چودھری محمد علی صاحب(نمبر11)
(گذشتہ سے پیوستہ) اب واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ہم نے ناشتہ کرنا تھا۔ ناشتہ پتا ہے کیا کیا؟ایک بُوٹی ہوتی ہے جسے کھٹ مِٹھی بُوٹی کہتے ہیں۔ نہروں کے کناروں اور کنووں کی منڈیروں پر اُگتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے پتے ہوتے ہیں۔ بچے اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ وہاں کی کھٹ مِٹھی بُوٹی کا پتا نسبتاًچوڑا ہوتا ہے۔ ہم نے کھٹ مِٹھی بوٹی کی بُھجیا بنا کر ناشتہ تیار کیا۔منصور بیچارے کو بخار تھا، اس کا گلا بھی خراب تھا چنانچہ ہم نے اسے کہا کہ تم ہم سے پہلے چلنا شروع کردو۔ برف پر پگڈنڈیاں سی بنی ہوتی ہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ تم چلتے جانا لیکن جہاں سے راستہ الگ ہو، وہاں بیٹھ جانا۔ ہم تمہیں آملیں گے۔ ہم ناشتے کے بعد چل پڑے لیکن ہمارے خیال کے مطابق منصور کو جہاں ہونا چاہیے تھا وہ وہاں نہیں تھا۔اور آگے گئے تو وہ وہاں بھی نہیں تھا۔ ہم بہت پریشان ہوئے۔ بارہ بجے کے بعد اس علاقے میں تیز ہوا چل پڑتی ہے اور دھوپ کی وجہ سے برف اوپر سے نیچے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ بسااوقات برف اور مٹی، پتھر کے طوفان بھی آنے لگتے ہیں۔ ہم نے قلیوں سے کہا کہ تم ٹھہر جائو۔ انہوں نے کچھ دیر تو انتظار کیا لیکن ایک بجے کے قریب جب تیز ہوا شروع ہوئی تو وہ کہنے لگےاب ہم یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ آپ خود بھی مرنا چاہتے ہیں اور ہمیں بھی مروائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ ہم نے سوچا کیا کریں، منصور کو کہاں ڈھونڈیں۔ ہم نے دو دو لڑکوں کی ٹیمیں بنائیں۔ انہیں کہا وہ ادھر ادھر پھیل جائیں لیکن راستے کی نشاندہی کے لیے پتھر رکھتے جائیں یا برف کی ڈھیریاں سی بناتے چلے جائیں۔ اس کوشش کے باوجود منصور کہیں نظر نہیں آیا۔
عصر کا وقت ہوگیا تھا اور ابھی تک منصور کا کچھ پتا نہ تھا چنانچہ ہم نے بیٹھ کر دعا کی کہ یا اللہ! تُو خبیر اور ہماری جانوں کا محافظ ہے۔ تُو مہربانی کر کے ہمیں منصور تک پہنچا دے۔ جلد ہی شام کا دھندلکا چھانے لگا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم نے حرکت کرتے رہنا ہے یعنی بے شک آہستہ ہی سہی، مسلسل چلتے رہنا ہے۔ اب اتنی سردی ہو گئی تھی کہ اعصاب جواب دینے لگے لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ چلتے رہے۔ دعا بھی کرتے جا رہے تھے کہ یا اللہ! منصور کو بچا لے۔
اسی اثنا میں ہمیں انگریزوں کا ایک قافلہ راستے میں مل گیا۔ دو یا تین فوجی افسر تھے۔ باقی اُن کے ساتھ قلی تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو خوش دلی سے کہا
We have been reading your anouncements. We know that you are T.I.College hiking party. But why don’t you smile? What is the wrong with you?
