آنحضرتؐ کے جُود وسخا کا نمونہ بے مثال ہے
دولت کے ملنے پر اور پھر اس کے خرچ کرنے کے جو طریقے ہیں اس بارے میں جو اُسوہ ٔحسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے قائم فرمایا ہے اس کی مثالیں آپؐ کی زندگی کا ہی حصہ ہیں۔ یہ تو بعض دفعہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا لوگ ہمدردی کا اظہار کرر ہے ہوتے ہیں اور اس کی خاطر پھر بعض لوگ اپنی طرف سے سخاوت کا اظہار بھی کر دیتے ہیں، لوگوں کے لئے خرچ بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ وقتی جذبہ ہوتا ہے۔ لیکن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان کا احساس کرتے ہوئے یہ جودوسخا کے نظارے ہمیں صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نظر آئیں گے۔ یہ معیار نہ کبھی اس سے پہلے قائم ہوئے اور نہ قائم ہوں گے۔ بہرحال ایک اسوہ حسنہ ہے جو آپ نے ہمارے لئے قائم فرمایا۔ جہاں آپؐ رات دن اس فکرمیں رہتے تھے کہ لوگ ایک خدا کو پہچانیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ وہاں اپنی آسائش اور اپنے آرام کی فکر نہیں تھی بلکہ ایک یہ بھی فکر تھی کہ لوگوں کی ضروریات کس طرح پوری ہوں۔ اپنے بیوی بچوں کے آرام و آسائش کی کوئی فکر نہیں تھی بلکہ ان کو بھی یہ تعلیم تھی اور یہی تربیت کی کہ دوسروں کے لئے اپنے ہاتھ کو کھولو اور اپنے دل کو کھولو۔ اور ان کو خود یہی تلقین تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے پر زیادہ زور دو، بجائے اس کے کہ مال جمع کرنے اور اکٹھا کرنے پر زورہو، اپنی آرام و آسائش پر زور ہو کیونکہ یہی چیز ہے جو آخری زندگی میں تمہارے کام آئے گی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ جُود وسخا، لوگوں کی خاطر خرچ کرنا، قربانی کرکے خرچ کرنا یہ بھی آپؐ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کے لئے کرتے تھے۔ آپؐ ہی کی ذات ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے اعلیٰ معیار جو کسی انسان میں ہو سکتے ہیں نظر آتے ہیں۔ پس اس جُودوسخا کے نمونے بھی خداتعالیٰ کی ذات کے بعد اگر کسی انسان میں نظر آسکتے ہیں تووہ اسی انسان کاملؐ کی ذات ہے۔… آپؐ سے بڑھ کر حقیقت میں دنیا میں کوئی سخی پیدا نہیں ہوا۔ آپؐ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ دولت خداتعالیٰ نے مجھے دی ہے، مجھے اپنے آرام کے لئے اسے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع پیدا کئے جب آپؐ کے پا س دولت کے انبار لگ گئے۔ لیکن آپؐ نے کبھی ان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا بلکہ فوری طور پر لوگوں میں تقسیم کرنے کی فکر ہوتی تھی۔چنانچہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَیُعْطِی اللّٰہُ‘‘ کہ میں تو صرف قاسم ہوں۔ خداتعالیٰ دیتا ہے اور مَیں تقسیم کر دیتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الأعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبیﷺ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق…)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍ مارچ ۲۰۰۵ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اپریل ۲۰۰۵ء)