خلاصہ خطبہ جمعہ

احکاماتِ الٰہیہ، اسوۂ رسولِ اکرمﷺ اور جماعتی روایات کی روشنی میں مجلس مشاورت کی اہمیت کا بیان نیز عہدیداران اور ممبران شوریٰ کی ذمہ داریوں کی بابت نصائح: خلاصہ خطبہ ۱۲؍مئی۲۰۲۳ء

احکاماتِ الٰہیہ، اسوۂ رسولِ اکرمﷺ اور جماعتی روایات کی روشنی میں مجلس مشاورت کی اہمیت کا بیان نیز عہدیداران اور ممبران شوریٰ کی ذمہ داریوں کی بابت نصائح

٭…ہر احمدی کو عام طور پر اور شوریٰ ممبر کوخاص طور پر نظام شوریٰ قائم ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ا ُس نے ہمارے لیے رشد و ہدایت کا سامان پیدا فرمادیا

٭…شوریٰ نظام خلافت اور نظام جماعت کا مددگار ادارہ ہے ۔مشورہ دینے والوں کےمشورے نیک نیتی او ر تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں

٭…اپنے عملی نمونے ، لوگوں کے ساتھ پیارمحبت کا تعلق،ان کا درددل میں رکھنا ،خلیفہ وقت کی اطاعت کے معیار کو بلند کرناہر عہدیدار اور ممبر شوریٰ کاامتیا ز ہوگا تبھی جماعت میں مجموعی طور پر ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوگی

٭… مجلس شوریٰ کا مقصدعملی حالت بدلنا ، خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈےتلے لا نے کے لیےمنصوبہ بندی کرنا ہے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍مئی۲۰۲۳ء بمطابق۱۲؍ہجرت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۲؍مئی ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ،سورة الفاتحہ اور سورت آل عمران کی آیت ۱۶۰کی تلاوت و ترجمہ پیش کرنے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

اِن دنوں مختلف ممالک میں جماعتی مجالس شوریٰ منعقد ہورہی ہیں۔ بعض ملکوں میں ہوچکی ہیں اور بعض میں آئندہ ہوں گی۔شوریٰ کی اہمیت اور نمائندگان کی ذمہ داریوں کے بارے میں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں۔ کئی سال گزرنے کے بعدمناسب سمجھا کہ آج اس بارے میں پھر اللہ تعالیٰ کے حکم،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اورجماعتی روایات اور طریق کےمطابق کچھ کہوں۔جہاں مجالس شوریٰ منعقدہوچکی ہیں وہاں کے نمائندگان بھی ان باتوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو نمائندگان شوریٰ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ممبران شوریٰ کو یاد رکھنی چاہئیں کیونکہ مجلس شوریٰ کی سفارشات اور خلیفہ وقت کے اُن پر فیصلے کے بعد ہی ممبران کی بعض ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ان کاانجام دینا اور اپنا کردار ادا کرنا ہر ممبر شوریٰ کا فرض ہے۔

جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں جہاں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے اپنی امت کےلیے انتہائی نرم دل رکھنے والے تھے وہاں اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ

جن کےسپردآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانا ہے اورآپؐ کی پیشگوئیوں کےمطابق آپؐ کی غلامی میں آنے والے مسیح موعودؑ کےمشن کو پورا کرنا ہے اُن کا بھی یہ کام ہے کہ پیار محبت اور نرمی سے کام کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر نرمی نہ دکھائی ،سخت دلی دکھائی اورغصہ میں آنے والا ہوا تو یہ لوگ دُور ہوجائیں گے۔پس اللہ تعالیٰ درگزر کرنے،بخشش کی دعا کرنے اور مشورہ کرنے کا حکم فرماتا ہے۔پس اس اصول اورتعلیم کے تابع مجالس شوریٰ منعقد کی جاتی ہیں۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کرنے والی نہیں بلکہ مشورہ دینے والی مجلس ہے اس لیے فرمایا کہ مشوروں کے بعد جو فیصلہ تُوکرے اس پر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے عمل کر جس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے نتائج بھی بے انتہا برکتوں والے نکالے گا۔