ہم نے جواب دیا ہم پریشان اس لیے ہیں کہ ہمارا ایک آدمی گم ہو گیا ہے۔ آپ ہم پر ایک مہربانی کریں۔ آپ قطار میں چلنے کی بجائے ذرا سا پھیل کر چلیں اور دیکھتے جائیں۔ اگر ہمارا آدمی آپ کو راستے میں مل جائے تو ہمیں اطلاع کردیں۔
ان کے جانے کے کچھ دیر بعد ہم نے دوربین سے دیکھا تو منصور اپنی برساتی جھنڈے کی طرح لہر ارہا تھا۔ دراصل اسے اسی پارٹی کے کسی قلی کا پائوں لگا تو وہ نیند سے بیدار ہوگیا۔پارٹی کا اصرار تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گی لیکن منصور نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ بحث تمحیص کے بعد ان کے درمیان طے پایا کہ ا گر اسے اپنے لوگ نظر آگئے یا کسی طرح انہوں نے اسے دیکھ لیا تو وہ ان کے پاس چلا جائے گا ورنہ وہ انگریزوں کے ساتھ رہے گا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے منصور کی جان بچا کر ہمیں ایک بہت بڑی پریشانی سے نجات دلادی تھی۔
راستے میں کسی جگہ ایک غار سا آیا۔ اس میں آگ جل رہی تھی۔ وہاں ہمارے قلی بیٹھے تھے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی ہمارے پائوں پڑ گئے اور کہنے لگے یا تو آپ دیو ہیں یا دیوتا جو اس وقت یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت تو ہم یہاں تک نہیں آسکتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ منصور کسی دوراہے پر بیٹھا تو اسے نیند نے آلیا اور اڑتی ہوئی برف نے اسے ڈھانپ لیا۔ مستزاد یہ کہ اس نے فوجی طرز کی برساتی پہنی ہوئی تھی جس پر اس طرح کے نشانات تھے کہ وہ دور سے نظر ہی نہ آپائے چنانچہ وہ برف میں قریباً دب گیا اگرچہ خدا کی قدرت سے اسے سانس آتا رہا۔
ابھی ہم کافی بلندی پر تھے کہ ہمیں ایک عجیب و غریب قوم نظر آئی۔ چھ چھ فٹ کے جوان تھے۔ مُردار کھاتے تھے۔ ان کی ایک جیب میں گوشت تھا تو دوسری میں شراب۔ اُن کے فیچرز چائنیز یا منگولین تھے۔ اس قوم کے سرداروں کے خیمے سفید تھے۔انہوں نے سفید چوغے پہن رکھے تھے اور ان کی ٹوپیاں بھی سفید تھیں۔ غالباً یہ رائلٹی کی علامت تھی۔ ایک دو خیمے سفید تھے جب کہ باقی خیمے جو مختلف رنگوں کے تھے کچھ فاصلے پر تھے۔
ہمیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی چنانچہ میں ان خیموں کے پاس گیا اور ان کو اشاروں کنایوں میں سمجھایا کہ ہم اتنے افراد ہیں اور ہمیں سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے جواباً کہا فکر نہ کرو اور اندر سے دو روٹیاں لادیں جو کھانے کے بعد پتا چلا کہ پنیر کی تھیں۔ ان کے اوپر بھی پنیر ہی رکھا ہوا تھا۔ میں نے پھر اشارے سے انہیں سمجھایا کہ آدمی زیادہ ہیں اور یہ روٹی تھوڑی ہے تاہم غالباً اس وقت ان کے پاس ہمیں دینے کے لیے کوئی اور چیز موجود نہ تھی۔ ہم نے اپنی کل تعداد کے برابر ان روٹیوں کے ٹکڑے کیے اور سب میں برابر بانٹ دیے لیکن پھر بھی بھوک کی وجہ سے ہم میں جھگڑا ہوگیا۔ بعض لڑکوں کا خیال تھا کہ دوسروں کو ان کی نسبت زیادہ روٹی مل گئی ہے۔ہمارے یہ میزبان ہمارے نام تک نہ جانتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کی زبان سے بھی ناواقف تھے نہ ہمیں زندگی میں دوبارہ ملاقات کی کوئی توقع تھی تاہم اپنی تمام تر بدرسومات کے باوجود انہوں نے ہماری جتنی خدمت کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے ہم غریب الوطنوں کی جس طرح میزبانی کی اس کا اجر صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
