خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 31؍مارچ 2023ء

اگر ہم نے رمضان کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو ہمیں عبادتوں کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس پر غور کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیے

ہمیں بھی اس مہینے میں خاص طور پر قرآن کریم کے پڑھنے سننے، اس کی تفسیر پڑھنے سننے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ ایم ٹی اے پر بھی اس کے پروگرام آتے ہیں، درس بھی آتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دیں

جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر پڑھیں گے اور سنیں گے تب ہی ہم ان احکامات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں جو اس میں بیان ہوئے ہیں انہیں اپنی زندگیوں کاحصہ بنا سکتے ہیں ، اپنی زندگی کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں

قرآن شریف مستقل اور ابدی شریعت ہے

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہو گا۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

قرآن شریف ساری تعلیموں کا مخزن ہے

قرآن کا ہر حکم اغراض اور مصالح سے پُر ہے

اس نظر سے ہمیں قرآن کریم پڑھنا اور سمجھنا چاہیے اور آزادی کے نام پر آجکل بچوں اور بڑوں کے ذہنوں کو بھی جو زہر آلود کیا جا رہا ہے اس سے بھی ہم بچ سکیں گے ہم احمدیوں کو ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کس حد تک قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کر رہے ہیں

رمضان میں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں

اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو ناقابل اصلاح ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائے تا کہ دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں

دنیا کے لیے عمومی طور پر بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ جنگ کی آفت سے دنیا کو بچائے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںقرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان

ہر احمدی کو ہر شر سے بچانے اورناقابل اصلاح لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے رمضان المبارک میں خاص دعاؤں کی تحریک

مولانا منور احمد خورشید صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ ، مکرم اقبال احمدمنیر صاحب مربی سلسلہ پاکستان اورسیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ قادیان کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 31؍مارچ 2023ءبمطابق 31؍امان 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آجکل ہم رمضان کے مہینے سے گذر رہے ہیں۔ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایک روحانی ماحول بن جاتا ہے اور مومنوں کی جماعت میں یہ ماحول بننا چاہیے۔ اس مہینے میں روزوں کے ساتھ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ قرآن کریم پڑھنے، سننے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے اور

اگر روزوں کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو عبادتوں کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے سننے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہیے

اور رمضان کو تو قرآن کریم کے ساتھ خاص نسبت ہے یا قرآن کریم کو رمضان کے ساتھ نسبت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ۔ (البقرۃ:186)رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں ا ور الٰہی نشانات بھی۔

بعض معتبر روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ چوبیسویں رمضان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی ہوئی۔

(سنن الکبریٰ للبیہقی کتاب الجزیہ جلد 9 صفحہ 317 حدیث 18649 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

(الاتقان فی علوم القرآن (مترجم) جلد اول صفحہ 122 مکتبۃ العلم لاہور)

اسی طرح ہر سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جبرئیل علیہ السلام قرآن کریم کا دَور رمضان میں مکمل کیا کرتے تھے اور آخری سال میں دو مرتبہ یہ دَور مکمل ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیﷺ حدیث 4998)

تو بہرحال قرآن کریم کی رمضان کے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔

پس ہمیں بھی اس مہینے میں خاص طور پر قرآن کریم کے پڑھنے سننے، اس کی تفسیر پڑھنے سننے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ ایم ٹی اے پر بھی اس کے پروگرام آتے ہیں، درس بھی آتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دیں۔

جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کےساتھ اس کاترجمہ اوراس کی تفسیر پڑھیں گےاورسنیں گے تب ہی ہم ان احکامات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں جواس میں بیان ہوئے ہیں انہیں اپنی زندگیوں کاحصہ بنا سکتے ہیں،اپنی زندگی کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔

پس

اگر ہم نے رمضان کا حقیقی فیض پانا ہے تو ہمیں قرآنِ کریم کی تلاوت اوراس پر غور کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔

مساجد میں جہاں درسوں کا انتظام ہے وہاں درس بھی سننا چاہیے۔ قرآنِ کریم کی اہمیت، اس کے محاسن، اس کے روشن دلائل کے بارے میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خوب کھول کر ہمیں بتایا ہے۔ کچھ عرصے سے خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے مَیں مختلف اقتباسات میں یہ بیان کر رہا ہوں۔ پس انہیں بار بار سننے اور پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ صحیح طور پر اس کا فہم و ادراک ہم اپنے اندر پیدا کر سکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے آج بھی میں کچھ اقتباسات پیش کروں گا۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن شریف مستقل اور ابدی شریعت ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں، بعض آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتا ہے۔‘‘ چاہے وقتی ضرورت کے لیے ہوں لیکن ہیں یہ مستقل۔ ’’مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً سفر کے لئے نماز یا روزہ کے متعلق اَور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اَور۔‘‘ یعنی سفر میں مثلاً نماز ہےتو نمازوں کے جمع کرنے کے بارے میںیا قصر کرنے کے بارے میں اجازت ہے اور عام حالات میں نمازیں پوری پڑھنی چاہئیں۔ اسی طرح روزے ہیں سفروں میں نہیں رکھنے۔ عام حالات میں قیام میں روزے رکھنے ہر صحت مند کے لیے فرض ہیں۔ پھر فرمایا کہ مثلاً دوسرا ایک حکم یہ ہے کہ ’’باہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی ہے۔‘‘ یہ ایک ایسا حکم ہے جو عورت کے لیے ایک خاص حالات میں ہے۔ ’’گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ برقع لے کر پھرتی رہے۔‘‘ پردے کا حکم ہے تو گھر سے باہر پردے کا حکم ہے۔ پھر یہ بھی کہ کن کن سے پردہ کرنا ہے اور کن سے نہیں کرنا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں۔’’…توریت اور انجیل کے احکام آنی‘‘ موازنہ کرتے ہوئے کہ وہ تو وقتی ہیں ’’اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے۔ قرآن شریف قانونِ مستقل ہے اور توریت انجیل اگر قرآن شریف نہ بھی آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 42ایڈیشن 1984ء)