توکل کی اعلیٰ ترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتی ہے۔آپؐ کو بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی ملتی تھی لیکن اُن معاملات میں آپؐ ضرور مشورہ فرماتے تھےجن میں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم نہ ہوتا تھا۔

آپؐ کا یہ عمل اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیں بتانے کے لیے ہے کہ جماعتی عہدیداروں کے افراد جماعت کےساتھ کیسے رویّے ہونے چاہئیں اور ہمیں بھی باہم مشورے سے کام کرنے چاہئیں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ جماعت احمدیہ کو خلافت کے انعام سے نوازا ہے۔اس لیے خلیفہ وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور سنت نبویؐ کے مطابق دنیا کی جماعتوں سے ان کے حالات کے مطابق مشورے لیتا ہے۔اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہر معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی فرماتا لیکن آپؐ کو بعض معاملات میں مشورے کا حکم دے کراور آپؐ کا بعض معاملات میں مشورہ لینا درحقیقت ہمیں صحیح راستے پر چلانے ، باہمی مشورےو تعاون سے کام کرنےاور امت میں وحدت پیدا کرنے کے لیے ہے۔ پس ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ ہمارے اندر شوریٰ کا نظام رائج ہے۔پس ہر احمدی کو عام طور پر اور ہر شوریٰ ممبر کو خاص طور پر اس کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ا ُس نے ہمارے لیے رشد و ہدایت کا سامان پیدا فرمادیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ لینے کے لیے عموماًتین طریق تھےجن کو خلفاء نے بھی جاری رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس پرعمل کیا۔ایک یہ کہ جب مشورے کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص کے اعلان کے بعد لوگ جمع ہوجاتے اور پھر جو رائے یا مشورہ ہوتا اُس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمادیتے۔دوسراطریق یہ تھا کہ جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کا اہل سمجھتے صرف اُنہیں بلا لیتے اور پھراُن چند لوگوں کی مجلس سے مشورہ لیا جاتا۔تیسرا طریق یہ تھاکہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے کہ دوآدمی بھی جمع نہیں ہونے چاہئیں وہاں آپؐ علیحدہ علیحدہ بلا کر مشورہ لیتے۔حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ لینے والا نہیں پایا۔پس یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ وہ نبیؐ جس کوبراہ راست اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل تھی جب مشورہ لیتا ہے تو تم لوگوں کو کس قدر مشورے کی اہمیت کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بدر کے میدان میں بھی صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دینے کے بعداُس پر عملی اظہار بھی کیا اور اپنی جان کی بازی بھی لگادی۔ پس

ہمارے شوریٰ کے ممبران کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سب سےپہلے اپنے آپ کو تیار کریں کہ ہم نے مشوروں اور فیصلے کی منظوری کے بعد اس پر عمل کرنے کےلیے ہر قسم کی قربانی دینی ہے۔آپ اس ادارے کے ممبر ہیں جو نظام خلافت اور نظام جماعت کا مددگار ادارہ ہے۔مشورہ دینے والوں کےمشورے نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونے چاہئیں۔

اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے دعا کے ساتھ شوریٰ میں جماعت کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی رائے دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں گے۔خلیفہ وقت یہی سمجھتا ہے کہ لوگوں نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے نمائندے بنائے ہیں تو وہ اس کے مطابق ہی اپنی نمائندگی کا حق ادا کررہے ہوں گے اور اگر نمائندگان اپنا حق ادا نہیں کررہے تو وہ نہ صرف افراد جماعت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچارہےہوں گے بلکہ خلیفہ وقت کے پاس بھی اپنی امانت کا حق ادا نہ کرکے خیانت کررہے ہوں گے۔