ایک روز ہم نے دیکھا کہ اوپر بکروں کا ایک ریوڑ گزر رہا ہے۔ ہم نے منصور کو بھیجا کہ وہ ایک بکرا خریدلائے۔ اس نے ذرا دیر لگا دی۔ میں دوربین سے منصور کو تلاش کر رہا تھا کہ بے دھیانی میں میر اپائوں پھسل گیا اور کچھ اس طرح پھسلا کہ میں پھسلتا ہی چلا گیا۔ میں نے کہا لوبھئی! اب گئے۔ مجھے یوں لگا کہ میں ختم ہونے جا رہا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں برف کے اندر ایک جگہ آرام سے بیٹھا ہوا ہوں۔
واپسی کے سفر میں ہمیں تین چار آدمی ملے جو اوپر کسی جگہ سے آ رہے تھے۔ ایک کے سر پہ ایک بڑا دیگچہ تھا، ایک کے پاس ایک بالٹی سی تھی اور تیسرے آدمی نے کچھ اور اٹھایا ہواتھا۔ہمیں دیکھ کر وہ رک گئے اور ایک جگہ بیٹھ کر باتیں شروع کردیں۔ معلوم ہوا کہ بڑے دیگچے میں ستُّو والی چائے ہے۔ ایک آدمی کے پاس لکڑی کا ایک بڑا سا چمچہ تھا۔ اس نے وہ چمچہ دیگچے میں گھمایا۔ اس زمانے میں چینی کی بڑی قلت تھی اور راشن پر ملا کرتی تھی۔ اس پر بڑی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں۔ یقین نہ آئے تو استاد امام دین کی وہ نظم پڑھ لیجئے جس کا عنوان ہے ’’ٹائون ہال گجرات اور کھانڈ!‘‘ اس عمومی قلت کے باوجود ان کے پاس چینی بڑی مقدار میں موجود تھی۔ انہوں نے چینی دیگچے میں ڈال دی اور چمچے سے اسے خوب ہلایا۔ پھر ایک آدمی نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کردو ٹِن نکالے۔ لڑکوں کے پاس ٹِن کٹر تھا۔ ایک لڑکے نے وہ آگے کردیا۔ ڈبوں کو کھولا گیا تو اندر سے ایک برائونش سی چیز نکلی۔ میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایکسپائرڈ دودھ ہے۔ابھی تذبذب میں ہی تھا کہ ایک لڑکے نے وہ دونوں ڈبے دیگچے میں خالی کردیے۔ میں نے جلدی جلدی ڈبوں کا لیبل پڑھا تو معلوم ہوا کہ کوکو ہے۔ تب ہم نے بہت اطمینان کے ساتھ اس مشروب کے مگ بھر بھر کرپیے حتّٰی کہ ہم بالکل سیر ہوگئے۔بعد میں ہم سے بھی جو ہوسکا ہم نے ان کی خدمت کردی۔
ہم نے چمبہ پہنچ کر حضور کو اپنی واپسی کی اطلاع کردی۔ ہم شیو وغیرہ کرانے کے بعد نہا دھو رہے تھے کہ حضور کی تار ہمیں پہنچ گئی جس میں ہدایت تھی کہ ہمیں شیو نہیں کروانی اور اسی حالت میں واپس آنا ہے لیکن شیو تو ہم بنوا چکے تھے۔ جب ہم ڈلہوزی پہنچے اور حضور کو اپنی آمد کی اطلاع دی تو آپ اوپر تھے۔ آپ ننگے سر اور ننگے پائوں تقریباً بھاگتے ہوئے آدھی سیڑھیوں تک آگئے اور فرمانے لگے سنا ہے کہ آپ نے سوامی کی بڑی منتیں کی ہیں۔ پتا نہیں ہم میں سے کس نے کہا کہ ہم تو حضور کے غلام ہیں، سوامی کی منتیں کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔بعد میں میر مسعود احمد نے بتایا کہ رات کے وقت حضور بیٹھ کر سارے واقعات تفصیل سے سنتے رہے۔ چونکہ سفر کے دوران ہمیں اسہال لگ گئے تھے اور اسہال کو پنجابی میں دست اور فارسی والے دست کو انگریزی میں ہینڈ کہا جاتا ہے لہٰذا میرمسعود احمد نے مذاقاً حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کردی کہ حضور! ہمیں ہینڈز لگ گئے تھے۔ اب سننے والے حیران ہیں کہ یہ کیا بات کررہے ہیں۔ حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ سے پوچھاآپ کچھ سمجھ سکے ہیں؟ ان کی طرف سے نفی میں جواب پاکر حضور نے فرمایا اچھا! اب کوئی بیچ میں نہ بولے۔ اسے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔ جب بات واضح ہوئی تو سب خوب ہنسے۔یہ تو تھا ہمارا سفرِپانگی۔ ایک بار میاں صاحب کے ارشاد پر ہم نے لاہول جانے کا پروگرام بنایا۔ اس وقت ام طاہر کی وفات اور مہرآپاسے حضور کا نکاح ہوچکا تھا لیکن رخصتانہ باقی تھا۔ ان ہی دنوں میاں صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کے حوالے سے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہاطاری لاہول جانے کے لیے بہت ضد کررہا ہے، تم اسے کوئی لارا نہ لگا دینا۔ اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی وعدہ کرلیا تو حضور سخت ناراض ہوں گے لہٰذا جب تک حضور کی طرف سے اشارہ نہ ہو تم نے ہاں نہیں کرنی۔ میں نے وعدہ کرلیا۔ اب جن لوگوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کو دیکھ رکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ آپ دوسروں سے اپنا نقطہ نگاہ منوانے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں اور ان سے بحث میں جیتنا مشکل ہوجاتاہے۔ انہوں نے اپنی تیاری کررکھی تھی۔ میں نے کہاہم آپ کو کسی صورت ساتھ نہیں لے جا سکتے اور اگر آپ نے بہت ہی اصرار کیا تو ہم اپنا پروگرام منسوخ کردیں گے لیکن آپ کو ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ میری ایک دلیل یہ بھی تھی کہ آپ کالج سٹوڈنٹ نہیں ہیں لہٰذا آپ ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے تاہم ان کااستدلال تھا کہ میر مسعود احمد (جو پانگی کے سفر میں ہمارے ہمراہ گئے تھے) بھی کالج سٹوڈنٹ نہ تھے۔ ان کا کہنا تھااگر آپ انہیں ساتھ لے جا سکتے تھے تو اب میں کیوں نہیں جاسکتا؟ جب میرا انکار قائم رہا تو وہ کہنے لگےمیں نے تو ہرحال میں جانا ہے۔ آپ مجھے ساتھ نہیں لے جائیں گے تو میں آپ کے راستے میں کھڑا ہوجائوں گا۔ ان ہی دنوں حضور نے مہرآپا کا رخصتانہ لینے جانا تھا اور احباب احمدیہ چوک میں حضور کو الوداع کرنے کے لیے جمع تھے۔ یہاں پھر درد صاحب یاد آجاتے ہیں۔ وہ حضور کے اتنے مزاج شناس تھے کہ میں کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ وہ حضور کا حصہ ہی تو نہیں تھے۔ میں نے حضور کو کسی کی وفات پر روتے نہیں دیکھا ماسوا درد صاحب کی وفات کے۔ حضور ان سے ناراض بھی ہوتے تھے لیکن اس ناراضگی میں اور عام ناراضگی میں فرق ہوتا تھا۔