پس قرآن کریم کی یہ اہمیت کہ قرآن کریم کی ہدایات ہر طرح کے حالات کے مطابق ہیں، بڑی مکمل تعلیم ہے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ اعتراض کرنے والے مثلاً پردے کی جو مثال دی ہے اس پربھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس زمانے کے لحاظ سے پردہ ضروری نہیں ہے اور بعض دفعہ ہماری لڑکیاں بھی متاثر ہو جاتی ہیں لیکن خود ہی اس بات کو بھی یہ لوگ تسلیم کر رہے ہیں اور اس پہ بڑے بڑے مضامین لکھے جاتے ہیں کہ عورتوں کی تنظیموں نے بھی اب شور مچانا شروع کر دیا ہے، اخباروں میں بھی بعض دفعہ آنے لگ جاتا ہے کہ عورت مرد کا آپس میں جو اختلاط ہے یہ بسا اوقات بڑی قباحتیں پیدا کر رہا ہے اور اس کے لیےاب بعض لوگ سوچنے بھی لگ گئے ہیں کہ علیحدہ علیحدہ نظام ہونا چاہیے۔

پھر

اپنے آنے کی غرض بیان فرماتے ہوئے اور قرآنِ کریم کی مستقل شریعت ہونے کے بارے میں

آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّتِ غائی‘‘ (میرا مقصد) ’’کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 8 صفحہ 245 ایڈیشن 1984ء)یعنی قرآنی تعلیم کو ہر ایک تو سمجھ نہیں سکتا۔ بعض باتیں ہیں جو تشریح طلب ہیں اور تفسیر چاہتی ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے اس آخری زمانے میں آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا۔‘‘ نہ پہلے اس کی کوئی مثال ہے نہ بعد میں کوئی مل سکتی ہے۔ ’’اس کے فیوض و برکات کا دَر ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔ علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اورعزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گا اور وحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے۔‘‘ جس طرح عام آدمی کے علم کے مطابق کلام کرتا ہے اسی طرح وحی الٰہی کا بھی ایک مقام ہے۔ ’’جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا۔‘‘ یہاں بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وحی کے بھی معیار ہیں، اللہ تعالیٰ کے پیغام کے بھی معیار ہیں۔ پھر فرمایا کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ57ایڈیشن1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تعلیم قرآنی کا دامن بہت وسیع ہے۔ وہ قیامت تک ایک ہی لاتبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لیے ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(الحجر:22)۔یعنی ہم اپنے خزانوں میں سے بقدر معلوم نازل کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’انجیل کی ضرورت (صرف) اسی قدر تھی اس لئے انجیل کا خلاصہ (صرف) ایک صفحہ میں آسکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ضرورتیں تھیں سارے زمانہ کی اصلاح۔‘‘ ہر زمانے کی اصلاح کرنا۔ ’’قرآن کا مقصدتھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا، انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا۔ تاشرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو۔ اور پھر با خداانسان بنانا۔ گویہ لفظ مختصر ہیں مگر ان کے ہزارہا شعبے ہیں۔ چونکہ یہودیوں ، طبیعیوں، آتش پرستوں اورمختلف اقوام میں بدروشی کی روح کام کر رہی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باعلام الٰہی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو علم دیا گیا اس کے مطابق ’’سب کو مخاطب کر کے فرمایا۔ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف: 159)۔‘‘ کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ ’’اس لئے ضروری تھا کہ قرآن شریف ان تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاً فوقتاً جاری رہ چکی تھیں اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعے سے زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئی تھیں۔‘‘ یعنی پرانی باتیں جو تھیں حالات کے مطابق ان کو بھی اپنے اندر رکھتا۔ یہ قرآنِ کریم میں ہے۔ اور فرمایا ’’قرآن کریم کے مد نظر تمام نوع انسان تھا، نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ۔ اور انجیل کے مدنظر (صرف) ایک خاص قوم تھی اسی لئے مسیح علیہ السلام نے بار بار کہا کہ ’’میں اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 86 ایڈیشن 1984ء)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کہ مَیں سب دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قرآنِ کریم تمام دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ پرانی قوموں کے لیے بھی ان کے حالات کے مطابق ان کو بتا دیا، نئے آنے والوں کے لیے بھی اس میں احکام آ گئے اور یہی ایک ابدی شریعت ہے اس کے علاوہ اَور کوئی شریعت نہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہو۔

اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن شریف ساری تعلیموں کا مخزن ہے،

ایک خزانہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآنِ شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآنِ شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں۔ کیا اس وقت جبکہ ساری قوم آپؐ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(القمر:46)۔ چھوٹی بات ہو سکتی تھی۔‘‘ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کے بھاگ جائے گی۔ فرمایا یہ کوئی چھوٹی بات ہو سکتی ہے۔ ’’اسباب کے لحاظ سے تو ایسا فتویٰ دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا۔‘‘ اگر ایسے سامان موجود ہوں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خاتمہ ہو جائے گا ’’مگر آپؐ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور آخراسی طرح وقوع میں آتا ہے۔‘‘

یہ پیشگوئی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے یہ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے مکہ میں عطا فرمائی تھی اور وہ بھی ابتدائی حالات میں جبکہ آپؐ کے مکہ مکرمہ میں انتہائی کمزوری کے حالات تھے اور پھر پیشگوئی پوری کس طرح ہوئی۔ جنگِ احزاب میں عام طور پر ہم دیکھتے ہیں اس کو وہیں منطبق کیا جاتا ہے، اَور جگہوں پہ بھی ہے کہ جب کفار کا بھاری لشکر مسلمانوں کو پیٹھ دکھا کے بھاگ گیا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے والے سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لانظیر ہیں۔‘‘ یعنی مسیح موعودؑ کے زمانے کی پیشگوئیاں۔ فرمایا کیسی عظیم الشان ہیں۔ کئیوں کا مَیں پچھلے خطبے میں ذکر کر چکاہوں جو ابھی تک کس شان سے پوری ہو رہی ہیں۔ فرمایا ’’دنیا کی کسی کتاب کی پیشگوئیوں کو پیش کرو۔ کیا مسیح کی پیشگوئیاں ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 43-44 ایڈیشن 1984ء)

