنے رسول کی غیرت و محبت میں آگے آئے اوراپنی کتاب چشمۂ معرفت میں آریوں کے اعتراضوں کے جواب دیے۔ان کاایک اعتراض یہ تھا کہ آنحضرتﷺ کی زندگی معاذ اللہ ناپاک تھی اور آپﷺ کو نفسانی خواہشات کی طرف مائل ٹھہرایا۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے جس جذبہ غیرت رسولﷺ سے سرشار ہوکراس اعتراض کا جواب دیا اس پر یہ کتاب چشمۂ معرفت آپ کے عشق و محبت رسولﷺ پر ہمیشہ گواہی دیتی رہے گی۔آپ نے فرمایا:’’دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر،سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مردِ خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدﷺ‘‘اس کے بعدآپؑ نے ہمارے آقا و مولیٰ خاتم الانبیاءفداہ نفسی و ابی پرنفسانی خواہشات کی خاطر متعدد شادیاں کرنے کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ پہلو بھی بیان فرمایا: ’’ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے توہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لاکر صدہا امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کردیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی۔‘‘(چشمۂ معرفت صفحہ286 روحانی خزائن جلد23 صفحہ299)الغرض بانیٔ اسلامﷺ کے بارہ میں ہندو مخالفوں کو جواب دیتے ہوئے حضرت مرزا صاحب نے محمد مصطفیٰﷺ کی جو شان بیان کی،نامعلوم وہ حضرت مرزا صاحب کے مخالفین کو کیوں ناگوار لگی اور ان کی غیرت کہاں سو گئی کہ اپنے آقا کی بجائے آریوں کی ہمنوائی کرتے ہوئے الٹاحضرت مرزا صاحب پریہ اعتراض کر دیاکہ آپؐ کے گیارہ لڑکے تاریخی لحاظ سے ثابت ہی نہیں ہیں۔دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک مرزا صاحب کی یہ دلیل کہ آنحضورﷺ شہوات نفسانی سے بےتعلق تھے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟حیرت ہے کہ ایک طرف مسلمان اور رسول اللہﷺ کی امت ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف آریوں کی ہاں میں ہاں ملانا کہاں کی غیرت دینی ہے۔اب ہم ایسے معترض کو آریوں کا ساتھی نہ سمجھیں تو اور کیا سمجھیں۔2۔تاہم چونکہ روایات میں اختلاف ہے اور دوسری روایت میں آٹھ بیٹوں کا ذکر ہے۔اگر کسی کے نزدیک یہ روایت زیادہ صحیح یا قابل قبول ہے تو بھی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے اس قول کی تطبیق کہ گیارہ لڑکوں کی وفات پر صبر کیا اس طرح ہوجاتی ہے کہ لڑکوں سےآپؐ کی وہ ساری ذکوراولاد مراد لی جائے جو آپؐ کی زندگی میں ہوئی اور جن کی تعداد گیارہ بنتی ہے کیونکہ آپؐ کی زندگی میں وفات پانے والے آٹھ لڑکوں کے ساتھ تین نواسے ملاکرتعدادگیارہ ہوجاتی ہے۔نواسوں کو بھی آپﷺ نے اپنی اولاد ہی قرار دیا ہےاورنواسوں میں سے جوتین آپ کی زندگی میں فوت ہوئے۔ان میں ایک حضرت زینبؓ کے صاحبزادے علی تھے جوبچپن میں فوت ہوئے۔دوسرےحضرت رقیہؓ کے صاحبزادے عبد اللہ جوچھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
تیسرے حضرت فاطمہؓ کے ایک صاحبزادے محسن جوبچپن میں فوت ہوئے۔ (سیر الصحابہ اردو جلدششم،سیر الصحابیات (حصہ دہم) صفحہ90تا97) اس طرح آپ کے آٹھ حقیقی بیٹے اور تین نواسے جن کو آپؐ نے اپنے بیٹے قرار دیااور وہ آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگئے۔اس طرح بھی کل گیارہ لڑکوں کی وفات پررسول کریمﷺ نے صبر کا نمونہ دکھایاجو حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے بیان کا مقصد تھا۔جیساکہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی محتاط عبارت سے ظاہر ہے ’’کہ آپؐ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئےتھے۔‘‘
3۔اوراگر لڑکوں کامفہوم اولادیابیٹے کرنے پرہی اصرار ہو توبھی آیت مباہلہ آل عمران:62 کے علاوہ احادیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے نواسوں کو بھی ’’ابناء‘‘ یعنی بیٹوں میں شمار کیا۔ جیساکہ فرمایا:هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي(ترمذی ابواب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا)یعنی یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔
4۔باقی جہاں تک اس تاریخی روایت میں اختلاف کا تعلق ہے بعض دیگر آرابھی موجود ہیں۔چنانچہ مشہورشارح حدیث،سیرت نگار علامہ قسطلانی کی کتاب’’مواہب اللدنیہ‘‘ کی شرح میں علامہ زرقانی (المتوفى: 1122ھ) رسول اللہﷺ کی اولاد کے بارہ میں مختلف اقوال درج کرنے کے بعدان کی تعداد13 بیان کی ہے۔جن میں چار صاحبزادیاں بھی شامل ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’تمام اقوال سے آٹھ فرزندان رسولؐ کی تعداد حاصل ہوئی جن میں سے دو فرزند حضرت قاسم اور ابراہیم متفق علیہ ہیں۔چھ مختلف فیہ عبدمناف،عبداللہ،مطیب مطیب،طاہر،مطہر۔‘‘ (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية جزء4صفحہ313)یہی بات امام شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیا ربکری (متوفیٰ:966ھ)نے اپنی کتاب تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس جزء1صفحہ272تا273اورعلامہ عبدالحق محدث دہلوی(متوفی:1052ھ)نے مدارج النبوة جلددوم صفحہ 524میں بیان کی ہے۔اگرتغلیباً لڑکوں سے مراد صرف حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہونیوالے بارہ بچے مراد لیے جائیں جو آٹھ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں تو بھی ان میں سےماسوا حضرت فاطمہؓ باقی گیارہ بچےرسول اللہﷺ کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے جن کی وفات پر آپؐ نے صبر کیا۔
5۔ممکن ہے کسی اورکتاب کاکوئی اور تاریخی حوالہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی نظرسےگزرا ہوجس میں رسول اللہﷺکے گیارہ لڑکوں کی آپ کی زندگی میں وفات کا ذکر ہوجوایک صدی بعد آج میسرنہیں تاہم دستیاب کتب میں فی الوقت مذکورہ اعتراض پر پیش کردہ حوالہ جات سے اتمام حجت ہوجاتاہے۔فھوالمراد