حضور نے مجھے ہمیشہ پروفیسر محمد علی کہا ہے۔ جب مصافحے ہو رہے تھے تو حضور نے اونچی آواز میں دریافت فرمایاپروفیسر محمد علی یہاں ہیں؟ میں نے سمجھا حضور ناراض ہیں چنانچہ میں سہما سہما سا اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ فرمایاآپ مجھے شاہ صاحب کی کوٹھی پر ملیں۔ درد صاحب مجھے کہنے لگے یہ خوشی کا موقع ہے۔ حضور اس وقت ناراض نہیں ہو سکتے۔ تم وہاں چلے جانا لیکن ودّھ ودّھ کے سلاماں نہ کردا پھریں۔ اگر حضور کو یاد رہا تو وہ تمہیں خود بلا لیں گے ورنہ خاموش رہنا۔ میں چلا گیا۔ شاہ صاحب کی کوٹھی کی لمبی سی ڈرائیو پر لوگ دو رویہ کھڑے تھے۔ حضور کی کارآئی۔ مہرآپا تشریف فرما ہوئیں۔ حضور بھی بیٹھے۔ کارچل پڑی۔ میں بے فکر ہوگیا لیکن کار گیٹ کے پاس پہنچ کر اچانک رک گئی۔ حضور باہر آگئے اور فرمانے لگےمیں نے پروفیسر محمد علی کو بلوایا تھا، وہ کہاں ہیں؟میرے جسم میں ایک جُھرجُھری سی دوڑ گئی۔ میں تو مطمئن ہوچکا تھا کہ حضور کے عتاب سے بچ گیا ہوں لیکن آپ کے اس ارشاد نے میری یہ غلط فہمی دور کردی اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اب میں کسی صورت نہیں بچ سکتا۔ بہرحال میں آپ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ حضور نے بہت پیار سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ معاملہ ٹھیک ہی لگتا ہے۔ وہاں ایک طرف دیوار تھی اور دوسری طرف باڑ۔ حضور دیوار کی طرف مڑے تو وہاں کھڑے لوگ ہٹ گئے۔ خلفاء کو اللہ تعالیٰ محبت کی یہ ادائیں خود سکھاتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے۔ جیسے خوشبو نکلتی ہے، وہ ایسے فقرے ادا کر جاتے ہیں کہ انسان ساری عمر کے لیے ان کا غلام ہو جاتاہے۔ اب میں کیا تھا، ایک لڑکا سا۔ نہ میرا کوئی آگا تھا نہ پیچھا۔ نہ میرے باپ دادا احمدی تھے نہ میری خاندانی وجاہت تھی کہ کوئی اس کا خیال کرتا۔ حضور فرمانے لگے سنا ہے لاہول اور منالی جانے کا پروگرام بن رہا ہے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ ایک تو آپ جا رہے ہیں۔منالی میرے نزدیک دنیا کی خوبصورت ترین جگہ ہے لہٰذا میں نے طاری کو ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پھر حضور نے کچھ ہدایات دیں اور فرمایا دیکھو! وہاں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ وہاں ہم نے ایک کنال زمین خریدی تھی تو اخباروں میں چھپ گیا کہ محمود غزنوی کے حملے کے بعد اس علاقے پر یہ مسلمانوں کا دوسرا حملہ ہے لہٰذا یہ سوچ کر جائیںکہ آپ وہاں ہائیکنگ کے لیے جا رہے ہیں، تبلیغ کے لیے نہیں۔بات ختم ہوگئی لیکن مجھے حضور کا یہ فقرہ ’’مجھے پتا چلا ہے کہ ایک تو آپ جا رہے ہیں‘‘ آج تک نہیں بھولا۔ حضور نے جس اپنائیت سے یہ فقرہ اپنے منہ سے ادا کیا، وہ میرے لیے سرمایۂ حیات ہے۔