پھر قرآنِ کریم کے محاسن بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن کا ہر حکم معلل باغراض ہے

آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ خوبی قرآنی تعلیم میں ہے کہ اس کا ہر ایک حکم مُعَلَّلْ بِاَغْرَاض وَمَصَالِح ہے۔‘‘ یعنی اغراض اور مصالح سے پُر ہے۔ اس کا مقصد ہے۔ ’’اور اس لئے جابجا قرآن کریم میں تاکید ہے کہ عقل، فہم، تدبر، فقاہت اور ایمان سے کام لیا جائے۔‘‘ فقاہت یہ ہے کہ عقل اور سوچ سے کام لواور ایمان سے کام لو۔ ایمان بھی ضروری ہے۔ ’’اور قرآنِ مجید اور دوسری کتابوں میں یہی مابہ الامتیاز ہے اور کسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبر کی دقیق اور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی۔‘‘

آپؑ نے انجیل کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’انجیل خاموش کے چالاک اور عیّار حامیوں نے اس خیال سے کہ انجیل کی تعلیم عقلی زور کے مقابل بے جان محض ہے نہایت ہوشیاری سے اپنے عقائد میں اس امر کو داخل کر لیا کہ تثلیث اور کفار ہ ایسے راز ہیں کہ انسانی عقل ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی۔‘‘ بہت گہرا علم ہے اس تک تم پہنچ نہیں سکتے۔ اس لیے جہاں جس طرح کہا جاتا ہے اس کو قبول کر لو لیکن ’’برخلاف اس کے فرقانِ حمید کی یہ تعلیم ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۔ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ۔ (آل عمران: 191-192)یعنی آسمانوں کی بناوٹ اور زمین کی بناوٹ اور رات اور دن کاآگے پیچھے آنا دانشمندوں کو اس اللہ کا صاف پتہ دیتے ہیں۔ جس کی طرف مذہب اسلام دعوت دیتا ہے۔ اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانشمند اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 62-63 ایڈیشن 1984ء)غور کرو۔

پھر

قرآن شریف کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے کہ ایک محفوظ کتاب ہے اور یہ بھی کہ تعلیمِ قرآن کی جو شہادت ہے وہ قانون قدرت کی زبان سے ادا ہوتی ہے

فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ(الواقعہ:78تا80)۔‘‘ یقیناً یہ ایک عزت والا قرآن ہے ایک چُھپی ہوئی کتاب میں یعنی کہ اس میں محفوظ چیز ہے۔کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کیے ہوئے لوگوں کے۔ فرمایا ’’بلکہ یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے۔ کیا مطلب کہ یہ قرآن کریم ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے۔ اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفہ ٔفطرت کہتے ہیں۔ یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانونِ قدرت کے ذرہ ذرہ کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 64-65 ایڈیشن 1984ء)

بلکہ جو اسے سمجھے گا، عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل بھی کرے گا۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اسرار، اس کی گہرائی پاک لوگوں پر ہی کھلتی ہے اور اس کے لیے پاک لوگوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی بھی ضرور ت ہے اور اس زمانے میں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے فیض پا کر آپ نے جو بیان فرمایا اس کو ہمیں دیکھنا چاہیے، غور کرنا چاہیے اور وہی تفسیریں جو ہیں وہ آگے آپ کے علم کے مطابق ہی جماعت احمدیہ میں جو لٹریچر ہے اس میں بیان ہوتی ہیں۔

قرآنِ کریم کا نام ’’ذکر‘‘کیوں رکھا گیا ہے

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ کریم کا نام ذِکر رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’…قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے۔ حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا۔ جیسے فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ۔ (الواقعہ: 79)یعنی صحیفہ ٔفطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا ‘‘اس کو یاد دلایا۔ پس اس نظر سے بھی ہمیں قرآن پڑھنا چاہیے۔

قرآن شریف انسان کی جو فطرتی صلاحیتیں ہیں ان کی فطرت صحیحہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

پس اس حقیقی فطرت کو جس سے آجکل خاص طور پر انسان دُور ہٹ رہا ہے قرآن شریف اس کو نکال کے بیان کرتا ہے اور اس دور ہٹنے کی وجہ سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بعض غیر اخلاقی اور غیر فطری قانون بنانے کی طرف رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ انسان اسے بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن پر غور کرو، تدبر کرو۔ اس پر عمل تمہیں انسانی فطرت کے اعلیٰ معیار دکھائے گا۔ پس اس پہ غور کرنا ضروری ہے اور

اس نظر سے ہمیں قرآن کریم پڑھنا اور سمجھنا چاہیے اور پھر آزادی کے نام پر آجکل بچوں اور بڑوں کے ذہنوں کو جو زہر آلود کیا جا رہا ہے اس سے بھی ہم بچ سکیں گے۔

بہت سارے والدین بھی سوال کرتے ہیں کہ بچے سکولوں سے جو سیکھ کے آتے ہیں اس کاکس طرح جواب دیں؟ ہم اگر غور کرکے پڑھیں ،تفسیر پڑھیں، جماعت کا لٹریچر پڑھیں جوقرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں ہی ہے تو پھر بچوں کے جواب بھی والدین دے سکتے ہیں۔