شوریٰ کی نمائندگی ایک سال کی ہوتی ہے جس میں انتظامیہ سے تعاون کرنا ہے،فیصلوں پر خود بھی عمل کرنا ہےاور کروانا بھی ہے۔ہمیشہ یہ نگرانی کریں کہ آپ کی جماعت میں کس حد تک خلیفہ وقت کے فیصلے کے مطابق عمل ہورہا ہے۔بعض دفعہ فیصلہ عہدیداروں کی سستیوں کا شکار ہوتا ہےاوراُس پراس طرح عمل نہیں ہوتا جس رنگ میں ہونا چاہیے۔ایسی صورت میں متعلقہ عہدیداراور مرکز کو توجہ دلائیں۔اس دنیامیں بہانے بناکر بچ جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں وہ امانتوں کے بارے میں پوچھے گا۔بعض ممبران اُس وقت مرکز کو بتاتے ہیں جب کسی عہدیدارسے اختلاف ہوجاتا ہےیہ بھی درست نہیں ہے۔

جماعتوں کی طرف سے بعض تجاویز دوبارہ بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن پر عمل نہیں ہوا۔پس ایسی جماعتوں اورعہدیداروں کوسوچنا چاہیے کہ کیا یہ تقویٰ پر چلنے،اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے، خلافت کی اطاعت کرنےاور اپنے عہد کو نبھانے کا عمل ہے۔ ملکی مرکز کوبھی دوبارہ آئی ہوئی تجاویز کوخلیفہ وقت کے پاس اس سفارش کے ساتھ نہ بھیجنا پڑے کہ کیونکہ یہ ایک یا دو سال پہلے پیش ہوچکی ہیں اس لیے ان کو شوریٰ میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کی جاتی۔یہ جواب لکھتے ہوئے ملکی مرکز کو شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیےکہ ہم اس پر عمل نہ کرواسکےلیکن اس سال ہم اس پر عمل کریں گےاور عمل نہ کروائیں تو ہم مجرم ہوں گےاور اُن لوگوںمیں شامل ہوں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کررہے اورمعافی مانگتے ہوئے یہ لکھنا چاہیےکہ ہم اس سال اس تجویز کو پیش نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔اس سے انتظامیہ اور نمائندگان کو کم ازکم یہ احساس ہوگا کہ وہ بڑے بڑے لائحہ عمل بناکرخلیفہ وقت کو پیش کرتے ہیں اور پھر اُس پر عمل نہیں کرتےتو وہ مجرم ہیں اور خلیفہ وقت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے ہیں۔اس لحاظ سے

جہاں اجتماعی طور پر محاسبہ ہو وہاں انفرادی طور پر بھی نمائندگان شوریٰ اورعہدیداران اپنا محاسبہ کریں اور استغفار کریں اور عمل نہ کرنے کی وجوہات تلاش کریں۔ پس یہ جائزے ہی جماعتی نظام کو صحیح راستےپر چلا سکتے ہیں ورنہ زبانی باتیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں۔

اپنے عملی نمونے ، لوگوں کے ساتھ پیارمحبت کا تعلق،اُن کا درد دل میں رکھنا،خلیفہ وقت کی اطاعت کے معیار کو بلند کرنا،ہر عہدیدار اور ممبر شوریٰ کا خاص امتیا ز ہوگا توتبھی ایک انقلابی تبدیلی مجموعی طور پر جماعت میں پیدا ہوتی دیکھیں گے۔ شوریٰ اس لیے منعقد کی جاتی ہے کہ جہاں ہم اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کے لیےمنصوبہ بندی کریں وہاں خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لیے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کےنیچے لانے کے لیے ایسی منصوبہ بندی کریں جو ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہو۔اس سارے کام کو انجام دینے کے لیےاخراجات کی ضرورت بھی ہے اس لیے کم سے کم اخراجات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔یہ اُس وقت ہوگا جب ہم یہ سمجھنے والے ہوں گے کہ ہم نےتقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اور امانتوں کو ادا کرنا ہے اورخدمت دین کو ایک فضل الٰہی سمجھنا ہے۔

حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کی روشنی میں تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے اپنے فضل سے ہمیں ہمیشہ نوازتا چلا جائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button