لاہول جانے والے افراد میںمرزا طاہر احمد تو تھے ہی، باقیوں میں میاں عبدالواسع عمر، عبدالرشید پراچہ، مصلح الدین بنگالی، شریف منصوری، اعزازاللہ ججی اور ایک آدھ اور لڑکا شامل تھا۔جب ہم پٹھان کوٹ سے نگرکوٹ (جس کا موجودہ نام کانگڑہ ہے) پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پیپل کے ایک پرانے درخت کے نیچے ایک سادھو دُھونی رمائے بیٹھا ہے۔ وہاں کے کلچر کے مطابق تو یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی لیکن قادیان کے رہنے والوں کے لیے یہ منظر ایک اچنبھے سے کم نہ تھا۔ باقی لوگوں نے تو کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا لیکن مصلح الدین بنگالی کو جانے کیا سوجھی اونچی آواز میں کہنے لگاادھر دیکھیں کیا ہو رہا ہے! وہاں تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور بڑی مشکل سے ہماری جان بچی۔
کلّو میں سیب کے بے شمار باغات ہیں۔ وہاں کے سیب بہت مشہور ہیں۔ وہاں ایک فیملی ہوا کرتی تھی جو بینَن بردرز کہلاتی تھی۔ انگلستان کی فیملی تھی لیکن وہیں آباد ہوگئی تھی اور انہوں نے وہاں بہت ڈیویلپمنٹ کی تھی۔ کلّوویلی کئی لحاظ سے کشمیر سے بہتر ہے۔ منالی ہل سٹیشن اسی ویلی میں واقع ہے۔ یہ ایک خوبصورت جگہ ہے۔ ہم ایک باغ میں گئے اور سیب خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہاکوئی پیسہ ویسہ نہیں، جتنے مرضی سیب توڑ لیں۔ میں نے کہا جی یہ سٹوڈنٹ ہیں۔ بے تحاشا کھاتے ہیں۔ آپ کا نقصان نہ ہوجائے۔ انہوں نے کہاخیر ہے۔ یہ بات سن کر لڑکوں نے اپنی شلواروں کے پائنچوں کو گرہ لگا کر بورے سے بنا لیے اور انہیں سیبوں سے بھرلیا۔ وہاں ایک پھل ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ چھوٹی ناشپاتی ہے۔ اسے بٹائن کہتے ہیں۔ یہ پھل بِکنے کے لیے بازار کم لایا جاتا ہے کیونکہ جلد خراب ہوکر ضائع جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کے اوپر کپڑے کی تھیلی چڑھا دی جاتی ہے اور درخت کے نیچے کھڑے ہوکر اسے چوسا جاتا ہے۔ بہت خوشبودار اور شیریں پھل ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں جنت کا میوہ ہے۔ ہم نے اس کا ایک ٹوکرہ آٹھ آنے میں اس خیال سے خرید لیا کہ قادیان پہنچ کر یہ پھل بطور سوغات بزرگان کو پیش کریں گے۔وہیں کا واقعہ ہے کہ ہم ایک نالے پر اپنے کپڑے دھونے گئے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ پہاڑی نالے بہت تیز ہوتے ہیں اور ان کے اندر پھسلن بھی ہوتی ہے۔ واسع نے بیوقوفی کی اور اس کے اندر چلا گیا۔ اس نالے کا پانی دریائے بیاس میں گرتا تھا جو وہاں سے زیادہ دور نہ تھا۔ واسع کا پائوں پھسلا تو وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور دریا کی طرف بہ نکلا۔ ہم نے اس کی طرف اپنے کپڑے پھینکے کہ ان کو پکڑکر باہر آسکے۔ قریب تھا کہ وہ دریا کی نذرہوجاتالیکن اس کی زندگی لکھی ہوئی تھی چنانچہ وہ بچ گیا۔