پھر فرمایا:’’اسی طرح اس کتاب کا نام ذِکر بیان کیا تاکہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نورِ قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے، یاد دلاوے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا۔‘‘ بار بار پڑھو تو یہ تمہیں یاد دلاتا رہے گا۔ ’’تاکہ انسان ان معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اسے پتہ نہ تھا مگر افسوس کہ قرآن کی اس علّتِ غائی کو چھوڑ کر جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:3) ہے اس کو صرف چند قصص کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور نہایت بے پروائی اور خود غرضی سے مشرکینِ عرب کی طرح اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہہ کر ٹالا جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’وہ زمانہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اور قرآن کے نزول کا۔ جب وہ دنیا سے گمشدہ صداقتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا۔ اب وہ زمانہ آ گیا جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے قرآن نہ اترے گا۔‘‘ یہی ہم دیکھتے ہیں بیشمار قاری ہیں بیشمار پڑھنے والے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں۔ فرمایا:’’سو اب تم ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ لوگ قرآن کیسی خوش الحانی اور عمدہ قراءت سے پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں گزرتا۔‘‘ عمل کوئی نہیں۔ ’’اس لئے جیسے قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذِکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش شدہ صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے اس وعدۂ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:10)۔اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4) کا مصداق اور موعود ہے وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ 60 ایڈیشن 1988ء)اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ کاش کہ مسلمان عقل کریں اور اس شخص کی جسے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے بات سنیں۔ اپنے اندرونے دیکھیں۔ زمانے کی ضرورت دیکھیں۔ مسلمانوں کے عمومی حالات دیکھیں۔ صرف ظاہری فتووں پر زور دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ قرآن کریم کی حقیقت کو سمجھیں۔ بہرحال

ہم احمدیوں کو اپنے ہر وقت جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کس حد تک قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کر رہے ہیں۔

پھر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ

قرآن شریف علوم حقّہ سے واقف کرنا چاہتا ہے

آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جیسے یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں ویسے ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگوں میں علوم کی روشنی پیدا ہو وے‘‘ صرف ڈر نہیں بلکہ علوم کی روشنی بھی پیدا ہو ’’اور اس سے وہ معرفت کی منزلوں کو طے کر جاویں۔‘‘ کیوں پیدا ہو، تاکہ معرفت پیدا ہو۔ سوچیں وسیع ہوں ’’کیونکہ علومِ حقہ سے واقفیت جہاں ایک طرف سچی خشیت پیدا کرتی ہے وہاں دوسری طرف ان علوم سے خدا پرستی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ایک مومن جب اس طرح سوچتا ہے، قرآن شریف پہ غور کرتا ہے اور علوم حاصل جو دنیاوی علوم ہیں ان کو بھی قرآن کریم پر پرکھتا ہے تو معرفت بھی پیدا ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کا خوف بھی پیدا ہوتاہے۔ خشیت پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا لیکن ’’بعض بد قسمت ایسے بھی ہیں جو علوم میں منہمک ہو کر قضاء وقدر سے دُور جا پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہی شکوک پیدا کر بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو قضاء و قدر کے قائل ہو کر علوم ہی سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔‘‘ یا تو ایک طرف یہ ہے کہ دنیاوی علم کے نام پر، نئے علم کے نام پر خدا تعالیٰ کو بھول گئے یا دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے نام پہ علوم سے گھبرا گئے اور اسے چھوڑ دیا اور کہہ دیا یہ غلط ہے۔ فرمایا ’’مگر قرآنِ شریف نے دونوں تعلیمیں دی ہیں اور کامل طور پر دی ہیں۔ قرآن شریف علومِ حقہ سے اس لئے واقف کرنا چاہتا ہے اور اس لئے ادھر انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اس سے خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت میں جوں جوں ترقی ہوتی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس سے محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور انسان کو قضاء وقدر کے نیچے رہنے کی اس لئے تعلیم دیتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کی صفت پیدا ہو اور وہ راضی برضا رہنے کی حقیقت سے آشنا ہو کر ایک سچی سکینت اور اطمینان جو نجات کا اصل مقصد اور منشاء ہے حاصل کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 223-224 ایڈیشن 1984ء)

پھر فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سچے علوم کا منبع اور سر چشمہ قرآن شریف میں اس امت کو دیا ہے۔ جو شخص ان حقائق اور معارف کو پا لیتا ہے جو قرآنِ شریف میں بیان کئے گئے ہیں اور جو محض حقیقی تقویٰ اور خشیۃاللہ سے حاصل ہوتے ہیں اسے وہ علم ملتا ہے جو اس کو انبیاء بنی اسرائیل کا مثیل بنا دیتا ہے۔ ہاں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ایک شخص کو جو ہتھیار دیا گیا ہے اگر وہ اس سے کام نہ لے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس ہتھیار کا۔ اس وقت دنیا کی یہی حالت ہو رہی ہے۔ مسلمانوں نے باوجودیکہ قرآنِ شریف جیسی بے مثل نعمت ان کے پاس تھی جو ان کو ہر گمراہی سے نجات بخشتی اور ہر تاریکی سے نکالتی ہے لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی پاک تعلیموں کی کچھ پروا نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 349 ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

پس جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایامسلمان قرآن کریم کی عظیم تعلیم سے دُور ہو کر فقط نام کے مسلمان ہیں۔ مختلف وقتوں میں لوگ سوشل میڈیا پر بعض چھوٹے چھوٹے پروگرام یا کلپ دکھاتے رہتے ہیں، جو لوگوں کا انٹرویو لیتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم اور تاریخ کا ان کو پتا ہی نہیں۔ پس مولوی کے کہنے پر ناموس رسالت یا قرآن یا صحابہ کے نام پر جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ بنگلہ دیش سے مجھے کسی نے لکھا کہ جب جلوس آیا، انہوں نے حملہ کیا تو ایک لڑکا اٹھا کے شاید پتھر مار رہا تھا۔ اسے ہمارے احمدی نے کہا تم یہ کر کیا رہے ہو؟ یہ قرآن میں لکھا ہے؟ یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ بتاؤ کہاں ہے؟ ہم تو کلمہ پڑھنے والے ہیں۔ اس نے فوراً وہیں پتھر نیچے پھینک دیا۔ تو وہ تو مولوی جو جوش دلاتے ہیں اس کے مطابق وہ کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اس رمضان میں بھی اور بعد میں بھی قرآن کریم کو سمجھنے، سیکھنے اور عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی غلاظتوں سے بھی بچا کے رکھے۔

رمضان میں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں

پہلے بھی میں نے کہا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو ناقابل اصلاح ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائے تا کہ دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں۔ دنیا کے لیے عمومی طور پر بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ جنگ کی آفت سے دنیا کو بچائے۔

اب میں

بعض مرحومین کا ذکر

کرناچاہتا ہوں جس میں سب سے پہلے ہمارے ایک مربی سلسلہ، مبلغ سلسلہ ہیں جو انتہائی وفا سے اپنے وقف کو نبھانے والے تھے۔ بڑے عاجز انسان تھے اور بڑا لمبا عرصہ ان کو خدمت کی توفیق ملی اور انہوں نے خدمت کا حق ادا کیا۔

ان کا نام منور احمد خورشید صاحب ہے۔ مغربی افریقہ میں مبلغ سلسلہ تھے۔

گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحب کے ذریعےسے آئی تھی جنہوں نے 1903ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین والے مقدمے میں جہلم تشریف لے گئے تھے اس وقت بیعت کی تھی۔ مولوی خورشید صاحب کے والدین کے ہاں جو بھی اولاد ہوتی تھی وہ بیمار ہو کے فوت ہو جاتی تھی۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ بیمار ہو گئے۔ کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا تو ان کے دادا میاں عبدالکریم صاحب جو صحابی تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بچے کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا جائے۔ کہتے ہیں اس لیے کہ اگر خدا کو ضرورت ہوئی تو خود ہی بچا لے گا۔ بہرحال اس دوران ایک طبیب گاؤں میں آیا جو کسی دُور کے گاؤں کا رہنے والا تھا اس نے علاج کیا اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں ان کو شفا دی۔ ان کے سسر محمد خان درویش صاحب نے بھی ان کے بارے میں خواب دیکھی تھی کہ آپ ایک بہت بلند اور روشن مینار پر ہیں اور ان درویش صاحب کو بتایا گیا کہ آپ احمدیت کے مینار کو بہت روشن کریں گے اور احمدیت کی خدمت کی بہت توفیق پائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی۔

جامعہ سے فارغ ہوئے، کچھ عرصےتک پاکستان میں رہے۔ پھر 1983ء میں یہ افریقہ چلے گئے۔گیمبیا میں اور سینیگال وغیرہ میں ان کی لمبے عرصے کی خدمات ہیں۔ سینیگال میں، گیمبیا میں بطور امیر کے بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ پھر بیماری کی وجہ سے 2005ء میں یہاں یوکے آگئے تھے لیکن جب تک وہاں کوئی باقاعدہ مربی نہیںچلا گیا اور باقاعدہ نظام قائم نہیں ہو گیا یہ یہاں سے بھی سینیگال جماعت کا نظام چلاتے رہے۔ پھر اس عرصےمیںیہ 2008ء سے 2012ء تک جامعہ یوکے میں بطور استاد کے بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ جہاں بھی موقع ملا انہوں نے بڑا اعلیٰ کام کیا۔ بہت سی بیعتوں کی ان کو سعادت ملی۔ چالیس پارلیمانی ممبران نے ان کے ذریعےسے احمدیت قبول کی اور اس کامیابی پر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے خطاب میں ان کو ’’فاتح سینیگال‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا۔ جلسہ سالانہ جرمنی میں ایک دفعہ یہ پندرہ ممبران اسمبلی کو لے کے آئے۔ پھر جو پاما (PAMA) ایوارڈ ہیں جو مختلف مربیان کے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں وہ عبدالرحیم نیر صاحب کا ایوارڈ ان کو بھی ملا۔ میرے کہنے پہ یہ سپین بھی جاتے رہے۔ وہاں جو افریقی آباد ہیں ان میں تبلیغ کی اور بڑا اچھا کام کیا۔ بہت بیعتیں وہاں ہوئی ہیں۔ انصارا للہ برطانیہ کے تحت آن لائن تعلیم القرآن کلاس بھی لیتے رہے۔ وفات تک یہ کام جاری رہا۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں اور اہلیہ ہیں۔ ایک بیٹے ان کے یہاں یوکے میں ہی مربی سلسلہ ہیں۔

داؤد حنیف صاحب جو آجکل جامعہ کینیڈا کے پرنسپل ہیں وہ بھی افریقہ میں گیمبیا میں امیر جماعت تھے جب یہ وہاں گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1983ء سے 1994ء تک ان کے ساتھ خدمت کا موقع ملا اور مبلغ کے ساتھ ساتھ یہ سکول میں اسلامیات بھی پڑھاتے تھے۔ کہتے ہیں سینیگال میں تبلیغ کے جو حالات تھے وہ ایسے تھے کہ وہاں آسانی سے تبلیغ نہیں کی جاسکتی، بڑے مشکل حالات تھے۔ کہتے ہیں قصبہ فرافینی میں 1985ء کے آخر میں ان کو تبدیل کیا گیاجو سینیگال کے بارڈر پر واقع ہے۔ یہاں رہ کر سینیگال میں قیام احمدیت کا جو منصوبہ تھا اس کو کامیاب کرنا مقصد تھا۔ بڑا مشکل کام تھا۔ سینیگالی حکومت کسی پاکستانی کو ویزہ نہیں دیتی تھی لیکن مولوی منور خورشید صاحب میں یہ ملکہ تھا کہ لوگوں میں گھل مل جاتے تھے اور تعلقات بڑی اچھی طرح بناتے تھے۔ پھر ان کو فرانسیسی زبان بھی کسی قدر آتی تھی۔ اس لیے جب ان کا وہاں تعین کیا گیا تو جلد انہوں نے وہاں بارڈ ر پر افسران سے تعلقات قائم کیے۔ پھر ان تعلقات کی وجہ سے سینیگال آنا جانا شروع کر دیا اور پھر وہاں ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر کے ذریعےسے انہوں نے مزید فرنچ زبان سیکھنی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے وہاں کے لوکل افسران سے اجازت لے لی تھی کہ مَیں یہاں ان کے ہیڈماسٹر عبدالسلام باری صاحب کے ساتھ بیٹھ کے فرنچ سیکھ سکتا ہوں۔ بہرحال یہ ایک کامیابی تھی اور اس طرح وہ وقفے وقفےسے سینیگال جاتے رہے۔ پھر ایک خاص قسم کا پاس (pass)تھا وہ ان کو مل گیا جس کے تحت گیمبیا کی گاڑیوں میں سینیگال جایا جا سکتا تھا۔ اس میں یہ لٹریچر لے جاتے، وہاں تبلیغ کرتے اور اس کے ذریعےسے انہوں نے بہت ساری بیعتیںکروائیں۔ کاؤلک ریجن جو تھا وہاں مختلف احمدی پہلے ہی تھے۔ وہاں ایک لوکل مبلغ تھے حامدامبئی صاحب ان کے ساتھ مل کے پھر انہوں نے کام کیا اور مبلغین کے ذریعہ وہاں مزید جماعتیں پھیلیں۔ وہاں ایک تو سڑکیں نہیں تھیں ٹوٹی سڑکیں افریقہ میں یا کچی سڑکیں دوسرے بعض جگہ سڑکیں ہوتی نہیں تھیں لیکن یہ دُور دراز علاقوں میں موٹر سائیکل پہ پہنچ جاتے تھے اور موٹر سائیکل کا بھی راستہ ایسا تھا کہ جھاڑیاں ان پگڈنڈیوں کے اتنی قریب آئی ہوتی تھیں کہ ان کی ٹانگیں لہولہان ہو جاتی تھیں لیکن کبھی انہوں نے پروا نہیں کی اور اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔

پھر داؤد حنیف صاحب یہ لکھتے ہیں کہ شروع میں تو یہ بڑا مشکل کام تھا۔ بڑی احتیاط سے ہم تبلیغ کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ جب تعلقات بن گئے، جماعت کا تعارف ہو گیا اور یہ باتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام احیائے اسلام کے لیے مبعوث ہوئے ہیں لوگوں کو پہنچانی شروع کر دیں اور افسران کو بھی یہ پیغام پہنچنے لگا تو پھر کافی آزادی سے ان کا سینیگال میں آنا جانا شروع ہو گیا۔ باقاعدہ دورے کرتے تھے اور پھر اسی طرح کاؤلک ریجن میں اکثر آبادیوں میں جماعت کا نفوذ ہو گیا۔ متعدد جماعتیں بن گئیں۔ان میں اضافہ بھی ہونے لگا۔ اور موٹرسائیکل کا تو میں نے ذکر کیا ہے، بعض جگہ گاؤں ایسے بھی تھے جہاں موٹر سائیکل وغیرہ بھی کوئی availableنہیں تھے تو ریڑھوں پہ، گدھا گاڑیوں پہ بیٹھ کے انہوں نے لمبا لمبا سفر کیا اور مختلف گاؤں میں پہنچے بلکہ آجکل کے بعض مبلغین نے لکھا ہے کہ اب ہم جب وہاں گئے تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہاں بہت پہلے مولانا منور خورشید صاحب ہمارے پاس آیا کرتے تھے اور بڑے مشکل حالات میں آیا کرتے تھے اور وہاں جا کے یہ رہتے تھے، تبلیغ کرتے تھے۔ راتیں بھی وہیں لوگوں میں گزارتے تھے اور خوراک بھی ان کی ابلی ہوئی چَری یا باجرہ ابال کے پانی کے ساتھ کھا لیا۔ بس یہی ان کی غذا ہوتی تھی اور پھر تبلیغ کرتے ہوئےآگے بڑھ جاتے تھے۔ کبھی انہوں نے یہ پروا نہیں کی کہ رہائش کی کوئی اچھی جگہ ہے کہ نہیں۔ کھانا ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ جہاں جو جگہ میسر آئی رہ گئے اور جو کھانے کو ملا کھا لیا اور اس طرح لوگوں میں یہ بڑے ہردلعزیز ہوئے۔ تبلیغ بھی بڑی اچھی طرح کی۔

جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے یہ رؤیا دیکھی تھی کہ فرنچ سپیکنگ (French speaking)ملکوں میں جماعت کی ترقی ہو رہی ہے تو پھر وہاں جس ریجن میںیہ تھے وہاں سے نکل کے سینیگال کی طرف بھی انہوں نے توجہ کی۔ ان کو وہاں بھجوایا گیا، وہاں بااثر لوگوں کو تبلیغ کی اور اس طرح پھر ممبران پارلیمنٹ کو تبلیغ کی اور چودہ ممبران پارلیمنٹ کو بیعت کی توفیق ملی۔ اس کا اثر بھی جماعت پہ بڑا اچھا ہوا اور پھر وہاں بھی جماعت مضبوط ہونے لگی۔ نظام جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے معلمین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور ٹریننگ کی ضرورت تھی تو سالانہ بنیادوں پر یہ پروگرام جاری رکھا اور مولانا صاحب نے بڑی ہمت سے یہ کام بھی سرانجام دیا۔ 1997ء میں ان کو سینیگال کا امیر مقرر کر دیا گیا۔ بڑی محنت سے انہوں نے آخری وقت تک اپنی خدمت کو نبھایا۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت کا جذبہ انہوں نے لکھا ہے کہ کوٹ کوٹ کےبھرا ہوا تھا اور

حقیقت میں یہی میں نے دیکھا ہے جب یہاں آئے ہیں۔ دس سال سے کافی بیمار تھے بیماری میں بھی جب بھی کوئی کام ان کو دیا گیا تو فوراً اس کو بجا لانے کی کوشش کرتے۔

تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ وہاں سینیگال میں وجیہ اللہ صاحب مبلغ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ جب میں یہاں آیا ہوں تو منور صاحب کا نام بہت سنا۔ اور جہاں بھی جاتا تھا لوگ بڑی محبت سے ان کا ذکر کرتے تھے۔