اگلے دن بس میں سفر کے دوران اس نے نماز پڑھنا شروع کردی۔ ہم تو اگلی سیٹوں پر بیٹھے تھے جو فرسٹ کلاس کہلاتی تھیں مگر وہ پچھلی کسی سیٹ پر تھا۔ اس کے اِدھر بھی پہاڑِیا بیٹھا تھا اور اُدھر بھی پہاڑِیا ہی تھا۔ جب وہ سجدے میں گیا تو ان پہاڑِیوں نے سمجھا کہ اس پر دورہ پڑگیا ہے جس کی وجہ سے وہ منہ کے بل گر گیا ہے۔ انہوں نے اس کو اٹھا کر بٹھانا چاہا تو واسع نے شور مچا دیا۔ تب انہوں نے سمجھا کہ اس پر بھوت پریت کا سایہ ہے۔ غرض بیٹھے بٹھائے ایک مضحکہ خیز سی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ہم منالی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو اعزاز اللہ ججی نے مغرب یا عشاء کی اذان دے ڈالی۔ ہمارے خچروں والے یارقند کے رہنے والے تھے۔ وہ ہمارے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے آپ لوگوں نے بیٹھے بٹھائے یہاں اذان دے دی ہے۔ آپ ہمیں مروانا چاہتے ہیں؟ یہ آپ نے کیا کیا؟ خبردار جو آئندہ آپ نے یہاں اذان دی۔
جہاں تک اس بٹائن کا تعلق ہے جو ہم بزرگانِ قادیان کو پیش کرنے کے لیے لائے تھے تو پٹھان کوٹ پہنچنے تک کچھ پھل کارس ضائع ہو کر ہمارا ٹوکرا ہلکا ہو چکا تھا۔ گورداسپور پہنچے تو ٹوکرا مزید ہلکا ہوگیا اور بٹالہ پہنچ کر تقریباً خالی ہوگیا۔ بہرحال ہم نے قادیان پہنچ کر گلاسڑا پھل الگ کیا اور بچاکھچا پھل اکٹھا کر کے برف میں رکھا۔کچھ پھل حضور کی خدمت میں پیش کردیا اور کچھ حضرت حافظ مختار شاہجہانپوری کو۔ مجھے یاد ہے میں خود یہ پھل لے کر حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر تو انتظار کیا لیکن پھر بٹائن چپکے سے ان کی الماری میں رکھ کر واپس آگیا۔ حافظ صاحب کو اس کی خوشبو آئی تو وہ حیران ہوئے کہ یہ خوشبو کہاں سے آ رہی ہے۔ الماری کھولی تو بٹائن پڑے تھے اور کھائے تو واہ! بعد میں انہوں نے اس کی خوشبو اور لذت کا وہ نقشہ احباب کے سامنے کھینچا کہ سننے والوں کو بغیر کھائے ہی مزا آگیا۔ ہائیکنگ کے ایک اَور سفر کے دوران ہم سلطان پور یعنی کُلو سے بس پر بیٹھے۔ ہمیں نگروٹہ بگوان جانا تھا۔ یہ سارے دن کا سفر تھا یعنی فجر کے وقت بس پر بیٹھ کر مغرب کے قریب نگروٹہ پہنچنا تھا۔ وہاں سے چھوٹی پٹڑی یعنی نَیروگیج (narrow guage)والی گاڑی چلتی تھی۔ پہاڑی سفر ہونے کی وجہ سے ہم نے راستہ بھر کچھ نہیں کھایا تھا چنانچہ ہمیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ ہم نے سامان گاڑی میں رکھا۔ جس وقت ہم سامان رکھ رہے تھے ایک اَور پارٹی بھی اپنا سامان گاڑی میں رکھ رہی تھی اور یہ پارٹی سردار شوکت حیات کی تھی جن کے اُدھر باغات تھے۔اسی اثنا میں ہمارا ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ سٹیشن کے پاس ہی ایک ہوٹل پر کھانے کا بندوبست ہو گیا ہے۔ جتنا مرضی کھائو، کھانے کا ریٹ آٹھ آنے فی کس ہوگا۔ سردار شوکت حیات کے آدمیوں کو پتا چلا کہ ہمارا کسی قریبی ہوٹل سے کھانے کا یہ ریٹ طے ہوا ہے تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو ادھر سامان لادنے میں مصروف ہیں آپ ہوٹل والے سے ہمارے لیے بھی بات کر آئیں۔