لوکل معلمین بعض واقعات بیان کرتے ہیں۔ محمدو تفسیر مارا صاحب لوکل معلم ہیں۔ وہ کہتے ہیں منور خورشید صاحب کے ذریعے مَیں نے احمدیت قبول کی اور انہوں نے مجھے اچھی تعلیم دی اور بہت محنت اور محبت سے میری تربیت کی جس کے نتیجےمیں جامعہ احمدیہ گھانا سے تعلیم حاصل کی اور جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں میں نے بڑا لمبا عرصہ ان کے ساتھ گزارا ہے۔ یہ سینیگالین ہیں۔ لکھتے ہیں۔ خلافت سے عشق کی حد تک انہیں محبت تھی اور کہتے ہیںیہی خاص باتیں مجھے بھی کہا کرتے تھے کہ خلافت سے تعلق رکھنا۔ دوسرے یہ کہ مَیں نے ان میں دیکھا کہ کبھی انہوں نے تہجد نہیں چھوڑی اور ہمیں بھی یہ تلقین کرتے تھے کہ ہمیشہ تہجد پڑھو اور تہجد میں خاص طور پر خلیفة المسیح کے لیے دعائیں کیا کرو۔ یہی معلم صاحب لکھتے ہیں کہ بڑے متقی شخص تھے، بڑی محنت کرنے والے تھے، پورے سینیگال کے انہوں نے دورے کیے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر گاؤں میں جائیں ا ور مسیح محمدی کا پیغام پہنچا کے آئیں۔ کہتے ہیں خاکسار اس بات کا شاہد ہے کہ جب منور صاحب جماعتی کام میں مشغول ہوتے تو آپ کو دن رات کی یا کھانے پینے کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ سے بہت قریبی تعلق تھا۔ اکثر مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک جماعتی فنکشن تھا وہاں لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک احمدی وہاں بیمار ہو گئےانہوں نے واپس جانا چاہا۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی لیکن جب بس پہ جگہ مل گئی اور بس پہ بٹھانے لگے تو منور صاحب نے ان کو روک دیا کہ اس پہ نہ بیٹھیں۔ دوسری بس پہ بیٹھیں۔ اور کہتے ہیں میرے دل میں اس وقت یہ خیال آیا تھا کہ اس بس کو کوئی حادثہ پیش آ جانا ہے اور اگر یہ اس طرح ہوا تو لوگ کہیں گے کہ دیکھو جماعتی فنکشن پہ گیا تھا اور وہاں یہ حادثہ کی وجہ سے فوت ہو گیا۔ بہرحال ہوا وہی، جس بس سے روکا تھا اس کو حادثہ پیش آ گیا۔ دوسری بس میں بیٹھے تھے تو خیریت سے وہ شخص اپنے گھر پہنچ گیا۔ اس سے بھی لوگوں کا بڑا ایمان بڑھا اور لوگوں میں وہاں محبت کا یہ حال ہے کہ سینیگال میں مختلف جگہوں پر ان کی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی۔ غیر احمدی بھی اس میں بہت زیادہ شامل ہوئے۔

پھر فاٹک کے صدر جماعت روگن فائی صاحب کہتے ہیں کہ جس فدائیت سے منور خورشید صاحب کام کرتے تھے کسی اَور کے لیے کرنا بہت مشکل ہے۔

پھر جالو صاحب لوکل معلم ہیں کہتے ہیں جب وہ پہلی دفعہ سینیگال آئے تو ایک لمبا عرصہ مجھے منور صاحب کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملی۔ بڑے متقی اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ جماعتی دَوروں کے دوران بہت حکمت اور بہادری سے تبلیغی سرگرمیاں سرانجام دیا کرتے تھے۔ اسی طرح انصاف پسند تھے۔ جماعت کے ساتھ بہت محبت اور انصاف کا سلوک کرتے۔

راجہ برہان صاحب کہتے ہیں کہ آخری دنوں میں جب یہ بیمار ہوئے تو ان کا ڈائیلیسز (Dialysis)روزانہ ہوتا تھا۔ ایک دن ایک شادی پہ ملے تو کہتے ہیں میں نے دکان کھول لی ہے۔ میں نے کہا دکان کھولنے سے کیا مطلب؟ تو کہنے لگے گھر میں ہوتا ہوں تو میں نے گھر کے باہر میز لگا لی ہے وہاں گرمیوں میں پانی رکھ لیتا ہوں لٹریچر رکھ لیتا ہوں اور آنے جانے والوں کو پانی کی ضرورت ہو تو پانی پلا دیتا ہوں اور لٹریچر دے دیتا ہوں۔ تو اس طرح فارغ نہیں بیٹھے، اس بیماری میں بھی نیا رستہ انہوں نے تلاش کر لیا۔ اس لیے وہ لوگ جو کہتے ہیں ناںکہ تبلیغ کس طرح کریں۔ تبلیغ کرنے کے راستے اگر تلاش کیے جائیں تو مل جاتے ہیں، صرف جوش ہونا چاہیے، شوق ہونا چاہیے۔

اور پھر منور خورشید صاحب کا ایک ملکہ یہ بھی تھا کہ زبان جلدی سیکھ لیتے تھے۔ گیمبیا میں بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کو زبانیں آتی تھیں اور یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارےتین گیمبین مبلغین جو یہاں سے پڑھ کے گئے ہیں، عبداللہ صاحب اور عبدالرحمٰن صاحب اور محمد مبائع صاحب۔ یہ تینوں مختلف قبیلوں کے ہیں، یہ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتے لیکن میں ان تینوں قبیلوں کی زبان جانتا ہوں۔

ان کی اہلیہ نصرت جہاں صاحبہ کہتی ہیں۔ بچوں کی تربیت میں بہت توجہ دی۔ بڑا پیار کرنے والے وجود تھے۔ خلافت سے بے پناہ محبت تھی۔ وقف کا حق ادا کیا۔ اختلافات کو مٹانے اور صلح کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ مہمان نوازی بہت تھی۔ افریقہ میں دورے پہ جاتے تو ہمیں کہہ دیتے تھے تم بس میری یہ نہ فکر کرنا کہ میں کب آؤں گا۔ بس جب میں فارغ ہو جاؤں گا تو میں گھر واپس آ جاؤں گا۔ تبلیغ کا کہتی ہیں جنون تھا۔ سپین میں بھی ان کو تبلیغ کا بہت موقع ملا۔ بیماری کے باوجود وہاں جاتے رہے۔ اس طرح سےپرانے رابطے انہوں نے بحال کیے۔

ان کے بیٹے محمد احمد خورشید مربی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ لوگوں کے کام آنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ایک خوبصورت عبادت ہے، خدا اس سے راضی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہم نے ان میں ہمیشہ اسلامی تعلیم کا ایک عملی نمونہ دیکھا۔

سپین سے سلمان سلمی صاحب کہتے ہیں کہ سپین میں قیام کے دوران کئی بار ان کے ساتھ تبلیغ پر نکلنے کا موقع ملا۔ حیرت انگیز بات بار بار دیکھی کہ آپ کسی افریقن راہگیر سے سلام دعا کرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے رام کر لیتے اور کچھ ہی وقت میں اس سے ایک مستحکم تعلق پیدا ہو جاتا اور ساتھ ساتھ بتاتے جاتے کہ اس کا تعلق فلاں گاؤں سے ہے اور اس کے ارد گرد کے علاقے یہ ہیں۔ مَیں وہاں گیا ہوں اور اس علاقے کے لوگ بہت مخلص ہیں۔ وہاں کے بااثر لوگوں کو بھی جانتے تھے کیونکہ افریقن زبان میں بات کر رہے ہوتے تھے اس لیے وہ شخص بھی ان کی باتیں سنتا۔ اسے حیرت بھی ہوتی خوشی بھی ہوتی اور دو تین ملاقاتوں کے بعد پھر وہ جماعت کے قریب آ جاتا تو پھر اس کو پیغام پہنچاتے۔

کہتے ہیں ان کا یہ نہیں ہوتا تھا کہ پہلی دفعہ ہی پیغام پہنچائیں۔ پہلے ذاتی تعلقات بناتے تھے پھر دوسری تیسری ملاقات میں تبلیغ کرتے تھے اور احمدیت کا پیغام د یتے تھے۔ کہتے ہیں اس وقت تک ان کے ذاتی تعلق کی وجہ سے اخلاق کی وجہ سے زمین تیار ہو چکی ہوتی تھی اور پھر لوگ فوری طور پر بیعت بھی کر لیتے تھے۔

بہرحال انہوں نے سپین میں کافی کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں انہوں نے جماعت بھی قائم کردی۔ ایک جنون تھا ان کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کا اور یہ بالکل سچ ہے کہ اس کے ساتھ عاجزی بھی ان کی انتہا کی تھی۔ سپین جانے کا جب میں نے ان کو کہا ہے تو بغیر کسی عذر کے تیار ہو گئے اور باوجود اس کے کہ بیمار تھے۔

اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے وفادار مبلغ مربی عطا فرماتا رہے جو بے نفس ہو کر کام کرنے والے ہوں۔ کام کو پورا کرنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بھی بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ

اقبال احمد منیر صاحب مربی سلسلہ

کا ہے چودھری منیر احمد صاحب کے بیٹے ہیں۔ یہ پاکستان میں تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ ان کے خاندان میں بھی احمدیت کا نفوذ ان کے دادا چودھری غلام حیدر صاحب کے ذریعے1895ء میں ہوا تھا۔ انہوں نے 1983ء میں جامعہ سے تعلیم مکمل کی۔ پھر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت کام کیا۔ پھر 2001ء سے 2008ء تک سیرالیون میں رہے پھر واپس آگئے۔ اس کے بعد پھر پاکستان کے مختلف ضلعوں میں کام کرتے رہے۔ دل کے مریض بھی تھے لیکن اس کے باوجود بڑی محنت سے کام کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ نہایت محنت اور توجہ سے خدمت بجا لانے والے تھے اور لوگوں سے بڑا اچھا تعلق اور مخلص طبیعت کے مالک تھے۔ مرحوم کی اہلیہ اور تین بیٹے ہیں۔

مربی سلسلہ عبدالوکیل صاحب کہتے ہیں کہ بڑی ہردلعزیز شخصیت تھے اور خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ بڑے محبت کرنے والے تھے۔ بارعب شخصیت کے مالک تھے لیکن دل کے بہت ہی شفیق بھی تھے۔ تھوڑی سی ملاقات کے بعد اندازہ ہو جاتا تھا کہ انکساری ان میں کمال کی ہے۔

سید منیر احمد صاحب نائب امیر کراچی جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا کہتے ہیں کہ نہایت محنتی اور مخلص شخصیت کے مالک تھے۔ جو کام بھی دیا جاتا فوری طور پر اس کو پہلی ترجیح میں کرتے۔ باقاعدہ دفتر آ کے اپنے بڑے صائب مشورے بھی دیتے۔ کہتے ہیں مجھے بھی ان سے حوصلہ ہوتا رہتا تھا۔ دل کے بہت صاف تھے۔ حلقے کے لوگوں سے ذاتی تعلق تھا جس کی وجہ سے ان کے کاموں میں بہت آسانیاں پیدا ہو جاتی تھیں اور اسی وجہ سے پھر چندوں کی طرف توجہ دلانے میں بھی ان کو ہی کہا جاتا تھا اور پھر ان کے یہ کہنے کا خاطر خواہ اثر بھی ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

تیسرا ذکر

سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عبدالعظیم صاحب درویش مرحوم قادیان

کا ہے۔گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ کافی عرصےسے صاحبِ فراش تھیں۔ زمانہ درویشی میں صوبہ اڈیشہ سے شادی ہو کے آنے والی پہلی خاتون تھیں۔ مرحومہ نے اپنے خاوند کے ساتھ درویشی کا دَور صبر اور شکر سے گزارا۔ صوم و صلوٰة کی نہایت پابند، دعاگو، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور قرآن کریم دوسروں کو پڑھانے والی تھیں۔ بہت سے بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔ درویشی کے دَور میں جب آمدن کم تھی تو اپنے گزارے کے لیے مرغیاں پال لیتی تھیں بجائے اس کے کہ دوسروں پر نظر رکھیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ نمایاں تھا۔ قادیان میں عورتوں کی تجہیز و تکفین کے موقعےپر یہ بڑی خدمت کیا کرتی تھیں۔ غسل وغیرہ دینے میں بھی مدد کرتیں۔ خلیفۂ وقت سے خاص تعلق تھا۔ ہر تحریک میں حصہ لیتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔خورشید انور صاحب کی دوسری والدہ تھیں۔ دوست محمدشاہد صاحب مرحوم مؤرخ احمدیت کی یہ چچی تھیں۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ نماز کے بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button