یہ کسی سکھ کا ہوٹل تھا۔ ہم نے اس سے پوچھا بھئی آپ جھٹکا تو نہیں کرتے؟ اس نے کہانہیں نہیں۔ بالکل نہیں۔ یہاں سارے ہندو ہیں اس لیے ہم ماس پکاتے ہی نہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور بتا دیا کہ سٹیشن پر کچھ اور لوگ بھی ہیں جو ہمارے بعد آکر کھانا کھائیں گے۔
ہم بارہ آدمی تھے۔ اب جو چپاتی پکتی بارہ حصوں میں تقسیم ہو جاتی چنانچہ پہلے اس کا آٹا ختم ہوا۔ اس نے مزید آٹا گوندھا۔پھر اس کا سالن ختم ہو گیا چنانچہ وہ اندر سے کوئی اور چیز لے کر آیا۔ شاید دہی تھا۔ پھر دہی ختم ہوا تو وہ اچار لے آیا۔ اسی اثنا میں روٹی ختم ہوگئی چنانچہ جب وہ آٹا لینے کے لیے تیسری بار اندر گیا تو اس کی بیوی نے اس کے خوب لتّے لیے’’ وڈّا بیوپاری! کہندا سی میرے وطنی آئے نے۔‘‘ ہماری بھوک ابھی باقی تھی لیکن میں نے لڑکوں کو اشارہ کیاکہ اس کا حساب بےباق کرو اور یہاں سے نکل چلو لیکن یہ نہ ظاہر ہونے دینا کہ ہم آئے کہاں سے ہیں۔ ہم آکر کمپارٹمنٹ میں بیٹھ گئے تو سردار شوکت حیات کی پارٹی کھانا کھانے کے لیے گئی لیکن فوراً ہی منہ لٹکا کر واپس آگئی۔گاڑی نے صبح روانہ ہونا تھا۔ دیکھا کہ سردار نے چائے کی بالٹی اٹھائی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ میں پیالے ہیں۔ لڑکوں نے کہاسردار جی! آٹھ آٹھ آنے فی کس تے جنی مرضی چا پیو۔ وہ فوراً کہنے لگانہ جی نہ، ایہہ نہیں پُجدا۔ زندگی وِچ اکّو واری ٹھیکہ کِیتا سی، ہُن نہیں کرنا۔‘‘
سفرِپانگی اور لاہول کی چودھری محمد علی کی سنائی ہوئی داستان ختم ہوئی۔ قارئین نے اندازہ کرلیاہوگا کہ یہ دونوں سفر مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ تھے اور ان کی خوشگوار یادیں وہاں جانے والوں کے دل میں ہمیشہ چٹکیاں لیتی رہیں۔ اس حوالہ سے شریف منصوری کا یہ بیان دلچسپی سے پڑھا جانے کے لائق ہے کہ’’اس سفر کے لیے باقی لڑکوں کا ذوق و شوق بھی قابلِ دید تھا لیکن مرزا طاہر احمد تو بے حد ایکسائیٹڈ تھے اور میرا خیال ہے اس سفر سے سب سے زیادہ لطف بھی انہوں نے ہی حاصل کیا تھا۔ ‘‘
وہ بتاتے ہیں ’’قادیان سے منالی پہنچنے کے لیے پہلے پٹھانکوٹ جانا پڑتا تھا اور یہاں تک ٹرین جاتی تھی۔ پٹھانکوٹ کے بعد تیس پینتیس کلومیٹر تک نیروگیج والی پٹڑی تھی اور اس کے بعد منالی تک بس سے پہنچا جا سکتا تھا۔اب تو حالات بہت بدل چکے ہوں گے اور اس علاقے میں نہ جانے کتنی ترقی ہو چکی ہو گی لیکن اُس زمانے میں اگلا سارا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا اور یہی ہم نے کیا۔
چودھری محمد علی نے اپنے انٹرویوز میں کلّو کے سیبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ یاد رکھنے والی ہے کہ سیب کلّو ویلی کا اپنا پھل نہیں ہے۔ انگریز نے یہ پھل کلّو میں اگایا۔ یہاں کی آب و ہوا اس پودے کو خوب راس آئی اور اب یہ علاقہ سیب کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتاہے۔ یہاں کے ٹھنڈے پانیوں میں ٹرائوٹ مچھلی بھی انگریزوں ہی نے لاکر چھوڑی۔ پہلے یہاں کے لوگ اس مچھلی سے واقف نہ تھے۔
٭…٭ (جاری ہے) ٭…٭